شعبہ اردو کروڑی مل کالج میں بیت بازی کا انعقاد، قومی یکجہتی اردو کا بنیادی وصف ہے

 شعبہ اردو کروڑی مل کالج میں بیت بازی کا انعقاد، قومی یکجہتی اردو کا بنیادی وصف ہے:ڈاکٹر ندیم احمد

ادبی محفلیں ہمارے ثقافتی ،تہذیبی اور ادبی شعور کی آئینہ دارہوتی ہے۔ ہرچند کہ زمانے کی بدلتی ہوئی قدریں اورتمدن کی وسعتین ادبی محفلوں کے روایتی وقار پر کسی حد تک اثر انداز ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجد ہماری ادبی محفلیں آج بھی اپنے اندر ادب وتہذیب کی ایک مخصوص فضا رکھتی ہیں ۔آج کی ادبی محفلوں کے مقابلہ میں ماضی کی محفلیں پھر بھی ہماری شاندار روایتوں کا سرمایہ ہیں جو کتابوں میں نہیں تو کم از ذہنوں میں یادوں کی صورت میں محفوظ ہے۔

شعبہ اردو، کروڑی مل کالج ، دہلی یونیورسیٹی کے سمینار ہال میں ’’بزم ادب ‘‘ کروڑی مل کالج کی جانب سے ’’اپنے فنکار سے ملیے‘‘ کے عنوان سے ایک ادبی اور ثقافتی محفل کا انعقاد کیا گیا۔ اس محفل کا آغاز شعبہ اردو کی روایت کے مطابق رسم گل پوشی سے کیا گیا، شعبے کے استادجلسہ ڈاکٹریحییٰ صبانے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ، اور تعارفی خطبہ پیش کیا۔ اپنے خطبے میں انہوں نے کہا کہ کروڑی مل کالج کا شعبہ اردو اردو زبان و تدریس کے ضمن میں ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس شعبے سے ڈاکٹر خلیق انجم ، ڈاکٹر کامل قریشی جیسے اکابرین وابستہ رہے ہیں۔ یہ شعبہ درس و تدریس کے علاوہ سمینار ،سیمپوزیم، مشاعرہ ،انعامی مقابلے ، بیت بازی، غزل سرائی اور ، مضمون نویسی وغیرہ کے مقابلے وغیرہ کا اہتمام مسلسل کرتا رہتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ علم و ادب کے علاوہ ثقافت بھی ذریعہ اظہار و تہذیب کا اہم ذریعہ ہے لہذا آج کا یہ ثقافتی پروگرام ’’اپنے فنکار سے ملیے ‘‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس پروگرام کا افتتاح شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے استاد ڈاکٹر حیدر نے کیا ۔ اپنے افتتاحی خطبے میں ندیم احمد نے فن اور فنکار کی اہمیت اور اس کی ذمہ داریوں پر زور دیتے ہوئے طالب علموں کو اس کی تفہیم کی طرف ذہن کو رجوع کرنے کی بات کہی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ادیب کی تخلیق اور عبادت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ جس طرح ایک زاہد مسلسل عبادت میں لگا رہتا ہے اسی طرح ایک ادیب اور فن کار بھی اپنے فن کی تخلیق میں خشو وخضو کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ اپنی اس تقریر میں ندیم احمد نے یہ بھی کہا کہ فنکار ہونے کے لیے گمرہی ضروری ہے۔ یہ گمرہی ہی صحیح راہ دکھانے کی طرف راغب کرتی ہے۔اس کے بعد پروگرام کا آغاز با ضابطہ طور پر وفیسر راکیش کمار پانڈے کی غزل سرائی سے کی گئی ۔ غزل پیش کرنے سے قبل انہوں نے اردو زبان کی اہمیت اور افادیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اردو مجھے بے حد پسند ہے افسوس کہ مجھے یہ زبان نہیں آتی لیکن جو کچھ بھی اس زبان کا سنتا ہوں سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پروفیسر راکیش کمارپانڈے شعبہ فزکس میں بہت سینئر استاد ہیں۔ اپنے موضوع پر ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ملک و بیرون ملک میں بہت مشہور ہیں،اسی حوالے سے بیرون ملک کا کئی سفر کر چکے ہیں۔ درس و تدریس کے علاوہ آپ کی دلچسپی گیت اور غزل گوئی سے بھی ہے۔ ڈاکٹر راکیش کمار پانڈے کی کئی البم منظر عام پر آچکے ہیں۔ آپ کے اپنے بلاگ اور کالم بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ آپ نے اردو کی کئی غزلیں اپنی مترنم آواز میں سنا کر سامعین کو مسحور کر دیااور خوب داد و تحسین پائی۔ اس پروگرام ’’اپنے فنکار سے ملیے‘‘ میں سب سے پہلے مہمان فنکار جناب ندیم احمد کی صدارت میں بیت بازی کا انعقادہوا۔ انہوں نے اپنی افتتاحی خطبہ میں بیت بازی کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ شعر فہمی یا شعروں سے مقابلہ کرنا لڑکوں کا ایک مشغلہ ہے۔ ایک لڑکا شعر پڑھتا ہے ۔جواب میں دوسرا لڑکا ایسا شعر پڑھتا ہے جو اس حرف سے شروع ہوتا ہے جس پر پہلا شعر ختم ہوا تھا۔
Verse- recitation contest, a contest in which each opposed team has to recite a couplet begining with the last letter of the couplet recite by the adversarics .
Bait Bazi is a verbal game and a genre of Urdu poetry played by composing verses of Urdu poems. The game is common among Urdu speakers in subcontinent Pakistan and India. It resembles the Malayalam Aksharaslokam and, more generally, the British Crambo.
The game starts with the first person reciting a stanza (bait) of a poem. Each following player has to reply with another verse starting with the last letter of the verse used by the previous player. A verse that has already been used in a game may not be repeated. The rules used by experienced players can be more stringent, such as allowing the use of only one poet's verses or of one theme.
The Urdu language has a very rich poetic tradition, and the game is very popular among women and poetry enthusiasts particularly in Pakistan. Schools and colleges regularly organize Bait Bazi competitions. Bait Bazi competitions are also held using radio, television and now the Internet. A very popular example is frequently played Bait Bazi of popular television show "Tariq Aziz Show" a.k.a. "Bazm-e-Tariq Aziz" formerly known as Neelam Ghar of Pakistan Television. In this weekly entertainment show, participants, usually from various colleges, take part in the game and compete for attractive prize. The show produces a lot of enthusiasm for young Urdu lovers because selection of couplets is regarded as an important factor for determining the winner in case of a tie.

جس طرح سورج کی روشنی، پھولوں کی خوشبو اور فطرت کے حسن پرکوئی اپنااختیار نہیں جتاسکتا۔ اسی طرح زبان بھی کسی ایک شخص ، ذات یا فرقے کی ملکیت نہیں ہوسکتی۔ زبان وہ پل ہے جس جس کے واسطے سے دو شخص، ایک دوسرے کے قریب آنے کی، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اردو نے بھی اس ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں اور دیگر قوموں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں بہت اہل رول اداکیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مختلف قوموں کے میل جول کے نتیجے میں ہی اردو نے جنم لیا۔ قومی یکجہتی اس کا بنیادی وصف ہے۔ اس کے پور پور میں ہندوستان کی مٹی کی بوباس رچی بسی ہے۔

ابتداء ہی سے اس کی تخلیق اور سجاوٹ میں ہندواور مسلمان دونوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اردو مشترکہ تہذیب کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اردو شاعری میں تو قومی یکجہتی اور مشترکہ تہذیب کی جھلکیاں امیر خسرو کے زمانے ہی سے ملتی ہیں مگر اردونثر میں بھی قومی یکجہتی کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد جہاں باغ وبہار اور حاتم طائی کے تراجم ہوئے ہیں شکنتلا اور بیتال پچیسی وغیرہ کی بھی اشاعت ہوئی۔ مذہبی کتابوں میں تفاسیر قرآن ،فقہ، حدیث اور تاریخ اسلام وغیرہ کے ساتھ ہندومت ، جین مت، بدھ مت، سکھ دھرم اور عیسائی مذہب پر بھی سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔ وید، پر ان، منوسمرتی، رامائن اورمہابھارت کے تراجم آج سے سو برس پہلے اردو میں ہوچکے تھے۔ ہمارے ادیبوں نے شروع ہی سے نثر میں اپنے مضامین کے ذریعہ مذہبی رواداری کے جذبات کو عام کیا ہے۔ سرسید احمد خاں ایک جگہ لکھتے ہیں ہندوستان ایک خوبصورت دلہن ہے اور ہندو مسلم اس کی دوآنکھیں ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیاجاچکا ہے کہ ہمارے مہمان ڈاکٹر ندیم احمد اس پروگرام کا افتتاح کیا موصوف کے حوالے سے ڈاکٹر یحییٰ صبا نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ڈاکٹر ندیم احمد کو میں پچھلے دودہائی کے زیادہ عرصے سے جانتا ہوں اور میرے ان سے دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور انہوں نے کہاکہ عدل و انصاف اور مساوات کی کسوٹی پر جب ہم ڈاکٹر ندیم حمد کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں تو جملہ امور میں ہمیں آپ کا کردار اس سفید چادر کی طرح نظر آتا ہے جس پر کوئی بد نما داغ تو کجا ایک معمولی دھبہ بھی دکھائی نہیں دیتا موصوف اپنے ہم عصروں میں منفرد و ممتاز شخصیت کے حامل ہیں۔جب بھی موصوف کے سامنے کوئی سائل آئے تو بلا امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل اس کی بات سنتے ہیں اور یونیورسٹی کے اصول و ضوابط کی روشنی میں اس کا کام فوراً حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خاص کر طلبا کے تعلیمی امور کو وہ بڑی سنجیدگی سے مقررہ اوقات میں حل کرتے ہیں اور ان کی جائز ضروریات کو ہر ممکن پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

موصوف کا نام اپنے ہم عصروں میں نما یا ہے ڈاکٹر ندیم احمد دہلی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں جو تدریس میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں عہدِ حاضر میں شعر وادب کا منظر نامہ چند ادبی چہروں کی روشنی سے منور اور تاباں نظر آتا ہے ۔ اردو زبان کا آغاز تقریباً ہزاربرس پہلے ہوا اور تب سے ہی ہمیں ادب کے نقوش ملتے ہیں۔ اس سفر میں ایک مسلسل ارتقاء نظر آتاہے ۔ولیؔ سے لے کرمیر تقی میرؔاور غالبؔ سے اقبالؔ،جگرؔ اور فانیؔتک چند نام ادب میں ستاروں کی مانند نظر آتے ہیں۔ایسے ہی ناموں میں ڈاکٹر ندیم احمد کا نام بھی شامل ہے ۔ ان کی شخصیت اردو ادب میں اپنا ایک منفرد مقام بنا چکی ہے۔وہ صرف ایک نقاد ہی نہیں ادبی صحافی،مترجم اور محقق کی حیثیت سے مشہور و معروف ہیں۔بطور نقاد وہ اپنے ہم عصروں میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور ابھی تک ان کے تنقید کے موضوع پر متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ اردو ادب میں وہ ایک محقق کی حیثیت سے بھی کا فی مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز تقریباً ایک دہائیوں قبل ہوا ہے۔ڈاکٹر ندیم احمد ادب کی خصو صیات سے بخوبی واقف ہیں ان کی ادبی ورثہ روایت وجدّت کا ایک حسین امتزاج ہے ۔ ان کے تنقیدمیں نئی تراکیب ،نئی تمثالیں اور علامتیں بکثرت پائی جا تی ہیں جو ایک طرف ہماری ادب کے مزاج کی عکاسی کر تی ہیں اور دوسری طرف کلاسکیی ادب سے ہمارا راستہ مضبوط کر تی ہیں ۔ کسی بھی بڑے ادیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ قدامت سے انحراف نہ کرے ۔ اس کی اہمیت اور اس کی بڑائی اس میں مضمر ہے ۔ڈاکٹر ندیم احمد جن کی متعدد کتابیں اور بہترے بصیرت افزا ادبی،تاریخی،تعلیمی اور سیاسی مضامین ہندوستان اور بیرون ملک کے ادبی دنیامیں بقائے دوام حاصل کر چکی ہیں۔موصوف نہ صرف یہ کہ عالم شہرت یافتہ دانشور وادیب ہیں بلکہ وہ ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی اپنی ایک علےٰحدہ شناخت رکھتے ہیں اور اکبر اصغر موروملخ مختلف النوع عالمی تعلیمی،ادبی وثقافتی اداروں کے رکن خاص اور اعزازی فیلو بھی ہیں۔ فی زمانہ شاعر اعظم رابندر ناتھ ٹائیگورپر ریسرچ کررہے ہیں۔ ڈاکٹرندیم احمدنے ہندوستان بالخصوص مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کے رجحان کو فروغ دینے والی شخصیت کی حیثیت سے بطور خاص جا نے جا تے ہیں۔موصوف کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی میں اردو کا موقف انفارمیشن ٹکنا لوجی کے چیلنج پر منحصر ہے۔ لہٰذا اس صدی میں اردو کو انفارمیشن ٹکنا لوجی سے مربوط کر تے ہوئے دنیا کو یک لسانیت یایک لسانی حیثیت اختیار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔وہ اردو اکیڈمیوں کی جانب سے عصری علوم کی ترجمہ کاری اور عصری تقاضوں سے نمٹنے کے لیے ہندوستان بھر کے اردو اداروں کا قومی وفاق قائم کرنے کی ضرورت محسوس کر تے ہیں، اور پیغام دیتے ہیں کہ اساتذہ اردو ،عصری طریقہ تعلیم اختیار کریں تاکہ اردوزبان وادب کو عصری علوم کی طرح فروغ دینے میں مدد مل سکے۔

’’اپنے فنکار سے ملیے ‘‘ اوربیت بازی کے اس پروگرام میں ناقدوں ،آرٹسٹوں ،شاعروں کے علاوہ افسانہ نگار ، اور طنز مزاح نگار اور دیگر فنکاروں کو بھی محفل کی رونق بنایا گیا لہٰذا پروگرام کی کاروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے جناب ڈاکٹر عمران عندلیب شعبہ اردو جامہ ملیہ اسلامیہ کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے فن سے حاضرین مجلس کو محظوظ کریں۔ موصوف نے ادب اور فن پارے کی تفہیم اور اس کی ترسیل پر مختصر گفتگو کی اورانہوں نے کہاکہ ایک زمانہ تھا کہ اردو شعرو ادب کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ اردو شاعری میں گل وبلبل اور لب رخسار کی باتیں ہی قلم بند کی جاتی ہیں۔ اسی طرح اردو ادب ،عشقیہ داستانوں پر مشتمل ہوتاتھالیکن حالیہ برسوں میں اس سلسلہ میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اب اردو شعرو ادب میں زندگی کے سلگتے مسائل سے بھی بحث کی جا رہی ہے اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اردو ادب میں زندگی کے سنجیدہ مسائل پر بحث کی مزید گنجائش نکل سکتی ہے۔ تاکہ ہندوستانی سماج کی ذہن سازی ہوسکے ڈاکٹر عمران عندلیب چونکہ شاعر ہیں اورشاعری کرتے ہیں لہٰذا انہوں نے سامعین کو اپنے کلام سے محظوظ ومسحور کیا۔

موصوف کی کلام سے سامعین بہت محظوظ ہوئے اور خوب داد و تحسین سے نوازا۔ڈاکٹر طیبہ خاتون نے فنون لطیفہ اور اس کے فنکار کے حوالے سے پر مغز تقریر کی۔ اپنی اس تقریر میں ڈاکٹر طیبہ نے مزید کہا کہ فن کار ایک جادو گر ہوتا ہے اور وہ اپنے فن میں جادو گری پیدہ کرنے کے لیے بہت جدو جہد کرتا ہے۔ فن پر مہارت حاصل کرنا اس کے تشکیلی عمل میں پیہم لگے رہنا اس کی مجبوری نہیں اس کا ذوق ہوتا ہے۔
کروڑی مل کالج دہلی یونیورسٹی کا دل ہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کالج اپنی عظیم الشان علمی تہذیبی روح ،ثقافتی رنگا رنگی اور تاریخی کردار کے اعتبار سے اہم مقام رکھتا ہے۔ اس کالج کے شعبہ کاانجمن بزم ادب نے کلچرل کے فروغ میں تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ لہٰذا اس پروگرام میں غزل سرائی اور بیت بازی کے مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ بیت بازی کے اس پروگرام میں ڈاکٹر شمیم احمد شعبہ اردو سینٹ اسٹیفن کالج دہلی یونیورسٹی بحیثیت جج مدعو تھے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ندیم احمد اور ڈاکٹر عمران عندلیب نے بھی جج کا خدمات انجام دیا۔ بیت بازی کے اس پروگرام کا نتیجہ ڈاکٹر ندیم احمد نے اعلان کیا اور طلبا وطالبات کو انعامات سے نوازا۔

اس پروگرام کی نظامت اور اظہار تشکر کے کلمات کے فرائض جناب ڈاکٹر محسن صاحب نے انجام دیے۔ اس محفل کے شرکاء میں دہلی یونیورسٹی سے ملحق اردو کے اساتذہ کے علاوہ دہلی کے گردونواح سے تشریف لائے دانشور، ادیب اورنقاد وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ کثیر تعداد میں طلباء و طالبات اور دیگر سامعین موجود تھے۔ اس پروگرام کو آراستہ کرنے میں طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 120821 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More