غیر معمولی ماضی کے مالک معمولی مصالحے

کالی مرچ ہمارے اکثر کھانوں میں استعمال ہوتی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگ اس حقیقت سے آگاہ بھی ہوں کہ یہ کہاں سے آتی ہے ‘ کس طرح پیدا ہوتی اور تیار کی جاتی ہے لیکن ہم میںسے اکثریت اس بات سے آگاہ نہیں ہے کہ کالی مرچ کی کشش یورپی قوموں کو انڈیا کھینچ کر لائی تھی اور بالاخر وہ ہمارے حاکم بن بیٹھے ۔

کالی مرچ ہر گھرکے باورچی خانے میں پائی جاتی ہے اور آسانی سے دستیاب ہے البتہ کسی زمانے میں یہ اتنی قیمتی تھی کہ اسے کالا سونا کہا جاتا تھا اور مہمانوں کے لئے تیار کردہ کھانوں میں کالی مرچ کا استعمال میزبان کی دولت اور طاقت کا بلا انکار ثبوت تسلیم کیا جاتا تھا۔ یورپ میں اس قیمتی اور نایاب مصالحے کی ہر کسی کو تلاش تھی لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں پیدا ہوتا ہے اور اسے کیسے تیار کیاجاتا ہے۔ اس کے متعلق وہاں کئی بے بنیاد کہاوتیں مشہور تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ اُڑنے والے ونتہائی زہریلے سانپ کالی مرچ کے جنگلوں کی رکھوالی کرتے ہیں اور مقامی لوگ جنگلات کو آگ لگا کر ان سانپوں کو عارضی طور پر بھگانے کے بعد اس مصالحے کوحاصل کرتے ہیں ‘جس کی وجہ سے اس کا رنگ کالا ہوتا ہے اور اس میں آگ کا ذائقہ پایا جاتا ہے۔

کالی مرچ کا مقام پیدائش انڈیا میں کیرلا کے علاقے میں ہے جہاں یہ درختوں پر چڑھی ایک بیل پر سبز بیری کی صورت میں لگتی ہے۔ یہاں کے لوگ ہزاروں سالوں سے ان بیریوں کو چن ُ کر ان سے مصالحہ تیار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کئی صدیوں تک یورپ میں بیچنے اور اس سے بے شمار دولت کمانے والے صرف عرب تاجر تھے کیونکہ اس علاقے کا راستہ صرف وہی جانتے تھے۔وہ اپنے گاہکوں تک اس راز کو پہنچنے نہیں دے رہے تھے ۔اُوپر سے اس راز کو محفوظ رکھنے میں یورپی لوگوں کی بے بنیاد کہاوتیں بھی ان تاجروں کے لئے مدد گار ثابت ہو رہی تھیں۔ اس طرح انہیں اس مصالحے کی تجارت پر مکمل تسلط حاصل تھا لیکن اس کے ختم ہونے کا وقت زیادہ دور نہیں تھا۔

اس مصالے کا یورپ میں استعمال رومن دور میں شروع ہوا تھا ‘البتہ پندرھویں صدی عیسوی کے دوران یورپی امیر گھروں کے کھانوں کے علاوہ کالی مرچ کا استعمال ”کالی موت“ یا طاعون کے علاج کے لئے بھی شروع ہوگیا جس کے پھیلنے سے وہاں لوگ بڑی تعداد میں مررہے تھے۔اس قیمتی مال کی سخت ضرورت اور شدید مانگ کی وجہ سے 8 جولائی 1497ءمیں پرتگال نے اپنے سب سے اعلیٰ سمندری جہازراں واسکو ڈی گاما کو کالی مرچ کے مَنبع کو تلاش کرنے کی مہم پر روانہ کیا۔ واسکوڈی گاما مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے سمندری ہواﺅں کی مدد سے افریقی ساحلوں کے کٹھن بحری راستے سے مئی 1498 ءمیں انڈیا تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس طرح اسے یورپ میں سب سے پہلے انڈیا تک سمندری راستہ تلاش کرنے کا مقام بھی حاصل ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ڈی گاما کے اس کارنامے سے پرتگال کی قسمت کھل گئی ۔

واسکوڈی گاماانڈیا پہنچنے سے پہلے یہاں بے دین ‘جنگلی وحشی دیکھنے کی اُمید لگائے بیٹھا تھا جو بیکار یورپی اشیاءکے بدلے اپنا ”کالا سونا “بخوشی اس کے حوالے کر دیں گے۔ جب واسکوڈی گاماکیرلا کے شہر کوچی پہنچا تو اس نے اپنی سوچ کے بالکل برعکس وہاں کے لوگوں کو انتہائی دولت مند پایا۔ دُور دُور سے عرب‘ چینی اور کئی دوسرے تاجر صدیوں سے تجارت کی غرض سے وہاں آ رہے تھے۔ پندرھویں صدی میں کیرلا کے لئے کالی مرچ وہی مالی مقام رکھتی تھی جو آج گلف کی ریاستوں کے لئے تیل رکھتا ہے۔

واسکوڈی گاما کے کیرلا آنے کے 8سال کے اندر ہی پرتگال نے اس علاقے میں اپنے قدم اچھی طرح سے جما لئے تھے۔ انہوں نے یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کر لیا جہاں انہوں نے انڈیا میں اپنے پہلے وائسروے کو ٹہرایا۔ سولہویںصدی کے آغاز سے پہلے ہی پرتگالی مصالحوں کی تجارت میں سب سے آگے نکل چکے تھے اور جو مال وہ تجارت سے حاصل نہیں کر سکتے تھے اسے اپنی طاقت سے چھین لیتے تھے۔ کالی مرچ کی خاطر پرتگال نے انڈیا کے مصالحے والے ساحلی علاقوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا ۔

ایک مرتبہ جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ انڈیا میں کالی مرچ کی تجارت اب ان کے مکمل قابو میں ہے تو انہوں نے اپنی توجہ دوسرے مصالحوں کو ڈھونڈنے کی طرف مبذول کر دی۔ ان کی تلاش کے لئے اگلا مصالحہ دار چینی تھا جو سولہویں صدی کے یورپی امیر لوگوں میں بے حد مقبول تھا۔ یہ کالی مرچ سے بھی زیادہ نایاب تھا اور اس کا ممبع بھی ان کے لئے نامعلوم تھا۔کیرلا کے آس پاس کے سمندر میں عرب تجارتی جہازوں پرمسلسل چھاپوں میں انہیں بار بار ان پر لدے مال میں دار چینی مل رہی تھی ‘اس لئے انہیں شک تھا کہ یہ مصالحہ کہیں آس پاس ہی پایا جاتا ہے لیکن کیرلا کے سمندر سے آگے کے علاقے سے وہ بالکل ناواقف تھے۔ 1506 ءمیں پرتگالی ایک عربی جہاز کا پیچھا کرتے ہوے طوفان میں راستہ بھٹک گئے اور انہوں نے ایک انجان ساحل پر پناہ لی۔ یہ سری لنکا کا ساحل تھا اور دار چینی یہیں پائی جاتی تھی اور یوں انہیں دار چینی کا منبع بھی مل گیا۔

کالی مرچ اور دار چینی جیسے مصالحے دنیا بھر میں کھانے کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیوں کے باعث بنے ہیں اور آج بھی مقبول ہیں لیکن ان کی تلاش نہ صرف ہماری تاریخ کا رخ بدلنے کا باعث بنی بلکہ اس نے جدید دنیا کی شکل بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ان مصالحوں کی وجہ سے شہنشاہی سلطنتیں بنیں اور ٹوٹیں‘ ان کی خاطر قوموں کی آزادی چھن گئی اور قتل و غارت میں بے شمار انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔
کالی مرچ اور دار چینی 2 معمولی سے مصالحے اور ایک غیر معمولی ماضی کے مالک ہیں جن کی تلاش سے یورپی لوگوں کے دولت سے خزانے بھر گئے لیکن جن لوگوں نے انہیں اپنی محنت سے بنایا ان کو اور ان کی قوم کو اس کے بدلے میںکچھ بھی حاصل نہ ہوا۔
Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 197 Articles with 286497 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.