یہ بھی صحابۂ کرام نے نہیں کیا

ﷲ عزوجل اور مصطفی جانِ رحمت صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر کوہمیشہ سے اہلِ ایمان نے اپنانشانِ امتیاز قرار دیاہے،ہردور میں مختلف اندازمیں شرعی حدودمیں مجالس و محافلِ خیر کاانعقاد و اہتمام ہماری روایت رہی ہے……اسلام کا ایک مسلمہ قایدہ ہے کہ جو کام شریعت سے متصادم نہ ہو،جائز و مباح ہے۔اسی طرح جو کام بظاہر قرآن و حدیث اورآثارِ صحابہ رضوان ﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ثابت نہیں مگر شریعت مخالف امور سے پاک اور اچھی باتوں اور دینی مفاد پر مبنی ہو ،اسے مستحسن اور باعثِ اجر وثواب ہی قرار دیا جاتاہے۔

ایسے بہت سے اعمال آج بھی مختلف انداز میں اہل سنت کے علاوہ بنام مسلم دیگر گم راہ اور متشدد فرقوں میں بھی رائج ہیں جن کے لیے ان کے پاس قرآن و حدیث سے کوئی صحیح،حسن، ضعیف یا موضوع دلیل نہیں ہے مگر پھر بھی بہت سارے نئے اختراعی امورانجام دیے جارہے ہیں اور ان کی تبلیغ و تشہیربھی بھرپور انداز میں کی جارہی ہے۔لیکن جب عقیدت و محبتِ رسولِ اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والے مواقع،اعمال اور اشغال کی بات آتی ہے تو منکرینِ فضائلِ رسالت کواپنی نگاہوں کا شہ تیٖر نظر نہیں آتا،بس زبان تالوسے لگائی اور شرک و بدعت کے فتوے مسلمانوں پر داغ دیے،قلم اُٹھایااور مسلمانوں کو ’’توحیدِ خالص‘‘کے زعم میں مشرک و بدعتی ٹھہرادیا،وہی رٹے رٹائے جملے/اعتراضات جو ڈیڑھ صدی سے نومولودوہابی مقلد اور غیرمقلد فرقے اہلِ ایمان پرکستے آئے ہیں،ملت میں انتشار پھیلاتے آئے ہیں،قوم کا امن و سکون برباد کرتے آئے ہیں،گھرگھرمیں اشتعال و انتشار کا سبب ہوئے آج بھی مسلمانوں کو خانوں میں بانٹنے کے لیے،آپس میں لڑانے کے لیے یہ شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔وقفے وقفے سے اعتراضات اُٹھائے جارہے ہیں جن کے جواب ناقابل تسخیر دلائل و براہین کے ساتھ علماے اہل سنت تحریری و تقریری طور پر دے چکے ہیں،ہرموضوع اور ہرمسئلہ پر علماے اسلام نے دلائل قایم کرکے حق کو بالکل واضح کردیا اب یہ متلاشیانِ حق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اگرقبولِ حق کاجذبۂ صادق رکھتے ہیں توان کتابوں سے رجوع کریں، انصاف کی نگاہ سے مطالعہ کریں اور کھرے اور کھوٹے کو علم کی روشنی میں پہچانیں۔

بہرحال! اعتراض اگر یہ ہے کہ جو کام صحابۂ کرام رضی ﷲ عنہم نے نہیں کیا وہ ناجائزوحرام،بدعت و شرک،غیراسلامی اور ناجانے کیا کیا ہے، توپھر ہم بھی اسی تناظرمیں اپنی بات پیش کرنے کاحق رکھتے ہیں۔ہم گلی سے لے کردہلی تک اور سہارن پور سے لے کر نجدتک کے تمام مقلد اور غیر مقلد وہابیوں(دیوبندی اور اہل حدیث)سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں بتاؤصحابۂ کرام نے بلاشبہہ تمام عمر تبلیغ دین میں گزاری مگرکسی صحابی کا کوئی ایسا عمل ثابت کروکہ انہوں نے ایک مخصوص جماعتی نظام کے تحت تبلیغ کی ہو،کیاصحابہ کاطرزِ تبلیغ یہ تھا کہ کاروباریوں کواپنے کام اورروزی روٹی سے اُٹھاکر ،اہل وعیال سے دور کرکے اورحقوق العباد سے دامن جھاڑکرمحض تسبیح کے دانے گھمانے اور گلی گلی چکر لگانے پرمعمور کردیاجاے؟کیا طلباکودرس گاہوں سے اٹھاکر ان کاتعلیمی نقصان کیاجاے؟عیدمیلادپرچراغاں کرنے پر اسے اسراف سے تعبیر کرنے والوں سے ہم پوچھتے ہیں کہ متعین تاریخ،وقت اورمقام کااعلان کرکے جگہ جگہ تبلیغی اجتماع کے نام پر کروڑوں روپیے برباد کرناکس زمرے میں آئے گا؟نیز کیاصحابہ نے کبھی بھی اس طرح لوگوں کو جمع کرکے تبلیغ کی تھی؟کیا صحابہ تبلیغ کے دوران دعوتیں اُڑاتے تھے؟کیا صحابہ نے کسی مدرسے،دارالعلوم یاجامعہ کی شکل میں کوئی عمارت تعمیر کرکے اس میں اساتذہ کو موٹی موٹی رقمیں دے کر درس و تدریس کاانتظام کیا تھا؟(ذرا صحابہ کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کروتومعلوم ہوگاوہ تو صفہ کے چبوترے پر کئی کئی دن تک فاقہ کرکے تحصیل علم بھی کرتے تھے اور تبلیغِ دین بھی)کیا صحابہ نے کسی تعلیمی ادارے یاکم از کم صفہ کے چبوترے پر تعلیمی سال مکمل ہونے پریا اس طرزِ تعلیم کوپچاس یا سو سال ہونے پر جشنِ صد سالہ یا سلور جبلی/گولڈن جبلی منایا تھا؟کیا صحابہ نے ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کو اپنے بڑے بھائی یااپنے جیسا کہا؟کیاصحابہ نے اتباعِ سنت،عظمتِ صحابہ یا اہلِ حدیث کانفرنس کا انعقادکیا؟کیاصحابہ نے بڑی بڑی کانفرنسوں کی تشہیراور پروپے گنڈے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپیوں کی اشتہاربازی (ہرجائزاورناجائزطریقوں سے) کی؟کیا صحابہ نے امامِ کعبہ کے پیچھے نمازادا کرنے کے لیے سیکڑوں ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرکے لوگوں کوکسی مخصوص دن ،مخصوص مقام اور مخصوص تاریخ میں جمع ہونے کی ترغیب کسی بھی طورپردی؟کیا صحابہ نے اپنے ملک کا قومی دن مقرر کیاتھا؟نیزکیا وہ اپنے قومی پرچم کی سلامی دیتے تھے؟؟؟……اور اسی ضمن میں بہت سارے سوالات قائم کیے جاسکتے ہیں مگراتنے ہی پر اکتفاکرتے ہوئے ’’اتباعِ سنت و پیرویِ صحابہ کے دعوے داروں‘‘سے اس اپیل پر قلم روکتاہوں کہ بالکل صحیح اور مستند حوالوں سے ہی جواب دیں کیوں کہ آپ کوبڑازعم ہے کہ ’’ہماراہر عمل‘‘ صحیح احادیث و روایات سے ثابت ہے اس لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ ’’دعویٰ دلیل چاہتا ہے۔‘‘
Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 84 Articles with 121732 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.