ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے سکاٹ لینڈ کے
آبرڈین شر میں دنیا کا قدیم ترین قمری ’کیلنڈر‘ دریافت کر لیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق وارن فیلڈ کے علاقے میں کھدائی سے 12 گڑھے
برآمد ہوئے جو چاند کی مختلف حالتوں کی عکاسی کرتے ہیں اور قمری مہینوں کی
نشان دہی کرتے ہیں۔
|
|
یونیورسٹی آف برمنگھم کے سائنس دانوں کی ٹیم کا اندازہ ہے کہ یہ ’کیلنڈر‘
پتھر کے زمانے کے انسان نے بنایا تھا اور یہ دس ہزار برس پرانا ہے۔
اس سے قبل قدیم ترین کیلنڈر میسوپوٹیمیا کے علاقے سے برآمد ہوئے تھے، لیکن
وہ کئی ہزار برس بعد بنائے گئے تھے۔
یہ تحقیق انٹرنیٹ آرکیالوجی نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
گڑھوں کی مخصوص ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے جو گرمیوں کے وسط میں طلوعِ آفتاب
سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے، جس سے اس زمانے کے انسانوں کو وقت اور گزرتے ہوئے
موسموں کا بہتر اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہو گی۔
|
|
اس تحقیق کے سربراہ ونس گیفنی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’شواہد سے معلوم ہوتا ہے
کہ سکاٹ لینڈ میں قدیم انسان کو نہ صرف سالہا سال تک وقت کا تعین کرنے کی
ضرورت تھی بلکہ ان کے پاس وہ تکنیکی مہارت بھی موجود تھی جس سے وہ قمری سال
کے اندر موسمی تغیر کا حساب رکھ سکیں۔ اور یہ سب کچھ مشرقِ وسطیٰ میں پہلے
باضابطہ کیلنڈروں سے پانچ ہزار سال قبل ہوا۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ ’تاریخ کی تشکیل کی جانب اہم قدم ہے۔‘
یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز کے ڈاکٹر رچرڈ بیٹس نے کہا کہ یہ دریافت پتھر
کے زمانے کے سکاٹ لینڈ کے بارے میں نئی سنسنی خیز معلومات فراہم کرتی ہے۔
وارن فیلڈ کا سراغ پہلی بار اس وقت ملا جب سکاٹ لینڈ کے آثارِ قدیمہ کے
ادارے نے فصلوں میں بننے والے نشانات کا فضا سے جائزہ لیا۔
ادارے کے فضائی سروے کے پراجیکٹ مینیجر ڈیو کاؤلی نے کہا: ’ہم 40 برسوں سے
سکاٹ لینڈ کی فضائی تصاویر لے رہے ہیں، اور اس دوران ہم نے ہزاروں آثارِ
قدیمہ دریافت کیے ہیں جن کا زمین سے پتا نہیں چلایا جا سکتا تھا۔
’تاہم وارن فیلڈ کی دریافت سب سے مختلف تھی۔ یہ بات بہت قابلِ ذکر ہے کہ
ہمارے فضائی سروے سے اس جگہ کی نشان دہی میں مدد ملی جہاں وقت ایجاد کیا
گیا تھا۔‘ |