احوال قیامت، قرآن کی روشنی میں -١

اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہوسکے گی اور نہ کافر کے لئے کوئی سفارش مانی جائے اور نہ کچھ لے کر اس کی جان چھوڑی جائے اور نہ ان کی مدد ہو۔ (البقرہ ٤٨)

جب بیزار ہوں گے پیشوا اپنے پیروؤں سے اور دیکھیں گے عذاب اور کٹ جائیں گی ان کی سب ڈوریں۔ اور کہیں گے پیرو کاش ہمیں لوٹ کر جانا ہوتا (دنیا میں) تو ہم ان سے توڑ دیتے جیسے انہوں نے ہم سے توڑ دی یونہی اللہ انہیں دکھائے گا ان کے کام ان پر حسرتیں ہوکر اور وہ دوزخ سے نکلنے والے نہیں۔ (البقرہ ١٦٦،١٦٧)

اے ایمان والوں اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرو وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خریدفروخت ہے نہ کافروں کے لئے دوستی اور نہ شفاعت اور کافر خود ہی ظالم ہیں۔ (البقرہ ٢٥٤)

اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مُراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی اُن زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے۔ (الاعراف ٨،٩)۔

تفسیر

یہ روز قیامت کا بیان ہے جب مشرکین اور ان کے پیشوا جنہوں نے انہیں کفر کی ترغیب دی تھی ایک جگہ جمع ہوں گے اور عذاب نازل ہوتا ہوا دیکھ کر ایک دوسرے سے بیزار ہوجائیں گے۔

یعنی وہ تمام تعلقات جو دنیا میں ان کے مابین تھے خواہ وہ دوستیاں ہوں یا رشتہ داریاں یا باہمی موافقت کے عہد یعنی اللہ تعالیٰ ان کے برے اعمال ان کے سامنے کرے گا تو انہیں نہایت حسرت ہوگی انہوں نے یہ کام کیوں کئے تھے ایک قول یہ ہے کہ جنت کے مقامات دکھا کر ان سے کہا جائے گا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے تو یہ تمہارے لئے تھے پھر وہ مساکین و منازل مؤمنین کو دیئے جائیں گے اس پر انہیں حسرت و ندامت ہوگی۔

اس طرح کہ اللہ عزوجل ایک میزان قائم فرمائے گا جس کا ہر ایک پلہ اتنی وُسعت رکھے گا جیسی مشرق و مغرب کے درمیان وُسعت ہے۔ ابنِ جوزی نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ الصلٰوۃ و السلام نے بارگاہِ الٰہی میں میزان دیکھنے کی درخواست کی جب میزان دکھائی گئی اور آپ نے اس کے پلوں کی وُسعت دیکھی تو عرض کیا یا ربّ کس کا مقدور ہے کہ ان کو نیکیوں سے بھر سکے ارشاد ہوا کہ اے داؤد میں جب اپنے بندوں سے راضی ہوتا ہوں تو ایک کھجور سے اس کو بھر دیتا ہوں یعنی تھوڑی نیکی بھی مقبول ہوجائے تو فضلِ الٰہی سے اتنی بڑھ جاتی ہے کہ میزان کو بھر دے ۔

تم سے قیامت کو پُوچھتے ہیں کہ وہ کب کو ٹھہری ہے تم فرماؤ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے اسے وہی اس کے وقت پر ظاہر کرے گا بھاری پڑرہی ہے آسمانوں اور زمین میں تم پر نہ آئے گی مگر اچانک تم سے ایسا پوچھتے ہیں گویا تم نے اسے خوب تحقیق کررکھا ہے تم فرماؤ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے لیکن بہت لوگ جانتے نہیں۔ (الاعراف ٨،٩)

شانِ نُزول : حضرتِ ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا تھا کہ اگر آپ نبی ہیں تو ہمیں بتائیے کہ قیامت کب قائم ہوگی کیونکہ ہمیں اس کا وقت معلوم ہے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی ۔

قیامت کے وقت کا بتانا رسالت کے لوازم سے نہیں ہے جیسا کہ تم نے قرار دیا اور اے یہود تم نے جو اس کا وقت جاننے کا دعوٰی کیا یہ بھی غلط ہے، اللہ تعالٰی نے اس کو مخفی کیا ہے اور اس میں اس کی حکمت ہے۔

اور ہرگز اﷲ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے انہیں ڈھیل نہیں دے رہا ہے مگر ایسے دن کے لئے جس میں آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جائیں گی۔ بے تحاشا دوڑتے نکلیں گے اپنے سر اٹھائے ہوئے کہ ان کی پلک ان کی طرف لوٹتی نہیں اور ان کے دلوں میں کچھ سکت نہ ہوگی۔ اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جب ان پر عذاب آئے گا تو ظالم کہیں گے اے ہمارے رب تھوڑی دیر ہمیں مہلت دے کہ ہم تیرا بلانا مانیں اور رسولوں کی غلامی کریں تو کیا تم پہلے قسم نہ کھا چکے تھے کہ ہمیں دنیا سے کہیں ہٹ کر جانا نہیں۔ (ابراہیم ٤٢ تا٤٤)

جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم نے عذاب پر عذاب بڑھایا بدلہ ان کے فساد کا۔ اور جس دن ہم ہر گروہ میں ایک گواہ انہیں میں سے اٹھائیں گے کہ ان پر گواہی دے اور اے محبوب تمہیں ان سب پر شاہد بنا کر لائیں گے اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو۔ (النحل ٨٨،٨٩)

جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا ''مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْئٍ'' اور ترمذی کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش آنے والے فتنوں کی خبر دی، صحابہ نے ان سے خلاص کا طریقہ دریافت کیا، فرمایا کتاب اللہ میں تم سے پہلے واقعات کی بھی خبر ہے، تم سے بعد کے واقعات کی بھی اور تمہارے مابین کا علم بھی۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے فرمایا جو علم چاہے وہ قرآن کو لازم کر لے، اس میں اولین و آخرین کی خبریں ہیں۔ امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اُمّت کے سارے علوم حدیث کی شرح ہیں اور حدیث قرآن کی اور یہ بھی فرمایا کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کوئی حکم بھی فرمایا وہ وہی تھا جو آپ کو قرآنِ پاک سے مفہوم ہوا۔ ابوبکر بن مجاہد سے منقول ہے انہوں نے ایک روز فرمایا کہ عالم میں کوئی چیز ایسی نہیں جو کتاب اللہ یعنی قرآن شریف میں مذکور نہ ہو اس پر کسی نے ان سے کہا سراؤں کا ذکر کہاں ہے؟ فرمایا اس آیت '' لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتاً غَیْرَ مَسْکُوْنَۃٍ فِیْھَا مَتَاعٌ لَّکُمْ الخ'' ابنِ ابو الفضل مرسی نے کہا کہ اولین و آخرین کے تمام علوم قرآنِ پاک میں ہیں ۔ غرض یہ کتاب جامع ہے جمیع علوم کی جس کسی کو اس کا جتنا علم ملا ہے اتنا ہی جانتا ہے ۔

اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے سے لگادی ہے اور اس کے لئے قیامت کے دن ایک نوشتہ نکالیں گے جسے کُھلا ہوا پائے گا۔ فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ پڑھ آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے۔ (بنی اسرائیل ١٣،١٤)

اور جسے اللہ راہ دے وہی راہ پر ہے اور جسے گمراہ کرے تو ان کے لئے اس کے سوا کوئی حمایت والے نہ پاؤ گے اور ہم انہیں قیامت کے دن ان کے منہ کے بل اٹھائیں گے اندھے اور گونگے اور بہرے ان کا ٹھکانا جہنم ہے جب کبھی بجھنے پر آئے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔ یہ ان کی سزا ہے اس پر کہ انہوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا اور بولے کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا سچ مچ ہم نئے بن کر اٹھائے جائیں گے۔ (بنی اسرائیل ٩٧،٩٨)
Haris Khalid
About the Author: Haris Khalid Read More Articles by Haris Khalid: 30 Articles with 60386 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.