جس کے نام سے ہندومت آج بھی لرزے

سلطانِ غزنی امیر ناصرالدین سبکتگین درازاپنے محل میں محو استراحت تھے انہوں نے خواب دیکھا کہ انکے گھر میں آتشدان سے ایک پودے کی کونپل پھوٹی اور دیکھتے ہی دیکھتے تنا آور درخت کی شکل اختیار کر گیا جس کے سا ئے میں ایک قوم بیٹھی ہے اسی رات سلطان کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی جسکا نام’’ محمود ‘‘ رکھا گیا یہ ۱۰ محرم الحرام ۳۶۱ھ ؁ یکم نومبر ۹۷۱ء ؁ تھی بیٹا بھی اپنے والد کی طرح غیر معمولی صلاحیتو ں کا حامل تھا محمود نے لڑکپن میں ہی والد کے ہمراہ جنگوں میں جانا شروع کر دیا۔

۳۸۷ھ ؁ ،۹۹۷ء ؁ کو سلطان سبکتگین کا انتقال ہو گیاجبکہ محمود غزنی سے کچھ فاصلہ پر قلعہ نیشاپور میں مقرر تھا اور اسکا چھوٹا بھائی اسماعیل والد کی راجدھانی میں موجود تھااسنے والد کی تدفین کے بعد خود ہی اپنے سر پر تاجِ سلطنت سجا لیااور اپنے آپ کو سلطان منوانے کے لیے سلطنت کے امرأو روؤ سأمیں بیش بہا تحائف تقسیم کیے جبکہ سلطنت کے دفاعی وزراء اسکو سلطان ماننے کے حق میں نا تھے جب محمود کو اس بات کا علم ہوا تو وہ اپنی فوج لیکر چچا بغراحق اوربھائی نصر کی معیت میں غزنی پہنچ گیا اس نے سلطان اسماعیل کو شکست سے دوچار کر کے غزنی پر اپنی امارت ثابت کر دی اور اپنے بھا ئی کو اپنے ساتھ رکھا پھر کچھ دن بعد پوچھا کہ اگر تم مجھے شکست دکھاتے تو میرے ساتھ کیا سلوک کرتے بھائی نے جواب دیا کہ میں آپ کو قلعہ میں قید کر دیتا چنانچہ سلطان محمودغزنی نے بھی اپنے بھائی کو قلعہ میں قید کر دیا اور وہاں اسکی آسائش کا سارا سامان مہیا کیا۔

سلطان محمود غزنی نے اپنے دور حکومت میں ہندستان پر پہلا حملہ ۳۹۱ھ، ؁۱۰۰۰ء ؁ میں کیا یہاں مقابلہ راجہ جے پال سے تھا سلطان کی فوج میں صرف دس ہزار سوار تھے جبکہ مد مقابل فوج میں ۱۲ ہزار سوار ۳۰ ہزار پیادہ۳۰۰ زنجیر بند ہا تھی تھے باوجود اسکے راجہ جے پال کو شکست فاش دینے کے بعد زندہ گرفتار کر لیا گیا اس نے خراج دیکر رہائی حاصل کی اور بعد میں خود کو چتا(لکڑی کا وہ فریم جس میں ہندو مردوں کو بٹھا کر آگ لگاتے ہیں) میں بٹھا کر جلا لیا۔

۳۹۵ ھ ؁ ،۱۰۰۵ء ؁میں سلطان نے والئی بھیرہ سے جنگ آزمائی کی اس نے بھی حالت فرار میں خود کشی کر لی اسوقت والئی بھیرہ کی مدد کرنے کی ناکام کوشش والئی ملتان ابوالفتوح داؤد باطنی نے کی جسکی سزا دینے سلطان ۳۹۶ھ، ؁ ۱۰۰۵ء ؁ میں دوبارہ ہندوستان آیا ملتان پر حملے کرنے کی دوسری اور بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کا والئی قرامطی(اسلام سے منحرف گرہ جو دوسروں کو مسلمان نہیں مانتے تھے) تھا اور دوسرے مسلمانوں کو قرامطی ہونے پر مجبور کر رہا تھایہاں سلطان نے خود تلوار پکڑ کر قرامطہ کے خلاف جنگ لڑی اس وقت غزنی کی فوج کو پسپا کرنے کے لیے ایک تیر بھی کافی تھا اس موقع پر سلطان نے اتنی تلوار بازی کی کہ رات کو جنگ بندی کے بعد جب سلطان اپنے خیمہ میں آیا تو سلطان کا ہاتھ خون کی وجہ سے دستی کے ساتھ جڑ چکا تھاپھر کافی دیر گرم پانی دستی پر ڈالا گیا تو کہیں جا کر ہاتھ دستی سے جدا ہوا،اس موقع پر رائے آنند پال ، ابوالفتوح کی مدد کو آیا لیکن سلطان نے اسے قلعہ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی تعاقب کر کے بھگا دیا جبکہ اسکا بیٹا سکھ پال مسلمان ہو چکا تھااسکو بھیرہ کا گورنر مقرر کیا لیکن بعد میں وہ مرتد ہو گیاپھر سلطان ۳۹۸ھ ؁ ، ۱۰۰۷ء ؁ میں اسکی گوشمالی کے لیے آیا اور حبس دوام کی سزا دی۔

پھر سلطان نے۳۹۹ھ ؁،۱۰۰۸ء ؁میں معرکہ آرائی کی اس مرتبہ آنند پال کی مدد کے لیے گوالیار، کانجر ، قنوج اور اجمیر کے راجہ فوجیں لے کر آئے مگر ناکام رہے یہ ہندؤں کا متحدہ حملہ تھا اسکے بعد وقفہ وقفہ سے مختلف راجے، مہا راجے اور مندر فتح ہوتے گئے اب ہندؤں پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔

۴۰۹ھ ؁ ،۱۰۱۸ء ؁ کو سطان نے قنوج اور متھرا پر حملہ کیا متھرا ہندؤں کے لیے ویسے ہی مقدس ہے جیسے مسلمانوں کے لیے مکۃ المکرمۃ ،کیونکہ متھرا ، مہا راج ہری کرشن جی کی جنم بھومی(جائے پیدائش) ہے اس موقع پر ہندؤں نے سر دھڑ کی قربانی دیکر متھرا کو بچانے کی کوشش کی لیکن سلطان کی فوج نے بھی تباہ کن زمین دوز کاروائی کر کے ہندؤں کے مذہبی غرور ختم کر دیا اور انہیں دیوتاؤں کی اوقات بتائی۔

یہاں یہ بات ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان کی سر زمین پر جتنے بھی حملے کیے وہ صرف اسلام کی اشاعت کی خاطر تھے نہ کہ مال و زر کی ہوس تھی کیونکہ اگر دولت کی لالچ ہوتی تو سلطان کبھی بھی غزنی سے۵۱۵ کلو میٹر دور ملتان پر حملہ نہ کرتے اور اس جنگ میں تلوار بازی کر کے اپنے فن تلوار بازی کا مظاہرہ کرنے کی جرأت نہ کرتے یہ سلطان کا مذہبی ذوق تھا جو سلطان کو یہ سب کرنے پر ابھار رہا تھایہ ہی وجہ تھی کہ سلطان جب بھی کوئی قلعہ یا مندر فتح کرتے تو حکم شاہی تمام فوج میں گردش کر جاتا کہ مسلح افراد کو گرفتار کر کے جنگی قیدی بنا لو اور نہتے لوگوں کو کچھ بھی نا کہا جائے کیونکہ انکی دیکھ بھال اب سلطنت غزنی کی ذمہ داری ہے پھرسلطان خود مندر میں جاتے ،بتوں کو توڑ کر باہر پھینکتے اس سے سلطان کو روحانی تسکین حاصل ہوتی اس مندر کو مسجد میں تبدیل کرتے وہاں سے راگ الاپنے اور سنک بجانے والی آواز وں کی جگہ پانچوں وقت اذان کی آواز کانوں میں رس گھولتی سلطان کے اسی منصفانہ سلوک کی بناء پر قلعہ کے لوگ سلطان کی فتح تسلیم کرنے میں ذرا بھربھی جھجک محسوس نہ کرتے۔

سلطان سومنات کی بجائے متھرا کو زیادہ اہمیت دیتے تھے یہی وجہ تھی کہ سلطان جب متھرا کو فتح کر کے غزنی لوٹے تو سلطان نے مسجد، جامعہ، لائبریری ، اور عجائب گھر کا سنگ بنیاد رکھا مسجد کا نام جامع مسجد عروس الفلک رکھا گیا اسکی تعمیر کے لیے سلطان نے مملکت کے طول وعرض سے انجینئرزاور ماہر کاریگر بلائے جنہوں نے باہمی مشاورت کے ساتھ سلطان کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ حسین مسجد تعمیر کی ا س میں جو بیل بوٹے بنائے گئے تھے انکے اندر سونے کو پگھلاکر بھرا گیا۔

جامعہ تعمیر کرنے کے بعد سلطان نے حکم دیا کہ یہا ں مجاہدین کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی وہاں ہر فن کے ماہر اساتذہ کو بیش بہا معاوضات دیکر بھرتی کیا گیاجامعہ کیساتھ ملحق کتب خانہ میں سلطان نے طول و عرض سے نادرونایاب کتب منگوا کر رکھیں سلطان کی اس علم دوستی کو دیکھتے ہوئے وقت کے عظیم سائنسدان البیرونی بھی سلطان کے درباریوں میں شامل ہوگئے سلطان نے بو علی سینا کو بھی غزنی آنے کی دعوت دی لیکن وہ کچھ مجبوریوں کے باعث دعوت قبول نہ کر سکے۔

سلطان کے دربار میں کئی علماء و محدثین کی مسندیں لگتی تھیں امام الحرمین ابوالمعالی عبدالملک جوینی اپنی کتاب مغیث الخلق فی الاختیار الاحق میں لکھتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی علم حدیث کے بہت شائق
تھے رات کے وقت محدثین جب قرأت حدیث کر تے تو سلطان بھی مجلس کے ایک کونہ میں بیٹھ کر سماعت کرتے اگر کہیں سے کوئی مسئلہ سمجھ نہ آتا تو سوال کر لیتے سلطان پہلے حنفی المسلک تھے پھر شافعی ہو گئے اور عقیدہ کے لحاظ سے سلطان راسخ العقیدہ سنی تھے ۔

سلطان نے روحانی فیض اپنے وقت کی دو مقتدر شخصیات سے حاصل کیا ان میں سے ایک صوفی ابو سعید عبدالملک صاحب (رحمۃاللہ علیہ)اور دوسرے سلطان کے شیخ، پیرومرشدابوالحسن خرقانی (رحمۃاللہ علیہ)ہیں انہیں نے زیادہ تر سلطان کا تزکیہ نفس کیایہی وجہ تھی کہ سلطان بوقت جنگ بھی زیادہ تر حالت صوم میں ہی ہوتے تھے۔

جب ہندو راجاؤں نے سلطان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھا تو انہوں نے ہندومت کے نام پر آپس کی تمام لڑائیوں کو ختم کر کے۴۱۲ھ ؁بمطابق۱۰۲۱ء ؁ کو متحدہ فوج بنائی جس میں مفتوحہ راجاؤں کی باقی مانندہ فوج کو بھی شامل کیا (یہ لشکر ایک لاکھ پنتالیس پیادہ چھتیس ہزار سوار اور نو سو ہاتھیوں پر مشتمل تھا)اور غزنی پر حملے کا ارادہ بنا لیا لیکن یہ بات سلطان سے پوشیدہ نہ رہ سکی سلطان نے انہیں ہندوستان میں روک لیا اور وہیں انکے ساتھ مقابلہ کیا لیکن یہا ں بھی ان کے اندر کی لڑائیوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا کہ ہر راجہ کی خواہش ہو تی کہ اسکی فوج پیچھے رہے کسی اور راجہ کی فوج کام آئے جسکی وجہ سے انہیں شکست فاش کیساتھ دوچار ہونا پڑا۔

اسکے بعد ۴۱۳ھ ؁بمطابق۱۰۲۲ء ؁ میں سلطان نے پنجاب کو بھی سلطنت غزنی میں شامل کرکے غزنی کا صوبہ قرار دیا اور یہاں ایاز کو بطور گورنر مقرر کیا جسکے بارے میں علامہ اقبال کا یہ شعر مشہور ہے
؂ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودوایاز
نہ بند ہ ر ہا نہ بند ہ نو ا ز

گورنر ایاز نے تقرری کے بعد لاہور میں ہی سکونت اختیا ر کر لی آج بھی آپکا مزار پاکستان کی مشہور مارکیٹ شاہ عالم (شاہ عالمی ) بازار کی بغل رنگ محل میں واقع ہے اس مزار کیساتھ ملحق ایک اونچے مینار والی مسجد بھی ہے جس کو جامع مسجد ایاز کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو کہ اہلسنت و جماعت حنفی مسلک کے زیر اہتمام ہے۔

سلطان محمود غزنوی نے اپنے دؤر حکومت کا دو تہائی حصہ کوچ اور میدان کارزارمیں گزاردیا تھا سلطان کا کوچ برق رفتاری سے اور حملہ عقاب سے سو گنا تیزے اور گھناؤنا ہوتا پھر موسموں کی تبدیلی کہیں صحراء کہیں برفانی علاقہ اسیطرح خزاں وبہار گرم و سرداور کم آرامی کی وجہ سے ۴ھ ؁، ۱۰ء ؁میں سلطان کی طبیعت کافی بگڑ گئی،طبیب نے بتایاکہ آپ جو ابھی تک زندہ ہیں اور معرکہ آرائیاں کر رہے ہیںیہ صرف روحانی قوت کی بناء پر ہے ورنہ طبی نقطہ نظرسے آپ جسمانی طور پر بالکل کھوکھلے ہو چکے ہیں تو سلطان نے طبیب کو کہا کہ وہ یہ بات کسی کو بھی نہ بتائے، طبیب نے سلطان کو مکمل آرام اور خوراک کو بہتر بنانے کی تلقین کی۔

کچھ ہی دنوں بعد جب سلطان کو سومنات کے بارے میں پتہ چلا تو سلطان نے اپنے سالار ابو عبداللہ الطائی سے کہا کہ یہی ہے وہ معرکہ جسکے بارے میں میری روح مجھے بے چین کررہی تھی لھٰذہ بغیر تا خیر کے ہمیں کوچ کرنا چاہیے۔

۲۲شعبان ۴۱۶ھ ؁۱۸اکتوبر ۱۰۲۵ء ؁کو غزنی سے کوچ کیا ۱۵رمضان ۹نومبر کو ملتان پہنچے وہاں پہنچنے پرایک صوفی بزرگ نے سلطان کو اشارہ دیا کہ جس حاکم کو اسنے چھ سال قبل ملتان میں مقرر کیا تھا وہ بک چکا ہے سلطان نے اپنے نائب سالار کے ذریعے جب اس خبر کی تصدیق کی تو حاکم کوایک کمرہ میں تین لڑکیو ں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا یہ لڑکیاں کوئی جسم فروش طبقہ سے نہ تھیں بلکہ ہندوراجاؤں کی لڑکیاں تھیں جو حاکم کو ورغلاتی تھیں سلطان نے سبھی کو سخت سزا دی حتیٰ کہ جو مقررہ حاکم تھا اسکے بارے میں حکم جار ی کیا کہ کوچ کے وقت اسکو کسی گھوڑے کے ساتھ باندھ لینا اور جہاں مر جا ئے وہاں ہی پھینک دینامقررہ حاکم کے بک جانے کی وجہ سے سلطان کے بارے میں ہرہر خبر ہندؤ راجاؤں مہاراجاؤں کو پہنچ چکی تھی۔

اسی وجہ سے حفظ ما تقدم کے طور پردرپیش آنے والی مشکلات سے باخبر رہنے کے لیے سلطان نے محکمہ جاسوس (خفیہ انٹیلی جنس) کے کچھ آدمی آگے بھیج دیے جنہوں نے بتایا کہ سب سے بڑی مشکل ایک لمبا صحراء ہے اسکے لیے سلطان نے تین ہزار اونٹوں پر پانی کی مشکیں لادھ دیں اور پیا دہ سپاہیوں کو بھی کچھ پانی اپنے ساتھ رکھنے کی تلقین کی۔

ٍٍ لشکر غزنی نے عید ملتان میں گھر والوں سے کئی ہزار میل دور لشکر اسلام میں منائی ۲شوال ۲۶ نومبر کو ملتان سے کوچ کیا لشکر پر جابجا شب خون اور چھاپے مارے جانے کے خطرہ اور پیشین گوئی کے پیش نظریہ سلطان کی ہی جنگی تدبیر تھی کہ لشکر کے پہلے آدمی سے لیکر لشکر کے آخری آدمی تک ۱۰۰ میل کا فاصلہ تھا ۔

اور سومنات تک پہنچنے کے لیے سلطا ن کی فوج نے جو صحراء طے کیا اسی کا سفر صرف اسی کا سفر۵۰۰ میل تھااور راستے میں بیسیوں جنگیں لڑنے کی وجہ سے سلطان کی فوج تھکاوٹ سے چکنا چور ہو چکی تھی ہندو راجے سلطان کی طبیعت سے واقف تھے اسی لئے انہوں نے سلطان کی فوج کو آرام نے کرنے دیا جسکی وجہ سے لشکر غزنی کی طبیعت دگر گوں ہورہی تھی۔

۱۴ ذی القعدہ ۴۱۶ھ ؁،۶جنوری ۱۰۲۶ء ؁بروز جمعرات سلطان سومنات کے قریب اس جگہ پہنچا جہاں سلطان کو فوج اکٹھی کرنا تھی اس مندر کے اردگردپورے ہندو ستان کی بچی کھچی طاقت جمع تھی جو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ اور تازہ دم تھی یہاں سلطان کو فتح خطرے میں نظر آئی نیز سلطان کے ذہن میں یہ بھی خیال آیا کہ اگر آج ہندو جیت گئے تو انکا یہ عقیدہ ہمیشہ کے لیے پختہ ہو جائے گاکہ ہندؤں پر یہ عتاب ہری کرشن ، مہا دیو اور وشنو دیوکی ناراضگی کے سبب ہے اورجو بھی قلعہ یا مندر سلطان اس سے پیشتر توڑتا تھا تو ہندو کہتے کہ سومنات اس سے ناراض ہے ورنہ وہ سلطان کو کب سے تباہ کر دیتا اب اگر سومنات کو نہ بچایا جا سکا تو ساری دنیا درہم برہم ہو جائیگی یہی وجہ تھی کہ سلطان نے اسکو بھی پچھاڑنا لازمی سمجھا ۔

لفظ سومنات میں ’’سوم‘‘کا معنی ہے چاند اور نات کا معنی ہے آقا،یعنی چاند کا آقا،سومنات مندر میں چاند اور سورج گرہن کے موقع پر ۲،۳ لاکھ پجاری جمع ہوتے تھے،۲ہزار دیہاتوں کا مالیہ اس مندر کے لیے وقف تھا ۲۰۰۰ برہمن راہب ،۵۰۰ دوشیزہ رقاصائیں،۳۰۰موسیقار ،۳۰۰ حجام ہر وقت موجود ہوتے تھے بت کو ایک دن میں دو مرتبہ غسل دیا جاتا تھاجسکے لیے پانی ۱۲۰۰ میل کے فاصلے پر دریا گنگا سے لاتے تھے۔

ٍ بت کے کمرے میں ایک سونے کی زنجیر تھی جسکا وزن مؤرخین نے دو سو من بتایا ہے واضح رہے کہ اسوقت من چالیس کلو کا نہیں ہوتا تھا بلکہ ایک من ایک کلو کا ہی ہوتا تھا یعنی آج کے لحاظ سے پانچ من خالص سونا اسکے علاوہ دیگر بیش بہازرو جواہرات تھے۔

جمعہ والے دن علیٰ الصبح نماز فجر کے بعد ہی جنگ کا میدان سج گیا سلطان نے اپنی فوج کو پر جوش خطاب کیا اور اونٹوں پر مٹی منگوا کر قلعہ کے ارد گردخندق کو بھرنا شروع کیا خندق بھرنے کے دوران بھی تیروں کیساتھ جنگ جا ری رہی سات جنوری کی صبح دیواروں پر چڑھنے کی کوشش کی گئی جو کہ تھوڑے ہی نقصان کے بعد کامیاب ہوئی ۔

ادھر تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہندو قلعے سے نکلتے اور فوج غزنی پر ہلہ بولتے یہاں توصورت حال کچھ یوں تھی کہ شاید مسلمانوں نے قسم کھا رکھی ہوآج فتح یا موت، غزنی کی فوج قہر آلود تھی اور ہندو اس قہر کو اپنے سینوں پر روک رہے تھے ۸ جنوری کی صبح سویرے مہاراجہ کنور رائے نے چال چلی کہ مسلمانوں کے خیموں پر ہلہ بولا جائے یہ سوچ کر کہ وہ اس وقت سو رہے ہوں گے لیکن انہیں یہ چال بہت ہی مہنگی پڑی کہ مسلمان نماز فجر کیلئے جاگ رہے تھے انہیں گھوڑوں کی تیا ری کا موقع تو نہ مل سکا لیکن انہیں خیموں سے دور ہی گھیرے میں لے لیا جسکی وجہ سے چند ایک سپاہی ہی بچ کے اندر جا سکے۔

حالت اب یہ تھی کہ سلطان قلب کو نائب سالار ابو عبداللہ محمد الطائی کے حوالے کر کے ایک دستے کی معیت میں خود دیوانہ وار لڑنے لگااس وقت غزنی کی فوج کو پسپا کرنے کے لیے صرف ایک تیر یا نیزے کی ضرورت تھی۔

اس رات سلطان کے خیمہ میں ایک ماہر جودوگر بھیجا گیا جو سلطان کو جادو گری اور شعبدہ بازی کرکے متأثر اور ہپناٹائز کرنا چاہتا تھاجب سلطان اس سے متأثر نہ ہوا تو کہنے لگا کہ مین آپ کو کچھ دیر کے لیے روحوں کی دنیا میں بھیج سکتا ہوں جس پر سلطان نے غصہ کے عالم میں ترجمان کے ذریعے کہا کہ اسے کہو کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ میں اسے ہمیشہ کے لیے روحوں کی دنیا میں بھیج سکتا ہوں پھر اس نے جاتے وقت سلطان کو حسن کی دعوت دی سلطان نے وہ بھی ٹھکرا دی پھر اسکی طرف سے زرو جواہرات کی دعوت آنے پر سلطان نے جواب دیا کہ اس وقت ہم سب خدا کی بارگاہ میں ہیں اسکے بندوں کو تمہاری کسی چیز کی بھی ضرورت نہیں جاؤ چلے جاؤ اتنے میں وہ بوڑھا جوگی آگے بڑھا اور ہاتھ چوم کر کہنے لگا کہ میرے سامنے سلطان کی فتح اظہر من الشمس ہے۔

۹جنوری کی صبح ہندؤں نے فیصلہ کیا کہ کچھ فوج کو قلعہ کی حفاظت کے لیے اندر رکھا جائے باقی باہر جا کر لڑے، فوج کو با ہر نکال کر اندر سے دروازے بند کر دیے گئے اتنے میں افواج غزنی کی پچھلی جانب بھی ایک راجہ کی فوج حملہ آور ہوئی انکے لیے سلطان نے پہلے سے ہی انتظام کر رکھا تھا سلطان کا مقدمۃ الجیش قلعہ سے نکلنے والوں کیساتھ لڑ رہے تھے اور پچھلی جانب والے دستے دوسرے راجہ کی فوج کیساتھ لڑ رہے تھے اور درودیوار توڑنے والے کاریگر اپنے کام میں مصروف تھے ۔

اتنے میں باہر والی دونوں فوجوں کو غزنی کی فوج نے جذبہء ایمانی کے زور پر تہ تیغ کر ڈالا ادھردروازے بھی کھل گئے جب یہ ساری خبر اندر والے محافظین کو پتہ چلی تو وہ قلعہ کے پچھلے دروازے سے کشتیوں پر بھاگ نکلے سلطان نے حکم دیا کہ کوئی بھی فوجی بچنے نہ پائے ہمیں جنگی قیدیوں کی ضرورت نہیں سومنات کا بت سلطانکے سامنے تھا ۔

سلطان نے حکم دیا کہ شودیو بت کے چار ٹکڑے کیے جائیں ایک سلطان غزنی کے محل پر دروازے والی جگہ پر نصب ہو گا دوسرا غزنی کی جامع مسجد کے راستے میں تیسرا مکہ شریف اور چوتھا مدینہ شریف کے راستے میں تاکہ ہر آنے جانے والے کے قدموں اسکو روندا جاسکے۔

اتنے میں دو بڑے پنڈت سلطان کے قدموں میں گڑ پڑے انہوں نے کہا کہ ہم سلطان کو منہ مانگی ہر چیز دینے کو تیار ہیں اگر وہ ایسا کرنے سے باز رہیں اس پر سلطان نے مسکر اکر تھکے ہوئے لہجے میں کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بروز قیامت خدا تعالیٰ مجھے بت شکن کہہ کے پکارے نا کہ بت فروش۔

۴۱۷ھ ؁ ،۱۰۲۶ھ ؁میں خلیفہء وقت قادر باللہ نے سلطان کو خط لکھا جسمیں سلطان کو اس لقب سے نوازا گیا’’ کہف الدولۃوالسلام‘‘کچھ دنوں بعد۱۰صفر۴۱۸ھ ؁ ،۱۲اپریل ۱۰۲۷ ء ؁ سلطان وہاں سے واپس آگیا جب واپس آیا تو طبیب شیخ ابی اسفند نے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ آپ کو اندر سے بیماریوں کی دیمک چاٹ چکی ہے آپ ابھی تک جو لڑے ہیں یہ صرف روحانی قوت ہے سلطان نے اسکی کوئی پروا نہ کی اسکے بعد سلطان نے صرف ایک ہی حملہ کیا وہ بھی بحری جاٹوں پر تھا یہ ساری لڑائی لشکر غزنی نے کشتیوں میں ہی لڑی تھی۔

اس معرکہ سے سلطان جولائی ۱۰۲۸ء ؁ کے آخری دنوں میں واپس آئے آبی جنگ کی وجہ سے سلطان کا ملیریا ،مرض دق کی صورت اختیار کر چکا تھا۔

سلطان نے اپنی ۵۹ سالہ زندگی کے تقریباََ۴۰ سال کا عرصہ کوچ اور میدان جنگ میں گزارے سلطان محمود غزنوی نے ۳۲ سال حکومت کی اور ۲۳ ربیع الثانی۴۲۱ھ ؁، ۳۰ اپریل ۱۰۳۰ء ؁ بروز جمعرات تقریباََ ۵ بجے شام سلطان نے سفر واپسی الیٰ الحق اختیار کیا۔

سلطان نے سوگواران میں ایک بیوی نور حرم (والی جرجان ابوالحرث احمد ابن محمد کی بیٹی ) اور تین بیٹے مسعود ، محمد ، عبدالرشید(انکے علاوہ بھی سلطا ن کے چا ربیٹے تھے لیکن انکا تذکرہ کتب تاریخ میں وضاحت سے نہیں ملتا)چھوڑے ۔

سلطان کو غزنی سے کچھ میل کے فاصلے پر باغ میں سپرد خاک کر دیا گیا سلطان کے بیٹے محمود غزنوی نے سلطان کے شایان شان مزار بنوایا۔

۵۴۷ھ ؁ میں علاؤالدین جہاں سوز نے سلطنت غزنی پر حملہ کر کے سلاطین غزنی کے مزارات منہدم کر
دیے لیکن تین مزارات کو چھیڑا تک بھی نہ ،بلکہ بقول اسکے کہ یہ بہادر بادشاہوں کے مزارات ہیں ان میں سے ایک سلطان کا اپنا مزار تھا دوسرا سلطان کے بیٹے محموداور تیسرا پوتے ابراہیم کا البتہ سلطان کے مزار سے بعد میں عقیدتمند آکر بطور تبرک کوئی مٹی لے جاتا ، کوئی دیوار کرید کر لے جاتا اور کوئی دروازے میں سے لکڑی نکال لیتااسطرح سلطان کا مزار کھنڈرات میں تبدیل ہوتا چلاگیا۔

سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ ماضی قریب میں ہی ؁ امریکی لارڈایلن نے ہندؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سلطان کے مزارسے دو بڑے دروازے اتروا کر ہندوستان اس گمان سے بھجوا دیے کہ یہ دروازے سلطان محمود( رحمۃاللہ علیہ) سومنات کے مندر سے اتار کر لے گئے تھے اور بعد میں سلطان مسعود غزنوی نے بطور نشانی یہ دروازے وہاں نصب کر دیے تھے جبکہ وہ یہ بھول چکا تھا کہ سلطان تو ہندو دھرم سے اتنی نفرت کرتے تھے پھر وہ بھلا ان سے منصوب نشانی اپنے والد کے مزار پر کیوں نصب کروا سکتے تھے۔

یہاں قارئین کرام سے چنداں ضروری باتیں کہ سلطان محمود غزنوی کے بارے لکھنا صرف اس لیے نہیں تھا کہ تاریخ کو دہرا لیا جائے یا اپنے فن کتابت کو چمکا لیا جائے بلکہ یہ ساری سعی جمیلہ کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے کارناموں کو یاد رکھیں اور کتابوں کے ساتھ ساتھ اپنی عملی زندگی میں بھی شامل کر یں تاکہ انکی نشانیاں ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں ۔

آخر میں سلطان محمود غزنوی (رحمۃاللہ علیہ) کے پیرومرشدمولانا ابو الحسن خرقانی (رحمۃاللہ علیہ) کا وہ قول ا پنے معزز قارئین کے لیے پیش کرتا ہوں جس نے آج سے کئی صدیاں پہلے آج کے حالات کی نشاندہی کردی تھی کہ’’اگر مسلم حکمران غیر مسلموں کے ساتھ نرمی کے تعلقات روا رکھیں گے تو ہمارے مزاروں کے درمیان خون کی ہولیاں کھیلی جائیں گیں‘‘یہ بات سلطا ن کو پیر صاحب نے ۱۰۱۸ء ؁ میں متھرا پر حملہ کرنے کے لیے جاتے وقت کہی تھی تو آج وہی ملک افغانستان جس کے شہر غزنی سے کچھ میل فاصلے پر مزار سلطان محمود غزنوی کے کھنڈرات ہیں وہاں غیر مسلموں کا مسلمانوں کے خون کے ساتھ اپنے دامن رنگنا کس کے سامنے نہیں جبکہ سلطان محمودغزنوی (رحمۃاللہ علیہ) کے کار ہائے نمایاں سر انجام دینے کے بعداگر آج بھی کوئی ہندؤں کے سامنے سلطان محمود غزنوی کا نام غلطی سے بھی پکارے تو ہندؤ بید لرزاں کی طرح لرزنے لگتے ہیں ۔
M Husnain Raza
About the Author: M Husnain Raza Read More Articles by M Husnain Raza: 5 Articles with 14878 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.