رُودادِ عید

صاحب،
عید عام لوگوں کے لئے سال میں صرف دو بار آتی ہے جبکہ اربابِ اقتدار، مفت خوروں اور پولیس والوں کے لئے سال کے تین سو پینسٹھ دن عید کے ہوتے ہیں۔ عید خوشی کا تہوار ہے، اسی لئے بچپن میں عید آنے کی خوشی ہوتی تھی اور اب خوشی کے آنے سے عید کا گُماں ہوتا ہے۔ ماہِ رمضان کے فوراً بعد جو عید آتی ہے اُسے بالعموم چھوٹی عید کہا جاتا ہے جبکہ ہمارا خیال ہے کہ جس دن اہلِ ایمان کو روزوں کا انعام ملنے والا ہو وہ کوئی چھوٹا موٹا دن نہیں ہو سکتا۔ ہاں اسے بجا طور پر میٹھی عید کہا جاسکتا ہے گو حکام کی پالیسیوں نے عوام کی زندگیوں میں صرف وہی شوگر باقی چھوڑی ہے جس کا علم ڈاکٹر سے ہی ہوتا ہے۔

عید کو عیدی کے لین دین کا تہوار بھی کہتے ہیں۔ اس دن بچے بڑوں سے عیدی لیتے ہیں، ویسے بعض بڑے بھی دوسرے بڑوں سے اس دن عیدی لیتے ہیں لیکن ان کا طریقہء کار ذرا مختلف ہوتا ہے۔ عید کی صبح جب مرغے کی بانگ اور عیدی کی مانگ سے آنکھ کھلتی ہے تو آپ کو اپنے گھر میں عجیب افراتفری کا عالم دکھائی دیتا ہے۔ کوئی کپڑے استری کررہا ہے تو کسی کو ٹوپی نہیں مل رہی۔ اس تمام عرصے میں ایک خاتون جن کی شکل آپ کو کچھ جانی پہچانی لگتی ہے ہونق بن کر پھر رہی ہیں۔ آپ کو بیدار دیکھ کر خاتون آپ سے فوراً غسل کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں اور آپ کو یاد آتا ہے کہ اس سے ملتی جلتی کسی خاتون سے آپ کی عرصہ پہلے شادی ہوئی تھی۔

خیر صاحب قصہ کوتاہ آپ جھٹ باتھ روم میں داخل ہوتے ہیں اور غسل کے جاں گُسل تجربے سے گزر کر نئے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر عیدگاہ کا رُخ کرتے ہیں، مگر ٹہرئیے مذکورہ خاتون آپ کی طرف کوئی کٹورہ بڑھارہی ہیں، آپ معاف کرو بابا کہہ کر گزرنے ہی والے ہوتے ہیں کہ خاتون اپنی عمومی ٹون میں آپ سے شیر خورمہ تناول فرمانے کا مطالبہ کرتی ہیں اور آپ کو یاد آتا ہے کہ گرد و غبار سے اٹی آپ کی بیگم سے مشابہ خاتون اصل میں آپکی زوجہ محترمہ ہی ہیں۔ خیر صاحب، آگہی کے اسی لمحے میں آپ کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ شیر خورمہ بنانا اگرچہ مشکل کام سہی مگر اس کو جلد بازی میں کھانا بھی جوئے شیر لانے سے کسی طور کم نہیں ہے۔

آپ جلدی سے دروازے کا رُخ کرتے ہیں مگر آپ کی اہلیہ کی آواز آپ کو واپس بلا لیتی ہے جو کہ آپ سے عیدگاہ چادر لے جانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ آپ لال پیلے ہوکر وضاحت کرتے ہیں کہ ابھی آپ کے حالات (حکام کی کوششوں کے باوجود) اتنے خراب نہیں ہوئے کہ عیدگاہ کے باہر چادر بچھانا پڑے، مگر اہلیہ صاحبہ آپ کو باور کراتی ہیں کہ یہ چادر عیدگاہ کے باہر نہیں اندر بچھانا ہے کہ اجتماع بڑا ہونے کی وجہ سے دری یا چادر کا بندوبست انفرادی طور پر ہی کرنا ہوتا ہے۔ خیر صاحب آپ ایک بار پھر دروازے تک جا کر واپس آجاتے ہیں کہ آپ کو یاد آتا ہے کہ آپ عطر لگانا بھول گئے ہیں، جو کہ جملہ نمازی حضرات کے حق میں خطرناک ہوسکتا ہے۔ آپ جلد از جلد عطر لگا کر دروازے کی طرف بڑھتے ہیں کہ یاد آتا ہے کہ جلد بازی میں آپ جوتے پہننا بھول ہی گئے ہیں۔

صابر لوگوں کی دھکم پیل اور فقراء کی یلغار سے بچتے بچاتے بالآخر آپ عیدگاہ کا رُخ کرتے ہیں، جہاں باوجود یہ کہ عید گاہ کی انتظامیہ نے صفوں کی حد بندی کر رکھی ہے مگر افراد کی جودت طبع نے ایسی پابندیوں کو قبول کرنے سے قطعی انکار کردیا ہے، ہر شخص اپنی مرضی سے چادر بچھا کر اور چادر سے زیادہ پیر پھیلا کر بیٹھا ہے چنانچہ عین ممکن ہے کہ آپ کسی اور جانب دیکھتے ہوئے چلیں اور کسی پہلوان کی گود میں لینڈ کر جائیں۔ مولوی صاحب کو نہ جانے کس بات کی جلدی تھی کہ انہوں نے آپ کی آمد سے پیشتر ہی خطبہ شروع کردیا ہے، خیر صاحب آپ بھی مؤدب ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور خطبے کے اختتام پر جب مولوی صاحب عید مُبارک کہتے ہیں تو آپ کو یاد آتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے برعکس عید کا خطبہ بعد از نماز ہوتا ہے۔

اب آپ گھر کا رُخ کرتے ہیں، مگر واپسی کا سفر اس قدر آسان نہیں ہے کیونکہ مختلف افراد نے عید گاہ کے دروازے کے عین سامنے آ آ کر باہم گلے ملنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، بلکہ اکثر اوقات تو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ آپ گلے کس سے مل رہے ہیں۔ بعض لوگ تو عید کے دن اتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ ایک ہی شخص سے کئی بار گلے مل لیتے ہیں۔ آپ کے عزیز و اقارب اور ملنے جلنے والے آپ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گلے لگا رہے ہیں بلکہ گلے لگانے کی بجائے آپ کی پسلیوں کو دائیں سے بائیں منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور آپ کی متلاشی نظریں اپنی چپلوں کو ڈھونڈ رہی ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ آپ کی چپلیں کوئی جوتوں کا مستحق لے گیا ہے۔

صاحب، عیدگاہ سے باہر نکلنے کے بعد آپ قبرستان کا رُخ کرتے ہیں تاکہ وہ احباب جو دوسرے جہان میں منتقل ہوچکے ہیں انہیں دلاسہ دیا جائے کہ فی الحال آپ کا ان سے ملنے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور آپ اپنی اسی دُنیا میں خوش و خرم ہیں۔ قبرستان کے باہر پھول پتیاں بیچنے والے اپنے مخصوص گندے حلئیے میں موجود ہیں، ان کی آنکھوں میں گزشتہ رات کی تھکن ان کی محنت کا پتہ دے رہی ہے۔ وہ بیچارے کبھی کسی حسین ہاتھ کے لئے کنگن اور کبھی کسی قبر کےلئے چادر تیار کررہے ہیں گویا زندگی اور موت دونوں سے نباہے جارہے ہیں۔

فاتحہ پڑھ کر آپ گھر کی جانب رُخ کرتے ہیں جہاں آپ کو ایک بار پھر خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگتا ہے کہ آپ کی بیگم سے بہت حد تک مشابہت رکھنے والی ایک الپسرا آپ کا استقبال کرتی ہے۔ ابھی آپ کے دل میں خوش فہمی جگہ بنانے ہی والی ہے کہ خاتون آپ کو یاد دلاتی ہیں کہ وہ دراصل آپ کی وہی زوجہ محترمہ ہیں جنہیں صبح آپ گھر کی ماسی سمجھے تھے، مگر جتنی دیر میں آپ عید گاہ اور قبرستان ہو کر آئے ہیں اتنی دیر میں گویا کسی نے جادو کی چھڑی سے کایا پلٹ کر دی ہے۔

صاحب عید کا دن اللہ تعالٰی کا انعام ہوتا ہے اسی لئے اس دن تقریباً ہر کسی کو اپنی گھر والی بھی بہت خوبصورت لگتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالٰی کا خاص کرم ہے کہ تیس دن کے روزے اور تین دن کی عید ہوتی ہے اگر خدانخواستہ یہ ترتیب اُلٹی ہوتی تو کوئی غریب نہ بچتا (زندہ) لیجئے صاحب، گھر کے بچوں کو آپ کی آمد کی اطلاع مل گئی ہے اور وہ آ آ کر آپ کو سلام کر رہے ہیں اور آپ بھی تجاہل عارفانہ سے کام لے کے صرف سلام کا جواب ہی دے رہے ہیں، یہاں تک کہ بچوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور وہ عیدی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ آپ بظاہر طوہاً و کرہاً مگر اندر سے بہت خوش ہو کر اُن میں عیدی تقسیم کررہے ہیں۔ آپ کی اہلیہ نے الحمدُللہ بچوں کی تربیت اتنے عمدہ انداز میں کی ہے کہ کوئی عیدی کی کمی کا شکوہ کرکے آپ کو شرمندہ نہیں کر رہا بلکہ آپ کے دئیے ہوئے تھوڑے سے پیسوں کو بھی اس طرح خوشی خوشی قبول کررہا ہے گویا آپ نے ہفت اقلیم کی دولت اُن کے سُپرد کردی ہو۔ واقعی صاحب، نیک اور سمجھدار بیوی اللہ کا انعام ہوتی ہے۔ اب دروازے پہ دستک ہوتی ہے اور سحری جگانے والے عیدی کا مطالبہ کرنے آن دھمکتے ہیں۔ اگرچہ کہ اُن کا مطالبہ اتنا جائز بھی نہیں کہ ماہِ صیام میں آپ ان تمام کی مدد کے بغیر الارم سے بیدار ہوئے ہیں اور یوں بھی کہ اُن میں سے بعض افراد صرف اور صرف عید کے دن ہی پہلی بار آپ کی گلی میں آن وارد ہوئے ہیں مگر صاحب اللہ تعالٰی نے آپ کی کمائی میں اُن غرباء کا بھی حق رکھا ہے۔ اُن سے فارغ ہونے کے بعد چوکیدار، جمعدار اور دیگر بہت سے دار آپ کے گھر کا رُخ کرتے ہیں اور آپ حسبِ توفیق کچھ نہ کچھ اُن کو دے کر فارغ کرتے ہیں۔

لیجئے صاحب،
اب آپ کے بہت سے رشتہ دار اپنے بہت سارے بچوں کے ساتھ آن وارد ہوتے ہیں۔ کچھ مہمان واقعی سلجھے ہوئے ہیں مگر کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جن کی حرکات سے بےطرح کوفت ہوتی ہے۔ آپ کو مہمانوں کی آمد پہ کوئی اعتراض نہیں مگر جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ اُن بچوں نے آن واحد میں گھر کا گھر اُلٹ ڈالا ہے تو آپ کو بچوں سے زیادہ اُن کے ماں باپ کی تربیت پہ تاؤ آنے لگتا ہے۔ خیر صاحب، اب عیدی دینے کا مرحلہ آتا ہے۔ آپ کے بچے اچھی تربیت کے زیرِ اثر مہمانوں سے عیدی لینے سے رسمی انکار کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اجازت طلب نظروں سے آپ کی جانب دیکھتے جاتے ہیں، اور جب آپ کا اشارہ مل جاتا ہے تو شرما کر عیدی وصول کرتے ہیں اور بغیر گنے جیب یا پرس میں رکھ لیتے ہیں۔ اب آپ مہمانوں کے بچوں کو عیدی دینے کا آغاز کرتے ہیں مگر یہ کیا؟ پہلا ہی حملہ ایک بچے کی طرف سے ہوتا ہے جو کہ بیس روپے کا نوٹ لینے سے انکار کررہا ہے۔ اس کی والدہ بچے کو اس بدتمیزی پہ منع کرنے کی بجائے منہ پھاڑ کر کہتی ہیں “میرا بیٹا تو پانچ سو روپے سے کم کی عیدی قبول ہی نہیں کرتا یہ تو آپ تھوڑے غریب ہیں اس لئے صرف سو روپے مانگ رہا ہے۔“ دوسرا بچہ اپنی والدہ کی شہہ پر مزید جلے پہ نمک چھڑکتا ہے، “انکل، کنجوسی نہ کریں، آخر عید سال میں ایک ہی بار تو آتی ہے“ آپ دل میں سوچتے ہیں کہ ایسے چھچھورے لوگوں کی وجہ سے ہی غریب آدمی کےلئے عید کا دن خوشی کی بجائے غم اور حسرت کا دن بن جاتا ہے۔ خیر صاحب دل پہ جبر کر کے آپ اُن لوگوں کا مطالبہ پورا کرتے ہیں۔

اُن کے جانے کے بعد آپ ایسے چند مہمان اور بھگتاتے ہیں اور بالآخر تنگ آکر گھر کے مرکزی دروازے پہ تالا لگا کر پچھلے دروازے سے (یا دیوار پھاند کر) گھر کے اندر جاکر چھُپ جاتے ہیں۔ آخر سفید پوشی کا بھرم بھی تو رکھنا ہے۔

تمام احباب کو دلی عید مُبارک
Sarwar Farhan Sarwar
About the Author: Sarwar Farhan Sarwar Read More Articles by Sarwar Farhan Sarwar: 6 Articles with 5276 views I have been teaching for a long time not because teaching is my profession but it has been a passion for me. Allah Almighty has bestowed me success i.. View More