حقیقت میلاد النبی - نواں حصہ

لَبَّيْکَ کی یہ پکار ہزاروں سال پہلے ایک لمحہ کے لیے بلند ہوئی لیکن آج اس نغمہ سرمدی کی بازگشت ہر طرف سنائی دیتی ہے۔ حجاج کرام اس پکار کو اپنے تصور میں جاگزیں کر کے اس کا جواب دیتے ہیں اور اللہ کے پیارے خلیل علیہ السلام سے متعلق ایک واقعہ کی یاد مناتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی شے یا واقعہ کو تصور و تخیل میں لاکر اس کی یاد منانا منشائے اِسلام کے عین مطابق ہے۔ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کو تصور میں اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہیں اور خوشی و مسرت اور سرور و انبساط کا اظہار کر تے ہیں۔ جشنِ میلاد کی مختلف تقریبات اور محافلِ نعت کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی یاد منائی جاتی ہے جو اَمرِ جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔

3۔ طواف کرنا سنتِ انبیاء کی یاد منانا ہے:-

بیت اللہ کے گرد سات چکر لگانا اصطلاح میں ’’طواف‘‘ کہلاتا ہے۔ طواف کرنا اور اس میں سات چکر لگانا بھی انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ اور سنت رہا ہے۔ درج ذیل روایات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے :

1۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان فرماتے ہیں :

فکان أوّل من أسّس البيت وصلي فيه وطاف به آدم عليه السلام.

’’سب سے پہلے بیت اللہ کی بنیاد رکھنے والے، اس میں نماز پڑھنے والے اور اس کا طواف کرنے والے حضرت آدم علیہ السلام تھے۔‘‘

1. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1 : 36، 40
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 1 : 313

2۔ امام محمد بن اسحاق روایت کرتے ہیں : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام زمین پر عبادت کے لیے جنت جیسا ماحول نہ پا کر غمگین ہوگئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کے ذریعے) ان کے لیے بیت الحرام تعمیر کر دیا اور انہیں وہاں کوچ کرنے کا حکم دیا۔ سو انہوں نے مکہ کا سفر شروع کیا اور راستے میں جس جگہ قیام کیا وہاں اللہ تعالیٰ نے پانی جاری کر دیا۔ یہاں تک کہ آپ مکہ پہنچ گئے :

فأقام بها يعبد اﷲ عند ذلک البيت ويطوف به، فلم تزل داره حتي قبضه اﷲ بها.

’’پس آپ نے وہیں قیام کیا اور بیت اللہ کے نزدیک اللہ کی عبادت اور اس کے گھر کے طواف میں مگن ہوگئے، سو ان کا گھر اسی جگہ رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وہیں آپ کی روح قبض فرمائی۔‘‘

1. أزرقي، أخبار مکة وماجاء فيها من الآثار، 1 : 39
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 7 : 425
3. مقدسي، البدء والتاريخ، 4 : 82

3۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے بیت اللہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ یاقوت میں ملفوف اتارا تھا، اور ان سے فرمایا : اے آدم! میں نے تمہارے ساتھ اپنا یہ گھر اتارا ہے، جس طرح میرے عرش کے گرد طواف ہوتا ہے اُسی طرح اِس کے گرد بھی طواف کیا جائے گا، اور جس طرح میرے عرش کے گرد نماز پڑھی جاتی ہے اسی طرح اس کے گرد بھی نماز پڑھی جائے گی۔ بیت اللہ کے ساتھ فرشتے بھی اترے جنہوں نے اس کی بنیادوں کو پتھروں پر اٹھایا، اور پھر ان بنیادوں پر بیت اللہ رکھ دیا گیا :

فکان آدم عليه السلام يطوف حوله کما يطاف حول العرش، ويصلي عنده کما يصلي عند العرش.

’’پس حضرت آدم علیہ السلام اس کے گرد ایسے ہی طواف کرتے جس طرح عرش کے گرد کیا جاتا تھا، اور اس کے پاس اُسی طرح نمازیں پڑھتے جس طرح عرش کے گرد پڑھی جاتی تھیں۔‘‘

أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1 : 39

4۔ حضرت آدم علیہ السلام کے علاوہ بھی کئی انبیاء کرام نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ مشہور تابعی مجاہد بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ حج کرنے والے انبیاء کرام کی تعداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

حجّ خمسة وسبعون نبياً، کلهم قد طاف بالبيت.

’’پچھتر (75) انبیاء کرام نے حج کیا اور ان سب نے بیت اللہ کا طواف کیا۔‘‘

1. أزرقي، أخبار مکة وماجاء فيها من الآثار، 1 : 67، 68
2. فاکهي، أخبار مکة في قديم الدهر وحديثه، 4 : 268، رقم : 2599
3. أحمد بن حنبل، العلل و معرفة الرجال، 3 : 193، رقم : 4831

یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ طواف میں سات چکر لگانا بھی انبیائے کرام کی سنت رہی ہے، جس کی تصریح درج ذیل روایات سے ہوتی ہے :

5۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں :

حجّ آدم عليه السلام وطاف بالبيت سبعا.

’’حضرت آدم علیہ السلام نے حج کیا تو بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔‘‘

1. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1 : 45
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 1 : 320

6۔ امام عبد اللہ بن ابی سلیمان بیان کرتے ہیں :

طاف آدم عليه السلام سبعاً بالبيت حين نزل.

’’جب حضرت آدم علیہ السلام زمین پر اُترے تو انہوں نے بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔‘‘

أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1 : 43

7۔ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے طوافِ کعبہ کے بارے میں امام محمد بن اسحق بیان کرتے ہیں :

ما فرغ إبراهيم خليل الرحمن من بناء البيت الحرام، جاءه جبريل فقال : طف به سبعًا، فطاف به سبعًا هو وإسماعيل.

’’اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا : اس کے گرد سات چکر لگائیں۔ تو حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔‘‘

1. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1 : 65
2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 129

تمام انبیاء کرام کے بعد حضور علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو سابقہ انبیاء کرام کی سنت برقرار رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہمیشہ دورانِ طواف بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔

8۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان فرماتے ہیں :

قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم فطاف بالبيت سبعا.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مکہ) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (طواف کرتے ہوئے) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب من صلي رکعتي الطواف خلف المقام، 2 : 588، رقم : 1547
2. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء في السعي بين الصفا والمروة، 2 : 593، رقم : 1563
3. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب متي يَحلُّ المعتمر، 2 : 636، رقم : 1700
4. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب ما يُلزَم من أحرم بالحج، 2 : 906، رقم : 1234

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ طواف میں سات چکر لگانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت کی پیروی ہے، اِس کے ذریعے ہم اُن کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.