ہر دم حاضر سستی بجلی

سستی بھی ہو ـ ہر دم حا ضر بھی ہو ـ ورنہ بجلی کیا ہو ئی بس کو ئی ہر جا ئی محبو بہ ہو گئی ـ

مگر کیسے حاضر ہو ہر دم سستی بجلی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم پاکستانی ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر سوچنے اور سمجھنے والا انسان تلاش کر رہا ہے ـ

پوری عمر انجینئرنگ پڑھنے اور پڑھانے کے بعد میں سمجھا ہوں کہ بجلی بنانے والے ساری قِسموں کے فیول (ایندھن)، خود بجلی اور پانی کو معاشیات کے طلب و رسد کے نظام (Demand and Supply Paradigm) سے الگ ہٹ کر دیکھنا اور سمجھنا ہو گا ـ اِن چیزوں کو طلب و رسد کے نظام سے نہیں بلکہ ایک نئے اور الگ قسم کے نظام کے تحت کنٹرول کر نا ہوگا ـ میری تحقیق کے مطابق ایندھن، بجلی اور پانی کو پیداوار اور کھپت کے نظام (Production and consumption Paradigm) کے تحت کنٹرول کر نا ہوگا ـ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ـ

مگر پہلے وہی پرانا مسئلہ، کیسے حاضر ہو گی ہر دم سستی بجلی پا کستا ن میں؟

اگر پاکستا ن کے بجلی کے مسئلہ کو حل کر نے میں کوئی واقعی سنجیدہ ہے تو اسے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بجلی درآمد کر نے سےصرف سپلائی بہتر ہوگی، وہ بھی کچھ عرصہ کیلئے ـ بجلی کی ضرورت (رسد) ہر روز بڑھتی رہے گی اور مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا ـ دنیا کے کسی بھی ملک پر توانائی کے معاملے مں انحصار کرنا قومی حماقت ہوگی ـ سرمایا دارانہ نظام کے علمبردار امریکہ میں تو توانائی کے معاملے میں خود امریکی پرائیویٹ سیکٹر پر بھی بھروسا نہیں کیا جا تا اور آج بھی بیشتر یوٹیلٹی کمپنیاں آج بھی حکومتی اداروں کے طور پر ہی کام کر رہی ہیں ـ پاکستان درآمد شدہ بجلی پر کیسے انحصار کر سکتا ہے؟ لہزا برادرانِ اقتدار اگر بجلی درآمد کر کے ہر دم سستی بجلی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ صرف وقت ضائع کر رہے ہیں ـ یہ بیل نہیں منڈھے گی ـ

آسان بات یہ ہے کہ بجلی کی کھپت کو بجلی کی پیداوار کے برابر کر دیں ـ مسئلہ حل ہو جا ئیگا ـ مگر کیسے؟

پہلی بات، اس کیلئے مرکز اور صوبوں کے حکمرانوں کو لیڈر نہیں بلکہ رہنما بن کر سوچنا ہوگا ـ خمینی کی طرح، فیڈل کاسترو کی طرح اور نیلسن منڈ یلا کی طرح ـ مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنا ہونگے ـ ہمت اور استقامت کا راستہ اپنانا ہوگا ـ کوئی تیار ہے تو حل آسان بھی ہے اور حاضر بھی ـ میری تجویزات کا محور فی الحال بجلی کی بچت ہے ـ بجلی کی پیداوار پر بعد میں گفتگو ہو گی ـ

بجلی کی ضرورت اور کھپت میں تقریبا ٪۳۰ کا فرق ہے ـ

اگر ہم تمام کاروباری مراکز اور دفاتر کے اوقات صبح ساڑھے سات بجے سے شام ساڑھے چار بجے تک محدود کردیں تو بجلی کی کھپت میں ۷ تا ۱۰ فیصد کمی ہو سکتی ہے ـ

رات ساڑھے ۹ بجے کے بعد استعمال کی جانے والی بجلی مہنگی کر دیں ـ لوگ جلدی سونا اور جلدی جاگنا شروع کر دیں گے اور بجلی کی گھریلو کھپت میں مزید کمی ہو جا یئگی ـ

پبلک لا ئٹس کو رات ۱۱ بجے کے بعد بند کر دیجئے، فرانس میں اب یہی ہو رہا ہےـ

ایک مقررہ حد سے زیادہ بجلی استعمال کرنے واے گھریلو صارفین پر کاربن تیکس کا نفا ز کیجئے ـ بجلی کا استعمال کم ہو جا ئیگاـ

بجلی پیدا کرنے کے مقابلہ میں بجلی ضائع ہونےسے روکنا آسان ہے ـ پاکستان میں ۳۰ سے چالیس فیصد بجلی لائن میں ہے ضائع ہو جا تی ہے ـ اگر ہمارےبجلی کی لائن سےوابستی نقصانات میں ۳۳ فیصد کمی ہوجائے تو ہماری بجلی کی کھپت مزید۸ تا ۱۰ فیصد کم ہو جا ئیگی ـ

صرف ان اقدامات سے ہم بجلی کی کھپت میں ۲۰ فیصد تک کمی لا سکتے ہیں ـ باق دس فیصد کمی پورا کرنے کیلئے ہم فوری طور پر نئے بجلی گھر نہیں بنا سکتے ـ ایسے مشورے دینے والے صرف غلط فہمی مں مبتلا ہیں ـ آسان حل یہ ہے بجلی کی چوری کم کی جا ئے ـ بجلی کی چوری پر قابو پانا ہوگا ـ اگر حکومت بجلی کی چوری کو کنٹرول کر کے ۵۰ فیصد کم کر دے تو بجلی کی کھپت ۱۰ سے پندرہ فیصد مزید کم ہو جا ئیگی ـ ہما را شارٹ فال ختم ہو جا ئیگا اور ہم بغیر ادھار اور انحصار کے بجلی کے مسئلہ پر تقریبا ۱۰۰ فیصد قابو پالیں گے ـ صرف چند ماہ میں ـ درآمد شدہ بجلی مہنگی ہوگی اور ہما ری کمزور معیشت پر مزید بوجھ بنے گی ـ بس قوم سے سچ بولنے اور قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ـ

ان اقدامات کے بعد ہمیں بجلی پیدا کرنے کے نئے ذرائع تلاش کرنا ہونگے ـ میرے تجویز کردہ اقدامات کے نتیجے میں حکومت کو بجلی کی پیداوار بڑھانے کا وقت مل جا ئیگا اور قومی خزانے پر کو ئی بڑا بوجھ بھی نہیں آئیگا ـ اس طرح ہر جا ئی بجلی کو قابو کرنا اتنا مشکل بھی نہیں رہے گا ـ بس ایک اچھے لیڈر کی ضرورت ہے ـ برادرانِ اقتدار چا ہیں تو لیدر کی فراہمی کیلئے سید منور حسن سے رابطہ کر سکتے ہیں ـ

بجلی کی پیداوار پر آئندہ کبھی گفتگو کا وعدہ رہا ـ

ڈاکٹر مسعود محمود خان آسٹریلیا کی کر ٹن یو نیورسٹی میں مکینیکل انجینرنگ کے لیکچرر ہیں اور توانائی سے متعلق مضامین پڑھاتے ہیں ـ

Dr. Masood Mehmood Khan
About the Author: Dr. Masood Mehmood Khan Read More Articles by Dr. Masood Mehmood Khan: 6 Articles with 17304 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.