’’گلیوں کے لوگ‘‘:تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ

 اقبال حسن خان کا ناول ’گلیوں کے لوگ‘ کو ’بزم تخلیق ادب کراچی‘ نے اگست ۲۰۱۳ء میں شایع کیا ہے۔یہ ناول مجھے برادر معراج جامی نے۲۴ستمبر کو ارسال کیا۔جو ۲۷ ستمبر کو میں نے ڈاک سے وصول کیا۔ناول اتنا دلچسپ تھا کہ دو دن میں ہی اسے پڑھ لیا۔۲۷۱ صفحات کا یہ ناول ایک منظم اور مربوط ناول ہے کہ ناول نگار نے اس کا پلاٹ مربوط رکھنے کی کوشش کی ہے۔کچھ مقامات ایسے ہیں جو کمزور ہیں لیکن بحیثیت مجموعی یہ ایک شہکار تخلیق ہے جس کے کردار ہمارے سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ ناول ترقی پسندوں کے لیے آکسیجن کے پورے سلنڈر کا کام دے گا۔خان کا لکھا ایک ڈرامہ ’جینا تو ہے‘ میرا پسندیدہ ڈرامہ تھا اور میں بڑے شوق سے اسے دیکھتا تھا۔ناول نگار نے اس ناول کے پیش لفظ میں ہی اپنا مقدمہ پیش کر دیا جو میرے نزدیک ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔آپ نے شروع میں ہی بتا دیا کہ اس ناول میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں اس طرح آپ نے قاری کے اندر سے تجسس ختم کر دیا۔آپ کو سوالات بھی نہیں اٹھانے چاہیے تھے۔یہ کام قاری خود کر سکتا تھا۔والدہ کی بیماری اور کالج کی مصروفیات نے یکسوئی تو نہ دی لیکن ذہنی پراگندگی کچھ کم ہوئی اور میں نے تفصیلی رائے لکھنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔آپ نے کیونکہ سوالات اٹھا دیے ہیں اس لیے میں تبصرے کو دو حصوں میں تقسیم کروں گا۔پہلے میں آپ کے سوالوں پر بات کروں گا جبکہ دوسرے حصے میں ناول کے کرداروں اور ان کے مباحث پر بات ہو گی۔
دعویٰ
۱۔ دور غلامی کے قوانین کو جوں کا توں اس مملکت میں روا رکھا گیا۔
۲۔ ابتدائی دور میں بھی سوال کرنے پر پانبدی تھی۔
۳۔ پاکستان کیوں بنایا گیا؟جیسے سوالات کو اس ملک میں پسند نہیں کیا جاتا۔
۴۔ جناح اس ملک کو ایک جدید ریاست بنانا چاہتے تھے نہ کہ اسلامی ریاست۔اس سلسلے میں ناول نگار نے دوحوالے بھی دیے ہیں۔
۵۔ اس ملک میں طالبان کی گنجایش نہیں،نہ فرقہ واریت کی اور نہ ہی چند علماء تک دین کو محدود کیا جا سکتا ہے۔
۶۔ تحریک پاکستان میں مذہبی عنصر کے در آنے سے ’اسلام‘ ہی ایک ’فیکٹر‘ کے طور پر مسلمانوں کے سامنے رہ گیا۔
۷۔ سادہ دلوں کی اکثریت نے اسلام کا یہ تصور نسیم حجازی کے ناولوں،حکایات اور صادق سردھنوی کے ناولوں سے اخذ کیا۔
۸۔ اسلامی نظام نافذ کرنے بیٹھیں تو یہ شاید پہلی ہی کوشش میں ناکام ہو جائے کہ کس فرقہ کا اسلام۔
۹۔ ’گلیوں کے لوگ‘ پاکستانیوں کی کہانی ہے جو انگریز کو حکمران دیکھنا چاہتے تھے،جو پاکستان بننے کے بعد مایوس ہو چکے تھے۔جیسا بھی تھا،ان کو یہ ملک پیارا تھا۔ان کو بھی جن کو مذہب سے دلچسپی نہ تھی اور ان کا بھی جو اس ملک کو مذہب کی اساس پر چلانا چاہتے تھے۔
۱۰۔ ان سب میں غلط کون تھا،قارئین فیصلہ دیں۔

جواب
۱۔ ویسے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے قوانین جو اس ملک میں نافذ کیے گئے ان میں خامی کی نشاندہی بھی آپ کو کرنا چاہیے۔دنیا کے کئی ممالک جیسے ترکی ،الجزائر اور مصر وغیرہ میں دوسرے ممالک کے قوانین سے فائدہ اٹھایا گیا۔ایک طرف آپ کامریڈ صفدر کی زبان سے انگریزوں کا احسان مانتے ہیں اور دوسری طرف آپ کو ان کے قوانین بھی پسند نہیں اور تیسری طرف اسلام کے قوانین بھی پسند نہیں۔تو کیا ہونا چاہیے۔
۲۔ سوال کرنے اور اختلاف کرنے کی پابندی نہ اس دور میں تھی اور نہ اب ہے۔پاکستان ایک ایسی سرزمین ہے جہاں بھونکنے کی اجازت ہے ۔۱۹۴۸ء میں جناح کے ڈھاکہ کی تقریر کے دوران ہی مجیب نے اختلاف کیا تھا کہ اردو اس ملک کی قومی زبان نہیں ہوگی۔بھٹو کا ایوبی دور میں سامنے آنا،فاطمہ جناح کا الیکشن لڑنا،مولویوں کا ان کی حمایت کرنا،ضیائی مارشل لاء سے نواز شریف کا جنم وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔سوال سے مراد شاید آپ کمیونزم لیتے ہیں تو اس ملک میں اس کی گنجایش نہ تھی ۔بھٹو جیسا سوشلسٹ بھی اسلام ہمارا مذہب کہنے پر مجبور تھا اور یہ اس کے منشور میں شامل تھا۔اس کے بغیر نہ ان کو اور نہ ان کی پتری کوراج سنگھاسن نصیب ہوا۔
۳۔ مولوی سے لے کر سیکولر تک سب یہ سوال کرتے ہیں اور کون ہے جس نے اس پر پابندی عاید کی ہے۔اس ملک پر سیکولر طبقے نے سب سے زیادہ حکمرانی کی ہے اور یہ بھی انہی کا کہنا ہے کہ پاکستان مختلف قومیتوں کا ملک ہے۔لوگوں کو حقوق کے نعرے بھی انھوں نے ہی دیے۔ان کی اشتہا تو انھوں نے بہت بڑھا دی ہے لیکن فرائض کا احساس نہیں دیا۔اس ملک میں حق کی بات تو سب کر رہے ہیں لیکن فرائض کی بات خال خال ہی سنائی دیتی ہے۔
۴۔ آپ نے جو حوالہ دیا اس کے بعد بھی قائد نے بہت کچھ کہا جیسے انھوں نے ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں فرمایا کہ آیے ہم اس جمہوریت کی بنیاد ڈالیں کہ جس کی جڑیں اسلامی اصولوں اور قوانین میں ہوں۔۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کامطالبہ زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصول آزما سکیں۔فروری ۱۹۴۸ء کے ایک ریڈیائی نشریے میں فرمایا کہ پاکستان کا آئین ابھی آئین ساز اسمبلی نے ترتیب نہیں دیا لیکن میں وثوق سے کہتا ہوں کہ وہ جمہوری ہو گا جس کی جڑیں اسلامی اصولوں اور قوانین میں ہوں گی۔عجیب انسان تھا شادی کی شرط اسلام رکھتا ہے۔مذہب کی تبدیلی پر اکلوتی اولاد کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔اس جامعہ میں داخلہ لیتا ہے جس کے صدر دروازے پر محمدؐ کا نام لکھا ہے۔ہم جانے کیوں اس کو سیکولر ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
۵۔ اس ملک کا ایک آئین اب موجود ہے۔عدلیہ،مقننہ،انتظامیہ،افواج سب کام کر رہے ہیں۔میں بھی کہتا ہوں کہ یہاں طالبان کی گنجایش نہیں۔سوال یہ ہے کہ ان کو کون سامنے لایا۔کون سے رویے ہیں جو اس جناتی مخلوق کو اچانک سامنے لے آئے۔تاہم قبیلائی معاشروں میں ’مولوی‘ کو مانا جاتا ہے۔سرحد اور بلوچستان میں مولوی کی اہمیت ہے اور میرے آپ کے کہنے سے اس کی اہمیت کم نہ ہو گی ہاں اس کے اثرات کو قانون سازی اور قانون کی حکمرانی سے کم کیا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ’ ملا‘ کو ان کے کوہ و دمن سے نکالے بغیر ان کو بے غیرت نہیں بنایا جا سکتا۔فرقہ واریت کو محدود کیا جا سکتا ہے تاہم اس کے لیے ایرانی اثرات اور شیعیت کو محدود کیا جانا ہو گا۔اس کو بھی قانون سازی کے ذریعے نکیل ڈالی جا سکتی ہے۔ہم اگر ایران کے معاملات میں دخل نہیں دیتے تو اس کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی سعودی عرب کو۔ہم کو افغانستان کے معاملات میں بھی ایک جائز حد تک دخل دینا ہوگا۔
۶۔ ’مذہب‘ کے فیکٹر کو ہضم کرنے کی کوشش کریں۔یہ ایک طاقتور فیکٹر ہے اور یہ اتنا برا نہیں جتنا آپ سمجھتے ہیں۔اس فیکٹر نے پاکستان کی مخالفت بھی کی تھی لیکن پاکستان بننے کے بعد اس کی تعمیر میں حصہ بھی لیا۔اس فیکٹر نے ہر مشکل دور میں پاکستان کی مدد کی ہے۔زلزلہ اور سیلاب اس کی مثالیں ہیں۔
۷۔ سادہ دلوں کی اکثریت تو ان پڑھ تھی وہ کہاں نسیم حجازی اور صادق سردھنوی کو پڑھ سکتے تھے۔نسیم حجازی کا اثر عمر کے ایک حصے میں ہوتا ہے اور ہم پر بھی تھا۔اس لیے آپ کی یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔نسیم حجازی کے ناول سماج کا ایک محدود طبقہ پڑھتا ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ وہ کسے پڑھیں؟کیا آگ کا دریا،اداس نسلیں،علی پور کا ایلی قسم کے ناول اس قابل ہیں کہ ان کو پڑھا جائے۔پریم چند کے مقابلے کا ناول نگار حجازی ہی نظر آتا ہے جو اپنی مٹی،اپنی روایات کی بات کرتا ہے اور جو ناامید نہیں کرتا۔سادہ لوح اپنے وطن،دین اور روایات سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے۔آپ اور میں سوال اٹھاتے ہیں وہ ان سے مبرا ہے۔آپ اور میں اتنی محبت نہیں کر سکتے۔اور نہ اتنی قربانیاں دے سکتے ہیں۔
۸۔ آپ کی یہ بات درست نہیں۔پاکستان کے نوے فی صد لوگ سنی ہیں۔فقہ یہاں سنی ہی نافذ ہو گا اور میرے جیسا غیر مقلد بھی اس کو تسلیم کرتا ہے ۔ویسے بھی ایران میں یہ تجربہ کامیاب رہا ہے حالانکہ وہاں سنیوں کی تعداد پاکستان میں شیعوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔وہ سنیوں کے فقہ کو ان کے ذاتی معاملات تک محدود رکھتے ہیں۔ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔نفاذ اسلام میں رکاوٹ نیت کی ہے۔بہت سارے معاملات اس وقت حل ہو جاتے ہیں جب آپ نیت درست کر لیں۔آئین نے حدود طے کر دی ہیں۔یہ اب ایک فضول بحث ہے اور ترقی پسندوں اور سیکولر طبقے کا پروپیگنڈہ ہی ہے۔
۹۔ آپ کی یہ بات درست ہے کہ یہ سب کا ملک ہے۔سب نے مل کر اس کی تعمیر کرنی ہے۔انگریز کی حکمرانی چاہنے والے محدود تعداد میں تھے بالکل اسی طرح جس طرح کمیونزم کا نفاذ چاہنے والے بہت کم تھے۔جاگیرداروں کو لگام دی جا سکتی تھی لیکن آپ کے سوشلسٹ رہنما بھٹو نے بھی نہ دی۔اب تو جاگیر دار فوج اور بیوروکریسی میں اپنے پنجے گاڑ چکا۔اس ملک میں ایک بڑا رہنما پیدا ہوا لیکن اس نے بھی اپنے طبقے کو مضبوط ہی کیا۔پیپلز پارٹی،مسلم لیگ اور اب تحریک انصاف پر جاگیردار قابض ہو چکے۔تاہم پاکستان سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کی بنیادوں کی طرف پلٹا جائے۔اردو اور اسلام۔دونوں کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا اور اب وقت آ چکا ہے کہ آئین کے مطابق اسلام اور اردو کو وہ مقام دیا جائے۔
۱۰۔ سب نے غلطیاں کی ہیں اور اصلاح ضروری ہے۔لوٹنا آپ اور مجھے بنیادوں کی طرف ہی ہے۔مذہب سے فرار ممکن نہیں۔مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اور فوج یہ تجربہ کر چکی ہیں۔کامیاب نہیں ہوئیں۔اس ملک کی بقا کے لیے سیکولر اور اسلام پسند سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔کھلے دل سے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنا ہوگا۔علامہ اقبال نے درست کہا تھا کہcultural problem is not less important than the economic problem......the atheistic socialism of Nehru is not likely to receive much response from the muslims.The question however is it possible to solve the poverty of muslims? and the whole future of the muslim league depends on this question.If the league can give no such promises I am sure the muslim masses will remain indifferent to it as before.
حالات نے ثابت کیا ہے کہ معاشی مسئلے کو حل کیے بغیر آزاد و خود مختار قوم کا تصور ممکن نہیں۔اس ملک کی معاشی،سماجی،مذہبی،اخلاقی اور سیاسی اوورہالنگ کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ظاہر ہے کہ سب کو اپنی اپنی اصلاح کرنی ہو گی۔

اب اگر ناول اور اس کے کرداروں پر بات کی جائے تو ناول کر کرداروں نے بے شمار سوالات اٹھائے ہیں اور ہم ان سوالوں کو پاکستانی سماج کے کرداروں کے سوالات سمجھ کر ان کے جوابات دینے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔اس ناول کے سب سے زیادہ پراثر کردار انور اور کامریڈ صفدر ہیں۔اکثر سوالات ان دو نے ہی اٹھائے ہیں۔سوالات دلچسپ بھی ہیں اوراپنے اندر درد اور دکھ کی دبیز تہہ رکھتے ہیں۔ناول نگار نے سب کرداروں سے انصاف کیا ہے اور مکالمے بھی بڑے جاندار لکھے ہیں۔وہ ایک کامیاب ڈرامہ نگار ہیں اس لیے کرداروں کے مکالمے لکھتے ہوئے کردار کی زبان کو ضرور سامنے رکھتے ہیں۔ان پڑھ سے شستہ اردو نہیں بلواتے۔تاہم شکنتلا اور انور کا ملاپ نہ ہونا مجھے ’جینا تو ہے‘ کی یاد دلاتا ہے۔اس میں بھی خان نے ہیروئن کے کردار کو زیادہ طاقتور دکھایا ہے جو اپنے محبوب کو اپنی بہن کے حوالے کر دیتی ہے اور خود تنہا رہنے کا فیصلہ کر تی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اس ناول میں انھوں نے ہیروئن کو مروا دیا اور ہیرو کو مایوس حالت میں پاکستان کے سپرد کر دیا ۔ ناول کے مطالعے کے دوران میں نے کچھ مزید اعتراضات بھی پڑھے اس لیے ان کا جواب دینا بھی ایک قاری اور نقاد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔
اعتراض:’یہاں وہ لوگ خود کو شرمندہ محسوس کرتے ہیں کہ جن کی انگریزی لکھنے اور بولنے کی استعداد اچھی نہیں ہے۔یہ انگریزوں کی غلامی کا اثر ہے جو شاید کبھی نہ جائے‘۔
جواب : آئین پر عملدرآمد ہی تو اس کا علاج ہے۔اردو کا نفاذ آئین کے آرٹیکل ۲۵۳ کے تحت ہی ممکن ہے۔یہ انگریزی تو ہندوستان اور چین کا مسئلہ بھی ہیں۔چینی انگریزی سیکھ رہے ہیں۔ہندوستان میں انگریزی زبان اور یورپی تہذیب تیزی سے ہندومت اور ہندی سماج کو کھا رہے ہیں تاہم وہ اپنے سماج کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ہم کو بھی کچھ حدود و قیود تو نافذ کرنا ہوں گی۔میڈیا کی حالت دیکھ لیں۔کیا میڈیا اتنا ذمہ دار ہے کہ اسے اتنی آزادی دی جائے؟تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو انگریزی سکھا رہے ہیں اردو نہیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو روزگار کی زبان نہیں ،اس کے پاس اقتدار نہیں۔فوج،عدلیہ اور سیاست کی زبان انگریزی ہے۔

اعتراض:’آزادی کی تحریک کا اثر چند شہروں تک تھا‘۔
جواب:یہ تو غیر منطقی بات ہے۔میں صرف کشمیر کے حوالے سے بات کروں تو یہاں حالت یہ تھی کہ مظفرآباد چند ہزار کی آبادی کا شہر نہیں قصبہ تھا اور تحریک کا مرکز۔قریب کے سارے علاقے جیسے باغ،راولاکوٹ،کوٹلی،میرپور دیہات تھے اور تحریک کے مراکز۔ہزارہ مسلم لیگ کا گڑھ تھا اور سب دیہات۔سری نگر اور جموں کوئی بڑے شہر نہ تھے لیکن صرف جموں سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔سوپور،بانڈی پورہ،بڈگام،اننت ناگ،بارہ مولہ اور کپواڑہ کے اندر تک پاکستانیت رچ بس چکی تھی۔مری،کوٹلی ستیاں،کہوٹہ یہ دیہات ہی تھے۔یاد رکھیں دیہاتی سادہ ہوتے ہیں اور مذہب کے قریب۔اس لیے ان کے جذبات کا استحصال آسان ہے۔
اعتراض:’ایسے مسلمانوں کی کمی نہ تھی جن کو کلمہ تک درست نہ آتا تھا،نماز تو دور کی بات تھی‘۔
جواب:درست بات ہے۔جو اس ملک کو اسلامی جمہوری بنانا چاہتے ہیں وہ تو کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کا کلمہ درست کروایا جائے اور قبلہ و کعبہ بھی لیکن آپ کے پاس اس کا کیا حل ہے؟پاکستان کو ہندوستان میں ضم کر دیا جائے یا ان کی اصلاح کی جائے جو ہمارے پاس ہیں۔کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنی عوام کی تربیت کا اھتمام کرے؟اور کیا آپ اور میں یہ اعتراض کرنے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ جائیں اور یہ سمجھیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔یاد رکھیں اصلاح گھر سے شروع ہوتی ہے اور ہم سب کو اس کا آغاز اپنے گھر ہی سے کرنا ہو گا بلکہ اپنی ذات سے۔اپنا کلمہ پہلے درست کریں اور پھر ان کا جو آپ اور میری ذمہ داری میں ہیں۔اپنا قبلہ بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔
اعتراض:’انگریزوں کی روحانی ناجائز اولاد یعنی پاکستان کے مخالف جاگیردار۔۔۔مجاہدین آزادی۔۔۔ہر روز نئی سے نئی چالیں چل رہے تھے‘۔] ص ۳۱[
جواب:آپ کی یہ بات درست ہے لیکن آپ تصویر کا تاریک رخ ہی کیوں سامنے لاتے ہیں۔ایسے جاگیردار بھی تو ہیں جو پاکستان کے حامی تھے اور یہ مجاہدین آزادی کیا نئی چالیں چلتے تھے؟چالیں تو یہاں سب چلتے رہے۔ترقی پسنداور کمیونسٹ کیا کسی سے کم تھے۔پنڈی سازش کیس کے کردار سارے کے سارے ’مجاہدین آزادی‘ نہیں تھے کیا؟
اعتراض:’پاکستان بننے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ میری محبوبہ شکنتلا اس ہنگامے میں کہیں غائب ہو گئی تھی‘۔] ص ۲۰[
جواب:اور اپنی محبوبہ کے نہ ملنے کا غصہ پاکستان پر اتار رہے ہیں۔آپ کی بزدلی کی انتہا یہ ہے کہ محبوبہ کے سامنے خود کشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسے اپنے والدین کے سامنے لانے سے ڈرتے ہیں۔اس کے ساتھ ملک چھوڑنے کو تیار نہیں۔مذہب آپ کے نزدیک ضروری نہیں یا ذاتی مسئلہ ہے تو آپ کو اپنا نام تبدیل کر کے ہندوستان اس کے ساتھ چلے جانا چاہیے تھا۔اس کو آپ نے کتنا عظیم دکھایا ہے کہ وہ آپ کو بچاتی ہے،آپ کو پرسا دیتی ہے اور پھر زندگی کی شاہراہ پر گامزن کرتی ہے۔آپ خود کیا ہیں۔مجھے پریم چند کے نسوانی کردار یاد آگئے۔ایسے ہی تھے وہ بھی۔اور مرد کردار بھی آپ نے کہیں انہی سے تو نہیں لیے۔
اعتراض:’نواب صاحب کی بیگم پنجابیوں میں بیٹی دینا نہیں چاہتی تھیں‘۔] ص ۲۶[
جواب:پنجابیوں سے نفرت کے افسانے میں نے ہندوستانی قلم کار رضا جعفری کے افسانوی مجموعے ’راستے کھول دو‘میں پڑھے تھے۔اگرچہ فوج ،بیوروکریسی اور سیاست میں پنجابی زیادہ ہیں لیکن اس کی بنیاد پر ان کو نفرت کا نشانہ بنانا درست نہیں۔ پاکستانی قلم کارکو اس کی وجوہات بھی بتانی چاہیے کہ یہ نفرت کیوں ہے اور اس کو دور کیسے کیا جا سکتا ہے ویسے پنجابیوں کی رشتہ داریاں اب سب کے ساتھ ہیں۔ ان نفرتوں کو کم کریں۔
اعتراض:’مارکس کے فلسفہ معیشت پر بحث بھی نہیں کر سکتا تھا‘۔
جواب: اس گھسے پٹے فلسفے پر ضرور بحث کریں۔دنیا میں اور بھی فلسفے ہیں۔اس کی عمر پوری ہو گئی اور یہ مر چکا۔ہم تو اس پر فاتحہ بھی پڑھ چکے آپ اگر لکیر پیٹنا چاہیں تو آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔مختار مسعود نے درست کہا تھا کہ’ کمیونزم خون چاٹے بغیر آ سکتا ہے نہ قائم رہ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کمیونزم مستقل خطرہ بن سکتا ہے مگر ایک مستقل نظام زندگی نہیں بن سکتا‘۔
اعتراض:’پولیس والے اس زمانے میں بھی ایسے ہی ہوا کرتے تھے جیسے اس زمانے میں ہوتے ہیں‘۔] ص ۶۳[
جواب:درست ہے۔سماج کے اکثر کوڑھ پولیس کے پیدا کردہ ہیں۔صابر بدر جعفری کا افسانوی مجموعہ’اندوہ وفا‘ کچھ افسانے ایسے رکھتا ہے جو پولیس کے نصاب میں شامل ہونے چاہیے۔پولیس کے قوانین کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس محکمے کو سیاست سے پاک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔اس شعبے سے کرپشن کو دور کرنے کے لیے قانون سازی کی زیادہ ضرورت ہے۔
اعتراض:’ماسٹر صاحب کی اکلوتی بیٹی جو فسادات میں کہیں بھاگ گئی تھی،ان کے ایک سکھ پڑوسی کی پناہ میں ہر قسم کے آزار سے محفوظ رہ کر جب پاکستان پہنچی تو ماسٹر صاحب کے دو مسلمان پڑوسی لڑکوں نے تنہا پا کر اسے بے آبرو کر دیا‘۔] ص ۸۸[
جواب:آپ جو بار بار ہندوؤں اور سکھوں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں تو مجھے پھر پریم چند یاد آگئے جن کے ناولوں اور افسانوں کے مسلمان کردار اخلاق باختہ اور ہندو پختہ کردار کے ہوتے ہیں۔ایک ہندو اور مسلمان قلم کار میں فرق تو ہونا چاہیے۔اچھے اور برے دونوں طرف تھے۔میرے شہر میں ہندو اور سکھ عورتوں کی عصمتوں کے محافظ مسلمان بنے۔اب یہ کہنا کہ صرف ہندو اور سکھ ایسے تھے ،تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔اگر کسی نے کسی کو بچایا تو اپنا انسانی فریضہ پورا کیا۔ایسے کردار ہر سماج میں موجود ہوتے ہیں۔
اعتراض:’آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی کا سرگرم رکن تھا اور پنڈی سازش کیس میں جیل میں بھی رہ چکا تھا اور دنیا کے سب مذاہب کے خلاف تھا‘۔] ص ۹۷[
جواب:میرے نزدیک مذہب کے خلاف ہونا بیمار ذہن کی علامت ہے۔کمیونزم نے انسانیت اور انسانوں کو تقسیم ہی تو کیا ہے۔انسان کے پاس سب سے معتبر سہارا مذہب ہی تو ہے۔
اعتراض:سالو تم نے پاکستان بنا کر دنیا کی سب سے بڑی ہندو ویاست نہیں بنا دی‘۔] ص ۹۹ [
جواب:پاکستان بنانے میں ہندو کا تعصب کار فرما تھا جو مسلمان اکثریتی علاقوں میں ان کے وجود کو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔تاہم اگر یہ بات ذہن صاف رکھ کر کہی جائے تو درست لگتی ہے۔مسلمان پاکستان،ہندوستان اور بنگلہ دیش میں پچاس کروڑ سے زیادہ ہیں اور ہندو اسی کروڑ سے زیادہ۔لیکن جمہوریت کے اصول کو سامنے رکھیں تو حکمرانی ان کی ہی بنتی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ زیادہ منظم ہوتے۔اس وقت وہ ہندوستان میں بھی منظم نہیں لیکن بنگلہ دیش اور پاکستان میں زیادہ منظم ہیں۔اقلیت ہمیشہ منظم ہوتی ہے۔تاہم آپ کی یہ بات وزن رکھتی ہے اور علماء اسی بنیاد پر پاکستان کے مخالف تھے تاہم آپ علماء کے بھی خلاف ہیں۔
اعتراض:’مولانا آزاد کو وہ نظر آ رہا تھا جو جناح کو نظر نہیں آ رہا تھا‘۔] ص ۹۹ [
جواب:آپ کی اس بات سے اتفاق ممکن نہیں۔اب تو جناح پر ایک سے زیادہ کتابیں موجود ہیں اور ان سب کے مطابق اگر ہندو بالغ نظری کا ثبوت دیتے تو یہ خون خرابہ نہ ہوتا۔ہندو بھارت کو ماتا کہتا ہے اور اسے ناقابل تقسیم سمجھتا ہے۔وہ پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔قائد یہ سب جانتے تھے،آزاد نہیں۔تاہم مولانا آزاد ہندوستان میں مسلم کلچر کی توانا آوازتھے۔اور اس کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔
اعتراض:’چناں چہ رات بھر مجرہ بھی چلا اور وعظ بھی۔جسے جہاں جانا تھا،وہ وہاں چلا گیا‘۔] ص ۱۰۱ [
جواب:یہ سیکولر سوچ ہے۔ہندوستان اور پاکستان میں کچھ تو فرق رہنے دیں۔ایک مسلمان اسلامی نظریاتی ملک میں ایسا ممکن نہیں۔ریاست کے ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی اخلاقی حالت کو درست رکھنے کے لیے ان تمام چیزوں پر پابندی لگائیں جو انتشار کا سبب ہیں۔
اعتراض:’چونکہ مجھے پتہ تھا کہ یہ ملک قطعاًکسی اسلامی نظام کے لیے نہیں بنایا گیا تھابلکہ اس کے پیچھے مسلمانوں کے معاشی فوائد کو ہندوؤں سے بچانا تھا۔اسے بنانے والے ہراول دستے کے مسلمانوں میں سے ایک اکثریت کی پرورش خالصتاً انگریزی انداز میں ہوئی تھی۔جن کے سرخیل مسٹر جناح تھے۔اور وہ ایسا ہرگز نہ سوچتے تھے‘۔] ص ۱۱۵[
جواب:کیا مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا جانا چاہیے تھا؟انگریزی انداز سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا انگریزی اداروں میں پڑھنا،انگریزی زبان سیکھنا اور ضرورت کے وقت بول لینا،پینٹ شرٹ یا سوٹ پہن لینا لیکن اپنی سوچ کو مسلمان رکھنا غلط ہے؟اس طرز کے اسلام سے آپ کو کد ہے اور طالبان کے آپ شاکی ہیں تو کون سا اسلام ٹھیک ہے؟
اعتراض:’مسلمان فرقوں کے لحاظ سے اپنا جدا جدا موقف رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں جی بھر کے مذہب کے نام پر خرافات ایجاد کر چکے ہیں‘۔] ص ۱۱۵[
جواب:ایک حد تک آپ کی بات درست ہے لیکن اس کو بھی ریاست لگام دے سکتی ہے۔جمہوران خرافات کے خلاف ہے اور عالم با عمل بھی اس بارے میں واضح رائے رکھتے ہیں اور دین میں اس طرح کی چیزوں کو بدعت ہی قرار دیتے ہیں۔
اعتراض:’تایا تم تو ہر روز اخبار پڑھتے ہو،کسی لیڈر کو اسلامی لباس میں دیکھا؟ان کی بیویوں کی ننگی پیٹھ والی ساڑھیوں میں تصویریں دیکھتے ہو۔کھلی شراب ملتی اور چلتی ہے۔اسلامی نظام نافذ ہوا تو یہ سب اگلے دن کوڑوں کی سزا کے مستوجب ٹھہریں گے‘۔] ص ۱۱۶[
جواب:آپ کی یہ بات بالکل درست ہے۔ویسے یہ ساڑھی کس ملک اور قوم کا لباس ہے،آپ بہتر طور پر جانتے ہیں۔اس ملک میں قومی لباس اور قومی زبان کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا اور نہ اسلامی شعائر کو۔طبقہ اشرافیہ کسی پابندی کا قائل نہیں اور اسی چیز نے مذہبی طبقے کو بھی بے لگام کر دیا۔طالبان اسی انتہا کا نام ہے جو اشرافیہ کے مقابل سامنے آیا۔
اعتراض:’کمی کمین اور مالک ایک جگہ نہ بیٹھتے ہیں ،نہ کھاتے پیتے ہیں اور نہ ہی ہماری موجودگی میں انھیں نظریں اٹھانے کی اجازت ہے‘۔]ص ۱۲۹[
جواب:پاکستان ہی نہیں ہندوستان اور عرب میں بھی ایسا ہوتا ہے۔تعلیم کی کمی ہے۔شعور کو عام کریں۔علم کے چراغ جلاتے جائیں۔ایک دن یہ جہالت ختم ہو جائے گی۔قانون کی عملداری بھی اسے کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور اس سلسلے میں میڈیا کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ویسے آپ کے ملک کی سول اور ملٹری بیوروکریسی میں بھی تو یہ کمی کمین کلچر موجود ہے۔
اعتراض:’یہ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ مسلم لیگ کے منشور میں ایسی کوئی بات شامل نہیں تھی۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ مسلم لیگ مں بڑے بڑے جاگیردار شامل تھے‘۔] ص ۱۳۵[
جواب:مسلم لیگ کی تشکیل کے وقت اس میں جاگیردار نہ ہونے کے برابر تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ اشرافیہ کی جماعت بن گئی لیکن جناح نے اس کو ایک بار پھر عوام کی جماعت بنا دیا۔بدقسمتی سے قائد کی وفات کے بعد جاگیردار تیزی سے اس پر چھاتے چلے گئے۔بھٹو اور پھر نواز شریف اور بے نظیر بھی ان پر قابو نہ پاسکے۔لیکن ذرا کانگریس کے منشورکا بھی مطالعہ کریں کہ جب بنی تو کیا تھی۔کیا اسے ایک انگریز بیوروکریٹ نے نہیں تشکیل دیا تھا اور پھر دھیرے دھیرے اس پر ہندو قابض ہوتے چلے گئے۔
اعتراض:’وہ آج کل مولانا حسرت موہانی کو کمیونسٹ ثابت کرنے پر تحقیق کر رہا تھا‘۔] ص ۱۴۵[
جواب:جناب ان کو کمیونسٹ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں،وہ تھے ہی کمیونسٹ اور سب جانتے ہیں۔مولانا مذہب میں مولوی اور سیاست میں کمیونسٹ تھے لیکن اس سے ہم کو کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ہم تو ان کو شاعر کی حیثیت سے پڑھتے ہیں۔ہم کو تو ان کا ’چپکے چپکے آنسو بہانا ہی یاد ہی‘۔ہم کو ’مشق سخن‘ سے دلچسپی ہے’چکی کی مشقت‘ سے نہیں۔
اعتراض:’وہ علامہ اقبال کو ہمیشہ ایک کنفیوزڈ شخص کہا کرتا تھاجسے بیک وقت موسیٰ بن نصیر اور لینن دونوں اچھے لگتے تھے۔یہی نہیں وہ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا کہ اقبال کا بیشتر فارسی کلام کلاسیکس سے اخذ کردہ تھا‘۔] ص ۱۴۵[
جواب:یہ آپ نے نئی بات نہیں کی۔سب دہریے،ترقی پسند بشمول جوش اقبال کو کنفیوزڈ شخص کہا کرتے تھے۔ظفر اقبال کو فراز اس لیے ناپسند ہے کہ بہت مشہور ہو گیا تھا۔اقبال کی مشرق سے مغرب تک شہرت آپ کو پسند نہیں،ہم کو تو ہے۔اقبال نے لینن کو خدا کے حضور کھڑا کر کے نظم لکھی اسے ایک بار پھر پڑھیں کہ وہ لینن کو پسند کر رہا ہے یا دنیا کے نظاموں کی خرابیاں گنوا رہا ہے۔اقبال نے مارکس پر بھی نظم لکھی ہے اس کا بھی مطالعہ کر لیں،کیونکہ آپ مارکس ازم کے حوالے زیادہ دیتے ہیں۔اقبال نے مشرق و مغرب کے تمام فلاسفر اور فلسفے بیان کیے ہیں،آپ کو لینن ہی نظر آیا۔ویسے موسیٰ بن نصیر کے بارے میں کہاں لکھا ہے یہ مجھے نہیں ملا۔اقبال کو روسی انقلاب کاتحرک پسند تھا،مجھے بھی پسند ہے لیکن انھوں نے اس کو نظام کے طور پر کبھی پسند نہیں کیا۔جہاں تک فارسی کلام کا کلاسیکس سے اخذ کرنا ہے تو ایک ہی مثال کافی ہو گی۔آپ نے گوئٹے کو پڑھا ہو گا خاص طور پر ’دیوان مغربی‘۔اس پر حافظ،سعدی،فردوسی،عطار اور عام اسلامی ادب کا کتنا اثر تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ردیف قافیہ کی قید سے غزل بھی لکھی ہے۔اپنی زبان میں فارسی تشبیہات و استعارات بے تکلف استعمال کرتا ہے جیسے تیر مژگاں،گوہر اشعار اور زلف گرہ گیر۔’دیوان‘کے مختلف حصوں کے نام بھی فارسی کے ہیں جیسے ساقی نامہ ، عشق نامہ،تیمور نامہ اور حکمت نامہ وغیرہ۔گوئٹے نے تو مغربی دیوان کی وساطت سے جرمن ادبیات میں عجمی روح بیدار کرنے کی کوشش کی۔یہی حال ادبیات عالم کا ہے۔ہر بڑا فن کار اپنے سے پہلے کے بڑے فن کار کے فن سے خوشہ چینی کرتا ہے۔اور اگر اقبال نے مشرق و مغرب کے فلسفیوں کے فلسفوں کو اردو زبان یا فارسی زبان کا لبادہ پہنا کر اور ان کی فکر کو مسلمان کر کے پیش کیا تو کیا جرم کیا ہے۔
اعتراض:’وہ بڑی ایمانداری سے سمجھتا تھا کہ قوموں کو یکساں روایات،زبان،پہناوا وغیرہ جوڑ کر رکھتا ہے اور مذہب کے نام پر کسی قوم کو جوڑ کر رکھنا ناممکنات میں سے ہے‘۔] ص ۱۴۵[
جواب:جدید دنیا میں دیکھیں تو اس کا کامیاب تجربہ اسرائیل ہے۔پوری دنیا سے یہودی اسرائیل میں اکٹھے ہوئے۔ایک قدیم زبان عبرانی کو سیکھتے ہیں اور ایک مذہب یہودیت کی بنیاد پر اکٹھے ہیں۔ایران اس کی دوسری مثال ہے۔بنگال علیحدہ ہوا لیکن زبان،رنگ،نسل،پہناوے اورروایات کے باوجود ہندوستانی بنگال میں ضم نہیں ہوا۔پاکستانی پنجاب اور ہندوستانی پنجاب کی روایات،زبان اور پہناوا ایک ہے لیکن یہ اکٹھے نہیں ہو رہے۔فخر زمان نے کوشش کی ،آپ بھی جاری رکھیں۔پاکستانی پشتونوں اور افغانی پشتونوں کو بھی ایک کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ہم اپنی سی کوشش جاری رکھیں گے۔
اعتراض:’پاکستان بنے چند ہی سال ہوئے تھے،ملک کے اس حصے (مشرقی پاکستان) میں زبان پر ہونے والے ہنگامے قرار دیا کرتا تھا جن کا تعلق مذہب سے ہرگز نہ تھا‘۔] ص ۱۴۶[
جواب:درست ہے کہ وہ ہنگامے مذہب کے نام پر نہ تھے بلکہ زبان پر تھے۔زبان کی بنیاد پر ایک علیحدہ ملک تو بنا لیکن ایک مسلمان ملک ہی بنا۔ہندوستان کو پاکستان کی کوکھ سے ایک علیحدہ ملک بنانے کا فائدہ نہیں ہوا۔بھارت کے اعصاب پر اب بھی پاکستان ہی سوار ہے۔بنگالیوں کو بھی عقل آئے گی لیکن کچھ اور وقت لگے گا۔بنگال کاحالیہ انقلاب اس کی مثال ہے۔پاکستانیت کو کب تک آپ روکتے رہیں گے۔دو رو وہاں متوازی چل رہی ہیں اور یہ ہے امید کی نشانی۔اس سلسلے میں سابق وائس چانسلر ڈھاکا یونی ورسٹی اور راج شاہی یونی ورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی کتاب The Waste of Time کا اردو ترجمہ کا مطالعہ کرلیں۔بہت سے عقدے وا ہو جاتے ہیں۔
اعتراض:’مسلم لیگ اگر لوگوں کے دلوں میں بس رہی ہوتی تو یہ ملک بننے کے محض سات برسوں کے اندر جگتو فرنٹ اسے عبرتناک شکست سے دوچار نہ کرتا‘۔] ص ۱۴۶[
جواب:آپ کی یہ بات درست ہے۔اس وقت مسلم لیگ آمروں اور جاگیرداروں کی لونڈی تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ جب مسلم لیگ نے اپنے آپ کو جمہور کا ہم زبان بنایا تو جمہور نے بھی اس کا ساتھ دیا جیسے نوار شریف کا پہلا،دوسرا اور اب تیسرا دور۔مسلم لیگ کی غلطیوں نے ہی پیپلز پارٹی کو جنم دیا۔اگر وہ علامہ اقبال کے فرمان کے مطابق جمہور کے معاشی مسائل کے حل کی طرف توجہ دیتی تو نہ پیپلز پارٹی بنتی اور نہ ہی اس ملک کا بٹوارا ہوتا اور نہ بار بار آمریت مسلط ہوتی۔
اعتراض:’جتنی محنت،جتنی قابلیت،اتنا معاوضہ والا اصول یہاں کبھی نافذ نہیں ہو سکا‘۔] ص ۱۴۶[
جواب:کیا یہ اصول روس اور چین میں نافذ رہا یہ ہو چکا۔کیا وہاں سب اشرافیہ ہیں،یا درمیانہ طبقہ یا غریب۔مزدور کو کیا وہاں انجینئر،ڈاکٹر اور پروفیسر کے برابر تنخواہ ملتی ہے۔کیا وہاں کاریں،سر بہ فلک عمارتیں،معاشی اونچ نیچ نہیں۔کیا ہندوستان میں ایسا ہو رہا ہے؟جناب اصل بات پھر قوانین کے نفاذ کی ہے۔آپ کا جاگیردار اگر ٹیکس دیتا ہے تو اس کی عزت کی جانی چاہیے۔آپ کا سرمایہ دار اگر ٹیکس چوری کرتا ہے تو اس کو لٹکانا چاہیے۔
اعتراض:’شاعروں نے دیوان کے دیوان بھر رکھے ہیں،محض جنس سمجھتا تھا‘۔] ص ۱۴۷[
جواب:خان جی جنس ایک طاقتور جذبہ ہے۔خالی خولی محبت سے دنیا نہیں بھرتی اس کے لیے جسم کی ضرورت ہے اور جسم کی پکار کا نام ہی محبت ہے۔دنیا اس کا ثبوت ہے۔ویسے آپ کے ڈراموں میں بھی یہ جذبہ کار فرما ہے۔شاعروں کو تو کم ہی جنس نصیب ہوئی۔فیض کی طرح کے ایسے دو چار ہی ہیں۔باقی تو آہیں ہی بھرتے رہے۔
اعتراض:’روسی انقلاب کی عمر آدھ صدی سے بھی زیادہ نہ ہوگی جبکہ چینی انقلاب دنیا کی آنکھیں کھول دے گا‘۔]ص ۱۵۴[
جواب:چینی انقلاب ملغوبہ ہے۔وہ مزدور کا انقلاب نہیں رہا۔اس میں جدید سرمایہ دارانہ نظام رچ بس چکا۔وہاں بھی سرمایہ دار موجود ہے۔سرمایہ داری کے سارے نشانات چین میں اب موجود ہیں۔پھر اسے ۱۴۰ کروڑ آبادی کا فائدہ بھی ہے اور ایک زبان کا بھی۔وہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتے۔ذرا ان کو اڑانے دیں اور پھر دیکھیں ان کا حشر۔چین نے انسان کو مشین بنا دیا ہے۔دنیا صرف مشین سے نہیں چلتی ۔چینیوں کی روح بے چین ہے اور اسے بہرحال مذہب کی ضرورت ہے۔
اعتراض:’تاریخ میں صدیوں کے بعد ایسا ہوا تھا کہ ہندوستان کے مقامی لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آیا تھا۔انھیں اس حقیقت کے لیے انگریز کا شکر گزار ہونا چاہیے‘۔] ص ۱۵۵[
جواب:ایک طرف آپ انگریز کے شکر گزار ہیں اور دوسری طرف آپ کو غصہ ہے کہ انگریز کا قانون اس ملک میں کیوں نافذ کیا گیا۔اس قانون کے نقائص بھی آپ نے نہیں بتائے۔جاگیردار انگریز کا پٹھو ہے لیکن چینی یا روسی انقلاب کے درآمد کرنے والے کو آپ کیا کہیں گے۔یہ تو تناقض ہے کھلا۔
اعتراض:’ابے تم لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ چودہ سو سال میں دنیا بہت آگے چلی گئی ہے‘۔] ص ۱۵۵[
جواب:یعنی مذہب آپ کی ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہے۔یہ بات تو بہاء اﷲ نے کی تھی۔جس کے نزدیک اسلام ایک قدیم مذہب ہے اور اس کی عمر طبعی پوری ہو چکی ہے۔ویسے آپ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔مذہب نے جاپان پر ایٹم بم گروائے۔ویت نام ،صومالیہ،عراق،افغانستان،یمن،کشمیر،فلسطین پر مظالم کے پہاڑ مذہب کے نام پر ہی تو گرائے جا رہے تھے اور گرائے جا رہے ہیں۔انسانی حقوق کے علمبردار تو بہت معصوم ہیں وہ تو gays and lesbians کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے۔اور نہ کریں گے تو مسلمان مظلوموں کے لیے۔جب کوئی ان ظالموں کے ہاتھ توڑ دے تو وہ دہشت گرد ہے۔ہم کو قدیم روایات کی ضرورت ہی کہاں ہے۔ہم اپنے خدا خود ہیں۔لیکن جناب یہی سوچ سماج کو منتشر کر رہی ہے۔
اعتراض:’سن لو:مستقبل میں امریکہ کی سب سے بڑی پیداوار اسلحہ ہوگا‘۔] ص ۱۵۶[
جواب:ماضی میں روس کی سب سے بڑی پیداوار اسلحہ ہی تھا۔برطانیہ ،فرانس اور جرمنی بھی یہی کرتے رہے۔چین بھی یہی کر رہا ہے۔ہر طاقتور یہی کرتا ہے اور اسے کرنا چاہیے۔ہم کو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔اس میں خرابی کیا ہے۔امریکہ کی سب سے بڑی پیداوار اسلحہ ہی نہیں۔وہ طاقتور بھی ہے اور اس کے پاس ذہین دماغ بھی ہیں۔
اعتراض:’آج کی دنیا میں مذہب کاریاست چلانے کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔مذہب انسان کے اندر کی تبدیلی کا دوسرا نام ہے‘۔] ص ۱۵۶[
جواب:مذہب اگر انسان کے اندر کی تبدیلی کا نام ہے تو اس کا اثر دوسرے تک پہنچنا چاہیے۔مذہب اچھائیوں کا نام ہے۔یہ آسمانی ہدایت کا نام ہے اور آپ خدا کی ہدایت کو فرد تک اور دنیا کے خداؤں کی ہدایات کو ریاست تک پھیلانا چاہیے ہیں۔اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنا خدا خود ہے۔اس کا اپنا خدا ہونا چاہیے۔انسان اگر ایک اﷲ کے سامنے جھک جائے تو اسے دنیاوی ہدایت کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ دنیاوی خداؤں کی۔مذہب کسی نہ کسی صورت میں آپ کو ریاست کے معاملات میں نظر آتا ہی ہے۔سیکولر ہندوستان سیکولر نہیں ہندو ریاست ہے اور اس کا اعتراف آپ نے خود کیا ہے۔امریکہ ایک عیسائی ریاست ہے ۔روس سے مذہب کو دیس نکالا دینے کا بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔اس کی کوکھ سے چھ مسلمان ریاستیں اور چار عیسائی ریاستوں کا ظہور ہوا ہے۔مشرقی تیمور اور مغربی سوڈان عیسائی ریاستوں میں اضافے کا باعث بنی ہیں ایک ہم کشمیری اور دوسرے فلسطینی جانے کب تک مصلوب رہیں گے۔
اعتراض:’مسلم لیگی قیادت نے ہندوستان کے مسلمانوں کو اکیلا چھوڑ دیا۔وہ پاکستان بننے کا سود ادا کرتے رہیں گے‘۔] ص ۱۵۷[
جواب:انقلابات میں یہ تو ہوتا ہے۔کسی کو نقصان اور کسی کو فائدہ دیتی ہے یہ ہجرت۔جس طرح کچھ مہاجر ہندوستان سے پاکستان آ کر فائدے میں رہے اسی طرح کچھ نے نقصان بھی اٹھائے۔اور کچھ وہاں نقصان اٹھا رہے ہیں۔حالیہ کشمیر کی تحریک آزادی کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ مرد و زن شہید ہوئے۔لاکھوں نے ہجرت کی اور بہت سے فائدے میں بھی رہے۔لیکن جناب ہر بار فائدہ ہی نہیں ہوتا۔اپنی نیت درست رکھیں تو اﷲ آخرت میں بھی فائدہ دے گا۔یہ سنت بھی ہے۔مسلم لیگی قیادت نے واقعی ہندوستان کے مسلمانوں کو اکیلا چھوڑدیا اور اس کی بنیادی وجہ ہمارے حکمرانوں کی کمزوریاں ہیں۔
اعتراض:’کدھر تھا تمھارا دو قومی نظریہ اس وقت؟لوگوں کو بنگالی قومیت اور بنگلہ زبان پر ووٹ پڑے تھے اور یہ ووٹ کس نے ڈالے تھے؟انہی بنگالیوں نے جنھوں نے ووٹ ڈال کر پاکستان بنوایا تھا تو ثابت ہوا کہ لوگوں کو ان کی زبان،ثقافت اور کلچر باندھ کر رکھتی ہے نہ کہ مذہب‘۔] ص ۱۵۷[
جواب:اگر زبان،کلچر اور ثقافت عوام کو باندھ کر رکھتے ہیں تو عراق کا شیعہ ایران کے شیعہ کے خلاف کیوں لڑا؟مشرقی اور مغربی بنگال کیوں نہ اکٹھے ہو سکے؟مشرقی اور مغربی بنگال کیوں نہ مل سکے؟شمالی اور جنوبی کوریا اب تک علیحدہ کیوں ہیں؟(بین الاقوامی سیاست اپنی جگہ)،سنگاپور اور ملائشیا میں چینی نسل ایک کثیر تعداد میں آباد ہے اور وہ چین کے ساتھ کیوں نہ مل سکے یا کیوں نہیں مل جاتے؟دو قومی نظریہ اپنی جگہ موجود ہے۔مسلم امہ کو ایک مرکز کی طرف آنا ہو گا یہی اس کا مستقبل ہے۔
اعتراض:’جھوٹے کلیم کون خرید رہا ہے؟مسلمان،یہ جھوٹ،سفارش اور رشوت کا بازار کس نے پھیلایا ہوا ہے؟مسلمان نے۔لیاقت علی خان کو کس نے قتل کروایا؟ مسلمانوں نے۔اوئے یہ وہ مسلم لیگی لیڈر ہیں جنھوں نے پاکستان بنوایا تھا؟ہر مہینے لات مار کر دوسرے کو اتار دیتے ہیں اور پھر کوئی اس کی جگہ بیٹھ جاتا ہے‘۔] ص ۱۶۴[
جواب:یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔اب یہ بازار پھیل گیا ہے۔اس میں دہشت گردی کا اضافہ ہو گیا ہے۔اقربا پروری ہے۔قومیت ہے۔ہر شعبے میں سیاست ہے۔آپ کی یہ بات درست ہے کہ مسلم لیگ اپنے مقاصد سے پیچھے ہٹ چکی۔اس کی وجہ اس کی قیادت ہے جو مفاداتی ہے اور مفادات کے لیے کسی بھی آمر کی لونڈی بننے کو تیار رہتی ہے۔پاکستانی معاشرہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور اس تبدیلی کو مثبت رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔
اعتراض:’ہندو مارتا تھا تو تکلیف نہیں ہوتی تھی۔مسلمان مسلمان کو مارے گا تو بڑی تکلیف ہوگی‘۔] ص ۱۶۵[
جواب:یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کو دیکھ اور سوچ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔مسلمان ہی مسلمان کی گردن مار رہا ہے اور مرنے والے کو علم نہیں کہ اسے کیوں مارا جا رہا ہے،نہ مارنے والے کو علم ہے کہ وہ کیوں مار رہا ہے۔یہ ظالم اپنے رب کو کیا منہ دکھائیں گے۔جانے کیوں یہ عذاب ہماری قسمت میں ودیعت کیا گیا ہے۔سب اسلامی ممالک میں امن ہے اور ہمارے ہاں انتشار ہے۔یہ سارے ظالم ہمارے دیس میں ہی کیوں بستے ہیں؟
اعتراض:’کون پسند کرے گا کہ اس کی سرزمین پر نئے لوگ یوں آباد ہوں کہ وہ اس کی سرزمیں،اس کے پانی اور اس کے وسائل پر قبضہ کر لیں‘۔] ص ۱۶۸[
جواب:پسند اور برداشت تو کرنا پڑتا ہے اگر آپ کسی نظریے کے قائل ہیں۔ہم نے پسند کیا ہے۔ہمارے شہر میں کشمیری مہاجر مقامی آبادی کے برابر ہیں۔ان کی اب مقامی آبادی سے رشتہ داریاں ہیں۔ان کو آسانی سے ملازمتیں مل جاتی ہیں۔ان کے بچے کم نمبر لے کر ڈاکٹر اور انجینئر بن جاتے ہیں۔ہم نے اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہجرت کرنا اتنا آسان نہیں۔قربانی تو دینی پڑتی ہے اور دینی بھی چاہے۔
اعتراض:’لیکن اب اس ملک پر دیسیوں کا راج تھا۔وہ دیسی جنھوں نے ہمیشہ درہ خیبر اور کالی کٹ سے آنے والے حملہ آوروں کے جوتے کھائے تھے‘۔] ص ۱۷۷[
جواب:درہ خیبر سے مسلمان آیا کرتے تھے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو مسلمانوں سے کد ہے اور آپ کے ہیرو راجا داہر قسم کے مقامی حکمران ہیں۔یہی بات اگر گیان چند جین’ایک بھاشا:دو لکھاوٹ۔دو ادب‘ میں کہے تو گردن زدنی اور آپ کہیں تو درست۔آپ کی یہ بات درست نہیں۔اب یہ سارا علاقہ مسلمانوں کا ہے اس لیے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر لیں اور اپنے اسلام پر فخر کریں مقامی ہونے پر نہیں۔
اعتراض:’جہاں مسلمان ایک دوسرے کو پنجابی،مدراسی اور بنگالی کہتے ہوں وہاں کونسا اسلامی ملک اور کہاں کا اسلامی ملک‘۔] ص ۱۶۵[
جواب:اسلام نے تو ہم کو یہ نہیں سکھایا۔اس قسم کا تعصب پھیلانے والے اس ملک کے خیر خواہ نہیں۔ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ کسی گورے کو کالے اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت نہیں اور برتری کا معیار تقویٰ ہے۔لیکن یہ بات آپ کو ہضم نہیں ہو گی۔تاہم اس سماج میں اس قسم کے کردار تو موجود ہیں اور مایوسیاں بھی بہت ہیں ۔تاہم یہ ایک محدود سوچ ہے۔
اعتراض:’پاکستان بننے کے بعد کنجر ہی تو سب سے زیادہ عیش میں ہیں اور دونوں ہاتھوں سے روپیہ کما اور لٹا رہے ہیں‘۔] ص ۲۶۰[
جواب:آپ نے ٹھیک کہا۔ویسے ہمارے سماج کی اکثریت ٹی وی،سٹیج اور فلم میں کام کرنے والوں کو کنجر ہی کہتی ہے۔دیکھ لیں پاکستانی سینمابند ہیں،سٹیج ابتلا کا شکار ہے اور آپ کے ٹی وی ڈرامے کی اہمیت یہ ہے کہ ترکی سے ڈرامے درآمد کرنے پڑ رہے ہیں۔اس کے باوجود کنجر عیاشی میں ہی ہیں۔ان کو celebrity کا درجہ دینے کی کوششیں جاری ہیں جن کو جانے کس کی نظر لگ گئی ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اشرافیہ کو کنجر بہت پسند ہیں۔اشرافیہ میں سے بہت سے ان کی اولادیں بھی ہیں(نام نہیں لکھے جا سکتے)۔
اعتراض:’مگر میں نے اسے ہندو،مسلمان،عیسائی سکھ کچھ نہیں بنایا ،انسان بنایا ہے‘۔] ص ۲۷۱[
جواب:مرکزی کردار کی یہ بات مایوسیوں کو جنم دیتی ہے۔ہم نے مظفرآباد سے ہندوؤں اور سکھوں کو باحفاظت ہندوستان پہنچایا تو یہ ان کا ہم پر حق تھا اور یہ کوئی احسان نہیں۔ہم عشروں اکٹھے رہے اور آپ بھی صدیوں اکٹھے رہے۔چند ایام یا چند ماہ کی نفرتوں کو عمر بھر کی تلخیوں میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔تسلیم کہ ۱۹۴۷ء میں انسان مر گیا تھا لیکن اس کا اسلام یا کسی اورمذہب سے کیا لینا دینا۔
اعتراض:’مجھے بسم اﷲ جان کا فیصلہ پسند آیا‘۔] ص ۲۷۱[
جواب:یہ اس ملک اور اس کے مستقبل سے مایوسی کی انتہا ہے۔ناول کا اختتام ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ایک دکھ اور ایک درد کی لہر پورے جسم میں پھیلی ہے۔مرکزی کردار اس ملک اور اس کی نئی نسل سے مایوس ہے اس کو بسم اﷲ جان کے نقش قدم پرہی چلنا چاہیے لیکن اس کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ ہم سب کو مایوس کرے۔
بعض جملے بڑے خوب صورت اور تشبیہات سے مزین ہیں جیسے ’ٹریفک کا بہاؤ کسی منہ زور دریا سے یہاں آ کر کیچڑ سے ٹھسا ٹھس نالے کی طرح چلنے لگا‘۔’کچھ بھی تھا عورت بڑی کانٹا تھی۔اک واری(بار)تو بندے کی ٹلیاں(گھنٹیاں) ہی بجا دیتی تھی۔اوئے ٹلیاں بجانے کا مطلب سمجھتا ہے نا؟اک اور بھی تھی مجیدن مصلن۔پر وہ گزارا ہی تھی۔بڑی حرامی عورت تھی۔میرے یار گرنام سنگھ کے ساتھ بھی اڑی ہوئی تھی۔اوئے اڑنے کا مطلب سمجھتا ہے نا‘؟(ص ۲۴۷)۔’اوئے اب بھی ٹیم (ٹائم،وقت)ہے۔میری بات مان لے۔نکاح پڑھوا لے اس کے ساتھ۔اتنی اچھی عورت کو زایاں(ضائع) نہ کر‘(ص ۲۴۸)۔انہتائی(ص ۱۹)۔غلط ہے۔درست ’انتہائی‘ ہے۔’اماں بی خواہش تھی‘(ص ۲۱)۔اماں بی کی خواہش تھی۔’بی اچھے نمبروں سے‘(ص ۳۰)۔بی اے اچھے نمبروں سے۔’متعمد‘(ص ۴۰)۔معتمددرست ہے۔’ایک اعلان البتہ تایا شارع عام مناسب وقفوں سے کرتا رہتا تھا‘(ص ۹۴)۔عجیب سا جملہ ہے۔خاص طور پر شارع عام۔’اس سے ظالم سے‘(ص ۴۲)۔’اس ظالم سے‘ درست ہو گا۔’اس کے قل اور چالیسواں بھی‘(ص ۴۲)۔’اس کا قل کا چالیسواں بھی‘ درست ہو گا۔’آپ نے نہیں دیکھ رہے‘(ص ۱۱۶)۔’آپ تو نہیں دیکھ رہے‘ درست ہوگا۔’زناٹے دار بازادی گالی دے کر کہا‘(ص ۱۰۹)۔عجیب سا جملہ لگا۔زناٹے دار تھپڑ تو سنا تھا یہ زناٹے دار بازاری گالی اب سنا۔’یہ سن کر میرا دماغ جھنا گیا‘(ص ۱۲۳)،میرے خیال میں ’دماغ بھنا جانا‘ درست ہے۔’چونکنا ہو کر اس سمت دیکھنے لگا‘(ص ۱۴۲)،میں ’چوکنا‘ درست ہے۔’بڑی تعداد کا سامنے نہیں کرنا پڑا‘(ص ۱۴۳) میں’سامنا‘درست ہو گا۔
میں نے ناول کے کرداروں کے مباحث اور مسائل کا ہی ایک مطالعہ پیش کیا ہے۔ناول نگار نے بڑی خوب صورتی سے پاکستانی سماج کے مسائل کو سامنے لایا ہے اگرچہ اختلاف کی گنجایش ہر دو صورتوں میں موجود ہوتی ہے لیکن ناول کے کردار بڑی کامیابی سے اپنے کردار سے انصاف کرتے نظر آتے ہیں اور ٹائپ قسم کے کردار نہیں۔وہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں اور یہی زندگی ہے۔تاہم مرکزی کردار اور کامریڈ صفدر کی سوچ میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔دونوں پاکستان کے حالات سے مایوس ہیں اور ان کے پاس اس کا کوئی حل بھی نہیں اور یہ حقیقت ہے۔پاکستان سماج کے درمیانی طبقے کے پاس اس کاحل شاید ہے بھی نہیں۔ہمارے سماج میں کوئی اپنے حصے کا کام کرنا بھی تو نہیں چاہتاتو تبدیلی کیسے آئے۔میرے پاس اگر ایک کالج یا ایک کلاس اور سو دو سو بچے ہیں تو میں ان کی تربیت کرنے کے بدلے سارے جہان کی تربیت کرنے چلا ہوں تو مایوسی تو ہو گی۔میرے لیے بہتر یہ ہے کہ میں پیشہ وارانہ انداز میں اپنے حصے کا کام کیے جاؤں اور اپنے حصے کا چراغ جلاتا جاؤں۔آپ نے اپنے حصے کا کام اپنے انداز میں کرنے کی کوشش کی ہے اور اس پر آپ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔لیکن یہ یاد رکھیں کہ آپ ایک بڑے تخلیق کار ہیں اور مجھے خوشی ہوگی اگر آپ کا قلم مایوسیوں کے ٹائی ٹینک کو ڈبونے کے لیے استعمال ہو۔
کتابیات
٭ اقبال حسن خان،’گلیوں کے لوگ‘،کراچی:بزم تخلیق ادب پاکستان،اگست ۲۰۱۳ء
٭ رضا جعفری،’راستے کھول دو‘،کراچی:الحمد پبلی کیشنز،۲۰۱۱ء
٭ سجاد حسین،سید،پروفیسر ڈاکٹر،waste of time (’شکست آرزو‘)،کراچی:اسلامک ریسرچ اکیڈیمی،اکتوبر ۲۰۱۲ء
٭ صابر بدر جعفری،’اندوہ وفا‘،کراچی:بزم تخلیق ادب پاکستان،۲۰۱۱ء
٭ گیان چند جین،’ایک بھاشا:دو لکھاوٹ،دو ادب‘،دہلی:ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،بار اول ۲۰۰۵ء
٭ محمد اقبال،’کلیات اقبال(فارسی)] جلد اول[‘ ،لاہور:شیخ غلام علی اینڈ سنز،طبع اول ۱۹۹۲ء
٭ مختار مسعود،’لوح ایام‘،کراچی:فیروزسنز،تیرھواں ایڈیشن،مئی ۲۰۰۷ء
7. Riaz Ahmed,"Iqbal's Letters to Quaid-I-Azam",Lahore:Friends Educational Service,1976

abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51005 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More