ولادت رسولﷺسے متعلق وارد روایات کا سرسری جائزہ

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
ولادت رسولﷺسے متعلق وارد روایات کا سرسری جائزہ
عالم انسانی پراللہ رب العزت کا سب سے بڑااحسان رسولﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری ہے ، کیوں کہ آپ کی آمد اس صبح یقیں کا طلوع تھاجو مہذب دنیا کا سب سے تابناک اورروشن دن تھا،ہزاروں سال سے تہذیب وثقافت کی پیاسی دنیاکی علم وعرفان سے سیرابی کادن تھا، تشددوبربریت ،دہشت وانارکی اورظلم وتعدی کی چکی میں پستی ہوئی انسانیت کے نجات کادن تھا۔ وہ ساعت مسعودگوہرتوحیدکی متلاشی دنیاکے لئےحصول تمناکے وقت کی قربت سپیدۂ سحربن کرنمودارہوئی ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات شریف عرب کے تپتےہوئے صحراء میں خاندان قریش سے جلوہ نماہوکر نصف سے زائددنیاپرآفتاب عالم تاب بن کرچمکی اوردیکھتےہی دیکھتےظلمت وضلالت اورجہالت وکوتاہ فکری کی دنیاکونوریقین سے منورکرگئی ،جس سے دنیانےامن وشانتی اوراخلاق ومحبت کے زریں اصول سیکھے۔

ہجووم افکارباطلہ اورشرک وبت پرستی کی لعنت میں گرفتارعرب میں کسے خبرتھی کہ عبداللہ کی بیوہ آمنہ کے بطن سے پیداہونے والایتیم بچہ ایک دن دنیا کاسب سے افضل انسان ہوگااورساری دنیاکو"سراج منیر" بن کرروشن کرےگا، یہی وجہ ہےکہ اس افضل ترین ذات گرامی کی پیدائش کی صحیح تاریخ لوگ محفوظ نہ رکھ سکےاورعلماء امت اورتاریخ نویسوں وسیرت نگاروں کاایک بڑا طبقہ اس تاریخ کی تعیین میں مختلف ہوگیا۔
چونکہ اس باسعادت دن کی اس اہمیت کے باوجوداللہ رب العزت اورخودہادیٔ برحق نےاسے کوئی شرعی حیثیت نہیں دی تھی اورنہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس کا تذکرہ کیااورنہ ہی صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللّٰہ نےاس دن کااہتمام کیااس لئے محققین امت کواس تاریخ کی تعیین میں مشکل درپیش ہونابدیہی امرہے۔

تعیین تاریخ میں اختلاف کےاسباب :
رسول اکرم ﷺ کی ولادت کی تاریخ کے مختلف ہونےکی متنوع اسباب وعلل ہیں ، اصل موضوع کی وضاحب سے قبل ان میں سے چندکا مختصرًا ذکرکردینامناسب ہے تاکہ اختلاف کی نوعیت بآسانی سمجھ میں آسکے :
1 - تعیین میں اختلاف کا سب سے بڑاسبب ضعیف اورموضوع قسم کی روایات پراعتمادکرلیناہے۔
2 - تاریخی روایات میں ہرقسم کے رطب ویابس کی آمیزش جوعام طورپرقرن اول اورماقبل کی تاریخ کےمختلف اورمتنوع ہونےکاسبب ہے۔
3 - ابتداءمیں تقویم ماہ وسنین کے غیرمنظم ہونےکےسبب عام طورپرکسی بھی واقعہ کی تاریخ کااندازہ اس سےقبل یا مابعدکے کسی اہم واقعہ کی بناپرکیاجاتاتھا،جس کااندازہ کرنے میں صحیح وقت کی تعیین وقت گذرنےکے ساتھ ہی مشکل ہوجاتی تھی اورمزیدپریشانی اس وقت لاحق ہوتی ہے جب محولہ واقعہ کی تاریخ بھی تخمینی اورغیرمتعین ہو۔
4 - مؤرخین کے ساتھ سب سےبڑاالمیہ یہ ہے کہ یہ روایات میں بہت ہی کم جستجواوربحث وتمحیص سے کام لیتےہیں ،اورکسی بھی روایت پربلاتفتیش وجستجوکےاعتمادکرلیتےہیں ۔
5 - صحابہ اکرام رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین اورنہ ہی خود‎ رسول اکرم ﷺ نے یوم پیدائش کی تعیین کی ہے اورنہ ہی اس دن کوکوئی خاص اہمیت دی ہے، جس کےنتیجہ میں بعدکےلوگ اختلاف کا شکارہوگئے۔
6 – تعیین تاریخ میں الجھن کا سب سے بڑاسبب رواۃ کااعداد ایام میں مختلف ہوناہے، کیوں کہ واقعۂ فیل سے ولادت نبوی تک کے ایام کے اعدادوشمارمیں کسی نے پچاس ، کسی نےپچپن ، کسی نے ایک ماہ اورکسی نے چالیس روزکا فرق بیان کیاہے۔
7 – تقویم ما ہ وسنین میں قمری مہینوں کی کمی وبیشی کا بہت زیادہ اثرپڑتاہےکیونکہ بعض مہینےتیس کےہوتےہیں اوربعض انتیس کے۔ اس لئے تاریخ ولادت کی تعیین میں اختلاف بدیہی امرہے۔

ولادت رسول ﷺسے متعلق وارد روایات کا سرسری جائزہ :
مضمون کے اس حصے میں ہم ولادت رسول ﷺ سے متعلق وارد متنوع روایات کا سرسری جائزہ لیں گے اورکوشش کریں گے کہ وہ تمام روایات جن سے ہماری واقفیت ہوسکی ہے پیش کرسکیں لیکن پھربھی بعض روایات یا بعض دلائل کا پوشیدہ رہ جانابحث وتحقیق کا لازمی عنصرہے۔ چونکہ بحث وتحقیق کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتاہےاس لئے ہرقدم پرمسائل کے نئے نئے گوشے وارد ہوتے رہتے ہیں اس لئے کسی بھی تحقیق کوحرف آخرتسلیم نہیں کیاجاسکتاہے ۔ - :
1 – پہلی ربیع الاول: اس قول کوعمربن محمدبن فہد(متوفی /۸۵۵ ھ) نے بلا کسی اصل کےنقل کیاہے۔(دیکھئے: اتحاف الوری :ص/47)۔
2 – دو ربیع الاول : اس قول کوابن سعدنے الطبقات الکبری (۱۰۱/۱) کے اندرابومعشرنجیح مدنی کے واسطہ سے روایت کیاہےجوضعیف ہونے کی بناپرناقابل اعتمادہیں ، جیساکہ امام ابودا‏‎ؤد اور امام دارقطنی وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے ۔ (دیکھئے : تہذیب التہذیب :۴۱۹/۱۰ رقم /۷۵۸) مذکورہ قول کوابن سیدالناس نے بصیغۂ تمریض نقل کیاہے۔(عیون الاثر:۷۹/۱)اورامام ابن کثیرنے امام ابن عبدالبرکے حوالہ سے(البدایہ والنہایہ :۲۶۰/۲) یعقوبی نے اپنی تاریخ (۷/۲) ابن الجوزی نے المنتظم (۲/۲۴۵) میں اور زرقانی نے شرح المواھب (۱/۱۳۱)میں مغلطائی کے حوالہ سے ذکرکیاہے۔
3 –آٹھ ربیع الاول : یہ قول خوارزمی کا ہے جسے ابن سید الناس نے عیون الأثر(۱/۸۱) اورابن عبدالبرنے الاستیعاب (۱/۳۱) کے اندرنقل کیاہےاورلکھاہےکہ اصحاب تاریخ اسی کوصحیح قراردیتےہیں ۔ معروف مؤرخ مسعودی ( متوفی /۳۴۶ ھ) نے بھی آٹھ ربیع الاول کی تحدید کی ہے(دیکھئے : مروج الذھب : ۱/۵۶۲) امام قسطلانی نے اسے اکثراہل الحدیث کاقول ہونے کادعوی کیاہے (دیکھئے : المواھب الدنیۃ :۱/۱۴۰ – ۱۴۱) ۔
حافظ ابو الخطاب بن دحیہ نے اپنی کتاب"التنویر فی مولدالبشیرالنذیر"کے اندراسی کوراجح قراردیا ہے۔
اورحافظ ابن حجر نےاس پراہل تاریخ کااجماع نقل کیاہے۔(دیکھئے: شرح علی متن الھمزیۃ : ص ۲۶) ۔ یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ (۲/۷)کےاندرآٹھ ربیع الاول کاذکرکیاہے ، لیکن ساتھ ہی منگل کے دن کی تعیین کی ہے جو بنص صریح باطل ہے ۔
4 - دس ربیع الاول : یہ روایت واقدی کی ہے جسے ابن الوردی نے اپنی تاریخ (ص/۱۲۸) کے اندراورامام ابن کثیرنےابن دحیہ اورابن عساکرکےحوالہ سےبروایت ابو جعفرالباقر نقل کیاہے ۔(دیکھئے : البدایۃ:۲/۲۶۰ والسیرۃ :۱/۱۹۹) اورابن سعدنے الطبقات الکبری (۱/۱۰۰) کے اندرمحمدبن عمربن واقداسلمی کے واسطہ سے ذکرکیاہےجس کےاندرخود محمدبن عمراوراسحاق بن ابی فروہ متروک ہیں اورابوبکربن عبداللہ متہم بالوضع ہیں ۔ (دیکھئے : تقریب : رقم /۷۹۷۳)۔
5 - گیارہ ربیع الاول : اس قول کو ابن الجوزی نے بلا کسی حوالہ کے نقل کیاہے۔(دیکھئے : المنتظم :۲/۲۴۵)۔
6 -اٹھارہ ربیع الاول :حافظ ابن کثیرنے اس قول کوجمہورکامشہورقول بتایاہے۔(البدایۃ والنہایۃ :۲ /۲۶۰) اورمحمدحسین ہیکل نے بھی " حیاۃ محمدصلی اللہ علیہ وسلم " (ص/۲۰۹) کے اندراسے ابن اسحاق کے حوالہ سے نقل کرتےہوئے جمہورکااختیارکردہ بتایاہے۔
7 - بارہ رمضان المبارک : یہ قول ابن کلبی کاہے اوراسی کوزبیربن بکارنےبھی پسندکیاہے، جسے حافظ ابن حجرنے شاذ کہاہے،(دیکھئے : فتح الباری: ۷/۱۶۴) ۔ اس ضمن میں ایک روایت بطریق مسیب بن شریک عن شعیب بن شعیب عن ابیہ عن جدہ نقل کی جاتی ہے، جس کےالفاظ یہ ہیں : "حمل برسول الله صلى الله عليه وسلم في عاشوراء المحرم وولد يوم الإثنين لأثنتي عشرة ليلة خلت من رمضان سنة ثلاث وعشرين من غزوة أصحاب الفيل"اللہ کےرسول ﷺ عاشورہ محرم کوپیٹ میں بطورحمل قرارپائے اوربارہ رمضان کو بروزسوموارجنگ فیل کے تسویش یں سال میں آپ کی ولادت ہو‏‏ئی " (ابن عساکر، تاریخ دمشق :رقم /۸۱ ، البدایۃ والنہایۃ : ۲/۲۶۱) ۔ امام ذھبی اس روایت کونقل کرنے کےبعد فرماتےہیں :" ھذاحدیث ساقط" (دیکھئے :السیرۃ النبویۃ :ص/۲۵) اورحافظ ابن کثیرنے بھی اس روایت کوغریب کہاہے۔
8 - واقعہ فیل سے پندرہ سال پہلے : یہ قول تاریخ خلیفہ (ص/۵۳)میں مذکورہے،اورامام ذھبی نے اس کی تضعیف کی ہے، (دیکھئے : السیرۃ النبویۃ :ص/۲۵)اورحافظ ابن کثیراس روایت کونقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں " ھذاحدیث غریب ومنکرجدا" ۔ (البدایۃ : ۲/۲۶۲)۔
9 – واقعہ فیل اورولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان دس سال کا وقفہ ہے : اس روایت کونقل کرنے کےبعدامام ذہبی نے اسے منقطع قراردیاہے۔(دیکھئے : السیرۃ النبویۃ : ص/25 ، نیزدیکھئے : دلائل النبوۃ للبیھقی :1/79 بسند ضعیف )۔
10 – محرم الحرام کے مہینہ میں : محمدحسین ہیکل نے اس قو ل کوبلاکسی واسطہ کےنقل کیاہے، (دیکھئے : حیاۃ محمدصلی اللہ علیہ وسلم :ص/۱۰۹)۔
11 – صفرالمظفرکےمہینہ میں : اسے قسطلانی نے المواھب (۱/۱۴۰) اورمحمد حسین ہیکل نے حیاۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (ص/۱۰۹) کے اندربلاکسی حوالہ کے نقل کیاہے ۔
12 - ماہ رجب المرجب میں : اسے بھی محمد حسین ہیکل نے بلا کسی واسطہ کے نقل کیاہے ۔ (حیاۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم : ص/۱۰۹) ۔
13 – ماہ ربیع الآخرمیں :قسطلانی نے اس قول کوبصیغۂ تمریض بلا کسی حوالہ وواسطہ کے نقل کیاہے ۔ (المواھب :۱/۱۴۰)۔
14 - واقعہ فیل کے روز : اس ضمن میں حاکم نے مستدرک (۲/۶۰۳) اورذھبی نے السیرۃ النبویۃ (ص/۲۲) کے اندرحجاج بن محمد کے واسطہ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے ،جس کےالفاظ ہیں " ولد النبي صلى الله عليه وسلم يوم الفيل" یعنی :" اللہ کے رسولﷺ کی ولادت (واقعۂ ) فیل کے روزہوئی گرچہ امام ذہبی نے اس روایت کی تضعیف کی ہے(مختصرالمستدرک:۲/۱۰۵۷) لیکن خود حاکم نے بھی اس روایت میں حمیدبن الربیع کا اس لفظ کے ساتھ منفردہونے اوران کی عدم متابعت کو ذکرکیاہے، اورابن سعدنے" یوم الفیل " کی تشریح : عام الفیل " سے کی ہے (الطبقات :۱/۱۰۱) ، جس کی تائیدمستدرک(۲/۶۰۳)کی ہی ایک روایت سے جوبطریق محمد بن اسحاق صنعانی مذکورہےاوردیگربہت ساری صحیح روایات سے ہوتی ہے ۔
15 – سترہ ربیع الاول : ابن دحیہ نے بعض شیعہ سے اس قول کونقل کیاہے ۔(دیکھئے : البدایۃ والنہایۃ :۲/۲۶۰)
16 - ربیع الاول کے پہلے سوموارکو : اس قول کو ابن سید الناس نے عیون الأثر(۱/۷۹) کے اندربصیغۂ تمریض اورابن عبدالبرنے الاستیعاب (۱/۳۰) میں نقل کیاہے۔ اس قول کی بناپرتاریخ ولادت پہلی ربیع الاول سے لیکرساتویں ربیع الاول تک میں کسی بھی دن ہونے کا امکان ہے ۔
17 – نوربیع الاول : نوربیع الاول کی تعیین کے سلسلے میں اگرچہ کوئی قابل ذکرروایت نہیں ملتی لیکن پھربھی بعد کے محققین نے اسی کوراجح قراردیاہے ۔ اس سلسلے میں اکثرلوگ نامورمحقق محمودپاشافلکی مصری کی تحقیق پراعتمادکرتےہیں ، جیساکہ خضری بک نےتاریخ الامم الاسلامیہ (۱/۶۲) اورعلامہ شبلی نعمانی نے سیرۃ النبیﷺ (۱/۱۱۵) اورعلامہ قاضی سلمان منصورپوری نے رحمۃ للعالمین (۱/۴۰) کے اندر" تاریخ دول العرب والاسلام " کے حوالہ سے لکھاہے(نیزدیکھئے: نورالیقین فی سیرۃ سیدالمرسلین: ص/ ۹ (۔
اورابوالقاسم السہیلی کے کہتےہیں : وأهل الحساب يقولون : وافق مولده من الشهور الشمسية " نيسان " فكانت لعشرين مضت منه .
یعنی اہل حساب کے بقول :آپ ﷺ کی ولادت باعتبارشمسی 20 /اپریل کو ہوئی(جونوربیع الاول کے موافق ہے) ۔(الروض الانف :۱/۱۸۲) ۔

محمود پاشافلکی کے استدلالات یوں تو کئی صفحات پرمحیط ہیں لیکن ان کا خلاصہ علامہ شبلی نعمانی نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:
(1) صحیح بخاری میں ہے کہ ابراھیم ( اللہ کےرسولﷺکے صغیرالسن صاحبزادے) کے انتقال کے وقت آفتاب میں گرہن لگا تھااورسنہ ۱۰ ھ تھا ( اوراس وقت آپ کی عمرکاترسٹھواں سال تھا)۔
(2) ریاضی کےقاعدےسے حساب لگانےسے معلوم ہوتاہےکہ سنہ ۱۰ ھ کا گرہن 7 /جنوری سنہ 632 ء کوآٹھ بج کر30 منٹ پرلگاتھا۔
(3) اس حساب سے یہ ثابت ہوتاہےکا اگرقمری تاریخ 13 برس پیچھے ہٹےتوآپ کی پیدائش کاسال سنہ 571 ء جس میں ازروئے قواعدہیئت ربیع الاول کی پہلی تاریخ 12/اپریل سنہ 571 ء کے مطابق تھی ۔
(4) تاریخ ولادت میں اختلاف ہے لیکن اس قدرمتفق علیہ ہےکہ وہ ربیع الاول کا مہینہ اوردوشنبہ کادن تھااورتاریخ آٹھ سے لیکربارہ تک میں منحصرہے ۔
(5) ربیع الاول مذکورکی ان تاریخوں میں دوشنبہ کا دن نویں تاریخ کوپڑتاہے ۔(دیکھئے : حاشیہ سیرۃ النبیﷺ : ۱/۱۱۵) ۔

18 – بارہ ربیع الاول : مؤرخین کی ایک معتدبہ تعداد اس بات کی قائل ہےکہ رسول اکرم ﷺ کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاول ہے، جن میں ابن اسحاق (سیرۃ ابن ہشام :۱/۱۵۸) ابن خلدون (تاریخ ابن خلدون :۲/۳۹۴) ابن سیدالناس متوفی /۷۳۴ ھ (عیون الأثر:۱/۷۹) اورابوحاتم محمد بن حبان ( الثقات :۱/۱۴،۱۵) قابل ذکرہیں ۔
واضح رہے کہ اس سلسلےمیں جتنی بھی روایتیں واردہیں سب متکلم فیہ ہیں ، اس کےباوجودمؤرخین علماء کا ایک بڑاطبقہ ابن اسحاق کی روایت کو دیگرتمام روایتوں کے مقابلہ میں اوثق ہونےکی بنیادپرراجح قراردیتاہے ،( دیکھئے : موسوعۃ نظرۃ النعیم : ۱/۱۹۵) جیساکہ شیخ محمد ابوزھرۃ نے لکھاہے:"الجمهورة العظمى من علماء الرواية ان مولده عليه الصلاة والسلام في ربيع الاول من عام الفيل في ليلة الثاني عشرمنه وذاك لأن الفيل وجيشه ساروا مكة فی المحرم وولد النبي صلى الله عليه وسلم بعد مقدم الفيل بخمسين يوماً وبذلك جمع الأكثرون على أنه ولد بعد مساورة جيش أبرهة بخمسين يوماً" یعنی علماءتاریخ کا ایک بڑاطبقہ اس بات کا قائل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت واقعۂ فیل کے سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کوہو‏ئی کیوں کہ ہاتھی اوراس کی فوج محرم کے مہینہ میں مکہ آئی اورآپ ان کے آنے کے پچاس روزکے بعد پیداہوئے، اوراس بات پرزیادہ ترلوگوں کااتفاق بھی ہےکہ ابرہہ کی فوج کے آنے کےپچاس دنوں کے بعدآپ کی ولادت ہوئی " (خاتم النبیین ﷺ : ص/۱۱۵،۱۱۶-)۔

اورامام غزالی لکھتےہیں : "أغلب الروايات تتجه إلى أن ذلك كان عام هجوم الأحباش على مكة سنة ۵۷۰ م في الثاني عشر من ربيع الأول " یعنی زیادہ ترروایتیں یہ بتاتی ہیں کہ آپ کی ولادت مکہ پرحبشیوں کےحملہ کرنے کےسال 570 ء بارہ ربیع الاول کوہوئی "۔(فقہ السیرۃ :ص/۵۸) ۔

بارہ ربیع الاول سے متعلق سلمۃ بن الفضل کے واسطہ سے محمد بن اسحاق کی ایک روایت نقل کی جاتی ہے ، جس میں ہےکہ :"ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الإثنين عام الفيل لاثنتي عشرة ليلة مضت من شهر ربيع الأول "یعنی اللہ کےرسول ﷺ بروزپیربارہ ربیع الاول عام الفیل کو پیداہوئے" (دلائل النبوۃ للبیھقی :۱/۷۴ ، مستدرک حاکم :۲/۶۰۳ وتاریخ الامم والملوک للطبری :۲/۱۲۵) ۔

اس روایت کے اندر سلمۃ بن الفضل بن ابرش کے بارے میں حافظ ابن حجرلکھتےہیں :"صدوق کثیرالخطأ " (التقریب :رقم /۲۵۰۵) ۔
نیزامام ذھبی نے معروف بن خربوذ کی ایک روایت نقل کی ہے (دیکھئے: السیرۃ النبویۃ :ص/۲۵) لیکن خو دمعروف بن خربوذکے متکلم فیہ ہونےکی وجہ سے یہ روایت قابل اعتبارنہیں ہے ۔(دیکھئے : معجم أسامي الرواۃ :۴/۱۵۹) ۔
امام ذھبی نے ابومعشرنجیح کا قول بھی بارہ ربیع الاول کے سلسلے میں نقل کیاہے ، (السیرۃ النبویۃ :ص ۲۷) لیکن جیساکہ معلوم ہے کہ ابومعشربالاتفاق ضعیف ہیں اس لئے ان کی روایت بھی ناقابل اعتبار ہے ۔ (دیکھئے : معجم اسا مي الرواۃ :۴/۲۵۸) ۔
ایک روایت بطریق عفان عن سعیدبن میناءعن جابروابن عباس ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے نقل کی جاتی ہے ، جیساکہ امام ابن کثیرنے السیرۃ النبویۃ (۱/۱۹۹) کے اندربایں الفاظ نقل کیاہے :" وقيل: لثنتي عشرة خلت منه نص عليه ابن إسحاق ورواه ابن أبي شيبة في مصنفه عن عفان عن سعيد بن ميناءعن جابر وابن عباس أنهما قالا: ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل يوم الاثنين الثاني عشر من شهر ربيع الأول وفيه بعث وفيه عرج به إلى السماء وفيه هاجر وفيه مات وهذا هو المشهور عند الجمهور والله أعلم۔یعنی کہا جاتاہے کہ : آپ کی ولادت بارہ ربیع الاول کوہوئی جوابن اسحاق کے نزدیک منصوص ہے اورابن ابی شیبہ نے عفان عن سعید بن میناء عن جابروابن عباس روایت کیاہے کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے ، اسی دن مبعوث ہوئے ، اسی دن آپ کو معراج ہوئی ، اسی دن آپ نے ہجرت کیا اوراسی دن آپ کی وفات ہوئی ۔جمہورکے نزدیک یہی مشہور ہے ۔واللہ اعلم ۔بعض نسخوں میں "بارہ ربیع الاول " کی جگہ " اٹھارہ ربیع الاول " ہے ۔

اورواضح رہے کہ یہ روایت امام ابن کثیرکا وہم ہے کیوں کہ تلاش بسیارکے بعد بھی یہ روایت "مصنف ابن ابی شیبہ" کے اندر نہیں ملی ، اوربدایہ کے محقق نے بھی اس کی" مصنف ابن ابی شیبہ " کے اندرعدم موجودگی کی طرف اشارہ کیاہے۔ اوراگریہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ یہ اثر"مصنف "کے اندرہے پھربھی اس کی سند کے اندرسقوط ہے ، کیو ں کہ عام طورپرعفان سلیم بن حیان سے روایت کرتے ہیں جوسعید بن میناء سے روایت کرتےہیں ، کیوں کہ سعیدبن میناء سے عفان کا لقاء ثابت نہیں ہے، اس لئے ان کی زیادہ تر روایتیں عن عفان عن سلیم بن حیان عن سعید بن میناء ہوتی ہیں ۔ ایسی صورت میں اس سندکےساتھ یہ روایت صحیح اوربخاری کے شرط کے مطابق ہوتی ۔

یہاں پر اہل سیروتاریخ اوراصحاب روایات کا اس روایت کی اس سند سے چوک موجب تعجب ہے ۔ اورظاہرسی بات ہے کہ اہل سیروتاریخ کے جم غفیر کا اس روایت کی اس سند اورمذکورہ متن سے عدم شغف اس کی حیثیت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے، کیو ں کہ اس روایت کی مذکورہ سند ہوتی امام ذہبی ، ابن سعد،خلیفہ بن خیاط ، ابن حبان اور بعدکےسیرت نگاروں کی کتابیں اس کے بیان سے خالی نہ ہوتیں، اوراگریہ روایت مصنف کے اندرہوتی تو بعدکے مصنفین اس سےضرورواقف ہوتے، اوراگراس روایت کا مذکورہ متن اس سند کے ساتھ صحیح ہوتاتو اغلب امکان تھاکہ اس کاذکرصحاح اورمسانید میں ہوتا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
نیزاس روایت میں معراج کے دن کی تعیین کولےکرایک اشکال پایاجاتاہے، اوروہ یہ کہ یہاں پرمعراج کےواقعہ کوسوموارکےدن کا واقعہ بتایاگیاہےجب کہ بعض محققین کی صراحت کے مطابق یہ واقعہ بدھ کی رات کا ہے جیساکہ علامہ سلمان منصورپوری نے وضاحت کی ہے ۔(دیکھئے :الرحمۃ المھداۃ:ص/۳۳۳) یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسراء ومعراج کی تاریخ اوردن کے سلسلے میں کوئی ایسی روایت نہیں ملتی جوقابل اعتبارہو، اس نبیادپربہت سارے علماء قدیم وجدید نے اس واقعہ کی تاریخ کونامعلوم قراردیاہے۔

بعض سیرت نگاروں کا مغالطہ :
بعض سیرت نگاروں نے عبداللّٰہ بن عباس اورجابر رضی اللّٰہ عنہما کی مسند احمد اور المعجم الکبیرللطبرانی کے اندرمذکورروایت کوذکرکرتےوقت احتیاط اوربحث تمحیص سےکام نہیں لیاہے،جس سےقاری مغالطہ کا شکار ہو جاتاہے کہ بارہ ربیع الاول ہی صحیح روایت کےعین مطابق ہے ۔(دیکھئے : الصادق الامین ، تالیف : ڈاکٹرمحمد لقمان السلفی :ص /۱۱۷ ،ڈاکٹر موصوف نے اس روایت کو ذکرکرنے کے بعدحاشیہ میں مسند احمد:۱/۲۷۷ اور المعجم الکبیرللطبرانی : رقم/۱۲۹۸۴ کا حوالہ دیکر اسے "حسن "قراردیاہے)۔

مذکورہ روایت مسند احمد کے اندرابن عباس رضی اللّٰہ عنہ سے بایں الفاظ منقول ہے " قال ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاثنين واستنبىٔ يوم الاثنين وخرج مهاجرا من مكة إلى المدينة يوم الاثنين وقدم المدينة يوم الاثنين وتوفي يوم الاثنين ورفع الحجر الأسود يوم الاثنين"یعنی اللہ کے رسول ﷺ سوموارکو پیداہوئے ، آپ کو نبوت بھی سوموارکوملی ، مکہ سے مدینہ کے لئے ہجرت کے غرض سے آپ سوموارکو ہی نکلے ، مدینہ سوموارکو ہی پہنچے، آپ کی وفات سوموارکو ہو‏ئی اورحجراسودکواس کی جگہ سوموارکو ہی رکھا" اورطبرانی کی روایت میں غزوۂ بدرمیں فتح یاب ہونے اور سورہ مائدہ کی مشہورآیت {الیوم اکملت لکم دینکم } کے سوموارکے دن نزول کا اضافی ذکرہے اورنبوت ملنے کے دن کا ذکرنہیں ہے۔

اس روایت میں کئی باتیں قابل ملاحظہ ہیں :
1 – اس روایت کے اندر اللہ کے رسول ﷺ کی ولادت کے دن کا ذکرہے جوکہ صحیح روایتوں کے عین موافق ہے ،صحیح مسلم (رقم /۱۱۶۲) کے اندرابو قتادہ انصاری رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے سوموارکے دن روز رکھنے سے متعلق پوچھاگیاتو آپ نے فرمایا:“ ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُّ فِيهِ - وَيَوْمٌ بُعِثْتُ - أَوْ أُ نْزِلَ عَلَيَّ فِيه ِ ” یعنی میں اسی دن پیداہوا، اسی دن مجھے نبوت ملی یا اسی دن میرے اوپروحی نازل ہوئی ۔
2 – اس روایت کے اندردن کا ذکرتو ہے مگر تاریخ اورمہینہ کا ذکرنہیں ہے، البتہ دیگرصحیح روایتوں سے ربیع الاول کے مہینہ کی تعیین ہے اوراس ماہ کی بارہ تاریخ کی تعیین والی تمام روایتیں معلل ہیں ۔
3 - طبرانی کی روایت میں آیت کریمہ:{الیوم اکملت لکم دینکم ۔}کےنزول کا سوموارکو قراردیاگياہےجوکہ صحیح روایتوں کےخلاف ہے،بخاری اورمسلم کی روایتوں میں صراحت ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ کا نزول حجۃ الوداع کے موقع سے عرفہ کےدن جوکہ جمعہ کادن تھا نازل ہوئی (دیکھئے : صحیح بخاری: کتاب التفسیر،باب تفسیرسورۃ المائدہ:رقم/۴۶۴۹ ، نیزدیکھئے : اسباب النزول للواحدی /ص۹۹ رقم ۳۸۱،۳۸۲ :دارالکتب العلمیۃ ۱۴۲۱ ھ اورالصادق الامین :ص/ ۷۶۹ اوردیگرکتب تفسیروسیرت)۔
4 – اسی روایت میں ہےکہ غزوۂ بدرکا وقوع سوموارکے روزہواجو کہ صحیح روایتوں کے خلاف ہے جن میں ہے کہ بدرکا معرکہ ۱۷/رم/مضان المبارک سنہ ۲ ھجری کوجمعہ کے دن ہوا۔(دیکھئے : الصادق الامین :ص/۳۸۰ ، روضۃ الانوارفی سیرۃ سیدالمختارللشیخ صفی الرحمن المبارکفوری : ص/۱۷۴ )۔
5 - اس روایت کی سند کو علامہ احمد شاکرنے صحیح قراردیاہے (رقم/۲۵۰۶) اورامام ھیثمی اسے مجمع الزوا‏ئد کے اندرذکرکرنے کے بعدلکھتے ہیں :"وفيه ابن لهيعة وهو ضعيف و وبقية رجاله ثقات من أهل الصحيح "(مجمع الزوا‏ئد :۱/۱۹۶) ۔ اورامام ابن کثیرنے اپنی تاریخ (۲/۱۵۹ – ۲۶۰) میں ذکرکرنے کے بعداسے امام احمد کاتفرد قراردیاہے ۔
قابل ذکراقوال :
مذکورہ تمام اقوال میں صرف چارکو قابل اعتبار سمجھا جاسکتاہے ، اوروہ ہیں :
1 – اکثر اہلحدیث کا قول : آٹھ ربیع الاول ۔
2 – جمہورکاقول : اٹھارہ ربیع الاول ۔
3 - سب سے مشہورقول : بارہ ربیع الاول ۔
4 – اورفلکی محققین کا قول : نو ربیع الاول ۔
جمہورکےقول اٹھارہ ربیع الاول کے سلسلے میں روایات یاکوئی بھی دلیل مفقودہے اس لئے یہ قول مرجوح ہے۔ اورآٹھ ربیع الاول کواعدادوشمارمیں ادنی فرق کوبنیادبناکرنوربیع الاول میں ضم کیاجاسکتاہے۔
عصرحاضرمیں صرف نواوربارہ ربیع الاول ہی میں زیادہ اختلاف رہاہےاوربارہ ربیع الاول کے سلسلے میں متعددروایات ہمارے سامنے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی روایت صحت کے درجہ کو پہنچتی نظرنہیں آتی اورنو ربیع الاول سے متعلق کوئی بھی قابل ذکرروایت نہ ہوتے ہو‏ئے بھی یہ سوال ابھرتاہے کہ کیاان فلکی محققین کی تحقیق پراعتماد کیاجاسکتاہے ؟ جب کے اندازہ کی بنیاد پراعداد وشمارمیں غلطی کا احتمال بہرحال ایک فطری امرہے، جس سے انکارحقیقت سے بےاعتنائی ہے ۔ خاص طورسے قمری ماہ وسنین کی تقویم خاصہ مشکل امرہے ، کیوں کہ ایک سال کے اندر ہی کئی مہینے بلا تعیین کے ہی انتیس اورتیس کے ہوتے ہیں، اس لئے بالقطع کہہ دیناکہ تاریخ نوربیع الاول ہی ہے محل نظرہوجاتاہے، ہاں اتنی بات ضرورہے کہ جب کسی معاملہ میں صحیح روایت کی واقفیت نہ ہوتومحققین کی تحقیق کوأقرب إلی الصواب ضرورکہاسکتاہے۔
خلاصۃ القول :
صحیح روایتوں کی بنیادپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت واقعۂ فیل کے پہلے سال میں سوموارکے روز ہوئی اورجہاں تک تاریخ کی بات ہے تووہ غیرمتعین ہے اورقوی امیدہےکہ دوربیع الاول سے لے کراٹھارہ ربیع الاول تک میں کسی دن میں منحصرہو۔
والله أعلم بالصواب
وصلى الله على نبيه وحبيبه محمد وعلى اٰله وصحبه وسلم .
 

ABDUL MALIK
About the Author: ABDUL MALIK Read More Articles by ABDUL MALIK: 2 Articles with 1373 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.