ایک بچے کی ذہانت سے ایک مشکل مقدمے کا فیصلہ ہوگیا.

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ حسن نامی ایک تاجر نے ایک جوہری کے پاس ایک برتن امانت رکھوایا اور کہا کہ اس میں شہد ہے ۔ برتن میں اوپر اور نیچے کی تہہ میں تو شہد تھا لیکن درمیان میں ایک تہہ تھی جس میں اشرفیاں بھری ہوئی تھی لیکن حسن نے جوہری کو اشرفیوں کے بارے میں نہ بتایا اور شہد کا کہہ کر اپنی امانت کچھ عرصہ کے لیے رکھوائی اور دور دراز کے سفر پر چلا گیا.

بہت عرصے بعد جب وہ واپس آیا تو جوہری سے اپنی امانت واپس لینے گیا جوہری نے اسکی امانت اسے واپس لٹا دی اور وہ برتن اسی طرح بند تھا جس طرح حسن نے جوہری کو دیا تھا۔ حسن نے جوہری کا شکریہ ادا کیا اور اپنی امانت لے کر گھر آگیا ۔ لیکن گھر آکر جب اس نے برتن کھولا تو اس میں سے صرف شہد نکلا اور درمیانی تہہ میں رکھی ہوئی اشرفیاں غائب تھی وہ بہت پریشان ہوا اور جوہری کے پاس گیا لیکن جوہری نے اسکی بات ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ تم نے میرے پاس صرف شہد امانت رکھوایا تھا جو میں نے تمہیں واپس کردیا اگر اس کے اندر اشرفیاں بھی تھیں تو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں-

اب تو حسن اور بھی پریشان ہوا اور اپنا مقدمہ لے کر کوتوال کے پاس گیا کوتوال نے جوہری کو بلایا لیکن جوہری نے وہاں بھی وہی بات کی کہ اس نے میرے پاس شہد ہی رکھوایا تھا جو میں نے اسے واپس کردیا ۔ کوتوال بھی یہ بات سن کر چپ کرگیا کیوں کہ جوہری کی بات ٹھیک تھی لیکن اسے محسوس ہورہا تھا کہ حسن جھوٹا نہیں ہے چنانچہ وہ ان دونوں کا مقدمہ قاضی صاحب کے پاس لے گیا لیکن قاضی صاحب بھی اس مقدمے کا کوئی فیصلہ نہ کرسکے ۔آخر کار بات خلیفہ تک پہنچ گئی ۔ خلیفہ نے بھی ساری بات سننے کے بعد جوہری کے حق میں فیصلہ دے دیا کہ جوہری ٹھیک کہہ رہا ہے اگر برتن میں اشرفیاں تھیں تو حسن کو بتانا چاہیے تھا ۔ اس نے شہد امانت رکھوایا تھا جو اسے مل گیا ، حسن افسردہ ہو کر خلیفہ کے دربار سے چلا گیا ۔ سب کو پتہ تھا کہ حسن سچا ہے لیکن وہ اس عجیب و غریب مقدمے کا فیصلہ کرنے سے قاصر تھے.

کچھ دن گزرے کہ خلیفہ بھیس بدل کر اپنی عادت کے مطابق شہر کا جائزہ لینے نکل گیا ۔ ایک جگہ اس نے کچھ بچے کھیلتے دیکھے جن میں سے ایک خلیفہ بنا ہوا تھا ، ایک جوہری اور ایک حسن ۔ اور وہ اسی مقدمے کے بارے میں بات کررہے تھے ۔ خلیفہ رک کر دیکھنے لگ گیا ۔ حسن نے اپنا مقدمہ پیش کیا جوہری نے ماننے سے انکار کردیا تو خلیفہ بنے بچے نے کہا کہ شاہی حکیم کو بلایا جائے ایک بچہ شاہی حکیم کے روپ میں آیا ، خلیفہ بنے بچے نے اس سے کہا کہ اس شہد کو چکھ کر بتاؤ کہ یہ کتنا پرانا ہے ۔ شاہی طبیب نے چکھنے کے بعد کہا کہ یہ شہد تازہ ہے یعنی زیادہ عرصہ پرانا نہیں ہے ۔ خلیفہ بنے بچے نے جوہری بنے بچے سے کہا کہ تم نے اس کا برتن کھولا تھا اور شہد نکالا تھا ، اب یا تو تم اس کی اشرفیاں واپس کردو یا پھر سزا کے لیے تیار ہوجاؤ.

خلیفہ یہ واقعہ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور واپس اپنے دربار جاکر جوہری اور حسن کو طلب کیا اور اسی طرح سے شاہی طبیب کو بلا کر شہد چکھنے کا کہا تو شاہی طبیب نے بتایا کہ شہد تازہ ہے ، خلیفہ نے نے جوہری کو کہا کہ یا تو اشرفیاں واپس کردو یا پھر سزا کے لیے تیار ہو جاؤ کیوں نے تم نے اس کا برتن کھول کر شہد نکالا تھا اور اس کے ساتھ اشرفیاں بھی نکال لی تھی-

جوہری نے تسلیم کرلیا اور حسن کی اشرفیاں واپس کردی ، یوں ایک بچے کی ذہانت سے ایک مشکل مقدمے کا فیصلہ ہوگیا.

Najamuddin Ghanghro
About the Author: Najamuddin Ghanghro Read More Articles by Najamuddin Ghanghro: 583 Articles with 700406 views I m now Alhamdulillah retired from Govt. Service after serving about 39 ys. Passing ,Alhamdulillah a tense less life. MAY ALLAH CONTINUE IT.AAMEEN

.. View More