نجم سیٹھی کون ہیں؟

27 مارچ 2013ءکو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی باہمی رضامندی اور اتفاق رائے سے نجم عزیز سیٹھی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب مقرر ہوئے۔ اس سلسلہ میں گورنر ہاﺅس لاہور میں ایک پروقار تقریب میں گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے ان سے حلف لیا۔ وہ اسلام بیزار سیکولر صحافی کے طورپر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی بیگم جگنو محسن بھی صحافت سے وابستہ ہیں۔ مال روڈ لاہور پر "Vanguard Books" کے نام سے ان کا اشاعتی ادارہ متنازعہ کتابوں کی اشاعت پر ملک بھر میں مشہور ہے۔ نجم سیٹھی ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز (Friday Times) کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ اس سے پہلے ان کے زیر ادارت انگریزی روزنامہ ”ڈیلی ٹائمز“ اور اردو روزنامہ ”آج کل“ بھی شائع ہوتا رہا۔ وہ ایک عرصہ تک معروف نجی ٹی وی پر حالات حاضرہ پر مشتمل پروگرام ”آپس کی بات“ پیش کرتے رہے۔ نجم سیٹھی پاکستان کے اسلامی اور نظریاتی تشخص بالخصوص ختم نبوت اور ناموسِ رسالت ﷺ کے سخت مخالف ہیں۔ ان کی زیر ادارت شائع ہونے والا ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز اپنی اسلام دشمنی میں سب سے منفرد ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین اس قدر زہریلے ہوتے ہیں کہ اس کے مطالعہ سے معمولی دینی غیرت و حمیت رکھنے والا شخص بھی آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس جریدے میں شائع ہونے والے کارٹون اسلام اور پاکستان کی تضحیک اور توہین کے لیے وقف ہیں۔ ثبوت کے لیے آپ اس کا کوئی شمارہ دیکھ لیں، حقیقت خود بخود آپ پر واضح ہوجائے گی۔ اسی طرح ان کی بیٹی میرا سیٹھی جو امریکہ میں مقیم ہے، وہ یہودی اخبار ”وال سٹریٹ جرنل (The Wall Street Jounral)“ میں باقاعدگی سے مضامین لکھتی ہیں۔ ان کے مضامین شعائر اسلامی اور پاکستانی فوج پر تنقید سے بھرے ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انٹرنیٹ یو ٹیوب پر ان کی کئی متنازعہ تقریریں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ میرا سیٹھی صحافت کے ساتھ شوبز میں بھی کام کرتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک نجی ٹی وی چینل پر دکھائے جانے والا ڈرامہ ”سلوٹیں“ میں ان کا کردار نہایت منفی تھا۔ نجم سیٹھی کے خاندان کی انہی ”خدمات“ کے اعتراف میں حکومت پاکستان اور کئی یورپی ممالک نے انہیں کئی ایوارڈز اور انعامات سے نوازا۔

نجم سیٹھی شروع میں روس نواز ایک مارکسٹ کے طور پر ابھرے اور پھر وزیراعظم بھٹو کے خلاف مسلح جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے بلوچ لبریشن میں شامل ہوگئے۔ انہیں کئی دفعہ گرفتار بھی کیا گیا۔ 1999ءمیں میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں انہیں بھارت میں پاکستان کی سالمیت کے خلاف زہر آلود تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نجم سیٹھی قادیانی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی تمام سرگرمیاں اسلام اور پاکستان کے خلاف ہیں۔ اس سلسلہ میں 17 مئی 1999ءکو روزنامہ ”اوصاف“ اسلام آباد میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی جس نے پورے ملک کے دینی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا، ملاحظہ کیجیے۔
”نجم سیٹھی کا تعلق قادیانی مذہب سے ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں غیر مسلم قرار پایا تھا۔ یہ انکشاف جنگ گروپ کے انگریزی روزنامہ ”دی نیوز“ نے 16 مئی 1999ءکی اشاعت میں کیا ہے۔ اخبار نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نجم سیٹھی نے بھٹو دور میں پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت میں حصہ لیا۔ ضیاءدور میں فحش لٹریچر امپورٹ کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ قائم ہوا لیکن ان کی اہلیہ جگنو کی خالہ زاد بہن سیدہ عابدہ حسین نے یہ مقدمہ ختم کروایا۔ گیارہ مئی کو لاہور میں نجم سیٹھی کی حمایت میں نکالے جانے والے جلوس میں امریکی قونصلیٹ اور امریکن سینٹر کے ڈائریکٹر نے بھی شرکت کی۔ پاکستان میں امریکہ کے سفیر ولیم لی مائیلم یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر نجم سیٹھی کو رہا نہ کیا گیا تو صدر کلنٹن اپنا دورہ پاکستان ملتوی کرسکتے ہیں۔ ”دی نیوز“ کی اس رپورٹ سے تاثر ملتا ہے کہ بھٹو دور میں بلوچستان میں مسلح بغاوت کو قادیانیوں کی خفیہ حمایت حاصل تھی اور اسی لیے امریکہ آج بھی نجم سیٹھی کی حمایت کر رہا ہے۔ (روزنامہ ”اوصاف“ اسلام آباد 17، مئی 1999ءصفحہ اوّل کالم نمبر 1,2,3)۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا : ”معلوم ہوا ہے کہ فرائیڈے ٹائمز کا ایڈیٹر خالد احمد بھی قادیانی ہے۔ خالد احمد، بھٹو دور میں وزارتِ خارجہ میں تھا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر اسے فارغ کیا گیا تھا۔ وہ پاکستان انڈیا پیپلز فورم کا سرگرم رکن ہے۔ یاد رہے کہ نجم سیٹھی فرائی ڈے ٹائمز کا چیف ایڈیٹر ہے۔“ (روزنامہ ”اوصاف“ اسلام آباد 17، مئی 1999ءصفحہ اوّل کالم نمبر 1,2,3)

معروف کالم نگار، اینکرپرسن اور سینئر صحافی جناب جاوید چوہدری روزنامہ ”ایکسپریس“ کی اشاعت 21 اکتوبر 2008ءمیں اپنے کالم ”سرخ بن مانس“ میں نجم سیٹھی کے بارے میں ہولناک انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”صدر پرویز مشرف نے جب روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا سلسلہ شروع کیا تو انہیں عوام اور میڈیا کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، صدر مشرف نے اس کا حل ایک ”روشن خیال“ میڈیا کی شکل میں نکالا، اس وقت نجم سیٹھی جیسے لوگوں نے آگے بڑھ کر مشرف کا ہاتھ پکڑ لیا اور صدر مشرف نے ان لوگوں کو اپنا دست و بازو بنا لیا۔ میں یہاں آپ کو نجم سیٹھی کے بارے میں بتاتا چلوں۔ نجم سیٹھی لاہور کی ایک ”این جی او“ کا مافیا لارڈ ہے، اس نے 1997ءمیں بھارت میں نظریہ پاکستان اور اسلام کی توہین کرکے بڑی شہرت حاصل کی تھی، یہ طویل عرصے سے بھارت اور امریکہ سے فنڈز حاصل کر رہا ہے اور اس کے تین چار قسم کے عجیب و غریب شوق ہیں، یہ کتے پالنے کا شوقین ہے، دنیا میں بے شمار لوگ کتے پالتے ہیں مگر نجم سیٹھی انتہائی غلیظ نسل کے کتے پالنے کا شوقین ہے۔ وہ اکثر کہتا ہے کہ جب اس کا کوئی کتا کسی شریف آدمی پر بھونکتا ہے تو اسے بڑی لذت محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے ایک دوست حسن نثار کے بقول ”انسان کو کتے اور شریف لوگوں کی شناخت میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ دنیا کا ہر کتا وفادار اور ہر شریف آدمی کمزور نہیں ہوتا، بعض شریف لوگ اس قدر زہریلے ہوتے ہیں کہ انہیں جو کتا کاٹتا ہے، اس کتے اور اس کے مالک کو بعد میں بارہ ٹیکے لگوانا پڑتے ہیں۔“ نجم سیٹھی کا دوسرا شوق شعائر اسلام کا مذاق اڑانا ہے، وہ نماز، داڑھی اور روزے کا علی الاعلان مذاق اڑاتا ہے اور اس میں بے شرمی کی حد تک چلا جاتا ہے، اس کا تیسرا شوق شراب اور رقص کی پارٹیاں منعقد کرنا ہے اور چوتھا شوق بھارتی اور امریکی اداروں سے ”فنڈز“ لینا ہے۔ اس شخص نے جب صدر پرویز مشرف کا ہاتھ تھاما تو یہ اسے لال مسجد کے سانحے تک لے گیا۔ صدر پرویز مشرف نے میرے ساتھ ملاقات میں اعتراف کیا تھا ”نجم سیٹھی جیسے لوگوںنے انہیں لال مسجد پر حملے کے لیے اکسایا تھا اور جب یہ واقعہ ہوگیا تو یہ لوگ بھاگ گئے“۔ لال مسجد کے سانحے کے بعد بھی ان لوگوں کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا تھا چنانچہ نجم سیٹھی نے کچھ عرصہ قبل مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان کا ایک کارٹون چھاپ دیا، یہ کارٹون امریکی امداد حاصل کرنے کا ایک ہتھکنڈا تھا۔ یہ لوگ اب موجودہ حکومت کا علم اٹھانے کے لیے تیار ہورہے ہیں، یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے جب نجم سیٹھی جیسے لوگ اس حکومت کا ساتھ دیں گے تو کیا اس حکومت کا حشر صدر پرویز مشرف اور شوکت عزیز سے مختلف ہوگا؟ جب ایسے لوگ حکومت کی حمایت کریں گے تو حکومت کی کیا کریڈیبلٹی رہے گی؟“

گذشتہ دنوں پاکستان کے ممتاز صحافی اور ڈان نیوز کے اینکر پرسن طلعت حسین نے انکشاف کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے خلاف بدعنوانی کا ثبوت مخصوص صحافیوں کو فراہم کرنے والا ملک ریاض حسین ہی دراصل وہ شخص ہے جس کا تذکرہ چشمہ اور ٹائی لگائے گیسٹ اینکر اپنی چڑیا کے طورپر کرتے ہیں۔ ڈان نیوز کے پروگرام نیوز نائٹ وِد طلعت میں انہوں نے ارسلان افتخار کیس کے اہم کردار ملک ریاض حسین کو گفتگو کا موضوع بنایا اور آخری سیشن میں نام لیے بغیر نجم سیٹھی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ طلعت حسین کے مطابق ملک ریاض کئی صحافیوں، سیاست دانوں اور جرنیلوں کو مختلف وقتوں میں نہ صرف رقوم فراہم کرتے رہے ہیں، بلکہ اندرون و بیرون ملک انہیں گھر اور بنگلے بھی خرید کر دیے۔ طلعت حسین نے بتایا کہ نجم سیٹھی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو ملک ریاض حسین سے فوائد سمیٹتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملک ریاض حسین کئی بار اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ نجم سیٹھی کو اندر کی باتیں بتانے والی چڑیا میں ہی ہوں اور وہ مجھ سے معلومات جمع کرکے عوام تک پہنچاتے ہیں۔

اسلام اور پاکستان کی سرحدوں کے محافظ سینئر کالم نگار جناب انصار عباسی اپنے کالم ”ایک چڑیا نے ن لیگ کو چت کردیا“ میں لکھتے ہیں:
”حال ہی میں مسلم لیگ ن نے جسٹس (ر) شاکر اللہ جان کا نام نگراں وزیر اعظم کی لسٹ سے اس لیے نکالا کیونکہ ن لیگ کو خبر ملی کہ بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض اس اعلیٰ انتظامی عہدے کے لیے شاکر اللہ جان کی حمایت کر رہے ہیں۔ مگر نجم سیٹھی اور ملک ریاض کے انتہائی قریبی تعلقات، جس کے بارے میں دنیا جانتی ہے، کے باوجود سیٹھی کو پنجاب کا نگراں وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے ن لیگ نے ہاں کردی۔ بقول سہیل وڑائچ ”کیا یہ کھلا تضاد نہیں“........ سیٹھی ایک طرف تو ملک ریاض کے بہت قریبی تھے اور دوسری طرف وہ نظریہ پاکستان (پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الا اللہ)، اسلامی آئین اور قرارداد مقاصد کے خلاف اور پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانے کے خواہاں ہیں۔ سیٹھی صاحب نے پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے، بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کی سازش کی، ہندوستان میں پاکستان کو ناکام ریاست قرار دیا، مشرف کا ساتھ دیا، امریکی پالیسیوں اور اس کی مسلم کش نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے حامی رہے، ریمنڈ ڈیوس کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے مہم چلائی جیسے الزامات پر پھر کبھی بات ہوگی۔ گزشتہ پانچ سال صحافت کے ذریعے عمومی طور پر زرداری حکومت کا کڑے وقتوں میں ساتھ دینے، عدلیہ بحالی کے مخالفت کرنے، میموگیٹ پر زرداری اور حقانی کا کھلا ساتھ دینے جیسے الزامات پر بھی پھر کبھی بعد میں بات ہوگی مگر کیا ن لیگ کو نہیں معلوم تھا کہ ارسلان، ملک ریاض کیس میں اپنے محسن، فیملی فرینڈ اور کچھ ذرائع کے مطابق بزنس پارٹنر ملک ریاض کا سیٹھی نے کھل کر ساتھ دیا جو یقینا سیٹھی صاحب کا حق تھا۔ یہ بات بھی کیا کسی سے چھپی ہوئی ہے کہ سیٹھی کی چڑیا بھی کوئی دوسری نہیں بلکہ ملک ریاض ہی ہیں اور یہ بات مجھے ملک ریاض نے ایک ملاقات میں خود بتائی اور یہ بھی کہا کہ نجم سیٹھی اور ان کی بیگم ان کے گھر کے لوگ ہیں اور ان کے بہت قریب ہیں........ سیٹھی صاحب نے بھی چاہے دو ماہ کی وزارت اعلیٰ کے لیے خود بھی اس آئین کا حلف اُٹھا لیا جس پر ان کو کئی اعتراضات رہے مگر ن لیگ نے بھی پہلے عاصمہ جہانگیر کا نام وزارت عظمیٰ کے لیے ابتدائی لسٹ میں ڈالنے اور بعد میں سیٹھی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے پر اپنے نظریہ سیاست کو ہی مشکوک بنا دیا۔ ہوسکتا ہے یہ سب کچھ امریکا اور مغرب کو خوش کرنے کے لیے کیا جارہا ہو تاکہ اقتدار ملنے میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ مگر یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر اقتدار کے حصول کے لیے مسلم لیگ ن نظریہ پاکستان اور اسلامی آئین کے مخالفین کو اعلیٰ ترین عہدے دے سکتی ہے تو پھر اقتدار میں آنے کے بعد اپنی حکومت کو قائم کرنے کے لیے اور امریکا کی خوشنودی کے لیے ن لیگ ہوسکتا ہے پاکستان کو ایک لادینی (سیکولر) سٹیٹ ہی بنا دے۔ مجھے عاصمہ اور سیٹھی کے خیالات سے کوئی مسئلہ نہیں کیوں کہ یہ اُن کا حق ہے کہ وہ آئین یا پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اپنی رائے رکھیں مگر ن لیگ کی یہ دوغلی پالیسی عوام سے دھوکہ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس سے بہتر تو یہ ہوگا کہ ن لیگ بھی اعلان کردے کہ وہ پاکستان کو سیکولر ملک بنانے کی جدوجہد کرے گی اور یہ کہ وہ بھی ایسے افراد کے خیالات سے متفق ہے جوا س بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کا اسلامی نظریہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ مسخ شدہ تاریخ کا نتیجہ ہے اور یہ بھی کہ قائداعظم نے پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانے کا خواب دیکھا تھا جہاں مذہب کو ریاست اور ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں ہو گا اور یہ بھی کہ آئین پاکستان میں قادیانیوں، احمدیوں، لاہوری گروپ کو غیر مسلم قرار دینا ایک غلط فیصلہ تھا۔“
نجم سیٹھی سیفما (Safma) نامی تنظیم کے سرگرم عہدیداروں میں سے ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد بھارت نوازی، پاکستانی فوج کی کردار کشی اور اسلامی نظریات کی مخالفت کرنا ہے۔ سیفما میں شامل تمام لوگ پاکستان کے قیام، اس کے اسلامی ریاست ہونے، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی کردار کشی اور بھارتی پالیسیوں کی حمایت میں علی الاعلان لب کشائی کرتے ہیں۔ یہ لوگ 15 اگست کو باقاعدگی کے ساتھ واہگہ بارڈر جا کر بھارت کا یومِ آزادی ہندوﺅں سے بڑھ چڑھ کر نہایت جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اس گروہ کے سرکردہ رہنماﺅں کی بھارتی فوجیوں کے ساتھ بھنگڑے اور انہیں لڈو کھلانے کی تصاویر تو پاکستان کے اکثر اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ یہ حقیقت بھی حیران کن ہے کہ خود کو میڈ ان پاکستان کہلوانے والے میاں نواز شریف سیفما کے کئی متنازعہ پروگراموں کی صدارت کر چکے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل نجم سیٹھی نے ایک نجی ٹی وی چینل پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو احمق کہا ، جس پر ملک بھر میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا، اس سلسلہ میں معروف کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے کالم ”حماقت، صحافت اور سیاست“ میں لکھتے ہیں۔
”اس سے زیادہ آزادی اظہار کیا ہے کہ پاکستانی میڈیا کا ایک آدمی عظیم لیڈر بابائے قوم کے خلاف بدتمیزی کرتا ہے اور یہ الزام بھی لگاتا ہے کہ یہاں آزادی ¾ اظہار نہیں ہے۔ ایسے مادر پدر آزاد خواتین و حضرات صرف پاکستان میں ہیں۔ نجم سیٹھی کو خیال نہ آیا۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر قائداعظم کے ایک اقدام کے لیے حماقت کا لفظ استعمال کیا۔ منیب فاروق نے بھی اس بے شرمی کا نوٹس نہ لیا۔ اختلاف ٹھیک ہے مگر یہ حق اس کا ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہو۔ بے انصاف لوگ صرف اختلاف کرتے ہیں یا صرف اعتراف کرتے ہیں۔ ظالم امریکہ کی حمایت اور بے بس پاکستان کی مخالفت ان کا شیوہ ہے۔ امریکہ کا کوئی صحافی صدر واشنگٹن پر تنقید کرسکتا ہے۔ بھارت میں مسٹر گاندھی سے بھی اختلاف ہوسکتا ہے مگر کوئی شخص کہ وہ کتنا ہی بدتمیز کیوں نہ ہو۔ انہیں احمق نہیں کہہ سکتا۔ گاندھی اور نہرو نے کتنے ہی ایسے اقدام کیے ہوں گے تو کبھی نجم سیٹھی بھارت میں جاکے انہیں احمق کہہ سکتا ہے؟ قائداعظم کو حماقت کا طعنہ دینا نجم کا افتخار ہے۔ کیا ہمارا زور اپنے قابل صد احترام لوگوں پر چلتا ہے۔ نواز شریف کے لیے خوشامدیوں کی طرف سے قائداعظم ثانی کا نعرہ ایک نالہ بن کے رہ گیا ہے۔ وہ بھارت نواز تنظیم سیفما میں امتیاز عالم کا مہمان خصوصی بنا اور بھارت کے لیے پسندیدگی کی باتیں کیں۔ بھار ت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنایا جو غیر متنازعہ علاقہ تھا۔ کیا بھارت میں ایک بھی آدمی ہے جو کشمیر کے لیے بھارت کی ظالمانہ قتل و غارت پر اعتراض اٹھائے۔ تم بھارت کی جمہوریت کی باتیں کرتے ہو اور پاکستان میں مارشل لاءکے طعنے دیتے ہو مگر تمہاری نام نہاد جمہوری اور سیکولر بھارتی حکومت نے کشمیر اور کئی دوسری جگہوں پر مارشل لاءلگایا ہوا ہے۔“

اجمل نیازی نے مزید لکھا:
”نجم سیٹھی کا وزیر اعلیٰ بننا صدر زرداری کے کئی عزائم اور مقاصد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس میں امریکہ اور بھارت کی خوشنودی بھی شامل ہے۔ آخر نواز شریف نے صدر زرداری کے ایک قریبی آدمی کے لیے اپنی پوری امداد کیوں فراہم کی؟ نجم سیٹھی کو تجویز صدر زرداری نے کیا۔ بنوایا نواز شریف نے؟ یہ ہم آہنگی یک رنگی کتنی گہری ہے۔“

دینی غیرت و حمیت اور جذبہ حب الوطنی میں سرشار معروف کالم نگار جناب سمیع اللہ ملک اپنے مضمون ”شہادتوں اور فیصلوں کے دن“ میں لکھتے ہیں:
”پچھلے کچھ ہفتوں سے نجم سیٹھی درپردہ منافقانہ سازشوں کے ذریعے اقتدار کے حصول کے لیے رات کے اندھیرے میں مسلم لیگ ن کی منت سماجت کر رہے تھے کہ اچانک حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ میاں برادران نے واشنگٹن اور نئی دلی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اُسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ بنانے میں لمحہ بھر تاخیر نہیں کی اور اس طرح چڑیا کی خبریں دینے والا گدھ اقتدار کی مردہ لاش کا حقدار ٹھہرا دیا گیا۔ گویا اس طرح سب ہی کے چہرے بے نقاب ہوگئے کہ اقتدار کی ہما کے لیے تمام اصول و ضابطے قربان کیے جاسکتے ہیں۔“

سینئر صحافی شاہین صہبائی کے مطابق نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی نے بیرونِ ملک 3 ملین ڈالر کا اپارٹمنٹ خریدا ہے۔ اس حوالے سے ضروری دستاویزات بھی سامنے آئیں اور انہوں نے اس کی کوئی تردید نہیں کی۔ (روزنامہ ”امت“ کراچی، 27 مارچ، 2013 ئ)

افسوسناک امر یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کی نام نہاد علمبردار مسلم لیگ (ن) نے نجم سیٹھی کی اہلیہ جگنو محسن کو آئندہ انتخابات میں اپنی پارٹی کی طرف سے ٹکٹ بھی دے دیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ وہ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کی اتالیق ہے۔ ٹکٹ دینے والے بورڈ میں مریم نواز شریف بھی تھیں جنہوں نے جگنو محسن کو ٹکٹ دینے کی زبردست حمایت اور وکالت کی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ان مذموم اقدامات سے کیا یہ تصور کرلیا جائے کہ وہ پاکستان کی روحانی و نظریاتی اساس پر حملہ کرنے والوں، کشمیر میں ہونے والے بھارتی ظلم و ستم کو نظر انداز کرنے والوں، پاکستان کے خلاف آبی جارحیت پر چپ سادھنے والوں، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد پر بھارت کی مذمت نہ کرنے والوں، پاکستان کو لادین و سیکولر ریاست بنانے کا عزم کرنے والوں اور پاکستان میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے والوں کی سرپرست جماعت بن چکی ہے اور اس نے اسلام اور نظریہ پاکستان کے تحفظ سے دستبرداری کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر نہیں تو بتایا جائے کہ پاکستان مسلم (ن) نے عاصمہ جہانگیر کا نام بطور نگران وزیراعظم کیوں پیش کیا؟ نجم سیٹھی کو بطورِ نگران وزیراعلیٰ کیوں قبول کیا؟، قادیانیوں کو اپنا بھائی کیوں قرار دیا؟ نجم سیٹھی کی اہلیہ کو آئندہ انتخابات میں ٹکٹ کیوں دیا؟ شراب نوشی کا اعتراف کرنے اور نظریہ پاکستان کے خلاف کالم لکھنے والے ایاز میر کو چکوال سے ٹکٹ کیوں دیا؟
میری آواز کے دکھ سے مجھے پہچان ذرا
میں تجھے کہہ نہ سکوں اتنی ندامت ہے مجھے
Muhammad Arshad
About the Author: Muhammad Arshad Read More Articles by Muhammad Arshad: 3 Articles with 12003 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.