سوات، بلوچستان اور مہنگائی : آزاد عدلیہ کب متوجہ ہوگی

عدلیہ بحالی تحریک اپنے جوبن پر تھی جب کچھ حکومتی وزراء کی جانب سے کہا جاتا تھا کہ وکلاء اور معزول ججز اگر یہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ بحالی سے ملک کی عمومی صورتحال خصوصاً امن و امان بہتر ہوجائے گا تو (اس وقت کے معزول)چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو سوات میں بھی کنونشن سے بھی خطاب کرنا چاہئے اور لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی بجائے سوات کی طرف ہونا چاہئے۔جس پر وکلاء تحریک کے قائد اعتزاز احسن اور دیگر رہنماﺅں نے یہ کہا تھا کہ عدلیہ کو بحال کردیں، ہم سوات میں بھی کنونشن کریں گے اور ملک میں مہنگائی کے طوفان کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی جائیں گی۔ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے بھی ایک جگہ وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پٹرولیم سے وابستہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو غیر قانونی طور پر نوازا جا رہا ہے اور عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے باوجود عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا اور اگر عدلیہ آزاد ہوگی تو ایسا نہیں ہوسکے گا۔

پاکستان کے عوام نے وکلاء کی بے نظیر عدلیہ بحالی تحریک میں وکلاء کا ساتھ دے کر اور لانگ مارچ کو کامیاب بنا کر اپنا حصہ ادا کر دیا ہوا ہے۔ وہ وکلاء جن کو نہ تو بنکوں سے قرضے ملتے تھے، نہ کرایہ پر مکان ملتا تھا، وہ وکلاء جن کا عمومی تاثر معاشرے میں کافی خراب تھا، عدلیہ بحالی تحریک سے ان کے وقار میں بہت اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اب لوگ وکلاء کی طرف دیکھ رہے ہیں، کہ وکلاء سوسائٹی کی بہبود کے لئے کیا خدمات سر انجام دیتے ہیں! لوگ اعلیٰ عدلیہ سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں کہ وہ کب عام آدمی کے مسائل کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ عوام الناس خصوصاً مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی ساری امیدیں اب عدلیہ اور وکلاء سے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ کب وکلاء سوات میں امن کے لئے لانگ مارچ کریں گے، کب سپریم کورٹ کے جج صاحبان سوات میں عدالتیں لگائیں گے، کب وکلاء قیادت اپنے وعدے پورے کرے گی؟ کب سوات میں امن و امان کے لئے فوج کی بجائے مذاکرات سے کام لیا جائے گا، کب امریکہ کی بجائے اللہ سے مدد مانگی جائے گی اور امریکہ کی بجائے اللہ کو خوش کیا جائے گا؟ کب تک بیگانوں کی خاطر اپنوں کو تہہ و تیغ کیا جاتا رہے گا؟ کیا سوات کے لوگ پاکستانی نہیں؟ کیا سوات پاکستان کا حصہ نہیں؟ کیا وہاں پاکستان کے قوانین لاگو نہیں ہوتے؟ کیا سوات اور سرحد کے دیگر علاقوں پر حملے پاکستان پر حملے نہیں؟ کیا وہاں کے بچے باقی پاکستان کے بچوں کی طرح نہیں؟ کیا وہاں کے والدین اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتے؟ وہ کب تک اپنے معصوم، بےگناہ اور بے قصور بچوں کے، بزرگوں کے اور خواتین کے لاشے اٹھاتے رہیں گے؟ کب تک اپنے پیاروں کو تڑپتے دیکھیں گے؟ اور اب تو حد ہی ہوگئی، پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت اتنی بڑی ہجرت ہندوستان سے پاکستان کی طرف نہیں ہوئی تھی جتنی بڑی ہجرت سوات اور ملحقہ علاقوں سے ہورہی ہے۔ ان لوگوں کا آخر قصور کیا ہے، ان سے کونسا ایسا گناہ سرزد ہوا ہے، یہی کہ وہ مسلمان ہیں، اللہ کا نام لیتے ہیں، اس کے نبی آخرالزماں کا کلمہ پڑھتے ہیں اور حکمرانوں کی طرح امریکہ کی غلامی قبول کرنے کو تیار نہیں

بلوچستان کے لوگ انتظار میں ہیں کہ کب اعلیٰ عدلیہ ڈکٹیٹر (سابق)پرویز مشرف کے خلاف اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر کرتی ہے۔ بلوچستان کے عوام وہاں کے حالات سے تنگ آچکے ہیں، وہ دکھے ہوئے ہیں، وہ شائد دماغ سے نہیں بلکہ دل سے سوچتے ہیں کہ کب ان کے بچوں کو بھی باقی ملک کے برابر تعلیم کے مواقع ملیں گے؟ کب ان کی دھرتی سے نکلنے والے سونے سے قیمتی ذخائر کو ان پر اور ان کے بچوں پر خرچ کیا جائے گا؟ کب ان کو بغاوت کے طعنے سے نجات ملے گی۔ کب ان کو بھی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دیا جائے گا؟ کب بلوچستان میں امریکہ، بھارت اور چین کی ”پراکسی وار“ اختتام کو پہنچے گی؟ کب اصل باغیوں اور غداروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ بلوچستان کے بزرگ، جوان، بچے اور عورتیں یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے کلاشنکوف پکڑانے والے خفیہ ہاتھ کب بے نقاب ہوں گے؟ ان پالیسی سازوں کو کب سزا ملے گی جن کی پالیسیوں پر عملدرآمد کی وجہ سے بلوچستان آج تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے

مہنگائی کا اک سیلاب رواں ہے جو ہر چیز کو بہائے لے جارہا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں ہو رہی ہیں، شریف آدمی بھی چوریوں پر مجبور ہوجاتے ہیں، پٹرول کے دام کم نہیں ہوتے اور پٹرول پر انحصار کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ لوگ اپنے بچے، اپنے لخت جگر بیچنے پر مجبور ہیں۔ کوئی کسی کو گردہ بیچ رہا ہے، خواتین، مردوں سے لڑتی ہیں کہ مہنگائی زیادہ ہے اور گزارہ نہیں ہوتا، مرد، خواتین سے الجھتے ہیں کہ جو کچھ تھا تمہارے ہاتھ پر رکھ دیا ہے، قومی خزانہ ہے کہ صرف امرا، وزراﺀ، سول اور ملٹری بیورو کریسی اور ان لوگوں کی شکم پروری کررہا ہے جن کو اللہ نے ویسے ہی بہت کچھ دے رکھا ہے، ہوس ہے کہ پوری ہونے کو نہیں آتی۔ لوگ پیسے لے کر خودکش دھماکے تک کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں کہ چلو مرنے کے بعد ہی اپنے گھر والوں کے کام آجائیں گا۔ غریب آدمی کا سوال بجا ہے کہ وزیر خزانہ صاحب مزدور کی کم از کم تنخواہ میں ذرا ایک آدمی کا ہی بجٹ بنا دیں، اور اگر مزدور عیالدار ہو، اس پر ذمہ داریاں بھی ہوں تو بیچارہ کہاں جائے؟ ایک غریب مزدور اور کسان چاہے وہ سندھ کا ہو، پنجاب کا، بلوچستان یا سرحد کا، اس کے مسائل ایک جیسے ہیں، اور اس کے سوال بھی ایک جیسے ہیں

اتنے زیادہ اور گھمبیر سوالات ہیں لیکن جواب ندارد! عدلیہ بحال ہوگئی اور عدلیہ کا دعویٰ ہے کہ اب وہ آزاد بھی ہے۔ وکیل کامیاب ہوگئے۔ بنچ اور بار کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا، یہ دونوں ایک دوسرے کا اٹوٹ انگ ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ابھی تک وکلاء قیادت (کیونکہ عام وکیل بھی اتنا ہی بے بس اور مجبور ہے جتنا کوئی عام پاکستانی) کی طرف سے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی! البتہ ذوالفقار علی بھٹو کے ”عدالتی قتل“ کے خلاف کیس پورے زور و شور کے ساتھ تیار ہورہا ہے۔ اب اعتزاز احسن اور علی احمد کرد کہاں ہیں؟ عدلیہ اور وکلاء پر بہت بھاری ذمہ داریاں آن پڑی ہیں، ان کے کندھے بے شک ناتواں ہوں، لیکن ذمہ داری کا بوجھ انہیں اٹھانا ہی پڑے گا اور ایک بار پھر وکلاء کو ہی شروعات کرنی ہونگی! قوم کی امنگوں، آرزوﺅں اور امیدوں کو قائم رکھنا پڑے گا، وکلاء کو آپس کی دھڑے بندیوں اور سیاستوں سے ایک بار پھر بالا تر ہونا پڑے گا، سیاسی جماعتیں تو کئی بار آزمائی گئی ہیں، وکلاء قیادت کی صحیح آزمائش اب شروع ہوئی ہے، وکلاء کو سپریم کورٹ کی توجہ سوات اور بلوچستان پر ضرور مبذول کرانی چاہئے! ورنہ قومی شیرازہ بکھیرنے کے لئے بہت سی خفیہ قوتیں کام کررہی ہیں، وکلاء نے جس طرح عدلیہ بحالی تحریک میں پوری قوم کو اکٹھا کئے رکھا، اسی طرح باقی معاملات بھی ان سے اسی کردار کے متقاضی ہیں.
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206674 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.