اگر میں دہشت گرد ہوتا…؟

ایک دفعہ ایک سردار جی کا گھوڑا گم ہو گیا، وہ دو دن تک گھوڑا تلاش کرتے رہے لیکن ناکام رہے۔ اچانک تیسرے دن انہیں ایک خیال آیا جس کے فوراً بعد وہ گھوڑے کی تلاش میں نکلے اور فقط ایک گھنٹے میں گھوڑا تلاش کر لیا۔ کسی نے پوچھا کہ ”سردار جی! اچانک آپ کو کیا آئیڈیا سوجھا کہ آپ نے اتنی جلدی گھوڑا تلاش کر لیا۔“ سردار جی مسکرا کر بولے” میں نے سوچا کہ اگر میں گھوڑا ہوتا ااور گم ہو جاتا تو کہاں جاتا؟ بس… میں نے بھی یہی سوچا اور ٹھیک اسی جگہ جا پہنچا جہاں میرا گھوڑا گھاس چر رہا تھا اور اسے گھر لے آیا۔“

بظاہر تو یہ ایک پرانا سا لطیفہ ہے لیکن کافی سبق آموز ہے اور آج کل کے سنگین حالات پر فٹ بیٹھتا ہے۔ پچھلے دنوں جب یہ لطیفہ میرے ذہن میں آیا تو میں نے سوچا کہ دہشت گردوں کو پکڑنے کا بھی یہی طریقہ ہے کہ ان کی طرح سوچنا شروع کر دیا جائے۔ چنانچہ میں بھی آج کل یہی سوچ رہا ہوں کہ اگر میں دہشت گرد ہوتا تو کیا کرتا؟ میرا مفروضہ کچھ اس طرح ہے… سب سے پہلے تو میں اس شہر میں داخل ہوتا جہاں مجھے دہشت گردی کرنی ہوتی اور شہر میں داخل ہونے کے لئے میں کوئی ایسا طریقہ اختیار کرتا جس کے ذریعے میں شہر کے داخلی راستوں پر ہوتی ہوئی چیکنگ سے بچ جاتا یعنی میں کسی عام سی مسافر بس میں کسی عام مسافر کی طرح شہر میں داخل ہوتا۔ آج کل چونکہ شلوار قمیض میں ملبوس داڑھی والے اشخاص کو زیادہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس لئے میں اپنا حلیہ بھی اس کے بالکل بر عکس بنا لیتا اور کلین شیو کروا کے جینز اور ٹی شرٹ میں گھومتا تاکہ کوئی مجھ پر شک نہ کرسکے۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد میں اہم مقامات اور عمارات کی ”ریکی“ کرتا اور ان کے ارد گرد سیکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لیتا۔ میرا ٹارگٹ یقینی طور پر ایسی عمارت بنتی جس کے ارد گرد روایتی قسم کی سیکیورٹی ہوتی اور جہاں تک پہنچنے میں بھی مجھے کوئی پرابلم نہ ہوتی۔ مزید براں اس عمارت کا کوئی تعلق حکوت کے قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے سے بھی ہوتا تاکہ میرے عمل کو نام نہاد قسم کی justification مل سکے۔ چونکہ اس قسم کی عمارتیں بڑے شہروں بے شمار ہوتی ہیں اس لئے میں سیکیورٹی کے انتظامات کے باوجود بھی کوئی نہ کوئی ایسی عمارت یا جگہ تلاش کرنے میں ضرور کامیاب ہو جاتا جہاں مجھے دھماکہ کرنے میں زیادہ دشواری نہ ہوتی۔

شہر میں داخل ہونے کے بعد ایک مسئلہ وہاں رہائش کا بھی ہوتا اور اس مسئلے کو بھی میں با آسانی حل کر لیتا۔ اس ضمن میں میرا کمانڈر بھی میری مدد کر دیتا اور مجھے شہر میں کسی کے پاس ریفر کر دیتا یا پھر میں خود ہی کوئی ایسی جگہ تلاش کر لیتا جہاں رہنے میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ لاہور جیسے شہر میں ایسی بے شمار جگہیں مل جاتی ہیں اور اگر زیادہ ہی احتیاط کرنی ہو تو بندہ آرام سے داتا دربار میں جا کر سو سکتا ہے۔ شروع شروع میں تو دربار میں سونے میں کوئی حرج نہیں لیکن بعد میں جب میں نے بارود سے بھری گاڑی تیار کرنی ہوگی تو اس کے لئے لا محالہ مجھے کوئی ایسی جگہ تلاش کرنی پڑی گی جہاں چند دن میں خاموشی کے ساتھ اپنا کام کر سکوں۔ ایسی جگہ تلاش کرنا کچھ مشکل ضرور ہوگیا ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ آپ کسی بھی پراپرٹی ڈیلر کے پاس چلے جائیں اور اسے اپنا جھوٹا سچا تعارف کروا کر اور اسے اس کی پوری کمیشن دے کر کہیں بھی کوئی بھی مکان کرائے پر لے سکتے ہیں۔ یوں تو مکان کرائے پر لینا ایک آخری آپشن ہوگا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ایک بڑے شہر میں میرے کمانڈر کے کہنے پر مجھے اپنے ہمدردوں کے پاس کہیں نہ کہیں کوئی محفوظ ٹھکانہ ضرور مل جائے گا۔

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے لیکن اس سے آگے کے مراحل تھوڑے سے ٹیڑھے ہیں۔ جس عمارت کو میں نے نشانہ بنانا ہوتا اس کے لئے مجھے تقریباً چار پانچ سو کلو دھماکہ خیز مواد چاہئے ہوتا اور ایک ایسی گاڑی جس میں یہ دھماکہ خیز مواد لاد کر میں عمارت کو ٹارگٹ کر سکوں۔ اس کام کے دو طریقے ہیں…یا تو میرا کمانڈر میری مدد کرتا اور مجھے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی شہر میں ہی کہیں وصول کر وا دیتا اور یا پھر مجھے خود ہی اس کے لئے کچھ ایسے لوگوں سے رابطہ کرنا پڑتا جو زیر زمین اسلحہ بارود وغیرہ کا کام کرتے ہیں۔ پہلی صورت میں تو میرا مسئلہ کافی حد تک کمانڈر ہی حل کروا دیتا لیکن دوسری صورت میں مجھے خود ہاتھ پیر ہلانے پڑتے اور پانچ چھ سو کلو بارود کا انتظام کرنا پڑتا۔ تاہم گاڑی کا انتظام کچھ مشکل نہ ہوتا کیونکہ گاڑی نہایت آسانی کے ساتھ کسی شخص سے بھی مارکیٹ سے زیادہ دام دے کر خریدی جا سکتی ہے اگر بیچنے والے کو چار پیسے زیادہ مل رہے ہوں تو وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کی گاڑی کون خرید رہا ہے؟ اس کے بعد آخری مرحلہ رہ جاتا ہے یعنی گاڑی لے کر اپنی ٹارگٹ کی ہوئی عمارت تک پہنچنا اور پھر اسے اڑا دینا۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ سارا کچھ CCTV Footage کے ذریعے سے پہلے ہی سب کو معلوم ہے۔

یہ سارا پلان فرض کرنے کے بعد مجھے اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ ہم دہشت گردوں کو روکنے میں اس لئے ناکام ہیں کیونکہ ہم ان کی طرح نہیں سوچتے ، ہم defensive ہو کر سوچتے ہیں اور ایسے حفاظتی اقدامات کرتے ہیں جو کسی ”ُشریف “ قسم کے مجرم کے لئے تو کار گر ثابت ہو سکتے ہیں لیکن سفاک دہشت گردوں کے لئے نہیں۔ جو دہشت گرد کسی سرکاری عمارت کے پاس پہنچ کر بارود سے بھری گاڑی لاتے ہیں اور پھر وہاں فائرنگ کر کے گارڈز کو بھگاتے ہیں اور بیرئیر ہٹا کر دھماکہ کرتے ہیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ ایسے بیرئیرز لگائے جائیں جو ہاتھ سے ہلائے جا سکیں اور نہ توڑے جا سکیں اور جب ایسا کوئی شخص گاڑی لے کر آئے تو عمارت کے ارد گرد چوکیوں میں ماہر نشانہ باز خود کار ہتھیاروں کی مدد سے آناً فاناً اس کا خاتمہ کر دیں تاکہ جانی نقصان سے بچا جا سکے۔ اوراس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جائے۔ بظاہر یہ آسان کام نہیں لیکن ذہن یہ ماننے کو بھی تیار نہیں کہ ملک میں دہشت گردی کا اس قدر وسیع نیٹ ورک خفیہ طریقے سے چلایا جا سکے جس میں ٹنوں کے حساب سے دھماکہ خیز مواد تیار کیا جاتا ہو، جدید اور خود کار اسلحہ سپلائی کیا جاتا ہو، خود کش بمبار ڈھونڈھ کر ٹرینڈ کئے جاتے ہوں اور اندھا دھند پیسہ خرچ کیا جاتا ہو… ایسا نیٹ ورک خفیہ طریقے سے چلانا ناممکن ہے!!! چنانچہ Moral of the Story یہی ہے کہ دہشت گردوں کی طرح سوچیں، ان کے نیٹ ورک تک رسائی حاصل کریں اور پھر اس نیٹ ورک کو تباہ کردیں…ایسا کرنا قطعاً آسان نہیں لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔ یہ جنگ عام جنگ نہیں ہے ، یہ جنگ صرف pro-active intelligence کے ذریعے سے ہی جیتی جا سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی آپ کو مارے، آپ اس کو مار دیں اور اس کام کے لئے آپ کے پاس اتنا ہی وقت ہے جتنے وقت میں خود کش بمبار اپنے ٹارگٹ تک پہنچ کر اپنی جیکٹ سے بم کی پن نکال لیتا ہے۔ اب یہ پلاننگ ہم نے کرنی ہے کہ کیسے اسے اس کی پن نکالنے سے پہلے ختم کرنا ہے… اس کے لئے ہمیں انہی کی طرح سوچنا ہوگا!!!

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 60591 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.