جماعت اسلامی کا انداز سیاست۔۔کچھ اعتراضات کے جواب

جماعت اسلامی اپنے قیام کے وقت سے ہی سیکولر اور لادین طبقے کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقوں کی تنقید کا نشانہ بھی بنی رہی ہے ۔ سیکولر طبقوں کی مخالفت کی وجہ تو ظاہر ہے کہ وہ کسی بھی دینی جماعت کو سیاسی سرگرمیوں میں برداشت نہیں کرسکتے کجا یہ کہ ایک ایسی جماعت جو کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہو، جو دلیل سے بات کرنا جانتے ہوں اور جو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت سے بھی اپنا تعلق جوڑے رکھیں ۔ لیکن مذہبی طبقوں کی مخالفت کی وجہ کیا ہے؟؟ جب عام لوگ مذہبی جماعتوں اور اہل جبہ و دستار کو جماعت اسلامی پر تنقید کرتے دیکھتے ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ جب ہمارے علماءاس کی مخالفت کررہے ہیں تو کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی، اس طرح مذہبی گطبقے عام لوگوں کو جماعت اسلامی سے برگشتہ کرنے کا کام دینی فریضہ سمجھ کر اد اکرتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم ہتھیار مولانا مودودی ؒ کی تحریروں پر اعتراض ہے لیکن کوئی بھی مذہبی طبقہ اپنے پیروکاروں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ مولانا مودودی کے لٹریچر کا کھلے ذہن کے ساتھ مطالعہ کرے اور حق اور سچ کو خود جان لے اس کے بر عکس یہ گروہ اپنے پیروکاروں اور عام لوگوں کو جماعت کے لٹریچرسے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دینی طبقے کی مخالفت کی بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ مولانا مودودی ؒ نے ان کے اقتدار پر ضرب لگائی، دین کو عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچانے کی سعی کی اور کوشش کی کہ لوگ کسی بھی فرد کے ظاہر کے بجائے اس کے عمل اور کردار کو دیکھیں۔ مولانا مودودی ؒ مرحوم و مغفور نے سیکولر اور لادین طبقے کے ساتھ ساتھ علماءکرام کے غلط طرز فکر کی بھی گرفت کی جس کے باعث اول روز سے ہی روایتی مذہبی جماعتیں ان کے خلاف صف آراءہوگئیں۔ مولانا مودودی ؒ پر انتہائی گھٹیا اور ذاتی حملے بھی کیے گئے لیکن مولانا مودوی اور ان کے رفقائے کار نے کبھی بھی ان کی زیادتیوں کا جواب ان کی زبان میں نہیں دیا بلکہ ہمیشہ درگرز سے کام لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے علمائے کرام کے حوالے سے اپنے قلب و ذہن میں وسعت رکھی اور ان کی زیادتیوں کے باوجود ان کی عزت کیاور ان کی جانب دست تعاون بڑھایا۔
تمہید کچھ طویل ہوگئی ۔ اصل موضوع گذشتہ دنوں ہماری ویب پرشائع ہونے والے ایک مضمون پر کچھ تبصرہ کرنا ہے۔ ”جماعت اسلامی کا اندازِ سیاست۔۔۔۔۔ کچھ نہ سمجھے کوئی خدا کرے کوئی“ یہ اس مضمون کا عنوان ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ صاحب مضمون پر کسی بھی قسم کی ذاتی تنقید سے بچتے ہوئے صرف ان کے مضمون پر بات کی جائے۔

مضمون کے آغاز میں آپ کہتے ہیں کہ ” جماعت اسلامی کبھی خود کو پانچویں مذہب اور مسلک کے طور پر پیش کرتی ہے اور کبھی خود کو کسی مکتبہ فکر کا حصہ باور کراتی ہے۔“ میری ناقص رائے میں یہاں صاحب مضمون نے درست بات نہیں کی ہے ۔ جماعت اسلامی نے کبھی بھی خود کو کوئی نیا فرقہ، نیا مسلک ، یا عام مسلمانوں نے سے جدا کوئی گروہ نہیں سمجھا ہے ہاں البتہ مذہبی طبقوں نے جب اپنی اجارہ داری ختم ہوتے دیکھی تو انہوں نے از خود جماعت اسلامی سے یہ باتیں منسوب کردیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودویؒ سے لیکر سید منور حسن تک اور جماعت اسلامی کے اکابرین سے لیکر ایک عام کارکن تک کبھی کسی نے خود کو نیا فرقہ ، نیا مسلک نہیں سمجھا اور نہ کہا ہے۔ جماعت اسلامی میں کٹر دیوبندی بھی ہیں، بریلوی بھی ہیں، اہل حدیث بھی ہیں اور کچھ شیعہ بھی ہیں۔ جماعت اسلامی نے کبھی کسی مسلک کے پرچار کے بجائے ان نکات پر اپنی دعوت کی بنیادرکھی ہے کہ ”قرآن کی دعوت لے کر اٹھو اور ساری دنیا پر چھا جاﺅ“ اور رب کی دھرتی پر رب کے نظام کے لیے جدوجہد کی جائے اور جو اس جدو جہد میں ہمارا ساتھ دینا چاہے اس کے لیے جماعت اسلامی کے دروازے کھلے ہیں۔اس میں کہیں کسی مسلک ، کسی فرقے یا کسی مخصوص گروہ کو نہ تو مخاطب کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی خاص گروہ کے لیے دروازے بند کیے گئے ہیں بلکہ ہر مسلک اور فرقے کا فرد اپنے مسلک اور فرقے پر رہتے ہوئے جماعت اسلامی کی جدو جہد میں اس کے ساتھ شامل ہوسکتا ہے۔

آگے آپ کہتے ہیں” افکار و نظریات کے معاملے میں مولانا مودوی کی متنازع تعبیرات اور قابل اعتراض عبارتوں پر بہت لے دے ہوچکی“ یہ بات کہنے کے بات بڑی معصومیت سے کہہ دیا کہ آج کی نشست میں جماعت اسلامی کے فکری، مذہبی، مسلکی، اور نظریاتی پہلو پر گفتگو کرنا مقصود نہیں بلکہ محض جماعت اسلامی کی پالیسی اور انداز سیاست کے حوالے سے جو مخمصے ہیں انہیں زیر بحث لانا ہے“ بہت اچھی بات ہے لیکن جب آپ نے ان پر بات نہیں کرنی تھی تو ساری تمہید ان باتوں پر کیوں باندھی؟؟ اس کا واضح مطلب ہے کہ صاحب مضمون نے ” کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے “ کی مثال پیش کرتے ہوئے یہاں بھی قارئین کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ خیر جہاں تک مولانا مودودی ؒ کے قابل اعتراض عبارتوںاور متنازع تعبیرات کا معاملہ ہے تو یہ سارے اعتراضات مولانا مرحوم ؒ کی زندگی ہی میں اٹھائے گئے تھے اور مولانا مرحوم نے اپنی زندگی ہی میں ان سب کا مدلل اور واضح جواب دیدیا تھا۔ یہاں میں اس پر مزید بات کرنے کے بجائے صرف اتنا کہوں گا کہ ایسے اعتراضات اور مولانا مودوی اور جماعت اسلامی کے حوالے سے لوگوںنے مولانا مودودی پر صرف اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ مولانا مودودی مرحوم سے براہ راست سوال و جواب اور خط و کتابت کے ذریعے ان سے وضاحت بھی مانگی اور جوابات بھی پوچھے، یہ ساری باتیں ان کی کتاب ” رسائل و مسائل“ میں موجود ہیں اس کتاب کے کئی حصے ہیں اور ان ایسے اعتراضات اور دیگر سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ جس کو کوئی ابہام ہو وہ کتاب منگوا کر دیکھ سکتا ہے اور یہ کتابیں انٹر نیٹ پر بھی موجود ہیں کوئی بھی فرد ان سے استعفادہ کرسکتا ہے اور اپنی تسلی کرسکتا ہے۔ صلاع ِعام ہے یاران ِ نکتہ دان کے لیے -

آگے آپ لکھتے ہیں کہ ” موجودہ اور مروجہ انتخابی سیاست کے حوالے سے جماعت کی پالیسی۔۔۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت پہلے خود جماعت کی اپنی صفوں کے اندر اختلافات نے سر اٹھایا اور پھر جماعت کو شکست و ریخت سے دوچار ہونا پڑا۔ اگرچہ وقتی طور پر تو اس مسئلے پر قابو پالیا گیا لین صورتحال یہ ہے کہ آج تک جماعت اسلامی کوئی ایک لائن اختیار نہیں کرپائی ہے۔“ ایسا لگتا ہے کہ صاحب مضمون نے جماعت اسلامی کے بارے میں بنیادی باتوں کو جانے بغیر ہی یہ باتیں کہہ دی ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی اول روز سے ہی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے مروجہ طریقہ کار کے مطابق عمل کیا جائے گا،جماعت اسلامی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوئی خفیہ تحریک نہیں چلائے گی اور نہ ہی کوئی غیر قانونی عمل کیا جائے گا۔اس کے علاوہ مولانا مودودی مرحوم سے لیکر سید منور حسن تک سب امراء اور وعام کارکن اس بات پر یکسو ہیں کہ جماعت اسلامی چونکہ دینی سیاسی جماعت ہے ( واضح رہے کہ یہاں ہم نے قصداً مذہبی کے بجائے دینی سیاسی جماعت کا لفظ استعمال کیا ہے )۔ اس لئے وہ مروجہ سیاسی طریقہ کار کے مطابق انتخابات میں حصہ لے کر ہی قانون سازی اور معاشرے میں تبدیلی کا کام کرسکتی ہے۔ہان یہ ضرور ہے کہ اس کے طریقہ کار الگ الگ ہوسکتا ہے کہ انتخابات میں اکیلے حصہ لیا جائے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے، یا کسی کے ساتھ اتحاد کیا جائے لیکن یہ بات واضح ہے کہ جماعت اسلامی انتخابات اور انتخابی عمل پر یقین رکھتی ہے۔ جو لوگ اس بات سے متفق نہیں تھے انہوں نے اپنا راستہ الگ کرلیا ۔ لیکن یہ بھی واضح رہے کہ جن لوگوں نے اپنا راستہ الگ کیا ان کو اچھی طرح پتہ تھا کہ ہم جماعت کی واضح پالیسی سے اختلاف کررہے ہیں اس لیے الگ ہونے کے بعد بھی ان لوگوں نے جماعت اسلامی کے نام سے کوئی جماعت نہیں بنائی اور نہ ہی جماعت کے ارکان و کارکنان کی قابل ذکر تعداد ان کے ساتھ شامل ہوئی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو آج ا ایک جماعت اسلامی کے بجائے کئی جماعت اسلامی پاکستان میں موجود ہوتیں جیسا کہ جمعیت علماءاسلام کا معاملہ ہے کہ آج جمعیت علمائے پاکستان سمیع الحق گروپ، فضل الرحمن گروپ، نظریاتی گروپ موجود ہیں جبکہ فضل الرحمن گروپ میں ہی ایک شیرانی گروپ بھی موجود ہے۔پھر سب سے حیرت انگیز اور دل چسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے جماعت سے اپنا راستہ الگ کیا انھوں نے جماعت اسلامی کے حوالے سے کبھی کوئی منفی بات نہیں کی البتہ دیگر غیر متعلق گروہوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کی کوشش کی ۔

پھر صاحب مضمون کہتے ہیں کہ ۔۔۔یہ بھی سمجھنا مشکل ہے کہ جماعت اسلامی ایک اسلام پسند جماعت ہے یا سیکولر روشن خیال تنظیم؟۔۔۔ “ اس بارے میں خو دسے کہنے کے بجائے میں اسی مضمون کی کچھ لائنیں یا پیش کرنا چاہوں گا اور اس کے بعد اپنی بات کہوں گا۔ اسی مضمون میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ” قبلہ قاضی حسین احمد مرحوم کی حیات مبارکہ کے آخری دنوں میں راقم الحروف کی مولانا محمد حنیف جالندھری اور اتحاد تنظیمات مدارس کے دیگر قائدین کی سربراہی میں قبلہ قاضی صاحب سے متعدد ملاقاتیں اور اجلاس ہوئے جن کا ایک نکاتی ایجنڈا تھا کہ مذہبی ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے لیکن اے کاش! ان کوششوں کے نتیجہ خیز ہونے سے قبل ہی قاضی حسین احمد اپنے خلوص اور دردِ دل سمیت اپنے اللہ کی بارگاہ میں تشریف لے گئے اور یہ خواب خواب ہی رہا“ ذرا غور کیجیے اور پھر بتایئے کہ اگر بقو ل آپ کے یہ بھی سمجھنا مشکل ہے کہ جماعت اسلامی ایک اسلام پسند جماعت ہے یا سیکولر روشن خیال تنظیم؟ تو پھر ایسی تنظیم سے آپ مذہبی ووٹ بینک کو بچانے کی بات کیوں کرتے ہیں؟؟؟ ایک ایسی متنازع جماعت کو آپ ایم ایم اے جو کہ خالصتاً مذہبی جماعتوں کا اتحاد ہے میں کیوں شامل کرنا چاہتے ہیں؟؟ ایسی جماعت سے آپ یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ وہ کسی مذہبی اتحاد یعنی ایم ایم اے یا متحدہ دینی محاذ میں شمولیت اختیار کرلے؟؟ جناب عالی آپ اپنی ہی بات کی خود تردید کرگئے ہیں ۔ ( سچ تو سچ ہی ہوتا ہے چاہے اس کو کتنا ہی چھپایا جائے وہ ظاہر ہو ہی جاتا ہے ) اگر جماعت اسلامی ایک متنازع جماعت ہے، اس کے بانی کی تعبیرات و نظریات متنازع ہیں اور ان کی تحریرں قابل اعتراض ہیں تو پھر ان سے اتحاد کیسا؟؟ اور اگر ان سب باتوں کو جاننے کے باوجود آپ جماعت اسلامی سے اتحاد کے خواہاں ہیں یا تھے تو پھر ذرا سوچ کے بتایئے کہ آپ نے تو جماعت اسلامی کے بارے میں مطففین کا لقب استعمال کیا لیکن آپ لوگوں کے بارے میں کیا لقب اختیار کیا جائے؟؟؟

جناب عالی۔ آپ کی بات سے ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ دراصل جماعت اسلامی اپنا کندھا پیش نہیں کرتی بلکہ اسے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور آپ جسیے کرم فرما ہی جماعت اسلامی کا کندھا استعمال کرنے کے بعد اس پر طعن و طنز کے تیر برساتے ہیں۔ ایم ایم اے کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ مولانا فضل الرحمن صاحب کا غیر سنجیدہ رویہ ، ان کا اور ان کے رفیق خاص مولانا عبدالغفور حیدری صاحب کاطرز عمل ہے۔ آپ کا یہ مضمون اس پورے طرز عمل اور غیر سنجیدہ رویے کی عکاسی کررہا ہے۔ جس طرح آپ نے جماعت اسلامی سے اتحاد میں مایوسی کے بعد جماعت اسلامی پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے ٹھیک اسی طرح کا رویہ مذکورہ دونوں اصحاب کا رہا ہے۔

اگر بات مذہبی ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچانے کی ہے تو یہاں ہم پہلے یہ بات کرتے چلیں کہ جب پہلی بار ایم ایم اے بنی تھی اس وقت سپاہ صحابہ اس اتحاد کا حصہ نہیں تھی۔ کیا یہ مذہبی ووٹ بینک کو تقسیم کرنا نہیں تھا؟؟؟؟ آج آپ مذہبی ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کا ذمہ دار جماعت اسلامی کو قرار دیتے ہیں۔ پھر جب بات افہام و تفہیم ، قربانی اور ایثار کی آتی ہے تو ہر دفعہ قربانی جماعت اسلامی سے کیوں مانگی جاتی ہے؟؟؟ اتحاد کے دو طریقہ کار ہوتے ہیں ۔ غیر مشروط یا پھر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اتحاد ہوتے ہیں۔ آپ لوگ ہمیشہ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ جماعت اسلامی غیر مشروط اتحاد کرے؟؟؟ قربانی ایثار دیگر جماعتوں کی طرف سے کیوں نہیں ہوتا؟؟ کیا یہ ضروری ہے کہ اگر ایم ایم اے بحال ہو تو اس میں غیر مشروط طور پر سب سے زیادہ نشستوں پر جمعیت اپنے نمائندے کھڑے کرے؟؟؟ اگر جماعت اسلامی غیر مشروط اتحاد کے بجائے اصولی بنیادوں پر اتحاد کی بات کرتی ہے تو یہ سب کو برا لگتا ہے۔ پھر آپ لوگوں کو یاد آتا ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی نے قابل اعتراض تحریریں لکھی ہیں، پھر آپ لوگوں کو خیال آتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنے آپ کو پانچواں مذہب اور فرقہ کہتی ہے، پھر آپ کو خیال آتا ہے کہ پتہ نہیں جماعت اسلامی دینی جماعت ہے یا سیکولر اور روشن خیال جماعت ہے۔ جو باتیں محترم صاحب مضمون نے یہاں بیان کی ہیں ان سے صرف اتنا سوال ہے کہ کیا یہ ساری باتیں ان پر اچانک منکشف ہوئی ہیں یا ان کو پہلے سے ان کا پتہ تھا؟؟ اگر پہلے سے یہ ساری باتیں پتہ تھیں تو پھر جماعت سے تعاون کی امید اور اس کے تعاون کے طلب گار کیوں تھے؟؟یہ ساری باتیں جاننے اور سمجھنے کے باوجود جماعت سے اتحاد کے خواہاں جو آج جماعت اسلامی کو مطففین کا طعنہ دے رہے ہیں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ ان کا شمار کس میں کیا جائے؟؟؟ فتویٰ دینا ہمار اکام نہیں ہے اور نہ ہی جماعت اسلامی نے کبھی کسی کو کافر یا منافق ہونے کا طعنہ دینا ہے ۔ جماعت اسلامی اور دیگر گروہوں کا طرز عمل سامنے ہے خود فیصلہ کرلیں کہ آپ کے بارے میں کیا کہا جائے؟؟

باتیں تلخ ضرور ہیں اور کچھ انداز میں تیکھا ہوگیا جس کے لیے معذرت چاہونگا۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1451411 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More