بھکاری کبھی دیوالیہ نہیں ہوتا

وہ چلتے چلتے رکی۔ گھوم کر پوری طرح چاروں طرف کا جائزہ لیا اور پھر یکدم بلڈنگ کے اندر گھس گئی۔

میری کوشش تھی کہ اسے پتہ نہ چلے کہ میں اس کا تعاقب کر رہا ہوں اس لئے ایک معقول فاصلے سے اس پر نظر رکھے تھا۔ مگر اندازہ نہ تھا کہ یوں اچانک وہ بلڈنگ میں گھس جائے گی۔ بھاگم بھاگ بلڈنگ کے اندر تک پہنچا۔ مگر وہ نظر نہ آئی۔ بلڈنگ کے دوسری طرف ایک اور سڑک تھی۔ اس سڑک پر بھی دور تک نظر دوڑائی مگر وہ بالکل غائب تھی۔ بلڈنگ کے دونوں طرف دکانیں اور اندر اوپر تک فلیٹ تھے۔ واپس آ کر سیڑھیوں پر نظر ڈالی مگر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔

وہ ایک بھکارن تھی جو عرصہ دراز سے اس مارکیٹ میں ایک مخصوص جگہ پر بیٹھ کر بھیک مانگتی تھی اور جس کے بارے میں عجیب عجیب داستانیں تھیں۔ کوئی اسے کروڑ پتی کہتا کوئی پلازوں کی مالک بتاتا۔ کوئی کہتا کہ رات کو وہ کھانا پنج تارہ ہوٹل میں کھاتی ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ میں حقیقت کی تلاش میں پچھلے کچھ دن سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ صبح ساڑھے آٹھ بجے ٹھیک اس بنچ پر آ کر بیٹھ جاتی۔ ہاتھ میں چند کاغذ ہوتے جنہیں وہ بنچ پر پھیلا کر سر جھکائے، بال بکھرائے شام پانچ بجے تک بیٹھی رہتی۔

یہ ایک کمرشل مارکیٹ ہے جہاں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ صبح سے شام تک لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے۔ مارکیٹ کے درمیان میں چھوٹا سا پارک ہے۔ پارک کے اردگرد بنچ پڑے ہیں۔ گراؤنڈ کے ایک کونے میں جہاں لوگوں کا سب سے زیادہ ہجوم ہوتا ہے ایک بنچ پر وہ مستقل براجمان ہے۔ پچھلے چار پانچ دن میں اس کی آمدن کا اندازہ لگاتا رہا۔ وہ صبح آتے ہی بنچ پر بیٹھتی۔ چند روپے اپنے پاس سے ان کاغذوں کے ساتھ پھینک دیتی اور پھر سارا دن لوگ ان کے ساتھ مزید روپے پھینکتے رہتے۔ اس کی شکل بھی ایسی تھی کہ خواہمخواہ مدد کرنے کو جی چاہتا۔ میں دیکھتا رہا کہ جب روپے کافی ہو جاتے تو وہ کچھ رقم اٹھا کر جیب میں ڈال لیتی۔ میں نے اندازہ لگایا اسے روزانہ چار سے چھ ہزار روپے تک آمدن تھی۔ شام پانچ بجے وہ سب کچھ سمیٹتی اور واپس چل دیتی۔

میں اس کے گھر کا پتہ لگانے کے چکر میں تھا۔ مگر اس بلڈنگ میں آ کر وہ ایک دم غائب ہو گئی تھی۔ شاید وہ اسی بلڈنگ میں رہائش پذیر تھی۔ اگلے دن اس سے پہلے کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھتی۔ میں بلڈنگ کے سامنے موجود تھا اور اس کے آنے کا منتظر۔ ٹھیک وقت پر وہ بلڈنگ میں داخل ہوئی۔ گراؤنڈ فلور پر ایک طرف مردوں اور عورتوں کیلئے علیحدہ علیحدہ واش روم تھے۔ وہ سیدھی عورتوں کے واش روم میں گھس گئی۔ اکا دکا عورتیں واش روم میں جا رہی اور باہر آ رہی تھیں۔ مگر پندرہ منٹ تک چار پانچ عورتیں باہر واپس آئیں مگر وہ نہیں آئی۔ آخری دفعہ خوبصورت لباس میں ایک حسین سی عورت باہر نکلی اس کا چہرہ کچھ شناسا سا لگا۔ مگر وہ ابھی تک نہیں آئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ اب تک باہر کیوں نہیں آئی اور اس آخری باہر جانے والی عورت کو میں نے کہاں دیکھا تھا۔

سوچتے سوچتے اچانک میرے ذہن میں حقیقت عیاں ہو گئی اور میں بہت تیزی سے بلڈنگ کے پچھلی سڑک والے گیٹ کی طرف بھاگا جس طرف خوبصورت لباس میں ملبوس وہ حسین عورت گئی تھی۔ مگر اب میں پھیر لیٹ تھا۔ سڑک پر بے پناہ ٹریفک تھی اور وہ عورت سڑک عبور کرنے کے بعد ایک کار میں سوار ہو رہی تھی جس کو ایک نوجوان چلا رہا تھا اور سڑک کے دوسری طرف اس کا منتظر تھا۔ وہ عورت کوئی اور نہیں۔ وہی بھکارن تھی۔

عورت جب بلڈنگ میں داخل ہوئی اس کے پاس چند کاغذوں کے سوا کچھ نہ تھا مگر کپڑے بدلنے اور نئے کپڑے پہننے کا عمل بتا رہا تھا کہ اس واش روم میں کچھ انتظام ایسا ہے جس سے وہ فائدہ اٹھاتی ہے۔ کافی محنت سے چوکیدار کو ڈھونڈا۔ پہلے تو وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہ تھا کہ کوئی بھکارن وہاں گئی او رحلیہ بدل کر باہر آئی۔ مگر تھوڑ اڈرانے دھمکانے پر مان گیا کہ اس عورت نے اس کے تعاون سے واش روم سے ملحق ایک الماری رکھی ہوئی ہے جس میں اس نے اپنے کپڑے رکھے ہیں۔ صبح وہ آ کر اپنا حلیہ بھکارن جیسا بناتی ہے۔ بھکارن کے کپڑے پہنتی ہے او رشام کو واپسی پر اپنے کپڑے بدل کر صحیح حلیے میں واپس گھر چلی جاتی ہے۔ اس تعاون کیلئے وہ چوکیدار اور خاکروب دونوں کو معقول رقم دیتی ہے۔

میں اگلے دن شام کو ایک موٹر سائیکل پر سڑک کے پار ایک درخت کی اوٹ میں کھڑا اس کار اور عور
ت دونوں کا انتظار کر رہا تھا۔ ٹھیک ساڑھے پانچ بجے ایک کار بلڈنگ کے سامنے سڑک کے دوسری طرف مجھ سے کچھ فاصلہ پر کھڑی تھی۔ کار کو چلانے والا تقریباً 20 سال کا ایک نوجوان تھا جو کار سے اتر کر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر ٹہل رہا تھا۔ اگلے چار پانچ منٹ کے بعد عورت خوبصورت لباس میں ملبوس سڑک کراس کر کے مسکراتی ہوئی نوجوان کے پاس آئی۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے گاڑی تک آیا۔ آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور بڑی احترام اور پیار سے عورت کو سیٹ پر بٹھایا۔ مڑا اور ڈرائیونگ سیٹ پر پہنچ کر دروازہ کھولا اور گاڑی سڑک پر فراٹے بھرنے لگی۔ میری موٹر سائیکل پوری طرح اس گاڑی کا پیچھا کر رہی تھی جبکہ وہ عورت اور نوجوان میرے تعاقب سے بالکل بے خبر تھے۔

کوئی دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے گاڑی مضافات کے ایک پوش علاقے میں پہنچ گئی اور پھر ایک جدید اور خوبصورت گھر کے آگے رک گئی۔ نوجوان اترا۔ چابی سے گھر کے مرکزی دروازے کا تالا کھولا اور پھر گاڑی اس دروازے کے پیچھے گھر میں غائب ہو گئی۔ یہ ایک جدید بستی تھی جس کے مکانات گو قریب قریب تھے مگر یہاں کے مکینوں کو نہ تو ہمسایوں سے دلچسپی تھی اور نہ ہی ایک دوسرے کی خبر۔

یہ کافی مہنگا علاقہ تھا جہاں مکانوں کی قیمتیں بہت زیادہ تھیں یقینا ایک قیمتی مکان تھا۔ میں نے دروازے پر پہنچ کر گھر پر ایک نظر ڈالی۔ یہ گھر دس بارہ سال سے زیادہ پرانا نہیں تھا۔ میری ایک ہفتے سے زیادہ کی محنت آج رنگ لائی تھی۔ میں نے اس عورت کے گھر کا سراغ لگا لیا تھا۔ اب میں اس پوزیشن میں تھا کہ عورت کی ساری اصلیت جان سکتا جو میں کسی حد تک جان بھی گیا تھا۔ اپنی اس کامیابی پر میرے لبوں پر خود بخود ایک مسکراہٹ آ گئی۔ میں مقصد کے قریب تھا اور باقی باتیں اس عورت سے ملاقات کے بعد خودبخود معلوم ہو جانی تھیں۔

اگلی شام میں اور میری ایک ساتھی اس کے گھر کے سامنے موجود تھے۔ نوجوان باہر نکلا تو ہم نے اس سے اور اس کی ساتھی خاتون سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔
’’میں اماں کو پوچھ لیتا ہوں مگر آپ کیوں ملنا چاہتے ہیں۔‘‘

اسی دوران عورت بھی آ گئی۔ وہ بات کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے۔ میں نے عورت سے کہا کہ ہم کوئی ایسی حرکت یا بات نہیں کریں گے جس سے اس کے جذبات مجروح ہوں مگر ہم نے اسے دونوں حالتوں میں دیکھ لیا ہے اور جاننا چاہتے ہیں کہ اس قدر آسودہ حال ہونے کے باوجود وہ بھیک کیوں مانگتی ہیں۔ ماں اور بیٹے کو یہ بھی یقین دلایا کہ ان کا نام پتہ نہ تو ظاہر ہو گا اور نہ ہی کسی حوالے میں استعمال کیا جائے گا۔ طبعاً ماں بیٹا خوش اخلاق تھے مگر بے عزتی اور بدنامی سے ڈرتے تھے۔ کچھ اصرار اور یقین دہانیوں کے بعد ہم ان کے ڈرائنگ روم میں موجود تھے۔

میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ بہت خوش اسلوبی سے سجایا گیا تھا۔ ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ صاف ستھرہ اور نفیس فرنیچر جس کے علاوہ بہت سے ڈیکوریشن پیس بھی پڑے تھے۔ بیٹا خاموش ہمارے سامنے بیٹھا تھا او رماں ہمارے لئے چائے لینے گئی ہوئی تھی۔ ماں چائے لے کر آئی تو بیٹا اٹھ کر چلا گیا۔ چائے کی میز پر باتیں کرتے ہوئے میں نے وہ سوال کر دیا جس کیلئے میں کئی دن سے اس کا پیچھا کر رہا تھا۔
ماشاء اﷲ آپ کے پاس اﷲ کا دیا بہت کچھ ہے مگر آپ بھیک کیوں مانگتی ہیں؟
لمبی کہانی ہے۔ اب تو بھیک مانگنا مجبوری بن چکا ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
کچھ کہانی ہمیں بھی سنائیں۔ میری ساتھی نے کہا۔

اس نے ایک لمبی سانس لی۔ بڑی پرانی بات ہے میرا یہ بیٹا فقط تین سال کا تھا۔ میرے میاں ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم تھے۔ کام کے دوران ایک حادثے کے سبب ان کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک میں کبھی بھی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلی تھی۔ ہمارا تعلق ایک دور دراز کے چھوٹے سے گاؤں سے تھا۔ گاؤں میں روزگار نہ ہونے کے سبب یہاں آئے تھے۔ میاں کی وفات میرے لئے ایک قیامت سے کم نہ تھی۔ واپس گاؤں کہاں جاؤں کوئی ایسا پرسان حال نہ تھا جو سہارا دے سکتا۔ معاہدے کے مطابق جب کہ شہر میں کوئی عزیز رشتہ دار بھی نہ تھا میاں کی فرم کو حادثے کی صورت میں خاندان کو ایک معقول رقم اور بچوں کے بالغ ہونے تک رہائش اور کھانے کا بندوبست بھی کرنا تھا۔

میں ان مشکل حالات میں اس معاہدے پر عملدار امد کی امید لئے اپنے تین سال کے بچے کو ہمسائیوں کے پاس چھوڑ کر ادھار رقم لے کر دو ماہ سے زیادہ عرصہ روزانہ اپنے میاں کے دفتر جاتی رہی۔ دفتر کا مالک جب ملتا تو ہمدردی دکھاتا۔ میرے رنگ و روپ کو اچھا کہتا۔ میرے جسم کی تعریف کرتا۔ کبھی گھر کا پتہ پوچھتا تاکہ وہ مجھے گھر مل سکے۔ کبھی مجھے فرصت میں ملنے کا کہتا۔ پیسوں کی بات نہ کرتا۔ دفتر کے بقیہ لوگ اس کے بارے میں بہت سی غلیظ باتیں منسوب کرتے مگر ان کا رویہ بھی مالک کے رویے اور باتیں بھی مالک کی باتوں سے ملتی جلتی تھیں۔ ہمدردی کی آڑ میں ہوس پرستی ہر آنکھ میں منایاں تھی۔ ہر میٹھے لہجے سے جنسی سفاکی کی بو ٹپک رہی تھی۔ شعور کی آنکھ سے دیکھتی تو انسان کی بجائے بھیڑیوں کے ہجوم میں خود کو گھرا ہوا پاتی۔

دو ماہ گزر چکے تھے اور میں حریص او رغلیظ نظروں کا شکار ہونے کے علاوہ کچھ حاصل نہ کر سکی تھی۔ اس دن بھی میں گھر سے کاغذات ہاتھ میں لئے دفتر جا رہی تھی۔ دفتر کے قریب پہنچ کر پتہ نہیں کیوں مجھے ان بھیڑیوں کا سوچ کر گھن آنے لگی۔ بے بسی میں میرے آنسو نکل آئے۔ میں پلٹی اور سامنے اسی مارکیٹ میں اسی جگہ جہاں آج کل بیٹھتی ہوں، آ کر بیٹھ گئی۔ بے اختیار میرے آنسو نکل آئے۔ میں سوچنے لگی کہ اگر اﷲ کی ذات ہے تو مجھے اس ذلت سے نجات ضرور دلائے گی۔ میرے ہاتھ سے کاغذ پھسل کر بنچ پر ایک طرف پڑے تھے اور میں رو رہی تھی۔ کئی دفعہ محسوس ہوا کہ کوئی پاس سے گزر رہا ہے۔ مگر چونکہ میرا کوئی واقف بھی نہیں تھا اور مجھے کوئی ایسی دلچسپی بھی نہیں تھی۔ میں تو اپنی پریشانیوں پر آنسو بہا رہی تھی، سو بیٹھی روتی رہی اور دیکھا نہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب دفتر نہیں جاؤں گی کوئی نوکری تلاش کروں گی۔ مگر بہت زیادہ پڑھی لکھی بھی نہ تھی کوئی حوالہ بھی نہ تھا۔ نوکری کیسے کروں گی۔ مگر یقین تھا کہ اﷲ اس ذلت سے بچانے کیلئے مدد کرے گا۔ میں نے روتے روتے دعا مانگی۔

اچانک خیال آیا کہ میرا ننھا بیٹا ہمسایوں کے گھر میں میرا انتظار کر رہا ہو گا۔ پلکوں سے آنسو پونچھے اور بنچ پر بکھرے اپنے کاغذ اٹھانے لگی تو ایک شخص آیا اور میرے کاغذوں پر ایک دس روپے کا نوٹ گرا گیا۔ میں نے گھبرا کر کاغذوں کو دیکھا۔ وہاں ایک نہیں کاغذوں کے اردگرد روپے ہی روپے تھے۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا میں بے سد روتی رہی اور لوگ ترس کھا کر وہاں روپے پھینکتے رہے۔ مجھے بڑا عجیب سا لگا۔ سوچنے لگی کہ یہ رقم اٹھاؤں یا نہ اٹھاؤں۔ اگر چھوڑ جاؤں تو کس کیلئے چھوڑ کر جاؤں۔ کئی دفعہ میں نے سہمی سہمی نظروں سے گرد و پیش کا جائزہ لیا مگر کسی کو مجھ سے کوئی سروکار نہ تھا۔ گھر میں فاقوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس رقم کو نہ اٹھانا اپنے ساتھ ظلم تھا۔ میں منہ چھپائے سوچتی رہی اور پیسے میری بے بسی پر گرتے رہے۔ میں نے سمیٹ کر کے وہ ساری رقم اور اپنے کاغذ اٹھائے، گھبرائی گھبرائی گھر آ گئی۔ راستہ بھر مجھے یوں لگا جیسے ابھی کوئی آ کر مجھ سے وہ رقم واپس مانگ کر لے جائے گا۔ مگر میں خیریت سے اس رقم کو لئے گھر پہنچ گئی۔

دو دن بہت کشمکش میں گزارے۔ میں گھر سے باہر نہیں نکلی۔ دو ماہ میں بہت سے ہمسایوں سے تھوڑا تھوڑا ادھار لیا تھا۔ کچھ کو واپس کیا۔ بقیہ پیسے تیسرے دن پیسے ختم ہونے لگے تو میں نے سوچا کہ مجھے اپنے میاں کے دفتر جا کر اپنا جائز حق لینے کی تگ و دو کرنی چاہئے۔ یہ سوچا، کاغذات ہاتھ میں لئے اور چل پڑی۔ میاں کے پیسے تو میرا جائز حق ہے۔ بھیک مانگنا ایک ذلت آمیز کام ہے۔ میں بھیک نہیں مانگوں گی۔ میں راستہ بھر یہی سوچتی رہی۔ دفتر قریب آیا تو خیال آیا کہ بھیک مانگنا تو یقینا ذلت آمیز ہے مگر حق مانگنا اور اس کا حصول تو ذلت آمیز ہی نہیں انتہائی ذلت آمیز اور شرمناک ہے۔ دفتر کا سوچتے مجھے یوں لگا کہ بھیڑیے میرے اردگرد رقصاں ہیں۔ میں گھبرا کر پھر اسی بنچ پر لوٹ آئی اور سسکیاں لے کر رونے لگی۔ میں انتہائی پریشان اور اردگرد کے حالات سے بے نیاز منہ چھپائے روتی رہی۔ کچھ سنبھلی تو دیکھا آج اس دن سے بھی زیادہ رقم میرے کاغذوں کے ساتھ پڑی تھی۔ میں شروع شروع میں کچھ جھجک رہی تھی مگر اب تو عادت ہو گئی ہے۔ پھر کچھ بھی خرچ کئے بغیر اتنی معقول رقم مل جاتی ہے کہ کسی دوسرے کام میں ممکن ہی نہیں۔ دس سال پہلے میں نے یہ گھر لے لیا تھا۔ میرا بیٹا بھی اب جوان ہے اور یونیورسٹی میں آخری سال کا طالب علم ہے۔ صبح یونیورسٹی جاتے مجھے وہاں چھوڑ دیتا ہے اور واپسی پر مجھے اپنے ساتھ واپس لے آتا ہے۔

میں نے فوراً اگلا سوال کیا: ’’کیا آپ کے بیٹے کو پتہ ہے کہ آپ ایک بھکارن ہیں۔ اگر پتہ ہے تو کیا اسے اچھا لگتا ہے اور اگر نہیں پتہ تو پتہ لگنے پر اسے کیسا لگے گا، کبھی آپ نے سوچا؟‘‘

میرے بیٹے نے جب میٹرک کیا تھا تو میں نے سوچا کہ بھیک مانگنا چھوڑ دوں تاکہ میرے بیٹے کو پتہ نہ چلے۔ یہ سوچ کر کچھ رقم کی سرمایہ کاری کی مگر اپنی جمع پونجی جس کو دی وہ لے کر بھاگ گیا۔ جس کے کاروبار میں لگائی اسی نے گھاٹے کا مژدہ سنایا اور مجھے رقم لٹانے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ مجھے مجبوراً دوبارہ بھیک مانگنا پڑا۔ میرا تجربہ ہے بھیک مانگنے والا کبھی بھوکا نہیں رہتا۔ لوگوں کی بددعائیں نہیں لیتا اور کبھی دیوالیہ بھی نہیں ہوتا۔ میں نے بیٹے کو سب کچھ بتا دیا ہے اور اس سے وعدہ کیا ہے کہ اس سال کے آخر میں جب وہ یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرلے گا تو ہم کسی دوسرے شہر چلے جائیں گے جہاں ہمارا ماضی ہمارا پیچھا نہیں کرے گا اور میرا بیٹا اپنے ایک خوبصورت مستقبل کی بنیاد رکھے گا۔

اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور پھر مجھے سوال کیا۔ بتاؤ میں نے جب بھیک مانگنے کا فیصلہ کیا تھا کیا وہ صحیح تھا یا تمہارے خیال میں خود کو ان درندوں کے رحم و کرم کے سپرد کر دینا؟ میں کیا جواب دیتا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس سوال کا جواب تو اس معاشرے کے ٹھیکیداروں کو تلاش کرنا ہے جو بھیک کو گناہ جانتے ہیں اور بھوکے کی مدد سے انکاری ہوتے ہیں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442530 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More