کسی کو پسند کرنا کوئی گناہ تو نہیں

اپنی پسند کا اظہار کرنا کوئی ناقابلِ تلافی جرم خطا گنا ہ تو نہیں جبکہ اسلام میں بالغ لڑکے اور لڑکی کے لئے والدین کی رضامندی سے اپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت ہے تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں اسے ناکردہ گناہ کی پاداش میں عمر بھر محبت سے محرومی کی سزا سنا دی گئی ۔۔۔آ ج بھی ایسا ہوتا ہے اپنے حق سے آگاہی کا شعور دے کے بھی عورت کو اپنے حق کے اظہار کی اجازت نہیں یہ کیسا انصاف ہے یہ کیسی محبت ہے یہ کیسا بھلا ہے؟؟؟

وہ یونیورسٹی کے زمانے سے ہی اسے پسند کرنے لگی تھی وہ اس کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا کہ وہ اپنے دل میں پنپنتے محبت کے جذبات کو روک نہ پائی پہلی نظر میں ہی اسے سنجیدہ مزاج ہونے کے باوجود اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک خاص اور معصوم قسم کی مسکراہٹ نظر آتی ہے اچھے کردار اور اخلاق اس کی شخصیت کا خاص وصف ہے مجموعی طور پر اس کے یہ تمام اوصاف ہی اسے یونیورسٹی کے دیگر طلبا سے نمایاں کرتے ہیں-

وہ معصوم مسکراہٹ سنجیدہ طبیعت دراز قد سنہری رنگ روپ والا لڑکا اس کے من کو بھا گیا جب کہ وہ خود بھی کافی ذہین اخلاق و کردار اور ظاہری شخصیت کے اعتبار سے کافی معقول ہے شرم و حیا کی پیکر دکھائی دینے والی معصوم اور خوبصورت لڑکی جو صرف اپنے ساتھی طالبعلموں سے نوٹس وغیرہ کے علاوہ کوئی بات چیت نہ کرتی نہ ہی کسی سے زیادہ دوستی رکھتی بس کام کی حد تک ہی بے تکلف تھی اس سے زیادہ نہیں وہ ماسٹرز کے پہلے سال میں تھی اور وہ سینئیر تھا ایک ہی ڈیپارٹمٹ سے وابستہ ہونے کے باعث اسائنمنٹ وغیرہ کے سلسلے میں اکثر ایک دوسرے کی بات چیت ہوتی رہتی رفتہ رفتہ دونوں میں ذہنی ہم آہنگی اور یہ ذہنی ہم آہنگی رفتہ رفتہ دوستی اور پھر محبت کے رشتے میں بدل گئی لیکن وہ دونوں اس سب کے باوجود حد فاصل سے کبھی تجاوز نہ کیا اور کرتے بھی کیوں نہ دونوں نے فیصلہ کیا کے تعلیم مکمل کرنے کے بعد گھر والوں سے بات کر لیں گے یقیناً دونوں میں سے کسی کے گھر والوں کو احتراز نہیں ہو گا کیونکہ دونوں میں سے کسی میں بھی بظاہر کوئی ایسی بات وجہ تردید دکھائی نہیں دیتی بلکہ لگتا کہ جیسے اقدرت نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے لئے ہپی تراشا ہو-

وقت اسی دوستی اور قربت میں پر لگا کر اڑتا گیا لڑکی ماسٹرز کرنے کے بعد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو گئی اور لڑکا بھی ایم فل کے بعد پروفیسر بن چکا ہے یونیورسٹی میں دو بہنوں کی شادی کے بعد اب لڑکے کے والدین کو اپنے ہونہار بیٹے کے سر پہ سہرا سجانے کا ارمان شدت پکڑ گیا -

دوسری طرف اب لڑکی کے گھر والوں کو بھی لڑکی کی شادی کی فکر ہوئی اب موقعہ تھا کہ دونوں اپنے یونیورسٹی میں کئے گئے ارادے کی تکمیل کے لئے عملی قدم اٹھاتے اور گھر والوں کو اپنی مرضی بتا کر راضی کرتے لڑکے نے جب اپنے والدین سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بخوشی مان گئے اور بیٹے کی پسند تک رسائی کے ذریعے کی جستجو میں لگ گئے-

دوسری طرف جبکہ لڑکے والے راضی ہیں پوری طرح تو لڑکی نے یہ درخواست کی کہ ہمارے گھر کا ماحول اتنا آزاد نہیں کہ کوئی لڑکی اپنی شادی کی بات خود کر سکے تو آپ اپنے والدین کو بھیج کر میرا رشتے کی درخوست گھر والوں کے سامنے پیش کر دیں اس پر بھی لڑکا راضی ہو گیا گھر کا ایڈریس لڑکی کے والد کا آفس کا نمبر وغیرہ لے لیا اب لڑکی کے والد سے بات کرنے کے لئے لڑکی کہ انکل جو کہ کسی نہ کسی طرح لڑکے کے والد کے واقف نکل آئے ان سے کہا کہ پہلے آپ اس سلسلے میں میرے بیٹے کے حوالے سے بات کریں تا کہ ہم باقاعدہ رشتہ لے کر ان کے گھر باآسانی جا سکیں-

لڑکی کے انکل نے بہت اعتماد سے لڑکی کے والد سے بات کی اور انہیں اپنی واقفیت کا حوالہ بھی دیا لڑکے اور والد کے بارے میں بھی بتایا کہ اچھے خاندان کے شریف لوگ ہیں مالی لحاظ سے بھی ٹھیک ٹھاک گھرانہ ہے مقدر والوں کو ایسے رشتے نصیب ہوتے ہیں-

لڑکی کے والد نے خاموشی سے انکل کی بات سنی اور پھر قدرے توقف کے بعد آنکھوں سے چشمہ اوپر بتا کے انکل کی طرف استعجابیہ نگاہ ڈالتے ہوئے دریافت کیا کہ انہیں کیسے پتہ چلا میرے گھر کا کہاں دیکھا ان لوگوں نے میری بیٹی کو ۔۔۔؟

انکل نے ساری تفصیل بیان کر دی فی الحال تو لڑکی کے والد خاموش رہے اور گھر جا کے دریافت کیا لڑکی نے اپنی والدہ کو ساری بات بتا دی اور کہہ یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتے تھے اور اب میرے لئے اپنے گھر والوں کو بھیجنا چاہتے ہیں-

اتنا سننا تھا کہ لڑکی کے والد کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا اور انہوں نے فوراً حکم صادر فرما دیا کہ یہ لڑکی کل سے سکول نہیں جائے گی گھر بٹھاؤ اسے ہم نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا تھا عشق لڑانے کے لئے نہیں مجھے اس کے ہاتھ میں موبائل فون یا لیپ ٹاپ نظر نہ آئے نہ ہی یہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی نظر آئے یوں لڑکی کو اپنی پسند کے اظہار کی پاداش میں نظر بند کر دیا گیا اور آنے جانے پر پابندی لگادی یہ کہہ کے آئیندہ میں اس لڑکے کا تذکرہ نہ سنوں جس کا انتخاب بیٹی نے خود کیا ہے اپنے لئے اور اس کی شادی کب اور کہاں ہوگی اس کا فیصلہ میں خود کروں گا-

دوسری طرف لڑکے کے والد کو فون کر کے بپھرے ہوئے لہجے میں اعلانیہ انداز سے کہا کہ میری بیٹی کا رشتہ لینا چاہتے تو ہماری لاشوں سے گزرنا پڑے گا اور اگر آپ کے بیٹے نے میری بیٹی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو آپ کو برے نتائج بھگتنا ہوں کے پولیس میں رپورٹ کروادی جائیگی آپ کے بیٹے کے خلاف اب کوئی بچیوں والا شریف آدمی چاہے گا کہ اسکی اولاد کا رشتہ ایسی جگہ ہو جہاں معروف طریقے سے رشتہ بھیجنے پر دھمکیاں جواب میں ملیں لڑکے کے والد نے سمجھایا کہ بیٹا دیکھ یہ صورتحال ہے کیا تو اب بھی چاہے گا اس لڑکی کو اپنانا ہاں اگر لڑکا صرف اپنے بارے میں سوچتا تو شاید ڈٹ جاتا لیکن اس کی یہ تربیت نہیں کے وہ محض اپنی خوشی کے لئے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے لئے بھی مشکلات کھڑی کر دے سو دستبردار ہو گیا اپنی پسند سے کے اب جیسے آصپ کی مرضی آپ خود جو انتخاب میرے لئے کریں گے مجھے منظور ہوگا-

جبکہ لڑکی کے والد نے جلد ہی اپنے جاننے والوں میں اپنے خاندان میں بات کی اور اپنے بھائی کے بیٹھے سے جو عمر میں کافی بڑا بھی تھا لڑکی کے مقابلے میں جبکہ ظاہری صورت میں اور ذہنیت کے اعتبار سے بھی لڑکی کے انتخاب سے یکسر متضاد مگر وہ بھی مشرقی لڑکی تھی چپ کر کے رہ گئی سر جھکا لیا اپنے والدین کے فیصلے کے آگے جھک گئی -

اب جئیں گے دونوں اپنا اپنا مقدر اپنی مرضی کے خلاف کے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن کیا یہ دونوں وہ خوشی حاصل کر پائینگے زندگی سے جس کے خواب دیکھے تھے دونوں کی آنکھوں نے وہ بھی پورے وظوق پورے یقین کے ساتھ کہ ان کی زندگی کے فیصلے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو گی کوئی ایسے رشتوں سے انکار نہیں کرتا قسمت والوں کو ملتے ہیں اچھے رشتے آج کل تو ویسے بھی اچھے رشتوں کا کال پڑا ہے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں لوگ ایسے رشتے مگر نصیب مقدر قسمت سب کے دٰعوے اور خوش فہمیوں کو کھا جاتے ہیں چاٹ جاتے ہیں اور پھر انسان سوچتا رہتا ہے کیا تھا جو یوں ہوتا اور یوں نہ ہوتا تو کیا۔۔۔۔۔۔؟

زندگی گزر جاتی ہے وقتے گزر جاتا ہے اولاد بھی ہو جاتی ہے شادیاں بھی ہو جاتی ہیں لیکن اپنی محبت نہ پانے کا احساس زندگی بھر انسان کی دل میں خلش بن کے چبھتا رہتا ہے اور سچی خوشی سے محروم ہی رہتا ہے محرومِ محبت ہمیشہ زندگی میں واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہانیاں جنم لیتی رہتی ہیں لوگ کبھی جیتے جی مرتر ہیں اور کبھی مر مر کے جی رہے ہوتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ کیا اپنی پسند سے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرنا ایسا جرم ہے کہ جس کی سزا جسکی تکلیف انسان تاحیات سہتا رہتا ہے-

کہانی تو ختم ہو گئی لیکن میرے ذہن میں یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کئی روز سے یہ سوال ذہن میں ابھر رہے ہیں-

جو آج نظرِ قارئین کرنے کی جسارت کی ہے ملاحظہ کیجیئے

یہ اتنی بڑی خطا تو نہیں کہ کوئی تعلیم یافتہ خاتون اپنی پسند سے شادی کا اظہار کر دے لیکن اس کے لئے تو خطا بن گئی اسے تو گمان بھی نہ تھا کہ اس کے گھر والے بیٹی کے لئے اننے اچھے خاندان کے برسر روز گار مذہبی اور شریف لڑکے کے آئے ہوئے رشتے کو یوں رد کریا جائیگا ناصرف انکار بلکہ لڑکے کے گھر والوں کو دوبارہ رشتے کی بات کرنے پر لڑکے کے خلاف پولیس میں رپورٹ کروانے کی دھمکی اور یہ کہنا کہ ایسا کرنے کے لئے ہماری لاشوں سے گزرنا ہوگااور بیٹی کو دی گئی تمام سہولیات اور مراعات سے محروم کردینا موبائل فون لیپ ٹاپ واپس لے لینا ایم اے پاس لڑکی جو کہ اب ایک استاد کی حیثیت سے اسکول میں فرائض انجام دے رہی تھی اسکول کا سکول چھڑوا دینا کیا کوئی لڑکی کے احساسات و جذبات کی کیفیت کا اندازہ کر سکتا ہے کہ جو اپنے حق سے آگاہی کا شعور رکھتے ہوئے اپنے حق کا اظہار نہ کر سکتی ہو بیٹی کی مرضی کے خلاف جبراً خاندان میں رشتہ طے کر دیا گیا تو کیا لڑکی خوش رہسکے گی تا عمر کیا عمر کے کسی حصے میں شاکی نہ ہو گی اس فیصلے پر جس سے رشتہ کردیا جانا کیا بھول پائے گا لڑکی کا شوہر یہ بات کبھی کہ اس کی شریک حیات یونیورسٹی میں کسی کو پسند کرتی رہی ہے اور شادی کی خواہشمند بھی رہی ہے ۔۔۔؟کیا بھول پائے گی اپنی پہلی محبت کو جب کہ رشتے سےانکار کی ماسوا اس بات کے کہ لڑکا اور لڑکی میں پسندیدگی ہو گئی -

لڑکی نے لڑکے سے درخواست کی کہ مجھے یقین ہے میرے والدین کو کوئی احتراز نہیں ہو گا کیونکہ لڑکا ذہین حافظ قران نیک شریف اسلامی سکالر ہے اور اب فارغ التحصیل ہونے کے بعد پنجاب کی ایک مشہور یونیورسٹی میں بطور پروفیسر درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہا ہے گھر بار بھی اچھا ہے دو بہنیں ڈاکٹر ہیں دو چھوٹے بہن بھائی بھی اعلٰی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جب کے والد بھی ایک مشہور کمپنی میں اعٰلی عہدے پر فائز ہیں معاشی اعتبار سے کوئی کمی نہیں تعلیم یافتہ مہذہب گھرانہ ہونے کے باوجود محض اس بنا پہ رشتے سے انکار کر دینا کہاں کا انصاف کیسی محبت اور کیسی شریعت ہے جبکہ ہمارے مذہب میں بالغ لڑکا لڑکی با اختیار ہیں اپنی پسند سے شادی کرنے کے لئے گھر والوں کی رضا مندی سے ۔۔۔کاش کے گھر والے اپنی اولاد کی خوشی پر راضا مندی ظاہر کر دیا کریں تو کافی حد تک اپنی اولاد کا مستقبل خوشگوار دیکھ سکتے ہیں اگرچہ آگے کے حالات اور قسمت کا کچھ پتا نہیں لیکن بخوشی اپنی اولاد کو اگر اولاد کی پسند واقعی قابل رشک ہو قابل قبول ہو تو ایسی جگہ رشتہ کرنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہئیے والدین کے لئے اولاد کی خوشی اور اولاد کے لئے والدین کی رضا مندی دونوں کے لئے ہی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے کاش کہ بخوشی راضی ہو جاتے اس کے والدین تو آج وہ اپنی شادی کے دن صرف والدین کے گھر سے رخصت ہونے پر آنسو نہ بہاتی بلکہ اپنی من چاہی خوشیوں کو پانے کے خیال سے بھی اس کا دامن دل بھرا ہوتاپر اس کا یہ جرم اس کے لئے خطا بن گیا جسکی پاداش میں اس سے بہت کچھ چھین لیا گیا مسکراہٹ سچی خوشی محبت بھرم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس ایک خطا بن کے رہ گئی اس کی یہ آرزو کے اپنی محبت کی شریک حیات بن سکتی ۔۔۔کاش۔۔۔؟
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 456751 views Pakistani Muslim
.. View More