نوجوان فیس بک سے ناراض ہوگئے

مارک ذیربرگ امریکی کمپیوٹر ،انٹرنیٹ ماہر ہیں۔انکی شہرت فیس بک کے بانیوں کے طور پر ہے۔اپریل 2013 میں وہ فیس بک کے سربراہ اور چیف ایگزیکیوٹیو بن گئے اور اب انکی ذاتی دولت کا اندازہ 16.8بلین امریکی ڈالر لگایا گیاہے۔ شوشل میڈیاکے حوالے سے مشہور فیس بک کا آغاز فروری سنہ 2004 میں امریکی طالبعلم مارک زکربرگ اور اس کے ساتھیوں نے کیا تھا اور آج دنیا بھر میں اس کے ایک ارب کے لگ بھگ صارفین ہیں۔ مارک زکربرگ اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی کے طالبعلم تھا اور اس نے یہ سہولت اپنے ہاسٹل کے کمرے سے اپنے چند دوستوں کی مدد سے شروع کی تھی اور اس کا مقصد ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے جاننے کے سلسلے میں طلباکی مدد کرنا تھا۔اس کے آغاز کے چوبیس گھنٹے کے اندر ہارورڈ کے بارہ سو طلبا اس پر اندراج ہوگئے تھے اور جلد ہی یہ جال دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پھیل گیا۔ سنہ 2005 کے آخر میں فیس بک کو برطانیہ میں متعارف کروایا گیا اور آج فیس بک کی سہولت دنیا کی ستر سے زیادہ زبانوں میں موجود ہے۔سماجی ویب سائٹس کی بات کی جائے تو بے شک فیس بک معروف ترین سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ہے۔ تاہم اب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد فیس بک کو استعمال نہیں کر رہی۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ فیس بک کے صارفین کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ جس سے اس کے مالکان پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ فیس بک پر نوجوان صارفین کے رجحانات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک اب بدل چکا ہے۔ ان کا مطلب ہے کہ نوجوان اب فیس بک کو زیادہ استعمال نہیں کر رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2013ء میں فیس بک کو ایک مسئلے کا سامنا رہا ہے، وہ یہ کہ 35 سال سے کم عمر کے بہت سے افراد نے فیس بک چھوڑ کر دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا انتخاب کر لیا ہے۔ برلن کے انسٹیٹیوٹ برائے کمیونیکیشن اینڈ سوشل میڈیا سے منسلک کارسٹن وینسلاف Karsten Wenzlaff کہتے ہیں کہ ابھی تک دیگر سماجی نیٹ ورکس کے مقابلے میں فیس بک انتہائی مضبوط تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’سماجی ویب سائٹس کا اصل مقصد دوستوں اور جاننے والوں سے رابطے میں رہنا ہے۔ لیکن اب موبائل ٹیلیفون میں بھی وَٹس ایپ یا اسی طرح کی کئی دیگر ایپلیکیشنز آ گئی ہیں، جو یہ کام کرتی ہیں۔ صرف یہ ایپس ڈاؤن لوڈ کر لیں اور ٹیلیفون میں موجود تمام نمبر خود بخود اس ایپ میں منتقل ہو جاتے ہیں۔‘‘
 

image

کارسٹن وینسلاف ان ایپس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان ویب سائٹس کو مزید ترقی دینے یا جدید بنانے کے مواقع محدود ہیں اور یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے بقول فیس بک کے بارے میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ پلیٹ فارم بہت پرانا ہو چکا ہے۔ فیس بک کے مالیاتی شعبے کے سربراہ ڈیوڈ ایبرزمَین David Ebersman نے تبدیل ہوتے ہوئے اس رجحان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسی وجہ سے فیس بک کے حصص کی قیمتوں میں عارضی طور پر کمی آئی ہے۔ وینسلاف کہتے ہیں کہ بے شک نوجوان فیس بک چھوڑ رہے ہیں لیکن کمپنی کی کوشش ہے کہ نئی ایپلیکیشنز اور نئے فیچرز متعارف کرانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے تاکہ صارفین کی تعداد بھی برقرار رکھی جا سکے۔ فیس بک معاشرے کے ہر طبقے اور ہر مزاج کے لوگوں کے لیے کوئی نہ کوئی نیٹ ورک بنانا چاہتا ہے۔ نوجوان اب تصاویر اور ویڈیو شیئرنگ کے لیے Instagram استعمال کرتے ہیں۔ چَیٹنگ کرنے کے لیے وَٹس ایپ اور اسنَیپ چَیٹ وقت کے ساتھ ساتھ معروف ہوتے جا رہے ہیں۔ کارسٹن وینسلاف کے بقول آج کل رجحان یہ ہے کہ سب کچھ ایک ہی سماجی ویب سائٹ پر موجود ہو۔ آج سے چند سال قبل جب فیس بک کو شہرت ملی، تواْس وقت فیس بک کے ایپس صرف اِسی سماجی ویب سائٹ تک محدود تھے۔ تاہم اب لوگوں کی خواہش ہے کہ انہیں مختلف کاموں کے لیے مختلف ایپس دستیاب ہوں۔لیکن اس صورتحال کے باوجود نوجوانوں میں آخر فیس بک کے غیر مقبول ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اس حوالے سے ماہرین کہتے ہیں کہ کم سن افراد اور نوجوانوں کے مابین فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ پسند نہیں کہ ان کے والدین یا اساتذہ بھی انہی کے نیٹ ورک پر موجود ہوں۔ کارسٹن وینسلاف کے بقول بچے اکثر ان جگہوں پر جانے سے کتراتے ہیں، جہاں ان کے والدین بھی موجود ہوں۔ اس کے علاوہ فیس بک پر نجی معاملات کی سکیورٹی بھی ایک مسئلہ رہی ہے۔ کارسٹن وینسلاف کہتے ہیں بنیادی طور پر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سماجی نیٹ ورکس کو اس سلسلے میں مزید کام کرنا ہو گا اور خود کو بہتر اور جدید بنانا ہو گا۔

سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کا تجزیہ کرنے والے ایک ادارے کے مطابق رواں سال کے دوران صرف امریکا میں فیس بک کے صارفین میں 1.2 ملین کی کمی آئی ہے۔ میونخ میں قائم ذرائع ابلاغ کے ایک ادارے کے نِیلز بروگن کہتے ہیں کہ فیس بک کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کے بقول سوشل میڈیا کا کاروبار بہت بڑھ چکا ہے اور یہ پلیٹ فارم معاشرے کا حصہ بن گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جرمن سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ سٹْوڈی فاؤ زیٹ Studi - VZ فیس بک کی وجہ سے مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی مثال یہ ہے کہ اس ویب سائٹ کو خود کو 2009 میں اسپین، فرانس، اٹلی اور پولینڈ تک بڑھانا پڑ گیا تھااگر مالی منڈیوں میں فیس بْک کے حصص کی قیمتوں کا گراف بلندی کی طرف جا رہا ہے تو دوسری جانب اس کو استعمال کرنے والے ٹین ایجر گروپ میں خاصی کمی کا رجحان سامنے آیا ہے۔رواں برس کے دسویں مہینے اکتوبر کے اختتام پر فیس بْک کے حصص کی قیمتیں گزشتہ برس کے مقابلے میں پندرہ فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں۔ امریکا میں تیس ستمبر کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران فیس بْک کو حاصل ہونے والے منافع کا حجم 425 ملین امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔ سن 2012 میں اکتوبر ہی کے مہینے میں فیس بْک کے حصص کی قیمتیں گرنے کے عمل سے دوچار تھی۔ بعض تجزیوں سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن اس کے نوجوان اور خاص طور پر ٹین ایجر یْوزرز میں کمی کا رجحان سامنے آیا ہے۔ٹین ایجرز میں کمی کے رجحان سے فیس بْک کے حصص کی قیمتوں میں کمی بھی واقع ہوئی۔ انڈیپینڈنٹ سیلیکون ویلی کے تجزیہ کار راب اینڈرلی (Rob Enderle) کا کہنا ہے کہ حصص میں کمی یقینی ہے کیونکہ حصص کی قیمتوں کو کسی حد تک فیس بْک کے ساتھ ٹین ایجرز کی محبت اور لگاؤ سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ اینڈرلی کے مطابق مالی منڈیاں متلون المزاج ہوتی ہیں اور ایسے میں فیس بْک یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ ٹین ایجرز اْس سے دور جائیں۔ مبصرین کے خیال میں اگر ابھرتی نسل کے منہ موڑنے کا تعین ہو جاتا ہے تو فیس بک ادارے کے مستقبل پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔مختلف دوسرے تجزیہ کاروں کی طرح راب اینڈرلی بھی اس خیال سے متفق ہیں کہ نوعمر اور ٹین ایجرز فیس بْک کے مستقبل کا سرمایہ ہیں اور فیس بْک ایسے سرمائے سے کسی صورت ہاتھ دھونے کو تیار نہیں ہے۔ فیس بْک کے چیف فنانشل افسر ڈیوڈ ایبرزمین نے اپنے ادارے کے تجزیاتی ٹیسٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ سردست امریکا میں کم عمر اور ٹین ایجرز اْن کے ادارے سے دور نہیں ہو رہے۔ ڈیوڈ ایبرز مین کے مطابق فیس بْک کے یوزرز میں گزشتہ سال کی اکتوبر پر ختم ہونے والی سہ ماہی کے مقابلے رواں برس کی اِسی سہ ماہی میں 25 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح فیس بْک پر اشتہارات کی مد میں بھی 49 فیصد اضافے کا بتایا گیا ہے۔دوسری جانب فیس بْک ادارے کے چیف ایگزیکٹو مارک زوکر بیرگ کے مطابق دنیا بھر میں پچھلے دس برسوں سے فیس بْک دنیا کے مختلف ملکوں کے لوگوں کو ایک رابطے میں منسلک کرنے میں مصروف ہے۔ اپنے مالی وسائل میں اضافے کے تناظر میں زوکر بیرگ کا کہنا ہے کہ ان کا پلان ہے کہ اگلے کچھ عرصے میں کم از کم مزید پانچ ارب افراد کو فیس بْک کے ذریعے منسلک کر کے نالج اکانومی کو مزید تقویت دی جائے۔ فیس بْک اس کو بھی پلان کر رہی ہے کہ کسی بھی یْوزر کو جب وہ آن لائن ہو تو کسی مشکل صورت حال پر اٹھائے گئے سوال کا فوری طور پر جواب دیا جائے اور زوکر بیرگ کے مطابق اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ ادارے کی مجموعی ساکھ کے لیے انتہائی قوت بخش عمل ہو گا۔ فیس بک پر اب فحش تصاویر اور کال گرل کے رابطوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے۔ فیس بک پر خواتین کی تصویروں کو ڈال کر انھیں ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کے واقعات کو بھی دنیا بھر میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دنوں سماجی رابطوں کی مقبول ویب سائٹ فیس بک نے ڈیٹنگ سے متعلق اشتہار شائع کرنے پر معافی مانگی ہے جس میں خودکشی کرنے والی سترہ سالہ لڑکی کو دکھایا گیا تھا۔کینیڈا کے صوبے نووا سکوشیا کی رہائشی 17 سالہ ریہتایہ پارسنز نے رواں سال اپریل میں اس وقت خودکشی کی جب اس کی فحش تصاویر فیس بک پر لگا دی گئی تھیں۔ اس لڑکی کی ماں کے مطابق اس وقت تصویر شائع ہونے کے بعد پارسنز کو بہت زیادہ تنگ کیا گیا جس پر اس کی بیٹی نے خودکشی کر لی۔ پارسنز کے والد نے بتایا کہ تصویر شائع ہونے کے بعد ان کی بیٹی زندگی سے بیزار ہو گئی تھی۔فیس بک کے مطابق اس واقعے میں ملوث ویب سائٹ پر پابندی لگا دی ہے۔لیکن اس جیسے واقعات کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔فیس بک کے ایک ترجمان کے مطابق’یہ ایک انتہائی بدقسمت مثال ہے جس میں ایک اشتہاری کمپنی نے انٹرنیٹ کے لیے ایک تصویر حاصل کی تاکہ اس کو اشتہار میں استعمال کیا جا سکے‘۔’یہ ہماری پالیسی کی کھلی خلاف ورزی ہے اور ہم نے اس اشتہار کو ہمیشہ کے لیے ویب سائٹ سے ہٹا دیا ہے اور اشتہاری کمپنی کا اکاؤنٹ بند کر دیا ہے‘۔ترجمان کے مطابق’ جس کو اس واقعے سے تکلیف پہنچی ہے ہم اس سے معافی مانگتے ہیں‘۔پارسنز کی والدہ کے مطابق اشتہار میں استعمال کی جانے والی تصویر ایک تقریب میں شرکت کی تھی اور اس دوران بہت زیادہ شراب نوشی کرنے کے بعد ہوش میں نہیں رہیں تھی۔کمپنی کی اشتہاری مہم کا عنوان تھا’کینیڈا میں اپنا پیار تلاش کریں‘یہ ویب سائٹ اب آن لائن نہیں ہے۔متاثرہ لڑکی کی والدہ نے ٹی وی چینل سی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’لوگوں نے اسے ہراساں کیا، جن لڑکوں کو وہ جانتی نہیں تھی انہوں نے اسے پیغامات بھیجنے شروع کر دیے۔اس کے بعد عدالت میں دو نوجوان پر پورنو گرافی کا الزام عائد کیا گیا۔جن پر اب مقدمہ چل رہا ہے۔ متاثرہ لڑکی کے والد نے اشتہاری ادارے کو خبردار کیا تھا اور اپنے ایک بلاگ میں اس واقعے پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ اب نووا سکوشیا کی حکومت نے اس واقعے کے بعد ایک خصوصی پولیس یونٹ قائم کیا ہے تاکہ انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کو روکا جا سکے۔ دوسری جانب فیس بک پر کیا شائع ہو کیا نہ ہو اس پر بھی بحث جاری ہے۔ اس سماجی ویب سائٹ کو امریکہ اور دیگر ممالک کی جاسوس ایجنسیاں بھی استعمال کر رہی ہیں۔ اس بارے میں فیس بک نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 70 سے زائد ملکوں میں حکومتی ایجنٹس نے فیس بک استعمال کرنے والے ہزاروں افراد کے بارے میں معلومات طلب کی۔ فیس بک کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں نے تقریباً 38000صارفین کے بارے میں معلومات مانگی، جِن کی نصف تعداد ایسے افراد کی ہے جن کے بارے میں امریکی حکام نے ڈیٹا طلب کیا۔فیس بک کا کہنا ہے کہ ادارے کی تیار کردہ رپورٹ میں پہلی جنوری سے 30جون تک کی مدت کا احاطہ کیا گیا ہے جس دوران جن حکومتوں نے ایسی درخواست کی اْنھیں شامل کیا گیا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹس، مثلاً فیس بک اور ٹوئٹر سرگرم کارکنوں کے لیے منظم ہونے کا پلیٹ فارم بن سکتی ہیں، جس کے باعث حکومتیں اْنھیں ہدف بناتی رہتی ہیں۔ اِس سال کے اوائل میں حکومت مخالف بڑے اجتماعات کے تناظر میں، ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے سماجی میڈیا کو ’معاشرے کی بدترین لعنت‘ قرار دیا۔مائکروسافٹ اور گوگل نے بھی اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ حکومتوں کی طرف سے کب کب اْن کے صارفین کے بارے میں معلومات کا تقاضا کیا۔جائے یا نہیں؟ اِس بارے میں، اِن دِنوں ناظرین کی طرف سے مختلف آرا پیش کی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں فیس بک پر یہ تنازعہ بھی درپیش ہے کہ سر قلم کیے جانے کی وڈیوز کو انٹرنیٹ کے اِس معروف سماجی میڈیا پر پوسٹ کیے جانے کی اجازت دے۔آزادیِ اظہار کے ضمن میں اِن دِنوں فیس بک پر ایک تنازع جاری ہے، جِس میں سر قلم کیے جانے کی وڈیوز کو انٹرنیٹ کے معروف سماجی میڈیا پر پوسٹ کرنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کے بارے میں مختلف آرا پیش کی جا رہی ہیں۔مئی میں سر قلم کیے جانے سے متعلق وڈیوز کو شائع کیے جانے پر پابندی لگائی گئی تھی، کیونکہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ عمل متعدد ناظرین، خصوصاً جواں سال افراد کے نفسیاتی احساسات پر گراں گزر سکتا ہے۔تاہم، امریکہ میں قائم اِس ادارے نے حالیہ دِنوں میں یہ پابندی اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پالیسی اِس لیے بدلی جا رہی ہے کہ ناظرین عالمی واقعات کے بارے میں اطلاعات کا تبادلہ کر سکیں، جِن میں دہشت گرد حملے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات شامل ہیں۔
 

image

لیکن، ادارے نے جوں ہی یہ پالیسی بدلی، فیس بک کو ایک نئی تنقید کا سامنا رہا جس میں میکسیکو میں منشیات سے متعلق تشدد کے واقعے میں ایک خاتون کا سر قلم کیا گیا، اور وہ خون میں لت پت پڑی تھی۔برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے فیس بک کے خلاف حملوں میں شریک ہوئے۔ اْنہوں نے کہا کہ کمپنی نے خون آلود واقعے کی وڈیو شائع کرنے کی اجازت دے کر ’غیر ذمہ داری‘ کا ثبوت دیا، خصوصی طور پر یہ انتباہ نہ دے کر کہ کچھ ناظرین کو یہ ناگوار گزرے گا۔ احتجاج پر رات گئے، فیس بْک نے خاتون کی یہ وڈیو ہٹالی اور تشدد پر مبنی تصاویر کو شائع کرنے سے متعلق اپنے مؤقف کی وضاحت پیش کی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسی وڈیوز شائع کرنا قابلِ قبول نہ ہوگا، اگر یہ عام لوگوں کے مفاد اور تشویش کا باعث ہوں، ایسے میں جب فیس بک استعمال کرنے والوں نے اکثر تشدد کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔سماجی ابلاغ کے ایک امریکی ماہر، پال لیونسن نے، جو ’فوردھام یونیورسٹی‘ کے پروفیسر ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قانونی طور پر فیس بک یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ سائٹ پر کون سی وڈیو شائع ہو اور کون سی نہیں، جن میں سر قلم کرنے کی وڈیوز بھی شامل ہیں۔ تاہم، اْنھوں نے سوال کیا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ کسی خاص واقعے کو سمجھنے کے لیے بھیانک قسم کی تصاویری جھلک دکھائی جائے ۔ فیس بک پر آنا یوں بھی خطرناک ہوگیا ہے کہ اب کسی بھی وقت امریکہ آپ کو جاسوسی کے الزام میں یا دھشت گردی کا الزام لگ کر گرفتاری کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ حال ہی میں امریکا میں ایک پاکستانی شہری کو شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف جہادی گروپ کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہونے کا منصوبہ رکھنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ اگر عبدا لباسط شیخ پر جرم ثابت ہو جائے تو انھیں 15 سال تک جیل اور 2 لاکھ 50 ہزار امریکی ڈالر جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ عبدالباسط جاوید شیخ پر جن کی عمر 29 سال ہے الزام ہے کہ انھوں نے القاعدہ سے منسلک شامی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار جہادی گروپ میں شامل ہونے کا منصوبہ بنایا۔ ان پر فردِ جرام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے بیرونی دہشت گرد ادارے کو امداد فراہم کرنے کی کوشش کی۔ایک خبر رساں ادارے کے مطابق عبدالباسط شیخ کے والد جاوید شیخ نیاس کی تردید کی اور کہا کہ وفاقی حکومت نے ان کے بیٹے پر شام میں شدت پسندوں کے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے کا غلط الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے امریکی سکیورٹی ادارے ایف بی آئی کے طرف سے اس بیان کو رد کیا کہ ان کا بیٹا جبھہ النصر نامی تنظیم میں شامل ہونا چاہتا تھا۔

عبدالباسط شیخ کو دو نومبر کو شمالی کیرولینا میں جہاز پر سوار ہونے سے پہلے گرفتار کیا گیا۔ عبدالباسط شیخ نے امریکی سکیورٹی ادارے ایف پی آئی کے ایک خفیہ اہلکار کو جبت النصر نامی گروپ کا رکن سمجھ کر ان سے رابطہ کیا۔امریکی محکمہ خارجہ اس گروپ کو القاعدہ کا شام میں ذیلی تنظیم سمجھتا ہے۔حلفیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ باسط شیخ نے ایف بی آئی کے اہلکار کو ستمبر کے اوائل میں بتایا تھا کہ انھوں نے ترکی جانے کے لیے جہاز کا یک طرفہ ٹکٹ خریدا ہے اور امید ظاہر کی کہ وہاں ان کا ایسے لوگوں سے رابطہ ہو جائے گا جو انھیں شام لے جائیں گے۔باسط شیخ پر گذشتہ ہفتے شمالی کیرولینا میں فردِ جرم عائد کیا گیا تھا، وہاں پر امریکی اٹارنی جنرل کے دفتر کے مطابق باسط شیخ نے شام جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تاکہ وہ وہاں’ کسی بھی طریقے سے مجاہدین کی مدد کرے۔‘گذشتہ ہفتے عدالت میں سماعت کے دوران شیخ باسط کو اپنی دفاع کے لیے دو سرکاری وکلا کی خدمات حاصل تھیں۔ ایف بی آئی کے اہلکار جیسن ماسلو نے اپنی حلفیہ بیان میں کہا کہ اس سال پانچ مہینے تک عبد الباسط شیخ نے اپنے فیس بک کے صفحے پر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے شدت پسندوں کے حق میں پیغامات اور ویڈیوز شائع کیے۔‘
 

image

حلفیہ بیان کے مطابق اگست میں باسط شیخ نے اسلامی شدت پسندی کو فروغ دینے والے 'فیس بک' کے صفحے پر ایف بی آئی کے خفیہ اہلکار کے ساتھ تعلقات بنائے۔ حلفیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ باسط شیخ نے ایف بی آئی کے اہلکار کو ستمبر کے اوائل میں بتایا تھا کہ انھوں نے ترکی جانے کے لیے ہوائی جہاز کا یک طرفہ ٹکٹ خریدا ہے اور امید ظاہر کی کہ وہاں ان کا ایسے لوگوں سے رابطہ ہو جائے گا جو انھیں شام لے جائیں گے۔ امریکہ ہی نہیں بلکہ اب فیس بک کے سلسلے میں پاکستان میں بھی مقدمات درج ہونے لگے ہیں۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کے پہلے مقدمے میں سماجی ویب سائٹ پر نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کرنے کے الزام میں کمالیہ سے ایک نوجوان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار ایک نوجوان کو سماجی ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔کمالیہ کی مقامی مسجد کے امام نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی تھی کہ جکھڑ سے تعلق رکھنے والے حسنین رضا اور اﷲ دتہ نے فیس بک پر شرانگیز مواد اپ لوڈ کیا ہے۔اے آروائے نیوز کے مطابق پولیس نے ملزمان کے خلاف 295 اے اور 298 اے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے جبکہ ملزم حسنین رضا کو جوڈیشل ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل ٹوبہ ٹیک سنگھ بھجوا دیا گیا ہے۔دوسرے ملزم کی تلاش جاری ہے۔فیس بک کے منتظمین کو اب یہ پریشانی لاحق ہے کہ اگر نوجوان ان واقعات کی وجہ سے اسی طرح فیس بک کی والز پر غیرفعال ہوتے گئے تو اس سوشل ویب سائٹ کا مستقبل کیا ہوگا۔ نوجوانوں کے دوبارہ اپنی طرف بلانے کے لیے فیس بک کی انتظامیہ کیا کرتی ہے، اس سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 385694 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More