ہم اور ہمارا نظام ِتعلیم

جس کی مثال دنیاکی کسی خطے میں نہیں ملتی۔

دین ِاسلام میں علم کی اہمیت کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ کتاب ورُشدوہدایت قرآن حکیم کاآغازعلم کی عظمت سے بیان ہواہے ۔ میرے آقاﷺکافرمانِ مبارک ہے ۔’’علم حاصل کرناہرمسلمان پرفرض ہے‘‘۔بابِ شہرعلم وحکمت حضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ کاقول ہے ۔’’علم مال سے بہترہے ۔ کیونکہ علم انسان کی حفاظت کرتاہے اورانسان مال کی،علم حاکم ہے اورمال محکوم علیہ،مال خرچ کرنے سے گھٹتاہے اورعلم خرچ کرنے سے بڑھتاہے ۔بابِ مدینۃ العلم حضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ نے کیاخوب فرمایاہے ۔
رضیناقسمۃالجبارِفینا
لناعلم’‘وللجھالِ مال
فان المال ینفیٰ عنقریب
وان العلم یبقیٰ لایزال
ترجمہ:ہم اپنے متعلق خدائے جبارکی اس تقسیم پرراضی ہیں کہ ہمارے لیے علم اورجاہلوں کے لئے مال۔
بیشک مال عنقریب ختم ہوجائے گااورعلم کبھی ختم نہ ہوگا۔

علم کاحاصل کرناہرمردوعورت پرفرض ہے ۔کیونکہ علم ایک بہت بڑی دولت اورعظیم نعمت ہے۔علم دل کی زندگی اورآنکھوں کانورہے ۔علم ذریعہ معرفتِ الٰہی اوروصف الوہیت ہے ۔درحقیقت میں یہ بات توروزِروشن کی طرح ہرکسی پرعیاں ہے کہ قوموں کے عروج وزوال میں تعلیم ریڑھ کی ہڈی کاکرداراداکرتی ہے ۔تاریخِ انسانی اس بات کی شاہدہے کہ کوئی بھی قوم اقوامِ عالم پراس وقت تک حکمرانی کرتی ہے جب تک اس کودوسری قوموں پرتعلیم کے میدان میں برتری رہتی ہے ۔آج کے دورمیں امریکہ اوریورپ تعلیم کے لحاظ سے ایشیاء اورافریقہ سے آگے ہیں ۔اوریہ اُس وقت تک ہم پرمسلط اورحکمرانی کرتے رہیں گے جب تک وہ تعلیم کے لحاظ سے ہم سے آگے رہیں گے ۔دوسری طرف دنیاکے تمام ممالک ترقی کے لئے تعلیم پرزوردے رہے ہیں ۔یہ صرف ایک وطنِ عزیزپاکستان ہے جہاں تعلیم کے شعبے کاکوئی پُرسان حال نہیں ۔وزیراعلیٰ پنجاب کاخواب پڑھالکھاپنجاب یہ صرف خواب ہی بن کررہ گیاہے ۔درحقیقت آنیوالے وقت میں کوئی امکان بہتری کے نظرنہیں آرہے ۔پاکستان کانظام تعلیم جیسانظام تعلیم دنیاکے کسی خطے یاکونے میں نظرنہیں آتا۔وطنِ عزیزپاکستان کانظامِ تعلیم کی حالت زاردیکھ کردل خون کے آنسوروتاہے ۔اُمیدتوکافی ہے کہ میری بات سے ہرآدمی اتفاق کریگاکہ وطنِ عزیزپاکستان میں ہروقت نظام تعلیم کوبہترسے بہتربنانے کے لئے طرح طر ح کی پالیسیاں بنتی رہتی ہیں ۔ہرپالیسی کے وقت قوم کویہ سرسبزسہاناخواب دکھایاجاتاہے ۔کہ اس پالیسی کے بعدوطنِ عزیزپاکستان میں سوفیصدخواندگی کاہدف حاصل کرلیاجائے گا۔لیکن جب وہ پالیسی نافذالعمل ہوتی ہے چاردن توکامیابی نظرآتی ہے لیکن جوں دن گزرتے جاتے ہیں پت جھڑکے موسم میں جس طرح درختوں سے پتے جھڑجاتے ہیں اسی طرح یہ پالیسی ناکام ہوتی جاتی ہے ۔اس لئے تعلیمی نظام کوبہتربنانے کے لئے حکمرانوں کو ایسی پالیسی وضع کرنی چاہیے جس سے سب کواتفاق ہواوراس بات کابھی عہدکیاجائے کہ اس پالیسی کوکامیاب بنانے کے لئے ہم سب نے اپنافرض اداکرنا ہے اوراس پالیسی سے جب تک فائدہ حاصل ہوتارہے گااسی کولاگورکھناہے ۔وطنِ عزیزپاکستان میں جوپالیسی نافذالعمل کی جاتی ہے نئی آنیوالی حکومت اس پالیسی کوٹھوکرمارکراپنی طرف سے نئی پالیسی نافذالعمل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔اس سے نہ صرف قوم کابلکہ وطنِ عزیز پاکستان کابھی نقصان ہوتاہے ۔پچھلی پالیسی ابھی مکمل نافذالعمل نہیں ہوتی کہ نئی حکومت آکراپنی پالیسی نافذکردیتی ہے ۔چنددن گزرتے ہیں تونئی حکومت آجاتی ہے وہ اپنی پالیسی نافذکردیتی ہے اسی طرح ہوتارہاتووطنِ عزیزپاکستان کانام تعلیم کے شعبہ میں صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔پاکستان دنیاکاوہ واحدملک ہے جہاں تعلیم کوبھی فردکی معاشی حالت کے لحاظ سے مختلف درجوں میں بانٹ دیاگیاہے ۔ آج ملک ِ پاکستان میں غریبوں اورامیروں کے الگ الگ سکول بن چکے ہیں ۔قوم کامقدرلکھنے والوں نے ملک میں تعلیمی اداروں کی اس درجہ بندی کی خلیج کوختم کرنے کے لئے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ تعلیم کوبھی طبقات میں تقسیم کردیاہے ۔تعلیم کی اس درجہ بندی نے قوم کوبھی مختلف حصوں میں تقسیم کردیاہے ۔ نچلے درجے کے لوگوں کے لئے جوسکول بنائے گئے ہیں ۔اس سکول میں علم کے چراغ سے درجہ چہارم کے ملازم تیارکیے جارہے ہیں ۔جودرمیانے درجے کے سکول ہیں ان میں علم کے چراغ سے کلرک اورگریڈ 9سے لیکر16گریڈکے ملازمین پیداکیے جاتے ہیں ۔جبکہ وطنِ عزیزپاکستان میں جوانگلش میڈیم کے سکول ہیں ان میں پڑھنے والے بچے سرکاری اورنجی اداروں میں اعلیٰ عہدوں کے اہل سمجھے جاتے ہیں ۔وطنِ عزیزپاکستان میں جتنے بھی نجی ادارے ہیں ان کی فیسیں بھی درجہ بندی کوسامنے رکھ کرمقررکی گئیں ہیں ۔

حکومت تعلیمی تاجروں اورطبقاتی نصاب کے خلاف بے بس نظرآتی ہے ۔

اقوامِ پاکستان کے لئے یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے نجی ادارے جن کی فیسیں کم سے کم100روپے سے لیکر5000 روپے ہیں۔نجی تعلیمی اداروں کے طلباء کی فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں ۔ فیسیوں کی اس درجہ بندی سے ثابت ہوتاہے کہ جس آدمی کی جتنی استعدادہووہ اسی سکول میں اپنے بچوں کوتعلیم کے چراغ سے منور کرے اکثریہ بھی دیکھاگیاہے کہ امیرلوگ تواپنے بچوں کودوسرے ممالک میں آکسفورڈاورکیمرج کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے بھیج دیتے ہیں ۔غریب اورمزدور طبقہ کے لوگ اپنے بچوں کواوّل توتعلیم حاصل کرانہیں سکتے اگرکرائیں بھی تووہ طلباء کسی قابل ہونہیں سکتے کیونکہ انہوں نے تعلیم بھی ایسے سکول میں حاصل کی ہوتی ہے جہاں پرپہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک کے بچوں کوزمین پربٹھاکرایک ہی کلاس روم میں تعلیم دی گئی ہوتی ہے ۔اکثردیکھنے میں آیا ہے کہ وطن عزیزمیں ایسے نجی ادارے بھی ہیں جہاں پرکلاسییں دس اورکلاس روم تین چارہوتے ہیں۔معصوم بچے جوقوم کامستقبل بنتے ہیں نجی اداروں میں انہیں صبح 8بجے سے لیکردوپہر 2.30بجے تک مرغیوں کی طرح ڈربے میں بندکررکھا ہوتاہے یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ جس ادارے کی جتنی فیس ہوتی ہے وہ اتنی ہی طلباء کوسہولیات فراہم کرتاہے ۔حکومت کے ارباب اختیاردعویٰ تویہ کرتے ہیں کہ بچے قوم کامستقبل ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس مستقبل کونجی منافع خوراداروں کے رحم وکرم پرچھوڑدیاجاتاہے ۔سرکاری ادارے توسرکاری نجی اداروں کے اساتذہ بھی وقت گزارکرچلے جاتے ہیں۔اساتذہ کرام سے میری دردمندانہ اپیل ہے کہ آپ دلجمعی اورخلوص نیت سے اپنافرض ِ منصبی اداکرتے رہیں۔کیونکہ آپ قوم کے مستقبل کے نوجوانوں کے معمارہیں۔دنیامیں توشایدکوئی آپ سے پوچھے یانہ پوچھے کل بروزِقیامت توحساب دیناپڑے گا۔اکثرتعلیمی ادارہ جات توغیرنصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں ۔لیکن تعلیم کی طرف یاطلباء کے اخلاق وآداب کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ ستم ظریفی یہ ہے کہ کئی سرکاری ادارہ جات ایسے بھی ہیں کہ جہاں طلباء اورسٹاف کے پینے کے لئے صاف پانی،بجلی،سڑک اوربیت الخلاء جیسی بنیادی سہولیات میسرنہیں ہوتیں ۔وہ بے چارے طلباء اورسٹاف مضرصحت پانی پینے پرمجبورہوجاتے ہیں۔کئی نجی ادارے تو اس سے بھی آگے نکل چکے ہوتے ہیں ۔

اب سرکاری اورنجی تعلیمی ادارہ جات میں صرف اورصرف سارازوریونیفارم اورایک بہت بڑے حجم کے وزنی بستے پردیاجاتاہے ۔آج کل تو بچارے کمزورطلباء اپنے بستے اٹھابھی نہیں سکتے مجبوراًوالدین کواضافی خرچ کرکے ان کوسکول تک پہچاناپڑتاہے ۔کہتے ہیں کہ ایک پہلوان کاکندھااترگیاوہ حکیم کے پاس پہنچاتوحکیم صاحب نے کہا’’پہلوان جی آج اپنے زیادہ وزن تونہیں اٹھالیا؟‘‘پہلوان نے جواب دیاکہ حکیم صاحب ایسی کوئی بات نہیں آج میں نے غلطی سے اپنے چھوٹے بچے کابستہ اٹھالیاتھا۔

سرکاری اداروں کے علاوہ تمام نجی اداروں کی اپنی اپنی پالیسی ہوتی ہے ۔جوچاہے سلیبس پڑھائیں ان کوکوئی پوچھنے والانہیں ۔اس ستم ظریفی کی وجہ سے ہمارانظام ِ تعلیم طبقات میں بٹ چکاہے ۔اس لئے حکمرانوں کوچاہیے کہ تمام سرکاری اورپرائیویٹ اداروں میں یکساں نصاب تعلیم رائج کریں تاکہ طلباء طبقاتی تعلیم میں بٹنے کی بجائے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ملک وقوم کانام روشن کرسکیں ۔آج کل حکومت پنجاب سرکاری سکولوں کے طلباء کوفری کتب مہیاکرتی ہے لیکن وہ کتب طلباء اتنی لیٹ ملتی ہیں کہ طلباء کاآدھاسال ضائع ہوجاتاہے ۔جبکہ پرائیویٹ طلباء کاحال تواوربھی بدترہے ۔تین چارماہ تک تومارکیٹ سے کتابیں ایسے غائب ہوتی ہیں جیسے گدھے کے سَرسے سینگ ظلم کی انتہاتویہ ہے کہ پوراسال گزرجاتاہے لیکن بعض کتابیں دیکھنابھی نصیب نہیں ہوتیں ۔حکومت ِ وقت کوچاہیے کہ تعلیمی سال شروع ہونے سے پہلے سرکاری سکولوں اورمارکیٹ میں کتب کی فراہمی کویقینی بنائے تاکہ طلباء کاقیمتی وقت ضائع نہ ہو۔اس کے علاوہ ایک بہت بڑی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ جب بچے پوراسال تعلیم حاصل کرتے ہیں بورڈکے امتحانات میں شمولیت کے لئے داخلہ بھیجنے کاوقت آتاہے توداخلہ فیسیں زیادہ ہونے سے طلباء اپنا سال توسال بلکہ پچھلی محنت بھی ضائع کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں ۔کیونکہ والدین ان کی داخلہ فیس کابوجھ برداشت نہیں کرسکتے اس لئے حکومت وقت بورڈکی داخلہ فیسیوں کونارمل بنائے ۔تاکہ غریب طلباء اوروالدین کے لئے یہ داخلہ فیسیں پریشانی کاسبب نہ بنیں ۔حالیہ ہونیوالے میٹرک اورایف اے کے سالانہ امتحانات 2014؁ کی فیسیوں کودیکھاجائے توانسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ حکومت نے عوام کوریلیف دینے کی بجائے تعلیم کے شعبے میں بھی کوئی کسراٹھانہیں رکھی ۔٭٭٭٭
Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 269436 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.