شہادت عثمان غنی اور رسول اﷲ کی پیشین گوئیاں

تیسرے خلیفۂ اسلام کے یوم شہادت 18ذولحج کے حوالے سے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کتب احادیث میں سے مسند حارث میں حارث بن ابواسامہ، زوائد ہیثمی میں حافظ الحدیث نور الدین ہیثمی، اور کنزالعمال میں علامہ علاء الدین علی متقی روایت کرتے ہیں کہ باغیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا کئی ایام سے محاصرہ کیا ہوا ہے، اسی دوران خلیفۂ سوم ایک دن حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ کو پیغام ملاقات بھیجتے ہیں، وہ پیغام ملتے ہی ملاقات کیلئے حاضر ہوجاتے ہیں، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ان سے کچھ اہم باتیں کرتے ہیں اور واپسی کے وقت ان سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
اے عبد اﷲ اس کھڑکی کی طرف دیکھو! آج رات رسول اﷲﷺ نے اس میں سے کمرہ میں دیکھا ہے اور فرمایا ہے: اے عثمان! کیا ان لوگوں نے تمہارا محاصرہ کررکھا ہے؟
میں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اﷲ! تو آپ نے ایک پانی کا ڈول میرے قریب کیا پس میں نے اس میں سے پانی پیا بیشک میں اس کی ٹھنڈک اپنے جگر میں پارہا ہوں۔
پھر مجھے فرمایا اگر تم چاہو تو میں اﷲ تعالیٰ سے دعا کروں کہ وہ تمہاری ان (محاصرہ کرنے والوں پر) پر مدد کرے اور اگر تم چاہو تو ہمارے پاس افطار کرو۔
حضرت عبداﷲ بن سلام نے فورا پوچھا ائے امیر المؤمنین آپ نے کس چیز کو اختیار فرمایا ہے؟
حضرت عثمان نے جواب دیا: اے عبد اﷲ بن سلام میں نے رسول اﷲﷺ کے پاس افطار کرنے کو ترجیح دی ہے۔

حضرت عبداﷲ اپنے گھر کی طرف چلے گئے۔ پھر جب دن کا اختتامی وقت قریب ہوا تو اپنے بیٹے کو فرمایا جاؤ دیکھو حضرت عثمان کیساتھ کیا ہوا ہے، اور میرے خیال میں ممکن نہیں کہ وہ اب زندہ ہوں کیونکہ وقت افطار قریب آچکا ہے۔ چنانچہ صاحبزادے واپس لوٹے اور خبر دی کہ امیر المؤمنین کو شہید کردیا گیا ہے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔

یہ حدیث ’’مسند الحارث‘‘ جز: 2، صفحہ:901، ولادت المؤلف186ھ، وفات:282ھ، طبع مدینہ منورہ اور ’’کنز العمال‘‘ کتاب الفضائل، فضائل ذو النورین عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، صفحہ: 38، حدیث: 36291، جلد:13 ودیگر کتب میں تفصیلا ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

علاوہ ازیں سنن ابوداؤد اور صحیح بخاری کی کتاب المناقب میں ہے کہ آپﷺ جبل احد پر تشریف لائے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہم بھی آپکے ہمراہ تھے اسی دوران احد پہاڑ تھرتھرانے لگا تب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اے احد ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں۔

جبکہ مسند احمد اور جامع ترمذی کی کتاب المناقب، باب فی مناقب عثمان رضی اﷲ عنہ میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ایک فتنے کا ذکر کیا تو حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں فرمایا یہ اس فتنہ میں ظلمًا قتل کردئیے جائیں گے۔ جبکہ جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی احادیث میں ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فتنوں کا ذکر کیا اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ اس وقت ہدایت پر ہونگے۔

سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا مختصر تعارف یوں ہے کہ خلفائے راشدین میں تیسرے خلیفہ راشد اور نائبِ رسول ہیں، آپ کا اسم گرامی عثمان بن عفان بن ابوالعاص ہے، آپ ابوعبداﷲ، ابولیلیٰ اور ابوعمر کی کنیت سے بھی یاد کیے جاتے تھے، ذوالنورین آپ کا لقب ہے، قریش کے نامور خاندان بنواُمیہ کے ایک نامور فرد اور سردارتھے، تجارت آپ کا پیشہ تھا پانچویں پشت میں حضرت عبد مناف پر آپ کا شجرہ نسب رسول اﷲﷺ سے جا ملتا ہے، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے پیر داد ا ’’اُمیہ‘‘ کے سبب آپ کا خاندان بنواُمیہ کہلاتا ہے، زمانہ جاہلیت میں قریش کا قومی پرچم ’’عقاب‘‘ آپ ہی کے خاندان کے پاس تھا اور جنگوں کے موقع پر اسی خاندان کا سربراہ پرچم عقاب لہراتاتھا، آپ کی ولادت فیل کے چھٹے سال مکہ مکرمہ کے نزدیک ایک گاؤں طائف میں ہوئی، آپ ہجرت نبوی سے 47سال قبل پیدا ہوئے، اعلان نبوت کے وقت ایک تجارتی سفر میں شام گئے ہوئے تھے واپسی پر ایک جگہ قافلے نے پڑاؤ کیا تو آپ نے ندا دینے والے کی پکار سنی وہ کہہ رہا تھا: اے سونے والو! جاگ اُٹھو! مکہ میں ہادئِ برحق کا ظہور ہو چکا ہے! جس کا نام احمد ہے۔ ابھی یہ بات آپ کے دل ودماغ پر اپنے اثرات قائم رکھے ہوئے تھی کہ آپ مکہ مکرمہ پہنچے اور اپنی ایک نیک، پارسااور دانا خالہ حضرت سعدیٰ سے ملاقاتی ہوئی انکی پاکبازی اور دانائی پورے خاندان میں مشہور تھی انہوں نے حضرت عثمان کو قبول اسلام کی تبلیغ کی۔ دوسری طرف اپنے دیرینہ دوست حضرت ابو بکر سے ملاقات ہوگئی، وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔ باتوں باتوں میں اسلام اور صاحب ِاسلام ﷺ کا ذکرِ خیر چل نکلا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ بھی آپ کو اسلام کی ترغیب دے رہے تھے کہ اسی اثنا میں خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ رسول اﷲﷺ اُدھر تشریف لے آئے۔ تب آپ ﷺ نے فر مایا:
’’عثمان خدا کی جنت قبول کر لے! مجھے اسی لیے بھیجا گیا ہے کہ میں تمہیں اور ساری مخلوق کو حق کی طرف رہنمائی کروں اور سیدھا راستہ دکھاؤں۔‘‘

رسول اﷲﷺ کے یہ جملے خالی الفاظ نہیں تھے، بلکہ ان میں تو تاثیر تھی یہ سیدھے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے دل ودماغ میں اُترگئے۔ دل کا زنگ اُترنے لگا، قلبی کیفیت بدلنے لگی اور قدم آگے بڑھنے لگے اور زبان کلمہ طیبہ جاری ہوگا۔ اشہد ان لا الہ الا اﷲ واشہد ان محمدا عبدہٗ ورسولہ

اب آپ حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے چنانچہ آپ نے راہِ خدا میں بے شمار تکلیفیں اٹھائیں، مصائب جھیلے، مشکلات برداشت کیں، اور اسلام کو جب بھی ضروت پڑی آپ نے اپنا مال اور جو کچھ ہوسکا اسلام کیلئے قربان کردیا۔ آپ کی چند ایک خصوصیات یہ ہیں:
وصف حیاء آپ کی پہچان تھا، رسول خداﷺ نے انہیں اپنا رفیق قرار دیا، ا انہیں ذو الہجرتین کا لقب ملا، ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے تھے، آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے، کاتب وحی ہونے کا شرف حاصل ہوا، ․ انہیں جامع القرآن کہا جاتا ہے، اسلام لانے میں ان کا چوتھا نمبر ہے، قرآن پاک کے پہلے حافظ ہیں، بیعت رضوان کا سبب بنے۔، ان ہاتھ کو رسول اکرمﷺ نے اپنا ہاتھ قرار دیا اور ہاتھ قررار دیکر اس موقع پر ان کے زندہ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا، ملک التجار (تاجروں کے بادشاہ) کہلائے، بے لوث ایثار وقربانی کی بدولت غنی کے لقب سے مشہور ہوئے، ذوالنورین کی فضیلت سے متصف ہیں، نہایت صحت افزاء پانی والا کنواں بیئر رومہ خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کیا، تمام اہل علاقہ کو بلاتفریق اس میں سے پانی لینے کی اجازت تھی، آپ کے دور خلافت میں دیگر کارہائے نمایاں کے علاوہ بحری بیڑہ بنایا گیا، سمندروں پر مسلمانوں کا کنٹرول ہوا، بے شمار علاقے فتح ہوئے اور اسلامی ریاست کی سرحدیں سوڈان سے بحیرہ قزوین اور افریقہ سے چین تک پھیل گئیں۔

بالآخر احادیث رسول کے مطابق آپ کی شہادت کا وقت قریب آگیا اور اس کا سبب سبائی فتنہ بنا۔ اس فتنہ کا تعارف یوں ہے کہ یہ فتنہ ایک یہودی عالم عبداﷲ بن سباء کی طرف منسوب ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں نے مسلمانوں سے انتقام لینے، ان کی شیرازہ بندی کو منتشر کرنے اور مسلمانوں میں جنگ وجدال کا بازار گرم کرنے کیلئے ایک نہایت خطرناک سازش تیار کی اس سازش کے تحت عبداﷲ بن سباء یہودی منافقانہ طور پر مسلمان ہوگیا۔ اس بات کو مشہور شیعہ محقق علامہ عبدالعزیز کشی اپنی تصنیف رجال الکشی صفحہ نمبر 101پر اور علامہ نوبختی اپنی کتاب فرق الشیعہ صٖحہ نمبر 43اور 44پر لکھتے ہیں کہ ’’حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ کے علمبردار شاگردوں کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے کہ عبداﷲ بن سباء دراصل یہودی تھا۔‘‘ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ عبداﷲ بن سباء سب سے پہلے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے پاس پہنچا مگر آپ نے اسے نکال دیا۔ یہاں سے نکل کر حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کے حلقہ درس میں جا بیٹھا مگر یہاں بھی سازگار حالات میسر نہ آسکے، پھر عراق چلاگیا وہاں بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ بالآخر مرکز اسلام سے دوردراز مصر کا رخ کیا اور مصریوں کو سب سے پہلے یہ ذہن نشین کرایا کہ وہ حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کا شاگرد خاص اور آل رسول کا محب ہے۔ پھر مسلمانوں میں سے سادہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے لگا۔ چنانچہ اس چالاک دشمن اسلام نے سادہ لوح مصریوں کے دل میں خلفاء ثلاثہ اور بالخصوص حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں نفرت کا بیج بونے کی مہم شروع کردی۔ اس پر مستزاد عبداﷲ بن سباء نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے مقرر کردہ گورنروں کی کردار کشی کی مہم چلائی اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ پر الزام تراشی شروع کی۔ یہاں تک کہ ۳۴؁ھ میں باغیوں کی ایک جماعت نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا اور خلیفہ رسول حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ جوکہ چالیس دن تک رہااور اس دوران آپکے گھر پانی پہنچانے پر بھی پابندی لگادی۔

اس موقع پر حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ سمیت اکثر جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ سے ان باغیوں کے خلاف کاروائی کرنے کی اجازت مانگی تو آپ نے بڑی سختی کے ساتھ لڑائی سے روک دیا اور فرمایا کہ ’’میں شہر نبی میں اپنی خاطر ایک بھی مسلمان کاخون بہانا نہیں چاہتا۔میرا سب سے بڑا مددگار وہ ہے جو اپنے ہاتھ اور اسلحہ کو روکے رکھے۔‘‘

چنانچہ 18ذولحج کے دن اپنی عمر کے 82سال میں سے 12سال فریضہ خلافت نبھانے، اور حیاء، سخاوت، ایثار، صبر، حلم جیسی اعلیٰ روایات قائم کرنے والی اس عظیم شخصیت کو شہید کردیا گیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
 

Pir Afzal Qadri
About the Author: Pir Afzal Qadri Read More Articles by Pir Afzal Qadri: 27 Articles with 50845 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.