کینیڈئین ڈالرکا حشر اور دیگرکرنسییاں

کینیڈا کی پچھلے دنوں کی ایک اہم خبر تھی - ایک حضرت کو اپنی ملازمت سے 500 ڈالر کیش میں ملے- وہ تھکا ماندہ گھر آیا ، سخت سردی میں اندر سے گھر کافی گرم تھا وہ ایک ٹین کے چھوٹے سے ڈبے میں اپنے نوٹ ڈالکر گرم ہوا کے ڈکٹ کے پاس رکھ کر سو گیا -اگلے روز اسے یاد آیا لیکن نوٹ غائب تھے اسکی جگہ تڑے مڑے کچھ پلاسٹک کے ٹکڑے تھے - وہ اسکو اسی طرح لے کر بنک گیا اور انسے اپنے 500 ڈالر طلب کئے - صورتحال کافی گھمبیر ہو گئی -کینیڈئین بنکنگ کی دنیا میں ایک ہلچل مچ گئی- اسنے بھی ہٹ دھرمی دکھائی اور آخر کار بنک آف کینیڈا کو اسے پانچ سو ڈالر لوٹانے پڑے-

کینیڈا میں پلاسٹک جیسےنوٹ کیا متعارف ہوئے ؟ کہ نوٹ کا احساس ہی جاتا رہا، عجیب سا اکڑا اکڑا نوٹ ، شروع میں دیکھا تو یوں لگا جیسے کوئی مذاق کیا گیا ہے -بار بار پوچھا کیا نوٹ اصلی ہے؟ کہنے کو یہ نوٹ کافی پائیدار ہے اور گیلا ہونے سے نہیں پھٹتا لیکن اب یہ گرمی سے پگلنے والی صورتحال کا کیا کیا جائے؟ اس روز اے ٹی ایم سے نکالا تو اچھا خاصا پھٹا ہوا، وہ تو شکر ہے کہ بھن گیا- کینیڈا کا سب سے چھوٹا نوٹ پانچ ڈالر کا ہے اسکے بعد سکے شروع ہوتے ہیں- ایک ڈالر کا سکہ لونی کہلاتا ہے جسپر یہاں کی مشہور و معروف بطخ بنی ہے وہ بطخ بھی لونی کہلاتی ہے اب لونی کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟ کیونکہ ان بطخوں کی آبادی کا حال کچھ چین کی آبادی کا ہے -سخت سردی سے بچاؤ کیلئے جب یہ پڑاؤ در پڑاؤ جنوب کا رخ کرتی ہیں تو امر یکہ والے انسےناگہانی، ناپسندیدہ اور بن بلاۓ مہمان کا سا سلوک کرتے ہیں-ریاست اریزونا میں گھاس کے اوپر ایک مخصوص دوا کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے تاکہ یہ وہاں نہ بیٹھ پایئں کیونکہ وہاں کی گھاس ان سے زیادہ قیمتی ہے ، صحرائی علاقوں میں گھاس یوں بھی بیش قیمت ہوتی ہے پھر مہنگا پانی - دو ڈالر کا سکہ ٹونی کہلاتا ہے ٹونی بیچ میں سنہرا اور کنارے سے روپہلا ہے - اسمیں بھی ایک مرتبہ کچھ بناؤٹ کی کوتاہی ہوچکی ہے اندر کا گولڈن حصہ الگ ہوکر گر جاتا تھا- کوارٹر یعنی چونی ،دس، پانچ، اور ایک سینٹ کے سکے بالکل امریکہ کی مانند ہیں-اسطرح اعشاری نظام کے تحت سو سینٹ ہیں-

دنیا میں سکوں اور کرنسی کی تاریخ بہت پرانی ہے وقت کے لحاط سے اور ممالک کی مالداری کے حساب سے سکے بدلتے رہے سب سے زیادہ اہمیت سونے چاندی کے سکوں کی تھی جو ہندوستان اور عرب ممالک میں اشرفیاں کہلایا کرتی تھیں انگلستان میں سونے کے پاؤنڈ ہوتے تھے ان پاؤنڈوں اور اشرفیوں کی اب بھی طبقہ امراء میں کافی اہمیت ہے وہ اسے سلامیوں اور منہ دکھائی میں دیتے ہیں - انکو زیورات میں بھی ڈھالا جاتا ہے سونے کے گنی پونڈوں کے ہار ، بازوبند ، آویزے اور انگوٹھیاں اب بھی ایک پسندیدہ زیور ہے - اب جبکہ سونے کی قیمتیں حقیقتا آسمان سے باتیں کر رہی ہیں یہ سب محض دکھاوےکی حد تک امیروں کے چونچلے رہ گئے ہیں یا جنکے پاس پہلے سے موجود ہوں- موجود ہونے کیلئے کتنوں نے تجوریاں بھر رکھی تھیں ، کچھ نے دفینے زمین میں گاڑ دئے تھے - جنکا حال سویس بنک جیسا ہو گیا ہے- اکثر دفینوں پر تو کہتے ہیں سانپ قابض ہو جاتے ہیں-دیو مالائی داستانوں میں اس قسم کی کہانیاں عام ہیں- اہرام مصر کے دفینے بھی سونے ،جواہرات اوراشرفیوں سے بھرے ہوئے تھے اور ہیں-

مصر کا ذکر ہے تو قارون کا اپنے خزانے سمیت زمین میں دھنس جانے کا قصہ کافی مشہور ہے-قرآن پاک میں ہے کہ اسکے خزانے کی چابیاں آٹھ تنومند آدمی اٹھاتے تھے-

مختلف ممالک کی کرنسی کو کاغذ کے نوٹوں میں تبدیل ہوئے بھی ایک عرصہ گزر چکا ہے اب بیشتر ممالک نے دوسرے سکے بھی ختم کر دئے اور کم از کم سکہ ایک یا دو رکھ دیا ہے جیسے کہ پاکستان میں ہمارے بچپن میں سوراخ والا پیسہ ، آنہ ، دونی ، چونی ، اٹھنی اور پھر روپیہ ہوا کرتا تھا اسوقت سولہ آنے کا روپیہ ہوتا تھا - میرے ایک نانا اٹھنی عیدی دیا کرتے تھے اور اس سے بھی کافی خریداری ہو جایا کرتی تھی -کوڑیوں کے مول والا زمانہ نہ جانے کب تھا- اب تو وہاں فقیر بھی پانچ دس روپے کو ہاتھ نہیں لگاتا بچپن میں میرا چھوٹا بھائی عیدی میں ملے ڈھیر سارے سکوں سے خوب خوش ہوتا تھا میں اسے اپنے سارے سکے دیدیتی اسکے نوٹوں کے بدلے میں، لیکن جلد ہی مجھے اپنی بے ایمانی اور اسکو اپنی ناسمجھی کا احساس ہوا- اوریون بھی بچپن پلک جھپکتے ہی گزر گیا - ہمارے ایک بزرگ نے جب ایک زمانے میں بڑا قطعہ زمین خریدا تو خچر کے اوپر ا شرفیاں لاد کر لے گئے- اب تو جہاں کاغز کے نوٹوں نے اس بوجھ کو ہلکا کردیا ہے وہاں کریڈٹ کارڈوں نے نوٹوں سے بھی بے نیاز کر دیا ہے-

- پاکستان میں بھی آئے دن نوٹ بدلتے رہتے ہیں اکثر تو ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا اور نوٹ متروک ہو چکا ہوتا ہے - جیسے ایک روپیہ، پانچ روپے کے نوٹ یہ اب ایک پرانی یادگار کے طور پر محفوظ ہیں - ایک مرتبہ پانچ سو کے نوٹ بدلے گئے تو کئی خواتین کی اپنے شوہروں سے چھپائی ہوئی جمع پونجی منظر عام پر آئی، دنگے فساد بھی ہوئے اور واہ واہ بھی- اب پاکستانی 20 روپے کا اور پانچ ہزارکا نوٹ ملتا جلتا ہے اور کئی قصے سننے میں آئے کہ بے چارے 20 کی جگہ پانچ ہزار کا نوٹ پکڑا آئے اور لینے والے نے بھی چپ کر کے لے لئے-واہ جناب کیا کہنے ہماری ایمانداری کے ؟

پاکستانی روپیہ کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں گرتے گرتے 105 روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے ایک صاحب کہنے لگے " میں قائد اعظم پر ابراہم لنکن کو ترجیح دیتا ہوں" ظاہر ہے انکی مراد امریکی ڈالر سے تھی اور ابراہم لنکن ہے کہ آپے سے باہر ہوا جاتا ہے اور کسی طرح قابو میں نہیں آتا- ہاں قائد اعظم کی تصویر کے نیچے "رزق حلال عین عبادت ہے " سے چشم پوشی کرنا ہی وقت کا عین تقا ضا ہے-

دنیا میں کئی ممالک نے ایک ہی سکہ یا نوٹ رکھا ہے جاپانی ین ،اٹلی کا لیرا , جب شفیق الرحمان اٹلی گئے تو انکے پاس لیرے ہی لیرے ہوگئے لیکن اب نیا یورو جو یوروپ کے کئی ممالک کی مشترکہ کرنسی ہے - برطانیہ نے اپنا پونڈ قائم رکھا ہے- انڈونیشیا میں ابھی ایک بھتیجا گیا اور راتوں رات billionaire بن گیا - دنیا کے بیشتر ممالک میں کرنسی کے مختلف نام ہیں ، پونڈ، ڈالر ، دینار ، درہم ، روپیہ، پیسہ ، ٹکہ،ہم ہر کرنسی کو روپیہ کہتے ہیں ، بنگالی ٹکہ کہتے ہیں- ایک زمانے میں پتھر اور چمڑے کے سکے بھی استعمال ہوئے نظام سقہ نے تو ایک دن کی حکومت میں چمڑے کا سکہ جاری کردیا تھا- پھر لین دین کے لئے اجناس کا تبادلہ بھی ہوا کرتا تھا- اب بھی کافی ممالک اجناس کے تبادلے میں تجارت کرتے ہیں-

سکوں اور کرنسی کی تاریخ ہزار ہا سال قدیم ہے - مختلف ادوار میں مختلف دھاتوں کے سکے استعمال ہوئے - سونے ، چاندی، تانبہ ، پیتل اور کھوٹ کے - فراغنہ مصر ، قیصر و کسرٰی اور دنیا بھر کے شاہنشاہوں اور بادشاہوں نے اپنے اپنے ادوار میں ایک سے ایک سکے ڈھالے- اسلامی دور میں سکوں پر اسلامی رنگ غالب آگیا-

نوٹوں کا دور چین سے شروع ہوا جب تانگ اور سانگ حکمرانوں نے پہلے پہل کاغذ کا نوٹ استعمال کیا-اس سے قبل 118 قبل مسیح میں ہان حکمرانوں نے چمڑے کا نوٹ استعمال کیا تھا- یہ وہ زمانہ تھا جب تاجروں اور ساہوکاروں نے اس نئی ہلکی پھلکی کرنسی کو بھاری بھر کم سکوں کے بجائے پسند کیا-منگول حکمرانوں کے دور میں یہ نوٹ زیادہ مقبول ہوئے - یوروپ میں یہ نوٹ مشہور سیاح مارکو پولو کے ساتھ 13ویں صدی میں پہنچے اور رفتہ رفتہ پورے یوروپ میں اسے مقبولیت حاصل ہوئی اور مختلف ممالک پر کرنسی کی صورت نوٹوں نے لے لی-

امریکہ میں نوٹ کا اجراء 1690 میں میساچوسٹس بے کالونی نے سب سے پہلے کیا-18ویں صدی میں امریکہ میں سب کالونیوں نے نوٹوں کی مالیت کا تعین کر کے باقاعدہ نوٹ جاری کردیا گیا- 1789 میں ریاستہائے متحدہ کے آئین کے نفاذ کے بعد نوٹوں کے اجراء کا فیصلہ کیا گیا اور یوں پہلا بنک قائم ہوا- نوٹ کے وزن اور بناؤٹ کا رفتہ رفتہ تعین ہوا- یہ ایک لمبی کہانی اور تحقیق ہے - لیکن اب ہم ان نوٹوں کو سنبھالنے میں،خرچ کرنے میں اور انکی گردش میں لگے رہتے ہیں-اور انہی نوٹوں کی بنیاد پر ہماری مالی حیثیت کا تعین ہوتا ہے-
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 234408 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More