کیا مستقبل میں سابق صدر مشرف کا کوئی سیاسی کردار ہو گا؟

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا طرہ امتیاز یہی ہے کہ وہ جو کچھ صحیح سمجھتے ہیں۔ اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ان کی آمد کے بارے میں ایک عرصے سے چہ مگوئیاں ہورہی ہیں۔ انہوں نے اپنے ۹ سالہ اقتدار میں دوست اور دشمن خوب پیدا کئے۔ گو ان کے سیاست میں حصہ لینے پر سرکاری ملازمین پر عائد دو سالہ مدت کی آئینی بندش میں ابھی کئی مہینے باقی ہیں،(یہ پابندی اس سال کے اواخر تک ختم ہو رہی ہے)، پرویز مشرف پاکستان کی سیاست کے خدوخال سدھارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سیاست میں آنے، دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کا عندیہ بھی دیا۔ اور وہ دوبارہ صدارت کے منصب پر فائز ہونے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بھرپور طور پر زندگی انجوئے کررہے تھے۔ کہ پاکستانی سیاست کے کانٹوں نے ایک بار پھر انہیں گھسیٹ لیا ہے۔ بات پہلے ان گھر کی بجلی سے شروع ہوئی، بجلی کی عدم فراہمی نے ہر پاکستانی کو اس بارے میں حساس بنا دیا ہے۔ ان کے فارم ہاﺅس کو جنہوں نے قوائد کو بالائے طاق رکھ کر بجلی فراہم کی تھی۔ انہوں نے ہی یہ فائیلیں نکال کر میڈیا والوں کو پیش کردی۔ اقتدار جانے کے بعد پاکستانی سیاست میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ کونسی فائل کس وقت کھولنی ہے۔ یہ ان اہلکاروں کو خوب پتہ ہے۔

پرویز مشرف کے گولف کھیلنے، برج کھیلنے، لیکچر دینے کی خبروں کے ساتھ ہی ق لیگ میں ان کی آمد کی خبریں بھی تھیں۔ آنے والے دنوں کی تیاریوں کے لئے یوں بھی نئی صف بندیاں ضروری ہیں۔ لندن کے ذاتی فلیٹ میں اپنے دوستوں سے ملاقات، بریج کا کھیل، انٹرویو، کانفرنسوں میں لیکچر ان کے مشاغل اور ایک محب الوطن پاکستانی کے طرح ملکی خدمت کیلئے خود کو وقف کرنے کیلئے تیار پرویز مشرف ابھی ہوم ورک میں مصروف تھے کہ ان کا راستہ روکنے کے اقدام ہونے لگے۔ ابتدائی طور پریز مشرف عملی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد ان دنوں اپنے کاروبار پر توجہ دے رہے تھے۔

اس امر کا انکشاف مصری روزنامے "البدیل نے کیا تھا۔ اخبار کے مطابق پرویز مشرف نے برطانیہ کے دورے سے واپسی پر خفیہ طور پر مصر گئے۔ پرویز مشرف نے یہ دورہ مشہور مصری بزنس مین اور ٹیلی کام گروپ "اورسکام" کے مالک نجب ساویرس کی دعوت پر کیا تھا۔ اس دورے کے دوران سابق پاکستانی صدر نے سخت سیکیورٹی میں قاہرہ کے "فورسیزن" ہوٹل میں قیام کیا تھا۔ مسلم لیگ ق صدارت کے مسئلے پر مزید تقسیم ہوگئی ہے۔ اور اب کنگز پارٹی میں مشرف کے قدم رکھنے کی جگہ نہیں رہی ہے۔ لیکن سابق صدر مشرف کو اب بھی پیر صاحب پگارا کی آشیر باد حاصل ہے۔ جو ملکی سیاست کی ایک کرشماتی شخصیت ہیں۔ بعید نہیں کہ اس بار بھی سیاست میں نیا گل کھل جائے۔

سپریم کورٹ نے ۳ نومبر ۲۰۰۷ کی ایمرجنسی اور پی سی او ججوں کی برطرفی کے کیس میں سابق صدر جنرل مشرف کو عدالت میں طلب کر کے اپنی صفائی میں بولنے کا موقع دیا ہے اس بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مشرف کو طلب کرلیا ہے۔ اور مشرف عدالت میں نہیں آئیں گے۔ لیکن سابق صدر نے اپنے انٹرویو میں واشگاف لہجے میں کہا ہے کہ میں واپس ضرور جاﺅں گا۔ عدالتوں کا سامنا کرنے کو تیار ہوں اور یہ کہ ق لیگ کی قیادت کی پیش کش ہوئی تو قبول کرلوں گا۔

یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ جوں جوں یہ کیس آگے بڑھے گا سپریم کورٹ دوسرے فریقین کو بھی عدالت میں طلب کرے گی۔ وہ فریق سپریم کورٹ کے فیصلہ کرنے والے جج بھی ہو سکتے ہیں اور جنرل مشرف کے وکیل بھی۔ وہ جنرل مشرف کی حکومت کے وزراء بھی ہو سکتے ہیں اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی۔ ایک طبقہ یہ امید بھی کر رہا ہے کہ جنرل مشرف سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوں گے بلکہ وہ ملک واپس بھی نہیں آئیں گے۔ بعض حلقے پرویز کو مقام عبرت بنا دینا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کی گردن پتلی ہے۔ اس لئے ان پر مقدمہ چلے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں عبرت ناک سزا دی جائے ۔ ان کی پاکستان میں ساری جائیداد ضبظ کر لی جائے۔ نصاب کی کتابوں میں ان کے غیرقانونی اقدامات کو مخصوص جگہ دی جائے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں ایسے اقدامات اٹھانے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کے کالے کرتوتوں پر لعنت بھیجتے رہیں۔

لیکن یہ ایک پنڈورا بکس ہے۔ سوال یہ ہے کہ مشرف کے اقدامات میں شریک سیاستدانوں کو ان جرائم سے کیسے مبرا قرار دیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ ایوب خان، یحیی خان، اور ضیاءالحق ان کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں، ان کو راستہ دینے والے عدلیہ کے ارکان کے خلاف بھی کاروائی کرے۔ دنیا میں آمر کی لاشوں کو نکال کر ان پر مقدمے چلائے جارہے ہیں۔ ہمارے یہاں پک اینڈ چوز کی پالیسی کیوں ہے۔ ہماری قومی اسمبلی اور سینٹ کو بھی ایسے قوانین پاس کرنے چاہئیں جن کی رو سے ڈکٹیٹر کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں کو نہ صرف ہمیشہ کیلیے نا اہل قراد دے دیا جائے بلکہ ان کیلیے اس سے بھی کڑی سزا تجویز کی جائے۔ کیونکہ ایسے ڈکٹیٹروں کو اگر کسی نے سہارا دیا ہے تو وہ ایسے مفاد پرست سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو قومی مفاد پر خود غرضی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر چوہدری برادران، مشاہد حسین، وصی ظفر، شیخ رشید، درانی، ظفراللہ جمالی، ڈاکٹر شیر افگن وغیرہ جنرل مشرف کی جھولی میں نہ بیٹھتے تو یہ کھیل آگے نہیں بڑھتا۔ایک معاصر اخبار نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ اس کیس کو آگے بڑھانے سے پہلے سپریم کورٹ کو اپنے چودہ رکنی بنچ پر نظرثانی کرنی چاہیے اور ان ججوں کو بنچ میں نہیں رکھنا چاہیے جو ایمرجنسی اور ججوں کی برطرفی کے اقدامات سے متاثر ہوئے۔

۶۰۰۲ ء کے اختتام تک مشرف پاکستان کی مقبول شخصیت تھے۔ امریکہ ان کا سب سے بڑا سرپرست تھا۔ پاکستان کے سیاست دانوں کا بڑا حلقہ ان کے گرد حلقہ ڈالے ہوئے تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی برطرفی کے بعد مختلف واقعات اور فیصلوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جن سے جنرل (ر) مشرف کی ساکھ بری طرح گری اور ایوان صدر سے ان کے رخصتی کے دن قریب تر آتے چلے گئے۔ اور اگلے ہی سال اسی ملک کی انتہائی نا پسندیدہ شخصیت بن گئے۔ جولائی میں چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی٬ سپریم کورٹ کے فیصلے سے خود کو بچانے کے بحیثیت آرمی چیف 3 نومبر کی ایمرجنسی آرمی چیف کے عہدے کا چھوڑنا٬ بدنام زمانہ این آر او، سیاسی حمایت کیلئے بینظیر کے ساتھ مشکوک ڈیل٬ سعودی عرب کے دباؤ پر نواز شریف کی وطن واپسی٬ بینظیر کا قتل٬ فروری 2008 ء کے انتخابات اور کنگز پارٹی ق لیگ کی شکست٬ آصف زرداری کا مضبوط رہنماء کے طور پر سامنے آنا، سابق آمر کا سیاسی طور پر تنہا ہو جانا، امریکہ کی جانب سے نظریں پھیر لینا، اپنی اتحادی جماعت اور سابق ادارے سے دوری، اور سب سے بڑھ کر لال مسجد میں لاتعداد معصوم بچیوں، نوجوانوں، کا قتل عام، چند ایسے واقعات ہیں جنہوں نے جنرل مشرف کے زوال پر مہر ثبت کی ہے۔ ان میں سیاست دان ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے ہیں۔ جنرل( ر) مشرف کے 8 سالہ دور اقتدار میں جو نشیب و فراز اور موڑ آئے ہیں۔ انہوں نے کبھی توقع بھی نہ کی کہ ان کی کیریئر میں ایسا موڑ آئے گا کہ ان کی کمانڈو حکمت عملی، ٹیکنیک اور سٹریٹجی دھری کی دھری رہ جائے گی۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 385692 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More