ڈاکٹر فرمان فتح پوری :فصیل دل کے کلس پر ستارہ جو تیرا غم

عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب ،دانش ور ،محقق ،نقاد ،ماہر تعلیم ،ماہر لسانیات سوانح نگار ، لغت نویس ،ادبی مورخ،ماہر اقبالیات ،ماہرغالبیات ،اور ماہر علم بشریات ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے 3۔اگست2013 کی صبح کو عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھے ۔انھوں نے ہمیں قاموس و لغت سے بے نیاز کر دیا وہ خود علم و ادب ،تاریخ و فلسفے اور علوم و فنون کا ایک دائرۃ المعارف تھے۔ان کی وفات ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار ہے ۔ ان کی الم ناک وفات سے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کی مساعی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔اس وقت اردو زبان کے علمی و ادبی حلقے سکتے کے عالم میں ہیں۔ان کی دائمی مفارقت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا ٍ۔زمانہ لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتا چلا جائے اب ایسے با کمال لوگ دنیا میں کبھی نہیں آئیں گے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو زبان و ادب کے ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی کراچی یونیورسٹی کے شہر خموشاں میں زمیں بوس ہو گئی ہے ۔اردو ادب کی ایک دبنگ آواز اور بے خوف صدا ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ہے ۔ایک جامع صفات ہشت پہلو شخصیت اور عظیم انسان اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا ۔رمز لا تخف کا عملی پیکر رخصت ہو گیا۔حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیر ؓکو ہمیشہ پیش نظر رکھنے والا حریت فکر کا مجاہد عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔جبر کا ہر انداز مسترد کر کے لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھنے والے اس زیرک ،فعال ،مستعد اور جری تخلیق کار کی رحلت کی خبر سن کر کلیجہ منہ کوآتا ہے فرشتہء اجل نے اس نابغہء روزگار ادیب کے ہاتھ سے قلم چھین لیا جس نے پچاس وقیع تصانیف ،پانچ سو تحقیقی و تنقیدی مقالات ،چھے سو کتب پر تبصرے،ایک سو کتب کے دیباچے اور مقدمے ایک ہزار مطبوعہ مکاتیب اور چار سو سے زائد ادبی مجلہ ماہ نامہ نگار کے مطبوعہ اداریے لکھ کر علم و ادب کی خدمت کی ۔کیسے کیسے آسمان اس زمین نے اپنے دامن میں چھپا لیے ہیں ۔راہ جہاں سے گزر جانے والے اس عظیم انسان نے فروغ علم و ادب ،تہذیبی اور ثقافتی سطح پر جو گراں قدر خدمات انجام دیں اور قومی تشخص کو اجاگر کرنے میں جو اہم کردار ادا کیا وہ تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھا جائے گا ۔ان کا عظیم نام اندھیروں کی دسترس سے دور روشنی کے مانند سد ا قارئین ادب کے لیے خضر راہ ثابت ہو گا ۔اب تو ان کی یادیں ہی زندگی کا اثاثہ ہیں ۔ان کے نقش قدم کو دیکھ کر آنے والی نسلیں اپنی منزل کا تعین کرے گی ۔ان کی آواز لمحے نہیں صدیاں سنیں گی اس لیے ان کی آواز جو قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے اسے محفوظ رکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔

فرمان فتح پوری کا اصل نام سید دلدارعلی تھا۔وہ 26۔جنوری 1926کو فتح پور سہوہ ،یو پی ،بھارت میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد سید عاشق علی بن سید عمر علی اس علا قے کے ممتاز عالم تھے ۔اپنے علم و فضل وار زہد و تقویٰ کی وجہ سے ان کی بہت عزت و تکریم کی جاتی تھی ۔فرمان فتح پوری کی والدہ سیدہ عزیز النسا بنت حافظ سید مقصود علی ایک عبادت گزار ،نیک دل اور پرہیز گار خاتون تھیں ۔ انھوں نے اپنے گھر میں علوم دین کی تدریس کا اہتمام کر رکھا تھا۔پورے علاقے کے بچے اور بچیاں اس سر چشمہ ء فیض سے سیراب ہوتیں۔1933میں فرمان فتح پوری کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ان کی والدہ نے انتہائی نا مساعد حالات میں بھی اپنے لخت جگر کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔اپنے آبائی قصبے فتح پور سے میٹرک کاامتحان پاس کرنے کے بعد وہ الٰہ آباد پہنچے جہاں سے انھوں نے انٹر میڈیٹ کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔اس کے بعد انھوں نے 1950میں آگرہ یو نیورسٹی سے گریجویشن کیا ۔1950کے اواخر میں انھوں نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا اور اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی پہنچے اور یہیں مستقل سکونت اختیا ر کر لی ۔جامعہ کراچی سے انھوں نے جو امتحانات پاس کیے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :
ایل ایل بی 1953،بی ٹی 1955،ایم۔اے اردو 1958،پی ایچ۔ڈی (اردو)موضوع :اردو کی منظوم داستانیں 1964 ،ڈی لٹ :موضوع :اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری 1974۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ اردو میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے وہ پہلے پاکستانی ہیں ۔یہ ان کا وہ اعزاز و امتیاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔

اپنی عملی زندگی میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جس مستعدی اور ذمہ داری کا ثبوت دیاوہ اپنی مثال آپ ہے ۔انھوں نے ایک کا میاب اور بھرپور زندگی گزاری۔انھیں جو بھی ذمہ داری تفویض کی گئی اس سے عہدہ بر آ ہونے میں انھوں نے اپنی تمام صلاحیتین بروئے کار لانے کی کوشش کی ۔وہ جہاں بھی رہے خوب سے خوب تر کی جانب ان کا سفر جاری رہا ۔ان کی سیرت و کردار میں جو حسن و جمال موجود تھا اس کے پس پردہ ان کی علمی فیاضی تھی ۔وہ طالبان علم کی علمی اعانت کو اپنا فرض سمجھتے تھے ۔وہ سب سے بے لوث محبت کے قائل تھے ۔در اصل وہ محبت کے وسیلے سے اپنی علم دوستی اور ادب پروری کو فروغ دینے کے آرزو مند تھے ۔اپنے فرائض منصبی کی تکمیل میں وہ کسی رکاوٹ کی پروا نہ کرتے اور جب تک ان کی زندگی رہی وہ پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی میں کن اداروں میں خدمات انجام دیں اور ان کی زندگی کے شب و روز کیسے گزرے ان کا مختصر احوال درج ذیل ہے :
تدریسی خدمات جامعہ کراچی 1958 سے تا حیات ،پاکستان کی ممتاز جامعات کے بورڈ آف سٹڈیز کی رکنیت 1958سے تا حیات ،مدیر ماہ نامہ ’’نگار پاکستان‘‘ کراچی 1962سے تا حیات ،اعلا و ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی رکنیت ،مقتدرہ قومی زبان ،اسلام آباد ،اکادمی ادبیات پاکستان ،اسلام آباد ،ادارہ یادگار غالب ،اردو سائنس بورڈ ،لاہور ،اقبال اکیڈمی ،لاہور ،پاکستان رائٹرز گلڈ ،قومی اعزازات کے لیے بنائی گئی کمیٹیوں کے رکن ،مزار قائد اعظم کمیٹی کے رکن ،دنیا کی ممتاز جامعات میں ایم ۔اے ،ایم۔فل اور پی ایچ ۔ڈی کے رہنما اور ممتحن(تین سو سے زائد طلبا وطالبات نے ان کی نگرانی میں اردو زبان و ادب میں ایم فل اور پی ایچ ۔ڈی کے اپنے تحقیقی مقالات مکمل کیے اور متعلقہ جامعات سے ڈگریا ں حاصل کیں ،فنی اصطلاحات کمیٹی کے رکن ،قومی نصاب کمیٹی کے رکن ،وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ماہر مضمون اور ممتحن،انھوں نے متعدد بار قومی اور بین الاقوامی کا نفرنسوں میں شرکت کی اور اردو زبان کے فروغ کی مساعی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،فتح پور ایجو کیشنل سوسائٹی کے بانی رکن ،صدر و جنرل سیکرٹری ،دنیا کی مختلف جامعات میں اردو زبان کے بارے میں توسیعی لیکچرز،رکن سندھ سول سروسز بورڈ 1996میں مقرر ہوئے ۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اردو ڈکشنری بورڈ کے سیکرٹری اور چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کا ایک عالم معترف ہے ۔1985میں جب انھوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت اردو ڈکشنری کی چھے جلدیں مکمل ہو چکی تھیں ۔ان جلدوں کی تکمیل ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی نگرانی میں ہوئی ۔ااس شعبے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نو وارد تھے لیکن اس کے با وجود نھوں نے عزم و ہمت سے کام لیا اور اردو ڈکشنری کے کام کو تپاک جاں سے پایہء تکمیل تک پہنچانے کی مقدور بھر سعی کی ۔جہاں تک ذخیرہء الفاظ کا تعلق ہے انگریزی کے بعد اردو کا دوسرا نمبر ہے ۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اردو ڈکشنری کو مرتب کرتے وقت آکسفورڈ ڈکشنری کے اسلوب کو پیش نظر رکھا ۔ماہرین لسانیات کی متفقہ رائے ہے کہ آکسفورڈ ڈکشنری کو دنیا کی تمام زبانوں کی ڈکشنریوں میں معیار اور ثقاہت کے لحاظ سے اولیت کا اعزاز حاصل ہے ۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اردو ڈکشنری کو جس محنت ،لگن اور فرض شناسی سے مرتب کیا اس کے اعجاز سے اس کی بائیس سے زائد جلدیں مکمل ہوئیں اور ان کو پوری دنیا میں بے حد پذیرائی نصیب ہوئی ۔انگریزی زبان کے بعد دنیا کی کسی زبان میں لسانیات پر اس قدر وقیع اور جامع کام منظر عام پر اب تک نہیں آ سکا۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے بعد اردو ڈکشنری کا مقام ہے ۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا یہ کارنامہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔اس کی بدولت اردو زبان کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں منفرد اور ممتاز مقام نصیب ہوا۔اب تک انھوں نے اردو ڈکشنری میں تین لاکھ سے زائد الفاظ کو شامل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اردو زبان کا ذخیرہ الفاظ انگریزی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری پاکستان کی تہذیبی، ثقافتی ،تاریخی ،لسانی اور قومی اقدار و روایات کے ترجمان تھے ۔انھوں نے پوری دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ اردو زبان کی وقعت ،ہمہ گیری اور اظہار و ابلاغ پر قدرت دنیا کی دوسری زبانوں سے کہیں بڑھ کر ہے ۔اردو ڈکشنری کو مرتب کرتے وقت ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جس تدبر ،فہم و فراست ،تحقیق و تنقید ،وسیع مطالعہ اور احتیاط سے کا م لیا اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔انھوں نے اپنے رفقائے کار پر واضح کر دیا کہ امیر خسرو سے لے کر لمحہء موجود تک اردو زبان کے تمام تخلیق کاروں کی تصانیف کا عمیق مطالعہ کیا جائے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ انھوں نے اپنی تصانیف میں اپنے مافی الضمیر کے اظہار و ابلاغ کے لیے کن الفاظ کو کس انداز اور کس مقصد کے لیے استعمال کیا ہے ۔اس طرح الفاظ کے حقیقی مفہوم تک رسائی کو یقینی بنایا گیا۔انھوں نے اس ڈکشنری کی تیاری میں پہلے سے موجود دوسری ڈکشنریوں کی نقالی نہیں کی بل کہ تقلید کی مہلک روش سے دامن بچاتے ہوئے افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھاایک ماہر لسانیات کی حیثیہت سے انھوں نے اردو زبان کو عصر ی تقاضوں سے ہم آ ہنگ کرنے پر پوری توجہ دی ۔ان کی دلی تمنا تھی کہ اردو زبان کو غیر مانوس قدیم الفاظ سے نجات دلا کر اس کا دامن نئے اور قابل فہم الفاظ سے بھر دیا جائے ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اردو زبان مختلف زبانوں کے باہمی میل ملاپ سے وجود میں آئی ہے اس لیے اس میں دنیا کی دوسری زبانوں کے الفاظ کا شامل ہونا ایک قابل فہم بات ہے ۔جن الفاظ کا کوئی متبادل اردو میں موجود نہیں انھیں من و عن اردو میں شامل کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔مثال کے طور پر ’’کالج ‘‘کا کوئی متبادل اردو میں موجود نہیں اس لیے یہ لفظ اب اردو میں مانوس سا لگتا ہے ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے واضح کر دیا کہ لسانی تغیرات کی موجودہ صورت حال میں اردو زبان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ طرز کہن پر اڑنے کے بجائے آئین نو پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے ۔
اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی تھی ۔انھیں اس بات کا قلق تھا کہ پاکستان کی قومی زبان کو اس کا جائز مقام دینے کے سلسلے میں مقتدر حلقوں کی جانب سے سنجیدہ کوششو ں کا فقدان رہا ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردو پاکستان کے طو ل و عرض میں کثرت سے بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔اردو دنیا کی دوسری یا تیسری اہم اور بڑی زبان ہے ۔پاکستان میں کوئی شخص ایسا نہیں جسے اردو بولنے یا سمجھنے میں کسی دشواری کا سا منا کرنا پڑے۔اس کے باوجود بیوروکریسی کے فرامین ہوں یا عدالتی فیصلے سب کے سب انگریزی زبان میں لکھے جاتے ہیں ۔اس سے یہ تاثر دیاجاتا ہے کہ اردو میں ظہار و ابلاغ کی استعداد نہیں ۔اس بات پر وہ اکثر دلی رنج کا اظہار کرتے تھے ۔

جامعہ کراچی میں پروفیسر امریطس کی حیثیت سے ان کی خدمات اس عظیم مادر علمی کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے ۔ہر ملنے والے کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا ان کا معمول تھا۔بر صغیر پاک و ہند میں 1857کے بعد سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار نے علی گڑھ تحریک کے ذریعے ایک نئے طرز فکر کے اعجاز سے نہ صرف جمود کا خاتمہ کیا بل کہ حالات کی کایا پلٹ دی۔ فروغ علم و ادب کے حوالے سے وہ سرسید احمد خان ،مرزا اسداﷲ خان غالب ، میر ببر عل انیس اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے ۔انھوں نے اپنے تجزیاتی مقالات میں ان نابغہء روزگار ہستیوں کے افکار کی تشریح و توضیح کو اپنا نصب العین بنایا۔ مسائل ادب پر با لعموم اور ان ہستیوں کے افکار پر بالخصوص ان کی تحریروں کو درجہء استناد حاصل تھا۔مرزا اسداﷲ خان غالب کی شخصیت اور فن پر ان کی پانچ وقیع تصانیف شائع ہو چکی ہیں جنھیں علمی و ادبی حلقوں میں زبر دست پذیرائی نصیب ہوئی۔مرزا اسداﷲ خان غالب کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی کا ذکر کرتے وقت وہ حکیم الامت علامہ اقبال کے یہ اشعار ضرور پڑھتے :
فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو ،بزم سخن پیکر ترا زیب محفل بھی رہا ،محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے پاکستان کی تہذیب و ثقافت اور اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انتھک جد وجہد کی ۔اردو زبان و ادب اور اردو لسانیات کی ترقی کو وہ اپنا فرض اولین سمجھتے تھے ۔انھوں نے ہمیشہ تعمیری انداز فکر اپنایا انھیں کسی کی عیب جوئی سے کوئی غرض نہ تھی ۔وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے کہ لوگوں کو اس قسم کی لا حا صل سرگرمی سے کیا حاصل ہوتا ہے اوراس کے لیے وہ وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟ ۔زمانہ طالب علمی ہی سے انھیں اپنے گھر میں جو علمی و ادبی ماحول میسر آیا اس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کیا۔وہ با قاعدگی سے نماز ادا کرتے ۔تہجد کے وقت جاگتے اور تلاوت قرآن حکیم مع ترجمہ و تفسیر پڑھنا ان کا معمول تھا۔ان کے پاس فارغ وقت کوئی نہیں تھا ۔انھیں جو بھی وقت میسر آتا وہ تصنیف و تالیف اور مطالعہ میں گزرتا۔یہی ان کی مصروفیت تھی اور یہی ان کا سلسلہء روز و شب تھا۔ جو لوگ بے کار بیٹھے ،ہاتھ پر ہاتھ دھرے خوابوں کی خیاباں سازیوں ،ہوا میں گرہ لگانے اور بے پر کی اڑانے میں مصروف رہتے ہیں ان کے طرز عمل پر وہ تعجب کا اظہار کرتے اور سوچتے کہ جو لوگ وقت کو ضائع کرتے ہیں در اصل وہ اپنی تخریب کے خود ذمہ دار ہیں ۔ان کی کو ر مغزی اور بے بصری کے باعث وقت انھیں ضائع کر دیتا ہے ۔

شاعری سے ان کی دلچسپی بچپن ہی سے تھی ۔اﷲ کریم نے اعلا ذوق شاعری سے متمتع کیا تھا۔وہ خود بھی شاعر تھے اور ان کی شاعری میں اپنے وطن ،اہل وطن ،سماج اور معاشرے کے مسائل کی عکاسی ہوتی ہے ۔وہ سمجھتے تھے کہ ایک سچے شاعر کا اپنے سماج اور معاشرے سے تشخص ہی اسے عزت و وقار عطا کر سکتا ہے ۔وہ تاریخ اور فطرت کے غیر مختتم عمل پر نظر رکھتے تھے ۔ان کی شاعری میں سچے جذبات کی ترجمانی ملتی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کے جملہ نشیب و فراز اور تمام موسم ان کے فکر و خیال پر جس طرح اثر انداز ہوئے انھیں پیرایہء اظہار عطا کرنے میں انھو ں نے پورے خلوص سے کام لیا ہے ۔ان کے چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ان میں ایک دردمند تخلیق کار کے جذبات ،احساسات ،تجربات اور مشاہدات جس خلوص کے ساتھ جلوہ گر ہیں وہ قاری کو ادراک اور وجدان کی حسین و دلکش فضا میں لے جاتے ہیں ۔
طبیعت انجمن کے نام سے گھبرائی جاتی ہے کسی کی یاد وہ ظالم کہ پیہم آئی جاتی ہے
نشیمن پھونکنے والو !چمن کو پھونک دینا تھا ابھی امید تعمیر نشیمن پائی جاتی ہے
نہ میں شکوہ سنج قسمت نہ میں شاکیء زمانہ مجھے غم کے پاس لایامرا شوق والہانہ
وہی ایک جذب صادق وہی ایک عزم کامل جو قفس کی تیلیوں سے بھی بنا لے آشیانہ
وہ دن بھی یاد ہیں جب ہچکیاں لے لے کے روتے تھے مگر رہ رہ کے اب اکثر ہنسی معلوم ہوتی ہے
خدا نا خواستہ فرمان کی دنیا سے رخصت ہے شباہت خاں کی آنکھوں میں نمی معلوم ہوتی ہے
(شباہت خاں کے ساتھ فرمان فتح پوری کاقلبی لگاؤ تھا اور وہ ان کے محرم راز اور ہمدم دیرینہ تھے ۔اپنے بچپن کے اس ساتھی کے بارے میں انھوں نے ہمیشہ اچھی رائے ظاہر کی )

ڈاکٹر فرما ن فتح پوری نے تصنیف و تالیف کے ذریعے قارئین ادب کے احساس و ادراک کو اس طرح مہمیز کیا کے ان کے معجز نما اثر سے ان کی فکر پرور اور بصیرت افروز باتیں قارئین کے شعور پر دوررس اثرات مرتب کرتی ہیں ۔جب وہ قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتے ہیں تو وہ اپنے اشہب قلم کی جو لانیوں سے ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں ۔ان کے پیش نظر ہمیشہ یہ بات رہی کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین ادب کے خیالات ،جذبات و احسات کی تہذیب و تزکیہ اس انداز سے کریں کہ اس کے وسیلے سے معاشرتی زندگی کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھ سکے اور اس طرح مجموعی طور پر عصری آگہی کی نمو کو یقینی بنایا جا سکے ۔ان کی تصنیف میں زندگی کی اقدار عالیہ ،درخشاں روایات اور تخیل کی جو سطح فائقہ دکھائی دیتی ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں ایک ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتی ہے ۔ان کی تصانیف اپنے موضوعات کا مکمل احاطہ کرتی ہیں اور اپنے دامن میں مقصدیت کے لا محدود خزانے سموئے ہوئے ہوتی ہیں ۔انھوں نے پاکستانی قوم کے عمومی مزاج اور قومی کردار کی نمو کے لیے جو فقید المثال جدو جہد کی ہے وہ ان کی تصانیف میں نمایا ں ہے ۔ان کی جملہ تصانیف میں انسانی ہمدردی ، حب الوطنی ،قومی دردمندی اور خلوص کے جذبات رچ بس گئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تصا نیف کو پاکستانی ادبیات کی حقیقی ترجمان سمجھا جاتا ہے ۔ان کی وقیع تصانیف اور قومی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں 1985میں ستارہء امتیاز سے نوازا ۔ان کی یہ تمام تصانیف روح اور قلب کی اتھا ہ گہرائیوں میں اتر کر پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہیں ۔قارئین ادب کے ساتھ انھوں نے درد کا جو رشتہ استور اکر رکھا تھا اسے عمر بھر نبھا یا۔قارئین ادب نے ان کی تصانیف کو جو شرف پذیرائی بخشاوہ ان کے ذوق سلیم کا مظہر ہے ۔اردو زبان وا دب کا ہر سنجیدہ قاری اس بات سے اتفاق کرے گا کہ تخلیق فن کے لمحوں میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانے کی صلاحیت سے متمتع تھے ۔تصنیف وتالیف میں ان کی کامرانیوں نے انھیں پوری دنیا میں بلند مقام عطا کیا ۔ان کی تصانیف کی بے پناہ مقبولیت نے انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں اعلا منصب پر فائز کیا۔ان کا اسلوب سماجی زندگی سے منسلک ہے اور اس میں انسانی زندگی کے جملہ نشیب و فراز ،تاریخی اور معاشرتی ارتعاشات ،تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں قارئین ادب کو حقیقی آگہی نصیب ہوتی ہے ۔ڈاکٹر فرما ن فتح پوری نے اپنی تصنیف و تالیف کے ذریعے ہر مکتبہء فکر کے قارئین کو متاثر کیا اور ہر جگہ اپنی مقبولیت کا لوہا منوایا۔انھوں نے جو کچھ لکھا وہ پوری ذمہ داری اور دیانت داری سے لکھا یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب کی ندرت ،موضوعات کی صداقت اور اظہار و ابلاغ کی ہمہ گیری اور وسیع مطالعہ کی اساس پر کیے جانے والے تجزیات کی بنا پر ان کی ہر بات کو پوری دنیا میں مستند سمجھا جاتا ہے ۔ان کی تصانیف نے قارئین ادب کے فکر و خیال کو وسعت دی اور ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت سے آشنا کیا۔ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
1۔اردو رباعی کا فنی اور تاریخی ارتقا ،کراچی ،لاہور 1962 ،2۔تحقیق و تنقید ،کراچی ،دہلی 1962،3۔تدریس اردو ،اسلام آباد 1962،4۔مولانا جوہر حیات اور کارنامے ،لاہور ،1962،5۔غالب شاعر امروز و فردا ،لاہور 1969،6۔اردو کی منظوم داستانیں ،کراچی 1970،7۔نواب مرزا شوق کی مثنویاں ،لاہور ،1972،8۔دریائے عشق اور بحر المحبت کا تقابلی جائزہ ،لاہور ،1972،9۔اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری ،کراچی ۔لاہور ،1972،10۔زبان اور اردو زبان ،کراچی ۔لاہور 1973،11۔اردو کی نعتیہ شاعری ،کراچی ۔لاہور 1973،12۔نیا اور پرانا ادب ،کراچی 1974،13۔قمر زمانی بیگم کراچی ۔لاہور 1974،14۔ارمغان گوگل پرشاد ،کراچی 1975،15۔میر انیس حیات اور شاعری ،کراچی 1976،16۔ڈاکٹر محمود حسین :شخصیت اور کا رنامے ،لاہور 1976،17۔ہندی اردو تنازع ،کراچی ۔اسلام آباد ،1976،18۔قائد اعظم اور تحریک پاکستان ،لاہور ،1976،19۔اردو املا اور رسم الخط ،کراچی ،لاہور 1977،20۔اقبال سب کے لیے ،کراچی ،دہلی 1977،21۔اردو افسانہ اور افسانہ نگار ،کراچی ،دہلی 1982،22۔خطبات محمود ،لاہور ،1983،23۔دید و باز دید (سفرنامہ )،ملتان ،1983،24۔فن تاریخ گوئی اور اس کی ر وایت ،کراچی ،لاہور ،1984،25۔تاویل و تعبیر ،لاہور ،1984،26۔نیاز فتح پوری شخصیت اور فن ،کراچی ،1986،27۔اردو کی ظریفانہ شاعری ،لاہور ،دہلی ،1987،28۔اردو کا افسانوی ادب ،ملتان ،دہلی 1988،29۔نیازفتح پوری دیدہ و شنیدہ ،لاہور ،1989،30۔اردو املا اور قواعد ،اسلام آباد ،1990،31۔اردو شاعری اور پاکستانی معاشرہ ،کراچی ،1990،32۔اردو کی بہتر مثنویاں ،لاہور ،1993،33۔ادبیات و شخصیات ،لاہور ،1993،34 ۔اردو نثر کا فنی ارتقا ،کراچی ،لاہور ،دہلی 1997-1989،35۔اردو شاعری کا فنی ارتقا،کراچی ،لاہور،،دہلی1997-1990،36۔مولاناحسرت مو ہانی شخصیت اور فن ،لاہور ،1991-1970،37۔قومی یک جہتی اور پاکستان،کراچی 1992،38۔سری پرکاش اور پاکستان ،لاہور 1992،39۔غزل اردو کی شعری روایت ،کراچی 1995،40۔ادب اور ادب کی افادیت ،کراچی 1996،41۔ادا جعفری شخصیت اور فن ،کراچی،1998،42۔تمنا کا دوسرا قدم اور غالب ،کراچی 1998,،43۔میر کو سمجھنے کے لیے ،کراچی 1999۔
43.Sir Syyed Ahmad Khan on the present state of the Indian politics Karachi ,1982.
44. Pakistan movement and Hindi Urdu conflict ,Lahore , 1986

جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت فکر کا علم بلند رکھنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔وہ سلطانیء جمہور کے زبردست حامی تھے ۔انھوں نے پاکستان میں غیر نمائندہ اور غیر جمہوری حکومتوں کے خلاف ہمیشہ کھل کر بات کی اور کبھی کسی مصلحت کا شکار نہ ہوئے ۔وہ ایک وسیع النظر ،مخلص ،دردمند ،قناعت پسند اور ہمدرد انسان تھے ۔ان کی شخصیت میں بے لوث محبت ،ایثار ،انسانی ہمدردی اور سخاوت کے جذبات نے انھیں سب کا محبوب بنا دیا تھا۔وہ سب ملنے والوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے ا ور ان کی ہر جائز خواہش کی تکمیل کے لیے ممکنہ حد تک تمام وسائل بروئے کار لاتے ۔بغض و عناداور کینہ پروری سے انھیں شدید نفرت تھی بے لوث محبت اور بے باک صداقت کووہ ایک ایسے عمل صالح سے تعبیر کرتے جس کے ہمیشہ خوشگوار نتائج سامنے آتے ہیں ۔زندگی کی یہی اقدار انسان کو خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیتی ہیں ۔ادب کی درخشاں اقدار کے سوتے بھی انھی اوصاف سے پھوٹتے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ ایک تخلیق کار کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھے اورریاکاری سے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دے کیونکہ ریاکاری سے وہ نہ صرف اپنے قارئین کو فریب دیتا ہے بل کہ خود اپنے آپ کو بھی دھوکے میں مبتلا رکھتا ہے ۔وہ مصلحت وقت کو کبھی خاطر میں نہ لائے۔اس وقت مجھے مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر یاد آ رہاہے جو ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی شخصیت اور انداز فکر کی ترجمانی کرتا ہے ۔

نکل جاتی ہو جس کے منہ سے سچی بات مستی میں فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا
ان کے اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت تین امور قاری کو متوجہ کرتے ہیں ۔انھوں نے تخلیق کار ،ادبی تخلیقات اور تخلیق ادب کو اس انداز میں مربوط کیاکہ ان کی تخلیقی فعالیت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ان کے فکر پرور اور بصیرت افروز تخلیقی عمل کی اساس معاشرتی اور سماجی زندگی میں ان کے تجربات اورمشاہدات ہیں ۔جو کچھ ان کے دل پر گزرتی تھی اسے وہ پورے خلوص اور دیانت سے زیب قرطاس کرتے چلے جاتے تھے ۔ان کے ابد آشنا اسلوب اور ہمہ گیر تخلیقی عمل کو محض جمالیات کے اصولوں کی روشنی میں پرکھنے سے قاری اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتابل کہ اس کے لیے وہ دل بینااور وسعت نظر درکار ہے جو خالص ادب کی عطا ہے ۔ان کی بات دل سے نکلتی ہے اور سیدھی دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہوس نے نوع انساں کو جس انتشار اور پرا گندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے وہ اس پر سخت مضطرب تھے ۔ہوس زر کے ہاتھوں مجبور ہو کر لفظ کی حرمت کو پامال کرنے والے قلم فروشوں سے وہ سخت نفرت کرتے تھے ۔ذاتی مقاصد کی خاطر لکھی جانے والی تحریریں اپنی نوعیت کے اعتبار سے ادب ہر گز نہیں بل کہ عیاری اور فریب کاری کی ایک قابل نفرت مثال ہیں۔ڈاکٹرفرمان فتح پوری نے ہمیشہ قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیااور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا کو بجھنے نہ دیا۔اب دنیامیں ایسی ہستیاں کہا ں ملیں گی ؟

ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں جو بلند مقام حاصل کیا ہے اس کا راز در اصل ان کی انفرادیت میں مضمر ہے ۔وہ ایک عظیم محب وطن اورراسخ العقیدہ مسلمان تھے ۔انھوں نے اردو لسانیات ،اقبالیات ،غالبیات ،تحقیق و تنقید ،لغت نویسی ،سفرنامے اور تدریس ادب کے شعبوں جو کامرانیاں حاصل کیں ان کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی ۔وہ ہر اعتبار سے ایسی نایاب ہستی تھے جن کے مانند بننے کی تمنا کی جا سکتی ہے ۔انھوں نے ہر صنف ادب میں اپنا ایک الگ رنگ پیدا کیا ۔سب سے بڑھ کر انھوں نے تحقیق و تنقید کو جو معتبر و موقر اندازعطا کیا وہ انھیں عظمت کی بلندیوں پر فائز کرتا ہے ۔دنیا بھر میں ان کے لاکھوں مداح ان کی راست گوئی اور تحقیقی و تنقیدی ثقاہت کے گرویدہ ہیں ۔ان کے مداحوں میں ممتاز فرانسیسی ما ہر لسانیات ژاک دریدا ،ڈاکٹر این میری شمل ،رشید حسن خان ،شہر یار ،مغنی تبسم ،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیرسیفی ،ڈاکٹر صابر کلوروی ،ڈاکٹر فہیم اعظمی ،ڈاکٹر صابر آفاقی ،محسن بھوپالی ،سمیع اﷲ قریشی ،ڈاکٹر اعجاز راہی ،ڈاکٹر رشید گوریجہ ،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر محمد ریاض اور محمد منشا یاد شامل ہیں ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کی نئی نسل کو ترسیل معتبر اور مو قر دانش وروں کی مرہون منت ہے ۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا شمار ایسے ہی ممتاز دانش وروں میں ہوتا ہے ۔وہ ہماری نئی نسل کے لیے ایک عظیم رہبر کی حیثیت رکھتے تھے ۔ان کا وجود ابر کرم کے مانند تھا جو ہمیں آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتا ہے اور ٖ فضا کی تما م حدت اور سمے کے سم کو ہم سے دور رکھتا ہے ۔اب ہم نشیب زینہء ایام پر کھڑے حسرت و یاس کے عالم میں اپنے رفتگاں کو یاد کرتے ہیں ۔مگر سکوت کے صحرا سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی وفات نے دل پر جو گھاؤ لگایا ہے اس کے اندمال کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ۔اب ہم ایسا کہا سے لائیں جسے ان جیسا کہا جا سکے ۔ایسے یادگار زمانہ لوگ تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ بلا شبہ نا یاب تھے ۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نا یاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت وغم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 607182 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.