سائبر کرائمز: بچوں کو خودکشی کا مشورہ دیا جارہا ہے

انٹر نیٹ کے باث بہت سارے کام آسان ہوگئے ہیں مثلاً چیزوں کی قیمتوں کا اندازہ لگانا، ریلوے اور ائر لائنز کے ٹکٹس کی بکنگ، موسم کا حال، سونے چاندی کا بھاؤ، کرنسی ریٹ، دنیا بھر کے نقشے، تعلیمی و تفریحی مواد، سیرو سیاحت کا موقع اور دنیا بھر کے حالات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جرائم کی دنیا میں ایک نئی اصطلاح سائبر کرائم (CYBER CRIME)میں رائج ہوگئی ہے جو کہ انٹر نیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ان جرائم میں کسی صارف کا ڈیٹا چرا لینا، کسی کی ذاتی معلومات سے رسائی حاصل کرکے اس کا غلط استعمال کرنا، بینک فراڈ، لوگوں کو جعلی ای میلز کے ذریعے لاٹری کالالچ دے کر ان کے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرکے اس کی صفائی کرنا اور دیگر کئی جرائم شامل ہیں۔ اب انٹر نیٹ کے ذریعے لوگوں اور بالخصوص نو عمر بچے بچیوں کوڈرا دھمکا کر خود کشی کی جانب مائل کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے ۔
 

image

اطلاعات کے مطابق برطانیہ میں والدین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹین ایجر بچوں کی زندگیوں کو بچانے کے لئے ایسی ویب سائٹس بند کی جائیں جو بچوں کو خود کشی پرمجبور کردیتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ کے ہزاروں ٹین ایجر انٹرنیٹ پر موجود ایسی ویب سائٹس سے شدید متاثر ہوتے ہیں جو بچوں کو مشورے دینے کے بہانے تباہی کی طرف گامزن کردیتی ہیں۔ ان بچوں کو پہلے ان ویب سائٹس پر وزٹ کرنے کا عادی کیا جاتا ہے اور پھر ان کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ جو بچے انٹرنیٹ کے ذریعے دھمکیوں سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں ان میں سے بعض خود کشی کرلیتے ہیں۔
 

image

حال ہی میں ایک 14سالہ برطانوی بچی ہنّا اسمتھ کی خود کشی کا سانحہ رونما ہوا ہے ۔ ہنّا اسمتھ ایگزیما کی بیماری میں مبتلا تھی ۔ اس نے اپنی بیماری کے علاج کے لیے ایک ویب سائٹ ( ہم بوجوہ یہاں اس ویب سائٹ کا نام نہیں لکھ رہے ہیں )سے رابطہ کرکے مشورہ مانگا ، لیکن یہاں اس کو کوئی اچھا مشورہ دینے یا اس کو بیماری سے لڑنے کا حوصلہ دینے کے بجائے اس کو اس قدر ڈرایا ، دھمکایا اور خوفزدہ کیا گیا اور اسے کہا گیا کہ اس کا مرجانا ہی دنیا کے لیے بہتر ثابت ہوگا، ان باتوں سے دلبرداشتہ ہوکر بالآخر ہنّا اسمتھ کو گلے میں پھندہ ڈال کر خود کشی کرنی پڑی اورجب اس کی 16 سالہ بہن نے اسے اپنے کمرے میں دیکھا تو وہ انتقال کر چکی تھی۔ ہنّا کے والد ڈیوڈ اسمتھ نے بتایا کہ ہّنا جی سی ایس ای کے لئے تیاری کررہی تھی اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ خود کو اس طرح ختم کردے گی وہ زندگی سے محبت کرنے والی اور خوش رہنے والی لڑکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہّنا آخری وقت تک اپنی روزمرہ کی زندگی معمول کے مطابق گزار رہی تھی۔ اس کی خود کشی کے بعد اس کے والد ڈیوڈ نے اس کی بن سے ایک کاغذ نکالا جس پر لکھا ہوا تھا کہ وہ سمجھتی ہے کہ وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوگی۔ وہ چاہتی ہے کہ اس دنیا کو چھوڑ دے اور خودکو زندگی کی قید سے آزاد کرا دے۔ اس نے لکھا کہ وہ اس زندگی سے خوش نہیں ہے اور مرنا چاہتی ہے۔ ڈیوڈ اسمتھ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر اس قسم کی ویب سائٹس پر پابندی لگائی جانی چاہئے۔ انہوں نے والدین سے کہا کہ وہ انٹرنیٹ پر بیٹھنے والے اپنے بچوں کا خیال رکھیں کیونکہ بچے جب ویب سائٹس پرجاتے ہیں تو اکثر اوقات غلط جگہوں پر چلے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
 

image

برطانوی اخبار ’’دی مرر‘‘ کے مطابق مذکورہ ویب سائٹ سے متاثر ہوکر امریکہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کے کئی بچوں نے بھی خود کشی ہے اوراب برطانوی حکومت پر یہ مطالبہ بڑھ گیا ہے کہ اس طرح کی ویب سائٹس کو بند کیا جائے۔ ہّنا کی 16 سالہ بہن جو اسمتھ نے کہا ہے کہ اسے بھی انٹرنیٹ میں اس طرح ڈرایا دھمکایا گیا تھا جس طرح اس کی بہن کو دھمکایا گیا اخبار نے لکھا ہے کہ انٹرنیٹ پر روزانہ ہزاروں بچوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کارروائی نہ کی گئی تو مزید اموات ہوسکتی ہیں۔ ادھر ایک خیراتی ادارے بیٹ بلنگ نے بچوں کو خوفزدہ کرنے والی ویب سائٹس کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے ادارے کی بانی نے کہا کہ بچوں کو ڈرانے کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ہزاروں بچے اس طرح کے واقعات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1450505 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More