پُرنم الہ آبادی

 مشہور قوالی ’’بھردوجھولی میری یا محمد ؐ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی‘‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد انکی شہرت کو چار چاند لگ گئے اور وہ عالمی سطح پرپہچانے جانے لگے۔

محمد موسیٰ ولد حاجی محمد اسحٰق جنھیں لوگ پُرنم ؔ الہ آبادی کے نام جانتے ہیں۔ سن 1940میں ہندوستان کہ مشہور شہر الہ آباد میں پیدا ہوئے ۔جب تقسیم ہند عمل میں آئی تویہ اپنے والدین اوراہل خانہ کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ بچپن ہی سے شاعری کے دلدادہ تھے۔جب جوانی میں قد م رکھا تو باقاعدہ شاعری شروع کردی۔ تقسیم ہند کے بعد ، پاکستان کا یہ وہ زمانہ تھا جب جوش ملیح آبادی ، سیمابؔ اکبر آبادی ، حضرت آرزو لکھنوئی ، حیدر دہلوی ، قمرؔ جلالوی اور بہت سے معروف شعرا اپنے شاعرانہ کمالات سے مشاعرے لوٹ لیا کرتے تھے۔ پُرنم الہ آبادی استاد قمر ؔ جلالوی کے انداز شاعری سے بے حد متاثر تھے ، آخر کار شاعری کا شدتِ عشق رنگ لایا اور انھوں نے استاد قمر جلالوی کی شاگردی اختیار کرلی۔ استاد قمر جلالوی کی اصلاح سے انکے کلام ِشاعری کو چار چاند لگ گئے۔ اور انھوں نے خصوصیت سے استاد کے رنگ میں شعر کہنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ اپنے مجموعۂ کلام ’’پھول دیکھے نہ گئے ‘‘ میں وہ کہتے ہیں۔
پرنمؔ یہ سب کرم ہے قمرؔ کا جو آجکل
ہوتاہے اہل فن میں تمہارا شمار بھی

اس دور میں زیادہ تر طرحی مشاعرے ہوا کرتے تھے ، شاعری میں جدت ہر دور میں ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ انھوں نے روائتی شاعری کی خوبیوں کے ساتھ زیادتی نہیں کی بلکہ ان خوبیوں کو اپناتے ہوئے اپنے کلام میں جدت کی۔ استاد قمر جلالوی 95سال کی عمر میں شدید بیمار ہوئے اور ایسے بیمار ہوئے کی مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دوا کی ۔ آخر 24اکتوبر کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ پرنمؔ الہ آبادی اکثر کہا کرتے تھے کہ استاد قمر ؔ کی باتیں اور یادیں تا حیات میں دل سے نہیں بھلا سکتا ۔ استاد قمر ؔ کے جانشین فضاؔ جلالوی مرحوم نے اپنی کتاب ’’رشک قمر‘‘ کے دیباچے میں استاد قمرؔ کے مشہور اور شاگردانِ خاص میں پرنمؔ الہ آبادی کا نام بھی تحریر فرمایا ہے۔ پرنمؔ الہ آبادی کہا کرتے تھے کہ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔

پُرنم الہ آبادی میرے خالو محمد یوسف ہاشمی کے چھوٹے بھائی ہیں۔میرے والد محترم پروفیسر کوثرؔ شاہجہانپوری کا شمار بھی ادبی حلقوں میں استاد شاعروں میں ہوتا تھا اکثر شعراء حضرات ان کے پاس اپنے کلام کے اصلاح کے سلسلے میں انکے پاس آیا کرتے تھے۔ پرنم ؔ الہ آبادی بھی اکثر ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ اوروالد محترم سے اپنے کلام کے بارے اصلاح لیا کرتے تھے۔اس طرح مجھے بھی ان کا کلام سننے کا موقع ملا جاتا تھا۔والد محترم انکے بارے میں تذکر ہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ’’ موسیٰ تمہارا کلام صوفیانہ ہے اور غزلیہ انداز سخن توبے حد دلکش ہے۔ تمہارے کلام میں حسن و عشق کی رنگینیاں، رعنائیاں، غم جاناں کی چاشنی، تصوف ، سبھی کچھ تو موجود ہے‘‘۔

پرنم الہ آبادی کے کلام سے انکی فکر میں گہرائی اور لہجہ میں ایک دلکش توازن و متانت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی پسندیدہ صنف سخن غزل ہے لیکن اکثر شعری خیالات تصوف کے پروردہ معلوم ہوتے ہیں۔ان کے اشعار میں عشق مجازی کے ساتھ عشق حقیقی اور عشق نبی ﷺ کارنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے۔
کاش پرنمؔ دیارِ نبی ؐ میں جیتے جی ہو بُلاوہ کسی دن
حالِ غم مصطفےٰ ؐ کو سناؤں تھام کر ان کے روضے کی جالی

پرنم الہ آبادی نے بہت سے گیت اور قوالیاں بھی لکھیں جوہند و پاک میں بے حد مقبو ل ہیں ۔ مشہور قوالی ’’بھردوجھولی میری یا محمد ؐ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی‘‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد انکی شہرت کو چار چاند لگ گئے اور وہ عالمی سطح پرپہچانے جانے لگے۔ ہندوستان کی فلموں میں انکے لکھے ہوئے گیت شامل کئے گئے ۔منّی بیگم، غلام فرید صابری قوال، نصرت فتح علی خان صاحب اور عزیز میاں قوال کی آوازنے ان کے کلام کو مزید حسن بخشا۔

پرنم الہ آبادی صرف اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھے انسان بھی تھے ۔ ایک شاعر کی حیثیت سے انھوں نے انتہائی سنجیدگی کیساتھ ادبی اور شعری سفر کو جاری رکھا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ کراچی سے لاہور منتقل ہوگئے۔ اور صوفیانہ طرز زندگی کو اپنالیا۔ایک مرتبہ جب میں لاہور داتا دربار پرحاضری کے لئے گیا تو وہاں میری پرنم الہ آبادی سے ملاقات ہوئی تھی، وہ بے حدکمزور ہوگئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ اب کراچی واپس نہیں آئیں گے تو انھوں نے کہا کہ میں یہاں ہی ٹھیک ہوں ۔ پرنمؔ شادی شدہ تھے انکی ایک بیٹی اور ایک بیٹا موجود ہیں ۔ انکے چار بھائی اور ایک بہن ہیں۔جن میں سے عبد الخالق، محمد یونس، ادریس ہاشمی اب اس دنیا میں نہیں ۔ انکی بہن جنکا نام عائشہ اور محمد یوسف ہاشمی جو کہ میرے خالو ہیں حیات ہیں۔ انھوں نے پرنم کے بارے بتایا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہمارا یہ بھائی دنیا میں نام روشن کرے گا۔ یہ ابتدا ہی سے کم گو اور درویش انسان تھا۔ کبھی کسی کو اپنا دکھ نہیں بتاتا تھااور نہ ہی اس نے ہم سے کبھی کچھ بھی طلب کیا۔ بس شاعری کا جنون تھا اور آخر کار پرنم ؔ نے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ کر سب کو حیران کردیا۔ خاندان میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پرنم ؔ یہ عزت اور مقام حاصل کرلے گا۔

29جون 2009کو انار کلی بازار، لاہور میں واقع اپنی رہائش گاہ میں پاکستان کا یہ عظیم شاعر اس دار فانی سے کوچ کرگیا۔ اس وقت انکی عمر 70برس تھی۔انکی نماز جنازہ داتا دربار ، لاہور میں ادا کی گئی جس میں تمام مکاتب فکر کے لا تعداد افراد نے شرکت کی۔ پرنمؔ کو لاہور کے مشہور قبرستان ’’میانی قبرستا ن‘‘ میں سپرد خاک کردیا گیا۔

انکے مجموعہ کلام’’پھول دیکھے نہ گئے‘‘میں انکا یہ شعر آج بھی یہ کہتا ہے۔
ہاتھ اٹھا دینا فاتحہ کے لئے
راہ میں جب مرا مزار آئے

پرنم ؔ الہ آبادی گو اب ہمارے درمیاں نہیں رہے لیکن انکا کلام آج بھی زندہ ہے۔ انکی لکھی ہوئی نعتیں، قوالیاں اور گیت آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں مقبول ہیں اور سامعین کو کیف و سرور بخشتی ہیں۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ، اﷲ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔

M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 299656 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.