جامعۃ اللغۃ العربیۃ المفتوحۃ - اھداف۔۔مقاصد۔۔منصوبے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی سید العرب والعجم ، وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ، وبعد:
اﷲ تعالی ہمارے خالق ہیں مالک ہیں،وہ کریم ہیں،رحیم ہیں، علیم ہیں ،حکیم ہیں،اس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا،ان کے پاس اپنی ہدایات سمجھانے کے لئے انبیاء ،اولیاء علماء،مفکرین اورمجتہدین بھیجے،ان کی وحدت ِ توجہ کے لئے کرۂ ارض کے وسط، عالمِ عربی میں اپنا ایک گھر کعبۃ اﷲ کا انتظام کیا، اس کے پڑوس میں آباد عرب قوم سے اپنے آخری نبی ﷺکا انتخاب کیا ، پھر عالمِ بشری میں بولی جانی بوالی بولیوں میں سب سے سہل، وسیع ،شیریں اورقدیم وجدید ہر لحاظ سے محفوظ تر زبان ِ عربی میں قیامت تک کے لئے شمع رشد وہدایت کے بطور اپنا کلام نازل فرمایا، صفہ سے لے کر موجودہ مدارس وجامعات کی شکل میں جو ادارے ہیں ، سب میں کی جانی والی کوششیں وکاوشیں اسی فکر کی حامل ہیں ، اگر عربی زبان کو ان مساعی جمیلہ کا بنیادی محور قرار دیاجائے،تو اﷲ کے پیغام بمع اپنے متعلقات کے سمجھنے اور سمجھانے میں کوئی دقت اور مشکل نہیں رہے گی، نیز قرآن وحدیث کے لغات و الفاظ،مفاہیم ومصطلحات،تفاسیر وتشریحات تک صحیح اور آسان رسائی حاصل ہوگی۔ جامعۃ اللغۃ العربیۃ المفتوحۃ کا قیام اسی مقصد کے لئے ہے۔

عربی ہی ضروری کیوں؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے گزشتہ دنوں ہماری ایک طویل نشست ہوئی ،جہاں قرآن وحدیث اورسیرت نبوی ﷺکے متعلق عوام وخواص سب ہی میں قلت واقفیت کاشکوہ ہورہاتھا،اس حوالے سے ان کے سامنے چند معروضات ہم نے پیش کی تھیں۔

بانی دارالعلوم دیوبندمولانا قاسم نانوتوی کی تاریخی شخصیت اور ان کی گراں قدر فلسفیانہ اور عالمانہ تصنیفات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مولانامملوک علی کے غیر معمولی شاگرد تھے اور ایسے میں پھر اس بات کی حیثیت ایک غلط مفروضے کی ہوگی کہ وہ ایک عام سے مولوی تھے، جنہوں نے دین کی خدمت کے لیے ایک مکتب کھولا اور بس یہی ان کا ہدف تھا۔یہ کیوں اور کیسے تسلیم کیا جائے، جبکہ مولانامملوک علی دہلی کے ایک عربی کالج کے پرنسپل رہیں اور مولانا نانوتوی ان کے ذہین و فطین شاگرد ۔
1857 کی جنگ آزادی اور اس میں مسلمانوں کی عارضی شکست ان کے سامنے تھی۔ فرنگی استعمار اور ہندو ثقافت کے یکے بعد دیگرے ہندوستان پر پنجے گاڑنے کی کوششوں سے وہ باخبر تھے ، اسلام اور مسلمانوں کی سر زمین ِہند سے بے دخلی کا جو خواب دشمن دیکھ رہاتھا، وہ ان کے علم میں تھا،پھرایک طرف سید الطائفہ حاجی امداداﷲ مہاجر مکی بھی ہند میں اسلام اور اسلامی تعلیم کی بقاء کے لیے فکر مند تھے ، اس کے نتیجے میں پھرقصبہ ٔدیوبند میں ایک ’’مدرسہ عربی‘‘ قائم ہوتا ہے ، اس پر مفکرین ومصلحین ِامت سر جوڑ ے بیٹھتے ہیں اورمسلمانوں کی تقدیر بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں ،تو پھر ضرور یہ کوئی غیر معمولی مدرسہ تھا، وگر نہ اناریا کیکر کے درخت تلے یا کسی چبوترے کے نیچے،کسی گھر کے صحن میں،کہیں کسی ڈیوڑھی پرتواور بھی ملا محمود اور طالب علم محمود جیسے بہتیرے پڑھنے بیٹھے ہوں گے،مگر تاریخ تو ایسے کسی کردار کو نہیں جانتی اور اِدھر ان کا قصہ ہے کہ زبان زدِ عا م و خاص ہے۔ دین سیکھنے سکھانے کا عمل بھی اسلامیانِ ہند میں مکاتب،مساجد اور کم از کم گھروں میں تو رہتا ہی ہوگا، پھر دیوبند کے اس مکتب کو یہ رجوع اور قبول کیوں کر حاصل ہوا اوردیکھتے ہی دیکھتے وہ ازھر الہند کے رتبہ پر کیسے فائز ہوا۔

مطالعہ اور تجزیہ کہتا ہے کہ دیوبند کے ’’مدرسہ عربی ‘‘میں دو باتیں نہایت اہم ہیں۔

۱۔اس کا نظریاتی پس منظر اور اس کی خمیر میں شامل فکر و فلسفہ، جس کے حامل اور علمبردار ہندوستان کے اس وقت کے چوٹی کے اہل اﷲ اور عبقری شخصیات تھیں ۔

۲۔ اس کا یہ سادہ ساعنوان جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ’ ’فارسی مکتب‘‘اور’’ انگریزی اسکول‘‘کی طرح ایک ’’مدرسہ عربی‘‘ ہے، بظاہرجس کا مقصد فقط ایک زبان کی بول چال یا لکھت پڑھت سکھا نا ہے، جو ایک معمول کی چیز ہے اور ادھر حقیقت یہ ہے کہ اس سادہ عنوان کی پشت پر ایک فلسفہ اور سوچا سمجھا مقصد ہے اور اس کی ذیل میں اہداف واغراض کی ایک لمبی فہرست ہے۔

دہلی کے عربی کا لج کے پرنسپل سے سبق لینے والا طالب علم بس ویسے ہی تو ’’مدرسہ عربی‘‘ کے مہتمم نہیں بنے ہوں گے، بلکہ ضرور ان کا مقصد یہ رہا ہوگاکہ ہند والوں کوعربی پرعبورحاصل ہوجائے اور پھر اس کی بنیاد پر عربی کا طالب علم عرب دنیا میں یا یہاں کسی عربی شعبے میں ملازمت تلاش کرنے کو منزل نہ بنائے، بلکہ اس کی صلاحیتیں قرآن وسنت کے سمجھنے میں صَرف ہوں اوریہاں سے کوئی بخاری، ترمذی، نسائی، مسلم، ابوداؤ، ابن ماجہ، ماتریدی، رازی، غزالی، نسفی، عسقلانی، قسطلانی ابن رشد، ابن سینا جیسے ائمہ اورموجِدین پیدا ہوں،جن کے علوم وخدمات کے عرب وعجم یکساں ممنونِ احسان ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پھر جب دیوبند کے اس ’’مدرسہ عربی‘‘کی غیر منقسم ہندوستان کے اطراف و اکناف میں اوربعد ازاں موجودہ پاکستان،بنگلہ دیش میں شاخیں پھیلنے لگیں، تو وہ بھی اپنے اصل سر چشمے کی پیروی میں عربی مدارس ہی کہلائی جانے لگیں۔ پاکستان کے نابغۂ روزگار عالمِ دین علامہ یوسف بنوری مرحوم نے بھی اپنے ادارے کانام ’’المدرسۃالعربیۃ‘‘ اسی تناظر میں رکھاتھا۔وجہ وہی ہے کہ یہاں اصل تعلیم عربی کی دی جاتی تھی اوردین کاعلم اس کے ضمن میں خودہی آجاتاتھا، چناں چہ آج تک اس نصاب میں عربی ہی عربی چھائی ہوئی ہے، جس میں گرامر سے لے کر اسالیب انشاء اور ادب عالی تک سب چیزیں شامل ہیں اور درجۂ تکمیل میں جاکر پھر دینیات یعنی تفسیراور تقریباًپورے ذخیرہ احادیث کا ایک دور ہ کرایا جاتاہے۔

بد قسمتی سے کچھ عرصے سے اس نصاب سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہورہے ہیں۔مقاصد ِفنون، طلبہ کیامدرسین کو بھی معلوم یا کم از کم مستحضر نہیں ہوتے اور ذی استعداد سمجھے جانے والے مدرسین کو بھی عام سی عربی تحریر وتقریر سمجھنے میں عموماً سخت دشواری اور شرمندگی کا سامنارہتا ہے، دقیق اور جدید چیزیں تو دور کی بات ہے اور اعتذار یہ ہوتاہے کہ ہم نے جدید عربی نہیں پڑھی اور کہیں یہ لطیفہ کہ عربی بطورِزبان کا علم سے کوئی تعلق نہیں ،ستم ظریفی یہ ہے کہ سالہا سال سے تفسیروحدیث پڑھانے والے، چوٹی کی عربی نثر ونظم کی کتابیں پڑھانے والے بھی عربی نہیں جانتے اور نوبت بایں جا رسید کہ اب علماء اور اہل مدارس کے سامنے بھی عربی کے فضائل واہمیت پر لمبی چوڑی تقریریں کرکے انہیں اس کا قائل کرنا پڑتا ہے اور اس طرح کی کوششوں سے پھرکہیں جاکرمدارس میں عربی شعبے قائم کرنے کے امکانات پیداہوئے ہیں۔ اس صورت حال میں کیا یہاں فقہاء،مجتہدین اور مجددین،جن کی امت کوضرورت ہے، پیداہونے کاکوئی امکان ہے؟جبکہ علومِ اسلامیہ کا اصل اوراورکلاسیکل اثاثہ عربی میں ہے؟

مقامِ اطمینان ہے کہ برقی ایجادات اور سائنسی ترقیات کی بدولت آج ایک مرتبہ پھر عربی زبان کازبردست غلغلہ ہے۔ مدارس (چندایک ہی سہی)ایک نئی کروٹ لے رہے ہیں اور عربی لینگویج سینٹر، عربی رسائل ومجلات، عالم عرب کے ساتھ رابطہ، عربی خطبات خصوصاًائمہ حرمین کی تلاوتیں اورخطبات، عربی نغمات کی دستیابی، عربی ویب سائٹس پر جانے اوران سے استفادہ کا رحجان بڑھ رہاہے اور عربی کی ترجیح رواج پارہی ہے۔ ایسے میں علماء اوراہل مدارس کو اپنی اس کھوئی ہوئی پونجی اورشناخت کو دوبارہ حاصل کرنے اور اس کی بازیابی کے لیے جدوجہد تیز کرنے اورصحیح معنوں میں قرآن وحدیث سے وابستگی کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔

علماء بلاغت کا یہ قیاس کہ پیغمبر اسلام کی نبوت اعجازِ قرآن کریم پر موقوف ہے اور اعجازِ قرآن بلاغت کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز ہونے کی وجہ سے ہے۔سو نبوت محمدیہ کا اپنے ثبوت میں بلاغت کے ساتھ چولی دامن کا تعلق ہے،یہ منطق اگر کوئی معنی رکھتی ہے تو کیاعربی زبان سے آشنائی کے بغیر اس گھاٹی سے گزرنا ممکن ہے؟ا گر نہیں تو پھر عربی سے یہ بیر اور بلاد عرب وعربوں پہ نفور کیوں؟اور عربی زبان کی اس واجبی اور سر سری سی تعلیم پر اکتفا کیوں اورکب تک؟کیا اس قیاس کاتقاضا یہ نہیں ہے کہ عربی زبان کم از کم عربی مدارس والوں کی تورگ و پے میں ہی بس جائے، ان کا اوڑھنا بچھونا اور ذوق و دلچسپی کا میدان بنے،مگر ایسا نہیں ہورہا اوروہی مساجد میں رٹے رٹائے خطبے ہیں جو عموماًخود خطیب کے پلے بھی نہیں پڑتے اور تقریر وتدریس کی سلطنت بھی مواعظ اور شروحات کی بنیاد پر قائم ہے،لب و لہجہ طرزو اسلوب،تحریر و تقریر وغیرہ پرو ہی اردو،ہندی اور فارسی کا راج ہے اور بقولِ علامہ ابنِ تیمیہ ’’ان اعتیاد اللغۃ مؤثر فی العقل والخلق والدین تأثیراًبیّناً‘‘،کہ زبانیں بہر حال اپناایک واضح اثر رکھتی ہیں، جس سے ثقافت ومعاشرت ہی نہیں ذوق وفکراوراخلاق ونظریات بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

آمدم برسرے مطلب:
ہم نے ایک مرتبہ پھر وہی ’’مدرسۂ عربی‘‘ اور ’’المدرسۃ العربیۃ‘‘ کے عنوان کی طرف رجوع کرکے عصرِحاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’جامعۃ اللغۃالعربیۃ المفتوحۃ‘‘ کانام اختیار کیا،ہم ایک نئے اور مشکل لیکن سہل الحصول طریقۂ کارکو اپنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

عربی کی ضرور ت پر تو کافی مفصل بات ہوچکی ،آن لائن کی وجہ ایک تو پوری دنیا اس وقت آلائن ہے، پھر آمد ورفت کی مشکلات سے طلبہ واساتذہ کو بچانے ، دارالاقاموں کے اخراجات سے نکلنے کے علاوہ بھی اس کے مفید پہلو بہت ہیں۔

اس وقت وفاق المدارس العربیۃ پاکستان سے ملحق آن لائن اور مکمل عربی کلاسوں کا یہ ادارہ اﷲ کے فضل وکرم سے اپنی آب وتاب کے ساتھ محوِسفر ہے،پچھلے ایک سال سے کراچی کلب ِ صائمہ ٹاور اور بعض دیگر جگہوں پر اس کے مدرسین عربی کلاسیں بھی لینے جاتے ہیں، نورانی قاعدہ، حفظ و ناظرہ سے لے کر دورۂ حدیث تک کی تعلیم یہاں جاری ہے، موجودہ اورمستقبل میں جوشعبے اور فیکلٹیز شروع کرنے ہیں اس کی تفصیلات اس طرح ہیں:
۱۔ قسم قراء ۃ القرآن الکریم نظراً․
۲۔ قسم تحفیظ القرآن الکریم ․
۳۔ قسم الدرس النظامي کاملاً بالعربیۃ ․
۴۔ قسم التخصص فی الأدب العربی․
۵۔ قسم التخصص فی علوم القرآن الکریم ․
۶۔ قسم التخصص فی علوم الحدیث الشریف․
۷۔ قسم التخصص فی الحوار بین الفرق والأدیان․
۸۔ قسم التخصص فی الدعوۃ والارشاد․
۹۔ قسم التخصص فی الفقہ الاسلامي․
۱۰۔ قسم التخصص فی التجوید والتحفیظ والقراء ۃ․
۱۱۔ قسم التخصص فی السیاسۃ والادارۃ والقیادۃ والجہاد واقامۃ الخلافۃ ․
۱۲۔ قسم التخصص فی الصحافۃ والاعلام والتصنیف والتألیف والترجمۃ والتعریب․
۱۳۔ قسم التخصص فی التاریخ والجغرافیا والغزو الفکري․
۱۴۔ قسم التخصص فی اللغات العالمیۃ (العربیۃ،الانجلیزیۃ, الفرنسیۃ , الروسیۃ ,الہندیۃ , الألمانیۃ ,الاسبانیۃ ,وغیرہا)
۱۵۔ قسم التخصص فی التعلیم عن بعد․
۱۶۔ قسم التخصص فی اعداد المعاجم والقوامیس فی علوم مختلفۃ و لغات مختلفۃ ․
۱۷۔ قسم التخصص فی الأمور الرفاہیۃ والمنظّمات الخیریۃ ․
۱۸۔ قسم التخصص فی طرق التدریس والامتحان وامامۃ المساجد والمحاضرات والندوات والمؤتمرات ․
۱۹۔ قسم التخصص فی ادارۃ المیدیا الجدیدۃ (المجلات والجرائد والصحف والقنوات والمواقع وغیرہا)․
۲۰۔ قسم التخصص فی الاستشفاء بالقرآن الکریم والطب النبوي(ص) ونفسیات المرضی․
۲۱۔ قسم التخصص فی الاقتصاد والمصرفیۃ ․
۲۲۔ قسم التخصص فی علوم الفلسفۃ والتفکیر وتجدید الدین واحیاء الاسلام ․
۲۳۔ قسم التخصص فی علوم المخابرات ومؤامرات الاعداء ودسائسہم ضدالاسلام والمسلمین علی ممر التاریخ والرد علیہا․

ملائیشیا اربک ورکشاپ:
معلمین ،اساتذہ اور عربی کے میدان میں کام کرنے والوں کے لئے اس ٹیکنیکل دور میں جو تیکنیکی ضرورت ہے وہ اصحابِ بصیرت پرروزِ رشن کی طرح عیاں ہے، اس حوالے سے ہمارے کچھ دوستوں نے احسان کرکے ان افراد کو ’’جامعۃ اللغۃ العربیۃ المفتوحۃ‘‘ کے توسط سے ملائشیامیں آن لائن تدریس وتعلیم کے لئے دو ہفتے کے ایک ورکشاپ کا اہتمام فرمایاہے، جس کے لئے ادارہ ان کا ممنون ہے اور جن شخصیات کا تعین کیا ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
۱۔شیخ نجم اﷲ العباسی ۔ الحمراء مسجد ، کراچی
۲۔ مولاناابراھیم سکھرگاہی ،مدینہ مسجد ،کراچی
۳۔شیخ عزیز الرحمن عظیمی ۔جامعہ بنوریہ ۔کراچی
۴۔شیخ عبید الرحمن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۔ شیخ محمد ایوب ۔کراچی
۶۔شیخ خالد ۔پنچگور
۷۔ مفتی سلیم شاہ ،جامعہ شاہ ولی اﷲ ۔کراچی
۸۔ مولاناعمر صادق ۔ سابق پالیمانی لیڈر ۔جے یو آئی ،سندھ
۹۔مفتی رحمان الدین شامزئی، مرکز روحانیت ،کراچی
۱۰۔ مفتی سلیم الدین شامزئی ۔بنوری ٹاؤن، کراچی
۱۱۔ صاحبزادہ عزیز الرحمن رحمانی ۔بنوری ٹاؤن، کراچی
۱۲۔شیخ موسی عراقی ۔جامعۃ ابن عباس ،کراچی
۱۳۔شیخ مقصود ہاشمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۴۔ مولاناطیب عنایت اﷲ شھید ۔کراچی
۱۵۔ الطاف موتی ۔کراچی
۱۶۔ حاجی مسعود پاریکھ ،کراچی
۱۷۔شیخ عثمان قاسمی ۔ کراچی
۱۸۔ شیخ یوسف قمر ۔ مظفر گڑھ
۱۹۔مولانا محمد صدیق حسن زئی ۔ مانسہرہ
۲۰۔ مولاناقاری ابراھیم ۔ کراچی
۲۱۔ مولاناحافظ عبد القادر ۔ اسلام آباد
۲۲۔ شیخ سجاد بن الحجابی ۔مردان
۲۳۔شیخ دلبر ۔ فیصل آباد
۲۴۔مولاناسعید احمد ۔ تربت
۲۵۔مولانا رشید احمد ۔ گوادر
۲۶۔ڈاکٹر خلیل بلیدی ۔ بلیدہ ،تربت
۲۷۔ مفتی صلاح الدین ۔چمن
۲۸۔مولانا عبد الرحمن ۔لورالائی
۲۹۔شیخ جنید اکبر ۔پشاور
۳۰۔مولاناحاجی محمد فہیم ۔ سوات
۳۱۔ مفتی فیض الحق ۔ کراچی
۳۲۔شیخ منیرخان کاکڑ۔ کویٹہ
۳۳۔شیخ غلام صابر۔ سرگودھا
۳۴۔شیخ سمیع اﷲ عزیز ۔پنڈی
۳۵۔ ضیاء اﷲ رحمانی ۔سوات
۳۶۔مولانا حسین احمد ۔ ایبٹ آباد
۳۷۔ شیخ زاھد عبد الشاھد ۔گلگت
۳۸۔شیخ نذیر۔گلگت
۳۹۔ مولاناعبد الرحمن ۔ لاھور
۴۰۔ اویس روف ۔ لاھور
۴۱۔ شیخ حماد خالد ۔کراچی
۴۲۔شیخ عبدالباقی ادریس ۔ نوشہرو فیروز
۴۳۔شیخ کلیم اﷲ ۔ شورکوٹ
۴۴۔ وسیم خان ۔اسلام آباد
۴۵۔مولانا سہیل باوا۔ انگلینڈ
۴۶۔امام عطاء اﷲ خان ۔انگلینڈ
۴۷۔شیخ خالد حبیب۔ انگلینڈ
۴۸۔شیخ احمد ہتھوارنی ۔ ساؤ تھ افریقہ
۴۹۔مولانا محمد علی مایت۔ موزمبیق
۵۰۔ مفتی محمد۔ کشمیر
۵۱۔مولانا عبد الوحید۔ کشمیر
۵۲۔مولانا سعید یوسف خان ،کشمیر
۵۳۔ علامہ سعید الرحمن ۔کالاڈھاکہ
۵۴۔ طلحہ طاہر لدھیانوی ۔ڈ ی جی خان
۵۵۔مولانا ابرار ۔کراچی
۵۶۔ مولانامحمود الحسن ۔بنیر
۵۷۔ مولاناطاہر، امام بنوری ٹاؤن کراچی
۵۸۔شیخ عتیق الحسن ۔بنوری ٹاؤن ،کراچی
۵۹۔مولانا مزمل ۔ بنوری ٹاؤن ،کراچی
۶۰۔مولانا عطاء الحق ۔ ھری پور
۶۱۔ سمیع سواتی ۔کراچی
۶۲۔ عامریوسف کشمیری ۔ کراچی
۶۳۔ عابد قائم خانی ،کراچی
۶۴۔شیخ حنظلہ امجد ۔بنگلہ دیش ساکن فی کراچی
۶۵۔شیخ خالد حجازی ۔اسلام آباد
۶۶۔ مولانا محمد جلال۔ کراچی
۶۷۔شیخ محمد۔ چارسدہ
۶۸۔مولانامحمد علی ۔رنگون ،میانمار
۶۹۔مولاناعبد القدوس محمدی ۔اسلام آباد
۷۰۔ شیخ فیصل رحیم،مانسہرہ
۷۱۔مولانا ساجد ، کالا ڈھاکہ۔
۷۲۔مفتی امداد اﷲ ، کراچی۔
 

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 813796 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More