قومی شعور کے فروغ میں ادب کا کِردار

قومی شعور کے فروغ میں ادب کا کِردار
(اردو زبان کے حوالے سے)

ہر چند کے ’’ادب‘‘ کی تعریف کے لیے کوئی معقول کلّیہ ایسا نہیں ہے جس پر مشرق و مغرب کے تمام مفکرین کا اجماع ہو لیکن ادب کے ناگزیر سماجی رشتے سے بھی کسی کو انکارنہیں ہو سکتا۔ ’’عربی زبان میں ادب کا لغوی مفہوم وہی تھا جو انسان کے بلند شریفانہ خصائل کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ اور یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو مختلف ’’توجیہات کے ساتھ آج بھی کم و بیش رائج ہے۔ ڈاکٹر سید عبداﷲ نے ادب کی تمام قابلِ لحاظ تعریف کو یکجا کر کے ایک جامع تعریف بنانے کی کوشش کی ہے جس کے مطابق ’’ادب وہ فن لطیف ہے جس کے ذریعے ادیب جذبات و افکار کو اپنے خاص نفسیاتی و شخصی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ الفاظ کے واسطے سے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی و تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل اور قوتِ مخترعہ سے کام لے کر اظہار و بیان کے ایسے موثر پیرائے اختیار کرتا ہے جس سے سامع و قاری کا جذبہ و تْخیل بھی تقریباً اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح خود ادیب کا اپنا تخیل اور جذبہ متاثر ہوا۔‘‘(1)

اس جامع تعریف کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ ادب کسی ماورائی شئے کا نام نہیں اس کا تعلق عام انسانی معاشرے سے ہے اور انسانی معاشرے میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات سے اس کا تعلق ہونا فطری ہے۔

جہاں تک سوال قومی شعور کا ہے تو ادب میں اس کا اظہار ہر دور میں ہر ملک اور زبان میں ہوتا رہا ہے کیونکہ قومی شعور کا تعلق بھی بلند شریفانہ خصائل سے ہے اور اس خصوصیت کے اظہار کے لیے ادب ہی اصناف فراہم کرتا ہے، ہیئت تجویز کرتا ہے اور حسنِ اظہار کے قواعد عنایت کرتا ہے۔

قومی شاعر ی یا قومی شعور سے مملو شاعری کا ذکر کر نے اور اس کی مثالیں پیش کر نے سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہے کہ قومی اور ملی شاعری ایک سکے کے دو پہلو ہیں واضح ہو کہ جب شاعر کی شاعر ی میں ملک کے تمام عوام کی فلاح وبہبود کی بات ہو اور قوم کا درد قوم کی خوشحالی کی تمنا ، قوم کی تعلیمی پسماند گی ان پر گھرے ہوئے ادبار کی بدلی اور اس بدلی سے نجات دلا نے کے لئے کوئی تد بیر اور کوشش شاعر کے پیش نظر ہو تو وہ قومی شاعری ہو گی لیکن جب شاعر کے سامنے پوری دنیا میں پھیلے ایک مخصوص مذہب کے ماننے والے ہو ں گے تو اسے ملی شاعری کہیں گے ۔ اسی لئے 1947کے پہلے کے ہندوستان میں اکبر الٰہ آبادی ہوں حالی ہوں یا پھر اقبال ہوں ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ قومی شعور کی نشاندہی کر تا ہے اقبال کی نظم ہمالہ ، نیا شوالہ ، ترنۂ ہندی، تصویر درد، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت وغیرہ قومی شاعری کی مثال ہے لیکن شکوہ جواب شکوہ ، لینن خدا کے حضور میں ، مسجد قر طبہ وغیرہ ملی شاعری کی مثال ہیں ۔

قومی شاعری عام طور پر مو ضوعاتی شاعری ہو تی ہے ۔ طنزیہ اسلوب میں بھی قومی شاعری کے بیش بہا نمو نے ہیں اور اس کے مثالی شاعر اکبر الٰہ آبادی ہیں حالی کی شاعری کا بڑا حصہ ملی شاعری کے لئے مخصوص ہے لیکن قومی شعور کی شاعری بھی ان کے یہاں وافر مقدار میں ہے ۔

ادب قومی شعور کے اظہار کے لیے انقلابی جدوجہد کے موضوعات کو اپنا متن بناتا ہے لیکن ساتھ ہی فطرت کے حسین مناظر کو بھی دامِ قلم میں اسیر کرتا ہے ماضی کی تاریخ کے سنہرے اوراق کو تخیل کے سان پرصیقل کرتا ہے تاریخی شخصیات کے بلند کردار کو موضوعِ سخن بناتا ہے، اعلیٰ فلسفۂ حیات و کائنات اور ان سے متعلق نکتوں کو مختلف پیرایۂ ظہار میں پیش کرتا ہے اور یہ سلسلہ اس قدر موثر ہوتا ہے کہ عام عوام قومی شعور کو اپنے لیے ایک فطری ضرورت تصور کرنے لگتے ہیں۔

ہندوستان میں اردو زبان و ادب اس کی بہترین مثال ہے۔ انگریز استعماریت کے خلاف 1857میں کی گئی مسلح جدو جہد میں ادب کے رول کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اردو شاعری نے اس جدو جہد کے بعد بھی مستقل آزادی کی جنگ میں ہرا ول دستے کے طور پر کام کیا ہے، چاہے وہ برٹش مصنوعات کے مقاطعے کا مسئلہ ہو یا پہلی جنگِ عظیم جیسا اہم واقعہ ہو۔1903کا دلی دربار ہو یا 1906میں پرنس آف ویلز کی آمد ہو۔ قیامِ مسلم لیگ ہو یا کانگریس کی تقسیم ہو 1913میں کانپور کے مچھلی بازار مسجد کا سانحہ ہو یا پھر دوسری جنگ عظیم 1914میں جانی و مالی قربانیوں کے باوجود سامراجی حکومت کے نظرانداز کیے جانے کا معاملہ ہو یا 1916کا ہوم رول موومنٹ ہو یا 1919میں جلیانوالہ باغ سانحہ ہو۔ایک طویل فہرست ہے جو 1947تک دراز ہے لیکن بات وہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ بٹوارے کے خونچکاں داستان کو بھی ادب نے جس طرح تاریخ کا حصہ بنایا اور جس طرح قومی شعور کو بیدار کرنے میں ادب نے معرکتہ الآرا کارنامے انجام دیے وہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔

قومی شعور کے فروغ میں ادب کے اس کردار کو آج عالمی پیمانے پر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور یہ وہ کارگر ہتھیار ہے جسے غلاف میں لپیٹ کر میوزیم کی زینت بنا دینے کی سازش کی جا رہی ہے ضرورت ہے کہ ادب کے ذریعہ تمام عالم میں انسانی اقدار کی بحالی کی کوشش کی جائے۔
میر تقی میر نے بہت پہلے کہا تھا:
وجہہِ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

لیکن افسوس کہ آج ہم اس خیال کو قطعی طور پر نظر انداز کر بیٹھے ہیں۔ادب اگر کسی معاشرے میں کمزور ہوتا ہے تو اس قوم کی ترقی میں استحکام کا ہونا نا ممکن ہے۔ آج عالمی پیمانے پر سماج اور اس کے اقدار کو سخت خطرہ در پیش ہے اور اس خطرے کے سدِّ باب کے لیے قومی شعور کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ادب کے ذریعہ اس قومی شعور کو ایک بار پھر بیدار کیا جا سکتا ہے جس کی سرکردگی میں پوری دنیا نے انسانی حقوق کی بحالی انقلابات کی جنگ کا ہدف حاصل کیا ہے۔ اور جس کے لیے حسرت موہانی نے کہا تھا ؂

اے کہ نجاتِ ہند کی دل سے ہے تجھ کو آرزو
ہمتِ سر بلند سے یاس کا انسداد کر
حق سے بہ عذرِ مصلحت وقت پہ جو کرے گریز
اس کو نہ پیشوا سمجھ اس پر نہ اعتماد کر
خدمتِ اہلِ جور کو کر نہ قبول زینہار
فن وہنر کے زور سے عیش کو خانہ زاد کر
غیر کی جدو جہد پر تکیہ نہ کر کہ ہے گناہ
کوششِ ذاتِ خاص پر ناز کر اعتماد کر
(2)
قومی شعور کے فروغ میں اردو شاعری کا رول اتنا جامع ہے کہ اس کے لیے دور کی کوڑی لانے کی ضرورت نہیں۔ ولی سے لے کر ہمعصر شعرا تک مثالوں کا لا متناہی سلسلہ ہے۔ میں اس کو مختصر کرتے ہوئے میر کے ہمعصر شاعر ضیاسے شروع کرتا ہوں ضیا کا ایک شعر ہے ؂
کل کی رسوائی تجھے کیا کم نہ تھی اے ننگِ خلق
اس کے کوچے میں ضیا توُ آج پھر جانے لگا
(3)

اس شعر میں ہمارے موضوع سے متعلق کچھ کلیدی الفاظ ہیں جیسے رسوائی، ننگ خلق، پھر جانے لگا؟۔ یہ وہ الفاظ یا جملے ہیں جس کی روشنی میں ہم کسی عہد کے شریفانہ خصائل کو دیکھ سکتے ہیں۔ رسوائی تو عام سا لفظ ہے اور بہت زیادہ سنگین نہیں ویسے بھی ہمارے شعرا عشق کی رسوائی کو طمغۂ افتخار سمجھتے رہے ہیں لیکن اس رسوائی کے پیشِ نظر اگر کسی عاشق کو ننگِ خلق قرار دیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ اس دور کے معاشرے میں بھی اخلاقی اقدار کا معیار کیا تھا اور نابغہ شعرا قومی سطح پر بلند شریفانہ خصائل کو کتنی اہمیت دیتے تھے اس کا پتہ چلتا ہے۔ قومی شعور کا ایک اور اہم نقیب نظیر بھی ہے جسے قوم کی سرزمین یا دنیا سے اس قدر عشق ہے کہ اس کی پوری شاعری میں دنیا کی رنگینیاں قوس قزح کی طرح جلوہ گر نظر آتی ہیں

دیکھ لے اس چمنِ دہر کو دل بھر کے نظیر
پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا
(4)
یہ وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے نظیر ممتاز شعرا کی فہرست میں جگہ پاتا ہے اور اسی خوبی کی وجہ سے شاعری سامعین و قارئین کے جذبہ تخیل کو متاثر کرتی ہے۔اس چمن دہر کویہاں نظیر نے صرف دہر نہیں کہا کہ دہر میں صرف چمن نہیں رہگزار بھی ہیں اس کے سامنے تو دہر کا وہ حصّہ چمن ہے جہاں وہ آباد ہے اس کے تخیلات آباد ہیں اور اسی لیے اس چمن دہر کو وہ آنکھوں میں نقش کر لینا چاہتا ہے اس کی رنگینیوں سے جی بھر کر سیراب ہونا چاہتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ان دلفریبیوں سے خانۂ دل کو معمور کرنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے خود کہتا ہے ؂
یوں کارواں شباب کا گذرا کہ گوش زد
آواز پا ہوئی نہ صدائے درا ہوئی
(5)
یہ سب میں تمہیدی طور پر کہہ رہا ہوں کہ یہ وقت 1857سے قبل کا ہے جب دہلی اجڑی اس کے پہلے کا یہ بیان اپنے آپ میں کلاسیکی روایت کا نادر نمونہ ہے۔ دہلی اجڑنے کا واقعہ معمولی تو نہیں لیکن اتنی بار دہرایا جا چکا ہے کہ لوگوں کو ازبر ہے۔ دہلی کے اجڑنے اور انگریزی استعماریت کے ہندوستان پر پوری طرح قابض ہونے کی کشا کش میں ہمارے شعرا خاموش نہیں بیٹھے بلکہ اس دور میں ہمارے ادبی سرمائے میں شہر آشوب کا نئے انداز میں اضافہ ہوتا ہے ہم خوب جانتے ہیں کہ شہر آشوب کو جو وقار سودا کے عہد میں حاصل ہوا اس کے پہلے اس صنف کے حصے میں نہ تھا۔ خاص طور پر ہمارے موضوع کے لیے شہر آشوب کا ذکر نہایت ضروری ہے کیونکہ قومی شعور کی بیداری میں اس نے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ 1857میں دہلی جس طرح تا راج کیا گیا اور مسلمانوں پر انگریزوں نے جو ظلم و جور کیے اس کی مثال تاریخ میں خال خال ملتی ہے۔ وہ شہر جس میں اپنے اپنے فن کے با کمال رہا کرتے تھے اور جہاں ساری دنیا کے لوگ انواع و اقسام کی نعمتیں حاصل کرتے تھے اسی شہر میں وہاں کے عوام تو عوام خواص کا جو حال تھا اس کا نقشہ شہر آشوب کی نظموں میں صاف صاف جھلکتا ہے۔ اور اس سلسلے میں سودا، میر، قائم، حسرت (مراد جعفر علی حسرت ہے)۔ جرأت، راسخ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ شاید آپ کو مغالطہ ہو تو یہاں وضاحت کردوں کہ دہلی اجڑنے کا یہ واقعہ 1857سے قبل کا ہے یعنی نادر شاہ کے حملے کے وقت اور سودا وغیرہ کا دور بھی وہی ہے۔ اس عہد کے شہر آشوب کے چند بند ملاحظہ کریں پھر آگے چلیں گے دم لے کر۔ سودا کا قصیدہ شہر آشوب چھیانوے اشعار پر مشتمل ہے مطلع کے ساتھ چند اشعار یوں ہیں۔
اب سامنے میرے جو کوئی پیر و جواں ہے
دعویٰ نہ کرے یہ کہ مرے منہ میں زباں ہے
گھوڑا لے اگر نوکری کرتے ہیں کسو کی
تنخواہ کا پھر عالمِ بالا پہ نشاں ہے
گذرے ہے، سدا یوں علف ودانہ کی خاطر
شمشیر جو گھر میں تو سپر بنیے کے ہاں ہے
ملّائی اگر کیجیے تو ملا کی ہے یہ قدر
ہوں دور بیٹھے اس کے جو کہ مثنوی خواں ہے
(6)
یعنی قومی شعور کا یہ عالم کہ لوگ اسی دور سے اپنے حالاتِ حاضرہ کا بیان کھل کر شاعری میں کرنے لگے تھے اردو کے کلاسیکی سرمائے پر یہ الزام کہ اس میں بجز بوس و کنار کے کچھ نہیں کتنا لغو ہے اس کو آپ آگے بھی دیکھیں گے۔ 1857کے بعد کا عہد غالب و ذوق کا عہد ہے اس کا نقشہ غالب نے اپنے خطوط میں کھینچاہے۔

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مغلوں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہندوستان میں قومی شعور کا احساس پیدا کیا،پورے ملک کو شمال تا جنوب اور مشرق تا مغرب ایک ملک بنایاورنہ اس سے پہلے دیشی رجواڑے تھے ملک نہیں تھا۔مغلوں کا کا دوسرا کارنامہ زبان اردو بھی ہے جس میں قومیت کا شعور ایک اہم جز کی طرح جاری و ساری ہے 1857کی جنگ میں یہ شعور کھل کر سامنے آیا اور پورا ملک انگریزوں کی مخالفت میں آواز بلند کرتا نظر آیا۔ واضح ہو کہ انگریز مخالف اس آواز کو دبانے میں اگر نظام حیدر آباد، نواب اودھ یا پھر ترکی کے شاہ نے انگریزوں کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو آج ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔ جہاں تک سوال ہے اس عہد کی اردو شاعری کے رول کا تو ایک بڑا ذخیرہ ہماری لائبریریوں میں موجودہے اس دوران لکھی گئیں وہ نظمیں اور غزلیں جنھیں انگریزوں نے ضبط کر لیا تھا۔(ضبط شدہ نظمیں) کے عنوان سے چھپ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’آزادی کی نظمیں‘‘، ’’قومی شاعری کے سو سال‘‘ وغیرہ۔خود غالب کی شاعری اور ان کے خطوط اس کی مثال ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ اس دور میں جو لوگ یا جو طبقہ انگریزوں کا ساتھ دے رہا تھا ان کی اپنی اپنی مجبوریاں تھیں۔ لیکن ادب ہمیشہ ان مجبوریوں سے آزاد ہوتا ہے اس پر تاریخی جبر کا اثر پڑتا ضرور ہے لیکن اسی ادب میں اس جبر سے انکار کا رویہ بھی ملتا ہے۔اردو زبان نے اس سلسلے میں ہمیشہ جبر کا انکار کیا۔ احتجاج کیا اور وہی انکار اور احتجاج قومی شعور کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ حالانکہ انکار کا یہ رویہ نثر اور صحافت میں بھی کم نہیں اس دور کی ہماری صحافت تو آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ کس طرح لوگ سر سے کفن باندھ کر انگریزوں کی مخالفت میں اخبار نکالتے تھے اور ضمانتیں ضبط کرواتے تھے لیکن شاعری میں یہ احتجاج یا انکار کا رویہ قومی شعور کی شکل میں نہایت لطافت سے بلیغ پیرائے میں جلوہ گر ہوئی ہے۔

قومی شعورکے اظہار کا نمونہ ہمیں شاعری کی ایک فراموش شدہ صنف شہرآشوب میں نظر آتا ہے حالانکہ شہر آشوبیہ شاعری کا سراغ ہمیں 1700سے ہی ملنا شروع ہو جاتا ہے اور 1700سے1857تک کے درمیانی مدت میں لکھے گئے شہر آشوبیہ نظموں میں اس دور پر آشوب کا ذکر ہے جس میں نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، مرہٹوں، سکھوں، جاٹوں، اور روہیلوں کے حملوں کے باعث دہلی تباہ و برباد ہوئی اور اس کے نتیجے میں دہلی کی تباہی ، بے وطنی، معاشی بحران، مختلف صنعتوں کی تباہی، ہنرمندوں کی بے کاری امیروں اور رؤسا کی پریشان حالی اور شعرا کا بادشاہوں اور امیروں کے دربار سے نکل جانے سے جو بحرانی کیفیت پیدا ہوئی اور شعرا کو گوشۂ گمنامی و تنگ دستی میں گذارنا پڑا اس کی مرقع کشی کی گئی ہے۔ چونکہ میرے مقالے کی بنیاد اس کلیے پر ہے کہ ادب زندگی کے داخلی و خارجی حقائق کا ترجمان اور نقیب ہے اس لیے اس دور کے شہر آشوب کا ذکر کرتے ہوئے صرف ان شاعروں کا نام لینا ضروری سمجھا کہ ان کے بنائے ہوئے راستے پر چل کر ہی 1857اور اس کے بعد کی شاعری نے قومی شعور کا درک حاصل کیا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جس صنف میں جعفر زٹلی سید محمد شاکر ناجی، پیر خاں کمترین، شیخ ظہور الدین حاتم، درگاہ قلی خاں، اشرف علی خاں فغاں، قیام الدین قائم، سعادت یار خاں رنگین، لچھمی نارائن شفیق، جعفر علی حسرت، مرزا رفیع سودا، محمد تقی میر، ولی محمد نظیر اکبر آبادی، غلام علی راسخ عظیم آبادی جیسے با کمال شاعروں نے طبع آزمائی کی ہو اس صنف میں قومی شعور کا احساس کمتر درجے کا ہو لیکن مجھے تو 1857اور اس کے بعد کے شعرا کا ذکر کرنا ہے اس لیے وہیں سے شروع کرتا ہوں۔

1857تاریخ کا ایسا باب ہے جہاں مغلیہ حکومت کا کلّی طور پر خاتمہ ہو گیا اور اس قوم کا والی قید کر لیا گیا جسے قوم نے اپنا سرپرست تصور کیا ہوا تھا۔ ایک اور بڑی بات یہ ہوئی کہ اس پر شکوہ سلطنت مغلیہ کا خاتمہ ان کے ہاتھوں ہوا جو دربار میں حاضری دینے کو فخر سمجھتے تھے جنھوں نے اسی مغلیہ سلطنت کے ایک بادشاہ کا علاج کرنے کی اجرت کے طور پر ہندوستان میں تجارت کرنے کی اجازت لی تھی۔ اور اس سلطنت کا زوال ہوا تھا جس کی سلطنت میں نفرت و عداوت کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، جس سلطنت میں ہولی اور عید سب مل کر مناتے تھے اسی لیے اس سے قبل کی شاعری میں اور 1857کے بعد کی شاعری میں نمایاں فرق یہ ہے کہ سماجی، معاشی اور مختلف طبقوں کی بد حالی کے علاوہ انگریزوں کے ذریعہ لائی گئی تہذیب سے بیزاری کا اظہار بھی شامل ہو گیا ہے اور تہذیب و تمدن کے خطرے میں پڑنے کا یہ احساس ہی قومی شعور کی بیداری کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس دور کے ایک شاعر حافظ غلام دستگیر مبین ہیں جنھوں نے 1857کے بعد کے حالات کا یوں بیان کیا ہے واضح ہو کہ بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں کو قتل کر کے ان کے سر کو خان پوش سے ڈھک کر ظفر کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

پدرکے سامنے بیٹے کوہائے قتل کیا
غم آئے یاد نہ کیونکر جنابِ اصغر کا
یہ کربلا کا نمونہ دکھاتی ہے دہلی
پدر کو نعشِ پسر پر رلاتی ہے دہلی
(7)
اسی دور کو داغ نے یوں بیان کیا ہے ؂
یہ وہ جگہ ہے کہ عبرت پہ عبرت آتی ہے

یہ وہ جگہ ہے کہ شامت پہ شامت آتی ہے
یہ وہ جگہ ہے کہ آفت پہ آفت آتی ہے

یہ وہ جگہ ہے کہ حسرت پہ حسرت آتی ہے
یہ وہ جگہ ہے جہاں بے کسی بھی ڈر جائے

یہ وہ جگہ ہے اجل خوف کھا کے مر جائے
لکھوں کہاں تلک القصہ ہائے بربادی

لکھوں کہاں تلک اس آسماں کی جلاّدی
کسی کو قیدِ محن سے نہیں ہے آزادی

کہ داغ داغ ہے دل پر کوئی ہے فریادی
الٰہی پھر اسے آباد و شاد دکھلادے

الٰہی پھر اسے حسبِ مراد دکھلادے
(8)
داغ دہلوی کا یہی وہ مشہور شہر آشوب ہے جس کے متعلق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے فرمایا تھا۔
نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہان آباد پر
(9)
قومی شعور کا یہ احساس دھیرے دھیرے ادب کے لیے نا گزیر ہو گیا۔ اردو ادب کو اس سلسلے میں اولیت حاصل ہے کہ اس کے شعرا و ادبا کی تحریر یں پڑھ کر پورے عہد کی حقیقی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔
1857کے بعد ہماری شاعری میں دو طرح کے نظریات صاف صاف نظر آتے ہیں ایک تو یہ کہ جدید تعلیم اور نئی روشنی کی آمد آمد سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور دوسری طرف نئی تہذیب جس طرح ہمارے پرانے قدرو ں کو تبدیل کر رہی تھی اس سے ایک خاص قسم کی افسردگی یا سراسمیگی کا احساس بھی صاف صاف نظر آتا ہے اور یہی افسردگی بالیدہ ہو کر انگریزوں کے ظلم پر احتجاج کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ 1857بظاہر ہماری تاریخ کا بہت اہم باب ہے لیکن اس باب کے مرتب ہونے کی وجوہات اس سے بہت پہلے سے رونما ہونا شروع ہو گئے تھے انگریزوں نے جب تجارتی چولے کو بدلنا شروع کیا تو ہر سطح پر اس کی مخالفت ہونی شروع ہو گئی تھی 1857میں پلاسی کی جنگ سے پہلے سراج الدولہ کے نانا نے ان سے کہا تھا کہ مجھے موقع نہیں ملا ورنہ میں انگریزوں کو ملک سے نکال دیتا اور سراج الدولہ کو تلقین کی کہ انھیں باہر نکالیں۔ لکھنؤ جہاں شاعری کا مزاج ہی دوسرا تھا لیکن وہاں بھی شعرا کے اندر قومی شعور کا فقدان نہیں تھا۔ شاہ کمال الدین کا وہ مخمس کون بھول سکتا ہے جس میں 1796میں رونما ہونے والے واقعات کی عکاسی یوں جھلکتی ہے۔

نہ ہو وے دیکھ کے کیونکر نہ اپنا دل مغموم
ہو جب کہ جائے ہما آج آشیانۂ بوم
وہ چہچہے تو بس اس ملک میں ہیں سب معدوم
فرنگیوں کے جو حاکم تھے ہو گئے محکوم
تو ہم غریبوں کا پھر کیا ہے یاں شمار و قطار
(10)
خود مصحفی کا مشہور شعر ہے ؂
ہندوستاں میں دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی
کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی
(11)
کافر فرنگی ہندوستانی دولت و حشمت سمیٹنے کے بعد اقتدارِ اعلیٰ پر بھی قبضہ جمانے کی تدابیر کے تانے بانے بننے میں مصروف تھے اور با فہم طبقہ سنجیدگی سے ان عزائم کے خطرات کو محسوس کرنے لگا تھاجرأت کہتے ہیں۔
کہیے نہ انھیں اب امیر و وزیر
انگریزوں کے ہاتھ یہ قفس میں ہیں اسیر
جو کچھ یہ پڑھائیں سو یہ منہ سے بولیں
بنگالے کی مینا ہیں یہ پورب کے اسیر
(12)
1857کی آمد کے پہلے شعوری یا غیر شعوری طور پر شعرا انقلاب کی دھمک محسوس کرنے لگے تھے جبھی تو انشااﷲ خاں انشا کہتا ہے ؂
بے خوشی سب طرح کی ناحق کا
خطرۂ انقلاب باقی ہے
(13)
اور پھر انقلاب رونما ہوا اور ایسا ہوا کہ پورا ہندوستان ایک بوڑھے بادشاہ کی قیادت میں ابل پڑا لیکن اس قوم کے اندر ضمیر فروش ہر دور میں رہے ہیں انھوں نے انگریزوں کی مرضی پر ملک کے اتنے بڑے انقلاب کو فروخت کر دیا اور پھر جو کچھ ہوا تاریخ اس کی گواہ ہے۔
بہادر شاہ ظفر خود بھی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے ان کی شاعری میں حرماں نصیبی اور نشاطِ غم کا پر تو صاف صاف نظر آتا ہے۔ انسان جب اپنے سامنے اپنا زوال ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے دل پر کیا گذرتی ہے اسے ظفر کی شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ بادشاہ تو تھا لیکن ایک دلِ درد مند رکھتا تھا اور اسے یقین ہو چکا تھا کہ یہ انقلابِ وقت ہے کہ اب اس کے سامنے انگریز اس پر حاکم تھے حالات کا جبر تھا کہ وہ انگریزوں کی ہر بات مانتا چلا جا رہا تھا یہاں تک کہ وہ انگریزوں کا پنشن خوار بھی ہو گیا لیکن اپنا تمام کرب اس نے شعری پیرائے میں پیش کر دیا ؂
باد صبا اڑاتی چمن میں ہے سر پہ خاک
ملتے ہیں دم بدم کفِ افسوس برگِ تاک
غنچے ہیں دل گرفتہ گلوں کے جگر ہیں چاک
کرتی ہیں بلبلیں یہی فریاد درد ناک

شاداب حیف خار ہوں گل پائمال ہوں
گلشن ہوں خار نخلِ مغیلاں نہال ہوں

جائیں نکل فلک کے احاطے سے ہم کہاں
ہووے گا سر پہ چرخ بھی جاویں گے ہم جہاں
کوئی بلا ہے خانۂ زنداں پہ آسماں
چھٹنا محال اس سے ہے جب تک ہے تن و جاں

جو آ گیا ہے اس عملِ تیرہ رنگ میں
قیدِ حیات سے ہے وہ قیدِ فرنگ میں
(14)
دربار سازشوں کا مرکز تھا، شہزادوں کی نالائقی اور سازشوں کا شکار بادشاہ کے لیے بس شاعری ایک ذریعہ تھا جہاں وہ اپنے دل کی کیفیت کا بیان کرتا ہے۔اسے احساس تھا کہ عوام ہمارے ساتھ ہے قوم ہم پر جان دیتی ہے لیکن انگریزوں کی چالبازیوں سے مفر نہیں۔
غالب نے حالانکہ خطوط میں اس دور کی بڑی حقیقی تصویر کشی کی ہے لیکن شاعری میں جو گہرائی و گیرائی ہوتی ہے نثر میں وہ بات کہاں اس لیے غالب نے نہ چاہتے ہوئے بھی شاعری میں حالات کی عکاسی یوں کی ہے۔ ؂
بس کہ فعال مایرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں و مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا
میں نے مانا کہ مل گئے پھر کیا
وہی رونا تن و دل و جاں کا
گاہ جل کر کیا کیے شکوہ
سوزشِ داغ ہائے پنہاں کا
شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
گاہ رو کر کہا کیے با ہم
ماجرہ دید ہائے گریاں کا
اس طرح کے وصال سے یارب
کیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا
(15)
غالب کو ہم سب جانتے ہیں اس کو آخری وقت دربار میں رسائی ہوئی ویسے بھی اس صاحبِ نظر نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا کہ اب دربار کے چل چلاؤ کا وقت ہے اور انگریزوں کی سرپرستی ہندوستان کا مقدر ہے لہٰذا انگریزوں کے خلاف اس کے یہاں اشعار معدودے چند ہیں مندرجہ بالا اشعار کے علاوہ ایک قطعہ اور بھی ہے ؂
ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس
یوں کہا آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب
بال و پراپنے دکھا کر یوں کہا صیاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب
(16)
غالب نے بھلے ہی سیاسی مصلحت سے انگریزوں کے ظلم و ستم کا ذکر نہ کیا ہو لیکن شاعری ایسی شئے نہیں جس میں سب کچھ خود سے کیا جائے مذکورہ بالا اشعار اس امر کی گواہ ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جو حقائق تھے ان سے غالب کی شاعری بھی بچ نہیں پائی ہے۔قومی شعور کا ایک دوسرا زاویہ بھی غالب کے یہاں نظر آتا ہے اور وہ ہے ان کی مثنوی ’’ابرِ گوہر بار‘‘ جس میں غالب نے دخانی جہازوں کا ذکر کرتے ہوئے اسے حرکت و عمل کی نشانی قرار دیا ہے۔
حکیم آغا جان عیش کہتے ہیں ؂
غم میں دلی کے گلوں کے تو گریباں چاک ہیں
اور سوسن ہے چمن میں سوگوارِ لکھنؤ
ٹکڑے ہوتا ہے جگر دلّی کے صدمے سن کے عیش
اور دل پھٹتا ہے سن کے حالِ زارِ لکھنؤ
(17)
یقیناً قومی شعور کا تعلق بلند شریفانہ خصائل سے ہے اور اس کا اظہار ہر سطح پر اردو شعر و ادب میں ہوتا رہا ہے۔ ہر سطح سے مراد یہ ہے کہ نہ صرف پختہ شاعری بلکہ بچوں کی نظموں میں بھی قومی شعور کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نظر آتی ہے۔ اسمٰعیل میرٹھی نے جس طرح حریت اور قومی شعور کو بچوں کے ذہن میں منتقل کیا وہ ایک کارنامہ ہے ؂
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہو
بھلی اس محل سے جہاں کچھ خطر ہو
(18)
اتحاد کے حوالے سے اسمٰعیل میرٹھی کہتے ہیں ؂
جب تک کہ سبق ملاپ کا یاد رہا
بستی میں ہراک شخص دلشاد رہا
جب رشک و حسد نے پھوٹ دل میں ڈالی
دونوں میں سے ایک بھی نہ آباد رہا
(19)
قومی شعور کا بہت بالیدہ اظہار اکبر الہ آبادی کے یہاں بھی ملتا ہے۔حالانکہ وہ انگریزوں کے ملازم تھے لیکن حقیقتِ حال کا اظہار کرنے سے کبھی نہ چوکے۔ ؂
اوجِ بخت ملاقی ان کا
چرخِ بخت طباقی ان کا
محفل ان کی ساقی ان کا
آنکھیں میری باقی ان کا
(20)
ان کی نظم ’’برق کلیسا‘‘ میں برق کلیسا ایک کردار ہے اور اس کا مکالمہ قومی شعور کا جیتا جاگتا نمونہ، برق کلیسا کہتی ہے۔
غیر ممکن ہے مجھے انس مسلمانوں سے
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے
لن ترانی کیا کرتے ہیں نمازی بن کر
حملے سرحد پہ کیا کرتے ہیں غازی بن کر
اور دوسرا کردار ’’مسلمان‘‘ یوں گویا ہوتا ہے
جوہرِ تیغِ مجاہد ترے ابروپہ نثار
نور ایماں کا ترے آئینۂ رخ پہ نثار
میرے اسلام کو اک قصّہ ماضی سمجھو
ہنس کہ وہ بولی، تو پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو
(21)
ہندوستان میں آزادی سے قبل قومی شعور پیدا کرنے میں اکبر کا رول بہت اہم ہے وہ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ؂
انقلابِ دہر دیکھو بن گیا آقا غلام
قصر کا مالک جو تھا اب اس کا درباں ہوگیا
(22)
بیسویں صدی کا آغاز ہی قومی شعور کی بیداری سے ہوا اس دور کے چند ایسے واقعات ہیں جس نے یہ واضح کر دیا کہ انگریزوں کے خلاف جہدِ پیہم کی ضرورت ہے۔اس عہد میں جو بتدریج واقعات ہوئے ان سب کا اثر اردو شعرا پر پڑا اور انھوں نے بغیر خوف بلا کم و کاست سب بیان کیے۔

1905میں تقسیم بنگال، 1906میں قیامِ مسلم لیگ،1907میں کانگریس کی تقسیم، 1911کا دہلی دربار 1911میں ہی جنگ طرابلس 1912میں جنگ بلقان 1913میں کانپور مسجد کی شہادت اور پھر 1914میں پہلی جنگ عظیم۔ یہ سب وہ واقعات ہیں جنھوں نے اردو شاعری کو از حد متاثر کیا۔

ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ مغل عہد کے زوال کے بعد غدر کی جانکاہ پسپائی اور قتل و غارت گری نے مسلمانوں کو اس طرح خوفزدہ کر دیا تھا کہ وہ سیاست سے بالکل کنارہ کش ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ 1906تک کانگریس میں مدراس کے سید محمد اور بمبئی کے بدرالدین طیب جی کے علاوہ دوسرا نام نہیں آتا۔ اس کے بعد کانگریس میں جو پہلا شخص داخل ہوتا ہے وہ حسرت موہانی ہیں جنھوں نے علی گڑھ میں زمانۂ طالب علمی میں ہی علی گڑھ کی پالیسی کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ مولانا حسرت موہانی نے نہ صرف سودیشی تحریک کی موافقت میں اردوئے معلیٰ میں لکھا بلکہ سودیشی اسٹور بھی قائم کیا۔ اکبر الٰہ آبادی دوسرے شاعر تھے جنھوں نے حسرت موہانی کا دل یوں بڑھایا۔
دل مسرت سے بھرا ارمان میں
ہم نے لکھ بھیجا انھیں موہان میں
بھائی صاحب رکھدو تم اپنا قلم
ہاتھ میں لو اب تجارت کا علم
ہو چکی غیروں سے خویشی کی بہار
بس دکھاؤ اب سودیشی کی بہار
(23)
ان کی تجارتی سرگرمی کو دیکھ کر ایک بار مولانا شبلی نعمانی نے ان سے کہا تھاتم آدمی ہو یا جن پہلے شاعر تھے پھر سیاستداں بنے اور اب بنیے بن گئے۔ قومیت کے جذبے سے جب کوئی شخص پوری طرح مزین ہو تو اس کی شخصیت کس طرح کی ہو گی اس کی مثال حسرت موہانی تھے ایک واقعہ کا ذکر سید سلیمان ندوی نے یوں کیا ہے کہ ’’میری اور حسرت کی ملاقات 1910میں ہوئی۔ میں لکھنؤ کے اخبار حق کے دفتر میں رہتا تھا مولانا کو ایک بار شب کو وہاں قیام کرنا پڑا۔ سردی کا زمانہ تھا ان کے پاس کمبل رکھ دیا گیا تھا جو ولائتی تھا۔ حسرت نے اس سردی کی رات بغیر کمبل کے کاٹ دی مگر کمبل نہیں اوڑھا۔ ان کے اشعار میں بھی قومیت کا یہ جذبہ پوری طرح رواں دواں ہے۔
روح آزاد ہے خیال آزاد
جسمِ حسرت کی قید ہے بیکار
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
یا پھر۔
غضب ہے کہ پا بندِ اغیار ہو کر
مسلمان رہ جائیں یوں خوار ہو کر
اٹھے ہیں بہت پیشگانِ مہذب
ہمارے مٹانے پہ تیار ہو کر
تقاضائے غیرت یہی ہے عزیزو
کہ ہم بھی رہیں ان سے بیزار ہوکر
کہیں صلح و نرمی سے رہ جائے دیکھو
نہ یہ عقدۂ جنگ دشوار ہو کر
وہ ہم کو سمجھتے ہیں احمق جو حسرت
وفا کے ہیں طالب دل آزار ہو کر
(24)
جیسا کہ میں نے اس سے پیشتر ذکر کیا ہے کہ کانگریس کا قیام 1885میں ہو چکا تھا۔سرسید بھی مسلمانوں کو سیاست سے دور دور ہی رکھنا چاہتے تھے لیکن حسرت اور شبلی نعمانی ایسا ہرگز نہیں چاہتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا کہ مولانا شبلی اور مولانا حسرت موہانی کی مساعی جمیلہ ہی تھی جس سے شمالی ہندوستان کے مسلمان علیحدگی پسند سیاست سے باہر نکل کر سیاست میں داخل ہوئے اور سوئے اتفاق کہ یہ دونوں شاعر تھے۔ ان لوگوں کی نظر صرف ہندوستان پر نہیں بلکہ جنگ طرابلس اور بلقان پر بھی تھی شبلی نعمانی کا شہر آشوبِ اسلام اسی کا نمونہ ہے۔ ؂

حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک
چراغِ کشتۂ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک
کوئی پوچھے کہ اے تہذیبِ انسانی کے استادو!
یہ ظلم آرائیں تا کَے یہ حشر انگریزیاں کب تک
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
ہماری گردنوں پر ہوگا اس کا امتحاں کب تک
(25)
کانپور کے محلہ مچھلی بازار میں ایک مسجد کے وضو خانے کو توڑنے کا واقعہ پیش آیا اور اس پرجب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ڈپٹی کمشنر نے ان پر گولیاں برسانے کا حکم دے دیا۔ یہ وہی دور ہے جب ترکی اور بلقان میں جنگ ہو رہی تھی۔ شبلی نے ’’ہم کشتگانِ کانپور‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی۔ ؂
کل مجھ کو چند لاشۂ بے جاں نظر پڑے
دیکھا قریب جا کے تو زخموں سے چور ہیں
کچھ طفلِ خورد سال ہیں جو چپ ہیں خود مگر
بچپن یہ کہہ رہا ہے کہ ہم بے قصور ہیں
کچھ نوجواں ہیں بے خبرِ نشّۂ شباب
ظاہر میں گرچہ صاحبِ عقل و شعور ہیں
کچھ پیرِ کہنہ سال ہیں دلدادۂ فنا
جو خاک و خوں میں بھی ہمہ تن غرقِ نور ہیں
پوچھا جو میں نے کون ہو تم؟آئی یہ صدا
ہم کشتگانِ معرکۂ کانپور ہیں
(26)
یہ بات طے رہی کہ قومی شعور کے فروغ میں شبلی کا نامِ نامی بہت اہم ہے ان ہی کی محنت اور جانفشانی کے دم پر نوجوانوں کی ایک پوری کھیپ تیار ہوئی جس میں مولانا محمد علی جوہر اور اقبال کا نام نامی بطور خاص پیش کیا جا سکتا ہے۔اقبال کی شاعری میں قومی شعور کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اگر یہ کہیں تو بیجا نہ ہوگا کہ شبلی نے جو کچھ سوچا تھا اقبال نے اس فکر کو بہت آگے تک پہنچا دیا۔ قومی شعور کا جو زاویہ اقبال کے سامنے تھا اس کا پرتو شبلی اور حالی کے یہاں تو ملتا ہے لیکن اس کے بعد اس کا سراغ بھی نہیں ملتا۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کے یہاں قومی شعور کا ادراک وطنیت سے ہوتا ہوا بین الاقوامی سطح تک جا پہنچا ہے انھوں نے ہنگامی حالات پر نہیں بلکہ ہنگامۂ دنیا رونما ہونے والے اسباب کو بھی قومی شعور کا حصہ بنا دیا۔ اقبال کے اشعار کا نمونہ صرف طوالت کے خوف سے نہیں بلکہ عام لوگوں کے ازبر ہونے کی وجہ سے نہیں دے رہا ہوں ہاں! جوہر کے دو شعر ضرور نقل کروں گا۔
یہ نظر بندی تو نکلی ردِّ سحر
دیدہ ہائے جوش اب جاکر کھلے
فیض سے تیرے ہی اے قیدِ فرنگ
بال و پر نکلے قفس کے در کھلے
(27)
قومی شعور کا جو تانا بانا اس دور میں بُنا گیا اور جس شدّو مد سے ادب کو آہنگِ رزم کا ہم نشیں بنایا گیا وہ ادبی تاریخ کا حصّہ ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد جلیاں والا باغ سانحہ یا پھر پورے ملک میں آزادی کی لڑائی کا جوش و خروش سب کچھ اردو شاعری میں جس طرح محفوظ ہے تاریخ بھی اس سے تہی دامن ہے۔ بلاغت شاعری کی میراث ہے اور جب شعری کائنات میں لائق و فائق لوگ حسبِ مراتب اپنی جگہ بیٹھے ہوں تو کہیں تشنگی رہے یہ ممکن ہی نہیں لہٰذا ادب کی تمام تعریفوں کی روشنی میں اردو شاعری کو پرکھنے کے بعد بھی جو سرمایہ اس معیار پر کھرا اترے گا اس میں پیشتر کا تعلق قومی شعور کے فروغ سے ہوگا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے یہ الگ بات ہے کہ اب قومی شعور نام کا سکہ سکہ رائج الوقت نہیں رہا اب اسے کلاسک کہا جاتا ہے اور قوموں کے زوال کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس نے ہر دور میں چلنے والے سکّے کو میوزیم کی زینت بنا دیاہے۔

1947میں ہندوستان کو انگریز حکمرانوں سے آزادی ملی اور پھر ایک ہندوستان سے دو ملک ہندوستان اور پا کستان وجود میں آئے ۔لیکن یہ واقعہ کوی یکا یک ظہور پذیر نہ ہوا تھا 1857میں جس جنگ آزادی کی آگ جلائی گئی تھی 1947تک 90سالوں کے سفر میں ہندوستان میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو مستقل انگریزوں کی مخالفت کر تا رہا اور اس مخالفت کو تیزی اس وقت ملی جب انگریزوں نے ان قوم پرستوں کے خلاف ظلم کی چکی کو تیز کر دیا یہ عام بات ہے کہ جدو جہد آزادی کی تحریک کو بزور ِ شمشیر کبھی اور کہیں روکا نہیں جا سکا ہندوستان میں بھی یہی ہوا اور با الآخر ہم آزاد ہو گئے ۔ لیکن آزادی کے خواب کو تعبیر سے آشناکر انے میں اردو زبان و ادب کا جو رول رہاہے بطور خاص اردو شاعری کا اس کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی ۔ قومی شعور کی بیداری اور ہندوستان میں جدو جہد آزادی کی تاریخ یکساں ہے اور آزادی کی تحریک کے جیالوں کی زبان پر پورے ہندوستان میں اردو شاعری نعرۂ مستانہ بن کر مچلتی رہی اور آزادی کی جدو جہد چلتی رہی ۔ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ جیسا نعرہ دینے والی زبان اردو کے دامن میں شاعری کے جو جواہر ریزے ہیں ان میں قومی شعور کے ہر رنگ قوسِ قزح کی طرح جھلملاتے ہیں اور اسی قومی شعور سے مزین شاعری کی فضا بندی تھی جس نے ہندوستان کو گنگا جمنی تہذیب کا نمو نہ بنا یا اور بعد از آزادی ہندوستان دنیا کی ایک بڑی جمہو ریت کی شکل میں نمو دار ہوا ۔

اردو شاعری نے آزادی کی جدو جہد کو جس طرح سیالِ آتش کا انیدھن فراہم کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔

الٰہی زنجیر ٹو ٹ جائے اسیر غم اب تو چھوٹ جائے
چمن کو لو ٹا ہو باغباں نے ، تو آکے گلچیں بھی لو ٹ جائے
ستم بھی ہو گا تو دیکھ لیں گے کرم کا بھانڈہ تو پھوٹ جائے
یہ دوستی کا طلسم ٹو ٹے یہ مہر بانی کا جھوٹ جائے
بلا سے قزّاق آ کے لو ٹیں یہ پاسبانوں کا لوٹ جائے
اچک لیں شاہیں تو غم نہیں ہے قفس تو کمبخت ٹو ٹ جائے
(28)
ایک طرف انگریزوں سے ہندوستان کے عام لوگ متنفر تھے اور انگریزوں کو جنگ عظیم کے شدائد برداشت کر نے پڑ رہے تھے ۔انگریز ہندوستانیوں کو محاذ جنگ پر بھیج رہے تھے ایک بڑا طبقہ جو اس جنگ میں شمولیت کے خلاف تھا ان میں شاعروں کی بھی کثیر تعداد تھی ۔ ان لوگوں نے شعری پیرائے میں انگریزوں کے اس جبر کی جس طرح مخالفت کی وہ اردو شعری روایت کا روشن حصہ ہے ۔ جر منی واٹلی کے افواج نے اتحادیوں کو حواس باختہ کر رکھا تھا یہ وقت سنہ 1942کا ہے جب سر اسٹیفورڈ کرپس ہندوستان اسی غرض سے آئے تھے کہ ہندوستانیوں کو بہلا پھسلا کر اپنا ہمنوا بنا یا جائے ۔ اس سلسلے میں کر پس کا کہنا تھا کہ ہندوستانیوں کے مطالبات ما ن لئے جا ئیں گے لیکن بعد از جنگ، اور ایک ہفتے تک کا نگریس سے ہو نے والی گفت و شنید اسی ضد کی نظر ہو گئی کہ پہلے ہمارے مطالبات ما نے جائیں اور ہندوستانیوں کی ایک با اختیار حکومت بنا دی جائے۔ ظاہر ہے انگریز تو صرف دھو کہ دینا چا ہتے تھے لہٰذا کانگریس نے کرپس مشن کے تجاویز رد کر دئیے ۔ اس موقع پر نذیر بنارسی کی نظم کے ابتدائی ا شعار سنا نا چاہتا ہوں جس میں قومی شعور کا رنگ صاف نظر آتا ہے ۔

بن کے غدار آج تم سے اک غلام ابن غلام
نظم کے پر دے میں چھپ کر ہو رہا ہے ہمکلام
آج لندن سے منا نے کو چلے آتے ہو کیوں
اب تمہارے سر پہ آئی ہے تو چلاّ تے ہو کیوں
نند کو پھانسی کے تختے پر چڑھا یا کس نے تھا
لفظ ِآزادی پہ رحمت خاں کو ما را کس نے تھا
جب کھلیں آنکھیں نہ اختر کا جنازہ دیکھ کر
جب نہ گر ما یا لہو ٹیپو کا لاشہ دیکھ کر
(29)
جوش ملیح آبادی نے اس موقع پر کہا ۔
بڑی کار یگر ی کے ساتھ شاطر نے تراشے ہیں
نئے دھو کے، نئے حیلے،نئے چکمے ، نئے جھانسے
ہزاروں تجربوں کے بعد اب یہ عقل آئی ہے
کسے تھپکے ، کسے گھڑ کے ، کسے چھوڑے ، کسے پھانسے
(30)
کر پس مشن کے حیلے جب نا کام ہوئے اور ہندوستانیوں پریہ واضح ہوگیا کہ اب زیادہ دن انہیں بے وقوف بنا کر غلام نہیں رکھا جا سکتا تو پھر انگریزوں نے سختی میں اور اضافہ کر دیا کانگریسی لیڈر بھی جو اس کے پہلے صرف انگریزوں سے مراعات کا مطالبہ کر رہے تھے یکا یک بے قا بو ہو گئے اور انگریزوں بھارت چھوڑو کا نعرہ بلند ہو گیا ۔

شمیم کر ہانی کی نظم کے یہ چند اشعار دیکھیں جس میں 1942کی جدو جہد آزاد ی کی دھمک سنائی دی رہی ہے
اﷲ یہ کیسے بندے ہیں بیزا ر خود اپنی ہستی سے
موت آنکھ کے آگے رقصا ں ہے دل جھوم رہے ہیں مستی سے
تنگ آکے غلامی سے انساں زنداں ہی کو ڈھانے والا ہے
دیوار سے طو فاں ٹکرا کراب راہ بنا نے والا ہے
گو ان کے لہو سے پچھلے تک اس پل کے گڑھے بھر جائیں گے
جیسے نہ بچیں گے دیوانے پر کام بڑاکر جائیں گے
ما نا کہ مکمل آزادی پُل ڈھا کے نہیں مل جائے گی
مغرب کے سہانے محلوں کی بنیاد مگر ہل جائے گی
(31)
یہی نہیں کہ اردو شاعروں نے جنگ آزادی کے ترانے گائے بلکہ یہ وہی دور ہے جب بنگال قحط کا شکا ر ہوا اور ہزاروں افراد اس قحط کی نظر ہو گئے اس موقع کی تاریخ بھی اردو شاعری سے بہتر اور کہیں نہیں وامق جون پوری کی مشہور نظم بھو کا بنگال اس کی ایک مثال ہے ورنہ ہزاروں نظمیں اور غزلوں کے اشعار صرف اس قحط پر لکھے گئے بھو کا بنگال کے چند اشعار دیکھیں ۔
یو رب دیس میں ڈگّی با جی پھیلا سکھ کا کال
دکھ کی اگنی کون بجھائے سوکھ گئے سب تال
جن ہاتھوں نے مو تی اولے آج وہی کنگال رے ساتھی
آ ج وہی کنگال
ندی نا لے گلی ڈگر پر لاشوں کے انبار
جان کی ایسی مہنگی شئے کا الٹ گیا بیو پار
مٹھی بھر چاول سے بڑھکر سستا ہے یہ مال
رے سا تھی ہے سستا ہے یہ مال
(32)
قومی شعور سے گردن گردن ڈوبی اردو شاعری کاہر باب اپنے اندر تاریخ و تہذیب کے ہر عہد کا نقشہ چھپا ئے بیٹھی ہے اور بر صغیر میں جتنی بھی زبانیں ہیں ان میں اس زبان کا قداسی لئے سب سے اونچا ہے کہ اس زبان نے کبھی اپنے عہد کے جملہ رجحا نات و تحریک سے خود کو الگ نہیں کیا بلکہ ہر وقت عوام کے دکھ درد میں شریک رہی ۔
جگر مرادآبادی کے چنداشعار دیکھیں :

کیا خبر مجھ کو مسلماں ہو ں کہ کافر ہوں میں
ناز پر وردۂ جمعیت خاطر ہوں میں
دیکھتا رہتا ہوں ہنگامۂ شب خونِ حیات
فا تحہ خوانِ مزار ات و مقابر ہوں میں
کسی جانب نہیں ملتا مجھے منزل کا سراغ
راہ گم کردۂ دنیائے منا ظر ہوں میں
میکدہ میرا، حرم میرا صنم میرے ہیں
تجزیہ کارِ نواہی و ا وا مر ہوں میں
(33)
اردو زبان نے یہ سب کیا لیکن افسوس کہ جنگ آزادی کے ہر اول دستے میں شامل اردو زبان کو بعد از آزادی ہندوستان میں ہی جس طرح پا ما ل کیا گیا وہ اپنے آپ میں 1857کی تاریخ سے کم نہیں حالانکہ اس کی پیشن گوئی پہلے ہی دن فیض احمد فیض نے یہ کہہ کر کردیا تھا کہ :
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
تلاش جس کی تھی مجھ کو یہ وہ سحر تو نہیں

حواشی
1۔ ڈاکٹر سید عبداﷲ، کشاف تنقیدی اصطلاحات۔ ص :9
2۔ کلیات حسرت حصّہ اول : ص ۔113
3۔ کلیات ضیا فتح آبادی ، ص۔203
4۔ ہندوستان ہمارا جلد دوم ہندوستان بک ٹرسٹ بمبئی۔1974
5۔ علی جواد زیدی اردو میں قومی شاعری کے سو سال ، ص۔82-83
6۔ شہر آشوب ایک تجز یہ، پروفیسر امیر عارفی، ص۔160
7۔ امداد صابری 1857کے مجاہد شعرا، ص۔311
8۔ شہر آشوب ایک تجزیہ ، پروفیسر امیر عارفی، ص۔112
9۔ علامہ فضلِ حق خیر آبادی ، باغی ہندوستان، ص۔436
10۔ شہر آشوب ایک تجزیہ، پروفیسر امیر عارفی، ص۔42
11۔ ڈاکٹر تارا چند ،تاریخ تحریک آزادی ہند، جلد سوم
12۔ سبطِ حسن، آزادی کی نظمیں، ص۔30
13۔ تاریخِ ادبِ اردو، پروفیسر وہاب اشرفی، ص۔305
14۔ قومی شاعری کے سو سال،ص۔222
15۔ شہر آشوب ایک تجزیہ، پروفیسر امیر عارفی، ص۔237
16۔ شہر آشوب ایک تجزیہ، پروفیسر امیر عارفی، ص۔321
17۔ غلام حسین ذوالفقار، اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر، ص۔114
18۔ اردو کی تیسری کتاب ، ص۔17
19۔ اردو کی تیسری کتاب، ص۔17
20۔ نوائے آزادی ، ادبی پبلشرز، بمبئی،ص۔71
21۔ انتخابِ اکبر الٰہ آبادی، ص۔19
22۔ انتخابِ اکبر الٰہ آبادی، ص۔43
23۔ کلیات اکبر الٰہ آبادی، حصّہ سوم، ص۔151
24۔ دو ماہی، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ، ص۔6
25۔ کلیات شبلی، ص۔73-74
26۔ کلیات شبلی، ص۔61
27۔ مجموعہ کلامِ جوہر،ص۔5
28۔ کلیات سہیل ، ص۔240
29۔ امرت لعل عشرت، سلسلہ مصحفی کے سخنوران بنارس، ص۔239-240
30۔ جوش ملیح آبادی، سیف و سبو، ص۔34-35
31۔ شمیم کرہانی، روشن اندھیرا، ص۔63
32۔ وامق جونپوری، جرس، ص۔121-124
33۔ کلیات جگر، ص۔163

حوالہ جاتی کتابیات
1۔ ہماری آزادی، ابوالکلام آزاد مولانا، مترجم محمد مجیب، اورینٹ لونگ مین لمٹیڈ۔1976
2۔ روشنی کے دریچے، احتشام حسین سیّد، مرتبہ: جعفر عسکری، احتشام اکیڈمی، الٰہ آباد 1973
3۔ کلیات اکبر، اکبر الٰہ آبادی، حصّہ چہارم کتابستان کراچی و الٰہ آباد، 1948، طبع اول
4۔ تاریخ آزاد ہند فوج ، حالی پبلشنگ ہاؤس، کتاب گھر دہلی
5۔ انقلاب 1857، پی سی جوشی، نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا، دہلی 1992
6۔ مجموعہ کلامِ جوہر، مرتب : تاج الدین، مسجد فتحپوری، دہلی1918
7۔ تاریخ تحریک آزادی ہند، جلد اول، مترجم قاضی محمد عدیل عباسی، ترقی اردو بیورو1980
8۔ فغانِ دہلی، تفضل حسین کوکب، اکاڈمی پنجاب، لاہور 1952
9۔ خاک دل، جانثار اختر، لاہوتی پرنٹ ایڈس، دہلی 1973
10۔ ضبط شدہ نظمیں ، مرتب: ڈاکٹر خلیق انجم و مجتبیٰ حسین، مجلس جشنِ علی جواد زیدی، نئی دہلی1975
11۔ اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ
12۔ نئی دنیا کو سلام اور جمہور، علی سردار جعفری، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی 1972
13۔ یوپی کے مسلمان اور محاذِ آزادی، جلد اول، قاضی پبلشرز، دہلی2003
14۔ اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر، غلام حسین ذوالفقار، مطبع پنجاب لاہور1977
15۔ شہر آشوب، پروفیسر امیر عارفی، ساقی بک ڈپو جامع مسجد دہلی
16۔ شہر آشوب، نعیم احمد، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی 1986
17۔ ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں اردو شاعری کا حصّہ، نصرت پبلشرز، لکھنؤ 1991
18۔ سیرتِ محمد علی، رئیس احمد جعفری ندوی، مکتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ، طبع اول 1932
19۔ نظموں کا انتخاب، راہی معصوم رضا، اسرار کریمی پریس الٰہ آباد1960
20۔ آزادی کے ترانے، راجیش کمار پرتی، نیشنل آرکائیوز، نئی دہلی1976
21۔ ہمارا ہندوستان، مرتب: جاں نثار اختر، بمبئی 1938

رسائل
1۔ آجکل (ماہنامہ) دہلی، جنوری 1957
2۔ آجکل (ماہنامہ) دہلی، آزادی نمبر، اگست 1957
3۔ اردو ادب، شبلی نمبر، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی
4۔ اکادمی لکھنؤ، (دو ماہی) یادگار حسرت نمبر، اتر پردیش
5۔ افکار جوش نمبر، مکتبہ افکار ، کراچی، اکتوبر۔نومبر1961
6۔ ایشیا ، سہ ماہی، میرٹھ اپریل، مئی، جون1961
7۔ خاتون، علی گڑھ، اپریل 1913
8۔ فروغِ اردو (ماہنامہ) لکھنؤ، جنگِ آزادی نمبر،1957
9۔ کیرتی، امرتسر، مئی 1930
10۔ نیا ادب اور کلیم، حلقۂ ادب لکھنؤ، نومبر1940
11۔ ہمایوں (ماہنامہ) لاہور، فروری1938
12۔ یادگارِ حسرت نمبر(دو ماہی)اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ 1918
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 119482 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More