زیادہ تر حکومتی وعدے جھوٹ نکلے

پاکستان میں اُبھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی کامیابیاں ان کے حالات زندگی تبدیل کرنے میں کم ہی مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ پاکستان کے موجودہ اسنوکر چیمپئن محمد آصف کی حالت دیکھ کر یہ فقرہ بالکل سچ لگتا ہے۔

ڈوئچے ویلے کے مطابق اکتیس سالہ محمد آصف ایک برس پہلے جب امیچور اسنوکر چیمپئین شپ جیت کر واپس پہنچے تھے تو نہ صرف مقامی میڈیا بلکہ سیاستدانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر اس کا کسی ہیرو جیسا استقبال کیا تھا۔ حکومتی وزیروں سمیت متعدد افراد نے ان کی مالی امداد اور بڑے بڑے انعامات دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایک برس گزرنے کے بعد آج بھی وہ صنعتی شہر فیصل آباد کے ایک معمولی سے گھر میں رہتے ہیں اور آج بھی ایک بیسمینٹ میں واقع ایک بوسیدہ سے اسنوکر کلب میں پریکٹس کرتے ہیں۔
 

image


حکومتی امدادی وعدوں کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آصف کا کہنا تھا، ’’حکومت کی طرف سے کیے جانے والے زیادہ تر وعدے پورے نہیں ہوئے۔ میاں شہباز شریف نے دس لاکھ بطور انعام دینے کا وعدہ کیا تھا۔ شرجیل میمن صاحب نے دس لاکھ دینے کا وعدہ کیا تھا، اسی طرح کا وعدہ وزیر اعلیٰ سندھ نے کیا تھا۔ خیبر پختونخوا کے وزیر کھیل عاقل شاہ صاحب نے دس لاکھ دینے کا وعدہ کیا تھا، ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ حکومتی پالیسی کے تحت کوئی چیمپئین شپ جیتنے والے کھلاڑی کو ایک کروڑ روپے دیے جانا چاہیے۔ مجھے وہ رقم بھی نہیں دی گئی حالانکہ میں حال ہی میں مزید دو چیمئین شپس جیت چکا ہوں۔‘‘

محمد آصف کا کہنا تھا کہ راجہ پرویز اشرف کی طرف سے پندرہ لاکھ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اور وہ انہوں نے پورا بھی کیا ہے۔

محمد آصف اس کامیابی کی وجہ سے وہ اپنے شہر ایک سُپر اسٹار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ محمد آصف کا کہنا تھا، ’’خدا کا شکر ہے، میں جہاں کہیں بھی جاتا ہوں لوگ مجھے خاص محبت دیتے ہیں۔ ہر کوئی میرا خیال رکھتا ہے اور میرے لیے دعا کرتا ہے۔اب ہر کوئی مجھے جانتا ہے اور یہی میرے لیے باعث فخر بات ہے۔‘‘
 

image

غیر حکومتی شخصیات کا تعاون
محمد آصف کی زندگی میں جو سب سے بڑی تبدیلی آئی ہے وہ ٹائروں کی ہے۔ پہلے ان کے مقدر میں ایک پرانی موٹر سائیکل تھی اور اب وہ بلیک کلر کی چمکتی ہوئی ٹیوٹا کرولا گاڑی پر سفر کرتے ہیں، جس پر ’’ایم آصف ورلڈ چیمپئین‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اس کار کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ’’میری سب سے زیادہ مدد دو شخصیات نے کی، پاکستانی بزنس مین ملک ریاض نے گاڑی دی جب کہ کراچی میں عمر ایسوسی ایٹس کی جانب سے انہیں بیس لاکھ روپے دیے گئے۔‘‘

چودہ برسوں سے اسنوکر کھیلنے والے محمد آصف گزشتہ سال بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں ورلڈ اسنوکر چیمپئین شپ جیتے میں کامیاب رہے تھے۔ اس کو ورلڈ امیچیور چیمپئن شپ بھی کہا جاتا ہے اور یہ دنیا کا پریمیئر نان پروفیشنل اسنوکر ٹورنامنٹ ہے۔ گزشتہ برس پاکستان تقریبا 20 برس بعد یہ عالمی ٹائٹل جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس سے پہلے سن 1994ء میں محمد یوسف جوہانس برگ میں اسنوکر کا عالمی اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ محمد آصف اب پروفیشنل سرکٹ میں داخل ہونا چاہتے ہیں، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ’’میں پروفیشنل سرکٹ میں کھیلنا چاہتا ہوں لیکن میں یہ قدم ذاتی سطح پر نہیں اٹھا سکتا۔ اس سطح پر کھیلنے کے لیے سالانہ پچیس سے تیس لاکھ روپے خرچ آتا ہے اور یہ میں اپنی جیب سے افورڈ کر ہی نہیں سکتا۔‘‘

فنڈز کی کمی
پاکستان بیلئرڈ اینڈ اسنوکر فیڈریشن (PBSF) شدید مالی مسائل کا شکار ہے اور حکومت کی جانب سے اس کے لیے فنڈز بھی محدود ہی رکھے گئے ہیں۔ محمد آصف کا اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’کھلاڑیوں کو سپورٹ کیا جانا چاہیے۔ ٹیلنٹ کو ضائع کرنے کی بجائے اس کی سرپرستی کی جائے تاکہ ہمارے کھیلوں کا معیار بہتر ہو اور پاکستان کی مثبت پہچان سامنے آئے۔‘‘

گزشتہ سال بھی محمد آصف کا حکومت پاکستان اور پاکستان اسپورٹس بورڈ سے شکوہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی کسی لحاظ سے بھی سرپرستی یا مدد نہیں کی گئی اور انہوں نے ایک دوسرے کی گیمز اور ویڈیوز دیکھتے ہوئے اپنے کھیل کو بہتر بنایا ہے۔ گزشتہ سال محمد آصف کے لیے ورلڈ چیمپیئن شپ میں شرکت کے لیے ٹکٹ بھی چندے کی رقم سے خریدی گئی تھی۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Rising sports stars regularly spout the cliché about not letting success change them, but in the case of Mohammad Asif, Pakistan’s sole current world champion, it seems to be true. The 31-year-old was given a hero’s welcome when he returned to Pakistan after winning the amateur world snooker championship a year ago, feted by politicians and media alike.