حج اور عمرہ کی فضیلت

حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فر مایا ۔جس کے پاس سفرحج کا ضروری سامان ہو اور اس کوسواری میسر ہو جو بیت اﷲ تک پہنچا سکے اور وہ پھر حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر،اور یہ اس لیے کہ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے کہ اﷲ کے لیے بیت اﷲ کا حج فرض ہے۔ان لو گوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔

حج کے طرزکی ایک دوسری عبادت اور بھی ہے یعنی عمرہ جو کہ سنت مو کدہ ہے۔جس کی حقیقت حج کے بعض عا شقانہ افعال ہیں،اس لیےاس کا لقب حج اصغر ہے۔

حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے احرام میں مردوں کے لیے دو چادریں ہیں۔ایک تہمند کے طور پر باندھ لی جاتی ہے اور دوسری بدن پر اوڈھ لی جاتی ہے۔سر کھلا رکھا جاتا ہے اور پاؤں بھی کھلے رکھے جاتے ہیں۔ایسا جو تا ہو نا چاہیے کہ جس سے پاؤں کا اوپر کا حصہ نیچے تک کھلارہے عو رتوں کے لیے منہ کھو لے رکھنے کا حکم ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ اجنبی مردوں کے سامنے بھی اپنے چہرے با لکل کھلے رکھیں،بلکہ جب اجنبی مردوں کا سامنا ہو تو اپنی چادر سے یا کسی اور چیز سے ان کو آڑ کر لینی چا ہیے۔حضرت عائشہ ر ضی ا ﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم عورتیں حج میں رسول اﷲﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں تھیں(تو احرام کی وجہ سے ہم اپنے چہروں پر نقاب نہیں ڈالتی تھیں) جب ہمارے سامنے سے مرد گزرتے تھے تو ہم اپنی چادریں سر کے اوپر لٹکا لیتی تھیں اور اس طرح پردہ کر لیتی تھیں،پھر مرد جب آگے گزر جاتے تو ہم اپنے چہرے کھول دیتی تھیں۔

حج اور عمرہ کی برکت اتنی ہے کہ اس بارے میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فر مایا کہ حج اور عمرہ ساتھ ساتھ کرو دونوں فقرو محتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں کہ جس طرح لو ہار اور سنار کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے۔حج وعمرہ کا صلہ اور ثواب تو جنت ہی ہے۔لیکن دنیا میں بھی اﷲ تعالی حاجی کے معاشی حالات سنوار
دیتا ہے اور اپنے بندے کو کسی کا محتاج نہیں ہو نے دیتا اور جو سفر حج پر حاجی خرچ کرتا ہے اس کا دوگنا اسے واپس کر دیتا ہے ۔اور ایسے طر یقے سے دیتا ہے جس کا انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو تا۔نبی کر یم ﷺ کا ارشاد ہے حج و عمرہ کے لیے جانے والے خدا کے خصوصی مہمان ہو تے وہ خدا سے جو دعا کریں وہ دعا اﷲ تعالی قبول کرتا ہے۔اور مغفرت طلب کر یں تو بخش دیتا ہے۔

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ اﷲ تعالی ہر روز اپنے حاجی بندوں کے لیے ایک سو بیس رحمتیں نازل فر ماتا ہے۔جن میں ساٹھ رحمتیں ان کے لیے ہوتی ہیں جو بیت اﷲ کا طواف کرتے ہیں،چالیس ان کے لیے جو وہاں نماز پڑ ھتے ہیں اور بیس ان کے لیے جو صرف خانہ کعبہ دیکھتے رہتے ہیں،سبحان اﷲ،۔نبی کریمﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جس نے پچاس مرتبہ بیت اﷲ کا طواف کر لیا وہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک ہو گیا جیسے اس کی ماں نے اس کو آج ہی جنم دیا ہو۔

حضرت عبدالر حمان بن یعمررضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲﷺ سے سنا ہے کہ آپ فر ماتے تھے حج(کا ایک خاص الخاص رکن جس پر حج کا دارومدار ہے)وہ ہے وقوف عرفہ جو حاجی مزدلفہ والی رات میں( یعنی نو اور دس ذی الحجہ کی درمیانی شب میں) بھی صبح صادق سے پہلے میدان عرفات میں پہنچ جائے تو اس نے حج پالیااور اس کا حج ہو گیا۔دس ذی الحج کے بعدمنی میں قیام کے تین دن ہیں(جن میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے یعنی تینوں شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں،گیارہ،بارہ اور تیرہ ذی الحجہ) اگرکوئی حاجی صرف دو دن یعنی گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو رمی کر کے وہاں سے جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں دونوں طرح جائز ہے۔

حضرت جابر رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فر مایا کہ جب عر فہ کا دن ہو تا ہے(جس میں حاجی لوگ میدان عرفات میں جمع ہو تے ہیں) تو اﷲ تعالی فر شتوں سے فخر کے ساتھ فرماتے ہیں کہ میرے بندوں کو دیکھو کہ میرے پاس دور دراز راستوں سے ہو تے ہوئے اس حالت میں آئے ہیں کہ پر یشان بال ہیں اور غبار آلود بدن ہیں اور دھوپ میں جل رہے ہیں۔ میں تم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان کو بخش دیا۔حج کی سعادت حاصل کر لینے کے بعدبا قی کی زندگی گناہوں سے بچ کر گزارنا اور اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے احکا مات کی روشنی میں زند گی گزارنا ہی انسان کا نصب العین ہو نا چاہیے-
Chohdury Abdul Latif
About the Author: Chohdury Abdul Latif Read More Articles by Chohdury Abdul Latif: 2 Articles with 2016 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.