مسجد ۱۳ سال بند رہی مگر کیوں؟

پروفیسر بدرالدین الحافظ
مورخہ ۲۲دسمبر ۲۰۱۳ کو ایک خبر پڑھی جس کی سرخی تھی: ’’۱۳ سال بعد شاہی مسجد میں گونجی اذان کی آواز‘‘۔یہ یو پی کے مہوبہ شہر کے قاضی پورہ میں واقع شاہی مسجد کی خبر تھی جس کے دروازے گذشتہ ۱۳سال سے عبادت کے لیے بند تھے ۔مسجد کی امامت پرنمازیوں میں تکرار نے خطرناک صورت حال پیدا ہوگئی تھی، چنانچہ پولیس نے نقض امن کے اندیشہ میں مسجد کو مقفل کردیا اور معاملہ عدالت میں چلا گیا۔
اس موقع پر وہاں تو مسلمانوں نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا ،مٹھائی تقسیم کی گئی اور شہر قاضی قاری آفاق حسین صاحب نے جمعہ کی نماز پڑھائی مگر میرا دل اس پر مسرت خبر کو پڑھ کر خون کے آنسو رونے لگا کیونکہ اﷲ کے گھر کو اﷲ کی عبادت سے روکنے والے دونوں توحید کے علمبردار ،سنتِ نبوی ﷺ نے جانثار تھے،اور اس کو کھلوانے والی قومی لوک عدالت تحصیلدار اور ایس او جو سب ہی غیر مسلم ہوں گے انھوں نے ۱۳سال سے چل رہے مقدمہ کے فیصلہ پر یہ خوش آئندعملدرامد کرایا،یعنی مسجد کو عبادت کے لیے بند کرانے والے اور امامت کے معاملہ کو عدالت میں لے جانے والے مسلمان اور کھلوانے والے فیصلہ کرانے والے غیر مسلم ،ڈوب مرنے کا مقام ہے یہ ہم سب کے لیے کہ ہم مسجد کی امامت کے مسائل بھی باہمی مشورہ اور مفاہمت سے نہیں سلجھاسکتے اس کے لیے بھی ہمیں غیروں کے مرہون منت ہونے کی ضرورت ہے ،اور فیصلہ بھی ہوا تو کیا کہ مسجد کو دو فرقوں میں تقسیم کردیا گیا،جب ہماری آباد مسجدوں کا یہ حال ہے کہ ہم ان میں عبادت بند کرانے کا سبب بن رہے ہیں تو ہم کس منہ سے بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرانے کی کوشش کررہے اور ۲۰سال سے مقدمات لڑرہے ہیں،پھر کیا مذکورہ بالا شاہی مسجد کے لیے دو فرقوں میں لڑائی اسلام کی خاطر تھی یا اپنے فرقہ کی سربلندی اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے ؟اگر اسلام کی سر بلندی کے لیے ہوتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی اور دونوں طرف کے سنجیدہ علماء مل بیٹھ کر فیصلہ کر لیتے اور ۱۳سال تک مسلسل اﷲ کے گھر میں عبادت نہ ہونے کا سنگین گناہ سرزد نہ ہوتا جسکی قباحت کی مثال قرآن کریم میں صراحت سے موجود ہے۔’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اﷲ کی مساجد میں جانے سے روکا کہ وہاں اس کا نام لیا جائے اور اس کے اجاڑنے کی کوشش کی،ان کے لیے دنیا میں ذلت ہے اورآخرت میں بڑا عذاب ہے(۲ــــــــــــــ۔۱۱۴) یہ آیات اگر چہ بیت المقدس یا صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکہ کی طرف سے مسلمانوں کو بیت اﷲ میں داخل نہ ہونے کے بارے میں نازل ہوئیں مگر آئندہ بھی جو شخص کسی مسجد کو ویران یا خراب کرنے کا سبب بنے وہ اس میں داخل ہے ،اب اس آیت کی روشنی میں وہ دونوں فریق اپنا محاسبہ کریں کہ ان کی باہم لڑائی مسجد کے حق میں درست تھی یا غلط۔
اس کے بعد ایک حدیث شریف پر بھی غور کرلیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ’’ جس نے اﷲ کے لیے مسجد بنائی اﷲ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے گھر بنائیں گے‘‘

اور اس کی ورشنی میں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ جس شخص نے اﷲ کی مسجد میں جانے سے روکا یا روکنے کا سبب بنا اس کا کیا ہوگا؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی قابل غور ہے کہ جس فیصلہ پر فریقین نے انتہائی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا وہ فیصلہ تو مسجد کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کا تھاتاکہ دونوں نام نہاد فرقوں کے نمازی اپنے اپنے عقیدے کے امام کی امامت میں نمازیں ادا کرسکیں ، رکعتوں کی تعداد ،نماز کے فرائض ،واجبات سنن و نوافل مستحبات یکساں ہی رہیں گے،آیات قرآنی یا سورتیں بھی دونوں امام وہی پڑھیں گے جو قرآن کریم کے متفقہ تیس سپاروں میں موجود ہیں تو اب فرق کیا رہ گیا صرف بریلوی یا دیوبندی عقیدہ کا تو گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ بریلویت یا دیوبندیت ان تمام فرائض و سنن سے بالا ترچیزہے جس کی بنا پر اﷲ کے گھر کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا اور اسی جھگڑے کی وجہ سے مسجد ۱۳سال تک مقفل پڑی رہی۔

اب ذرا اس تقسیم کے عمل پر بھی ایک حقیقی واقعہ آپ کے گوش گزار کرتا چلوں،تقریباً ستر اسّی سال قبل مشرقی یوپی کے کسی قصبہ میں اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا جسمیں مسجد کے نمازی اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اڑگئے صف آرا ہوگئے کہ امام ہمارا ہو مگر جھگڑا عدالت تک نہیں پہنچا بلکہ طے یہی ہوا کہ مسجد میں دیوار کھڑی کردی جائے اور دونوں فرقے الگ الگ اپنے امام کے پیچھے نماز ادا کریں۔
وہاں قریب میں کچھ ہجڑے بھی رہتے تھے جو گانے بجانے کا کام کرتے اور روزی کماتے تھے ،ان میں حسب روایت ایک ہجڑا ان کا سردار تھا،یہ سب مسلمان تھے مگر مسجد سے کوئی سروکار نہیں تھا،لیکن جس دن مسجد میں دیوار بن گئی اور الگ الگ نماز شرورع ہوگئی اس کے دوسرے دن ہجڑا سردار صبح فجرسے قبل مسجد کی سیڑھی پر آکر بال کھول کر بیٹھ گیازور زور سے سر پیٹ کر زار و قطار رونے لگاکبھی ماتم کرتا کبھی منہ پر ہاتھ مارتا اور روتا ۔رفتہ رفتہ نمازی آنے شرورع ہوئے توہر ایک اسے دیکھ کر حیران تھا کہ آج اسے کیا ہوا ،کبھی یہ نماز میں تو آتا نہیں آج اسے کیا ہوا،شاید اس کا کوئی ساتھی مرگیا ہوگاخیر نماز کے بعد جب نمازی مسجد سے نکلنے لگے تو جمع ہوکر اس سے ماجرا پوچھنے لگے ہجڑے نے بھی جب دیکھاکہ کافی لوگ جمع ہوگئے ہیں تو پھر زاروقطار روتے ہوئے بولاارے میرا کوئی نہیں مرا ہے ،آج اﷲ میاں مرگئے ہیں، اس جملہ پر تو ہر طرف سے آواز اٹھی ابے کیا بکتا ہے،اﷲ کی شان میں یہ گستاخی ،اﷲ تعالیٰ ہمیشہ سے زندہ ہے اور زندہ رہے گا،اس پر ہجڑہ بولا،تو پھر یہ مسجد کی وراثت کیوں تقسیم کی گئی ہے ؟یہ تو اﷲ کا گھر ہے اور گھر جب ہی باٹا جاتا ہے جب اس کامالک مرجائے ،اب تو لوگوں کے منہ کو تالا لگ گیا اور ہر ایک اپنے دل میں جھانک کر سوچنے لگا کہ ہم نے یہ کیا کیا۔

بہر حال اﷲ تعالیٰ نے جو جس سے چاہے کام لینے پر قادر ہے اس ہجڑے کے ذریعہ ان لوگوں کی اصلاح کی اور دیوار منہدم کردی گئی ۔

اب اس کے بعد آپ نے جس شاہی مسجد کو اپنی فرقہ بندی کی بدولت ۱۳سال تک بند رکھا بلکہ مسجد کو اﷲ کے ذکر سے محروم رکھا اس کے بے زبان درودیوار پر کیا گزری ہوگی اس کے لیے بھی ایک مستند واقعہ گوش گزار کرنا چاہوں گا جو مجھے مولانا منظور حسین قاسمی مرحوم سابق نائب مہتمم مدرسہ شاہی مرادآباد نے سنایا تھا،یہ تقریباً ۲۵سال تک نائب مہتمم رہے اور ۱۴۰۳ھ وفات پائی،وہ فرماتے تھے ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد پنجاب کے مسلمان بری طرح اجڑ گئے یا بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان چلے گئے ،اس کے بعدجب امن وامان ہوا تو جمعیت علماء ہند نے مولانا سید محمد میاں کی سربراہی میں چند نوجوانوں کا ایک وفد پنجاب تباہ حال شہروں اور دیہاتوں میں بھیجا تاکہ وہاں کے بچے کھچے مسلمانوں کی آبادکاری میں مدد کریں،اجڑی ہوئی مساجد و مدارس کو دوبارہ آباد کرنے کی کوشش کریں اس سلسلہ میں جب ان کا گزر ریاست پٹیالہ کے کسی گاؤں میں ہوا تو وہاں ایک مسجد اور چند مسلمانوں کا ایک گھر دیکھااس پر تعجب ہوا کہ یہ کیسے بچ گئے جب آس پاس کے تمام گاؤں مسلمانوں کے خالی ہوچکے ہیں ،تب انہیں بتایا گیا کہ اس گاؤں کے لوگ بھی بھاگنے لگے تھے اور یہی آخری گھر بچا تھا جس میں رہنے والے جب کچھ دور نکلے تو اس مسجد کی منارہ سے زاروقطار رونے کی آواز آنے لگی اور آواز آئی کہ ’’مجھے کس پر چھوڑ کرر جارہے ہو‘‘یہ سنتے ہی اس گھر کی جانے والی ایک ضعیفہ ٹھہر گئی اور روروکر کہنے لگی تم سب چلے جاؤ میں نہیں جاؤں گی چاہے یہاں قتل کردیا جائے یا مار دیا جائے ،اس پر اس کا بیٹا یا پوتا بھی رک گیا اور مسجد کی حفاظت میں یہ گھر بھی آباد رہگیا۔

اس واقعہ کی سچائی میں یوں تو پہلے بھی کوئی شبہ نہیں تھا لیکن اب ستمبر ۲۰۱۳میں مظفرنگر کے فساد ات کے دوران ایک واقعہ نے اور آنکھیں کھولیں جسمیں ہوا یہ کہ ایک گاؤں کے مسلمان حملہ کے خوف کی وجہ سے مسجد میں تالا لگا کر پناہ گزیں کیمپ پہنچ گئے اور گاؤں کی اکثریت میں صرف ہندو رہ گئے ،اس کے دوسرے دن صبح کو مسجد سے فجر کی اذان کی آواز بلند ہوئی اور پوری طر ح مکمل ہوئی،اس کو سن کر لوگ حیرت زدہ مسجد کے پاس جمع ہوئے دیکھا تو دروازہ میں تالا لگا ہوا ہے ،دیوار وں پر چڑھ کر دیکھا تو اندر کوئی نہیں ہے اور آواز برابر آرہی ہے ،یہ خبر بہت سے اخباروں میں شائع ہوئی اور قدرت خداوندی نے دکھا دیا کہ تم انسانوں کا خون بہا سکتے ہو در بدر ہونے پر مجبور کر سکتے ہو مگر اﷲ کا نام ہر حال میں سر بلند رہے گا اور سر چڑھ کے بولے گااس واقعہ کی روشنی میں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مہوبہ کی شاہی مسجد کو جب عبادت گذاروں کے ذریعہ مقفل کیا گیا ہوگا تو اس بے زبان کے درو دیوار ،منبرومینار سے بھی کچھ آہ وبکا کی آواز یں بلند ہوئی ہوں گی ،میرے خیال میں یقینا نکلی ہوگی مگر اس گریہ ٔوزاری کو سنتاکون،اس کی فریاد رسی کرتا کون،سب آس پاس کے مسلمان شاداب داڑھیوں والے اور کلین شیو مولوی تو اپنے کانوں میں فرقہ بندی کاتیل ڈالے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہوں گے اور وکیلوں پر پانی کی طرح روپیہ بہارہے ہوں گے سر توڑ کوشش کررہے ہوں گے کہ کچھ بھی ہو اﷲ کاگھر اﷲ کے ذکر سے محروم رہے تورہے ۱۳سال تک یا اس سے زیادہ بھی عبادت ہو یا نہ ہو مگر ہمارے فرقہ کے مولویوں کی ناک نیچی نہیں ہونی چاہئے ،کیا یہی ہے اسلام کی اور اﷲ کے دین کی خدمت؟ کیا اسی طرح کے اعمال کا تحفہ لے کر ہم بروز قیامت اﷲ کے دربار میں حاضر ہوں گے کہ ہم نے ۱۳سال تک تیرے گھر کو عبادت گزاری سے محروم رکھاتھا اب تو ہمیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمادے۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162447 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.