حرام کمانا اور کھانا ایک گناہِ کبیرہ ہے

 تحریر لطیف حضرت شیخ المشائخ خواجہ محمد طاہر عباسی نقشبندی مجددی مدظلہ العال

حلال
حلال چیز کو نعمتِ خداوندی سمجھ کر منتفع ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حلال اور پاکیزہ اشیاء کو استعمال کرنے کا حکم فرمایا ہے اور اس کو اپنے بے انتہا انعام میں سے بتلایا ہے، جیسا کہ آیۂ قرآنیہ میں وارد ہے۔ اے لوگو کھاؤ جو کچھ زمین میں ہے حلال اور پاکیزہ شئے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ سورہ بقرہ ع 20 ”یا ایھا الناس کلوا ممّا فی االارض حلالا طیّبا ولا تتبعوا خطوات الشیطٰن انّہ لکم عدو مبین۝“۔ ایک اور آیۂ کریمہ میں وارد ہے: اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ تعالیٰ کا احسان مانو اگر تم اس کو پوجتے ہو۔ سورہ بقرہ ع 20 ”یا ایھا الذین اٰمنوا کلوا من طیبٰت ما رزقنٰکم واشکرواللہ۝“۔ حلال اشیاء کو اپنے اوپر حرام قرار دینا ایک طرح سے کفران نعمت اور اللہ تعالیٰ کی رزاقیت سے بغاوت کے مترادف ہے۔ اس طرح کا عمل کفار و مشرکین کا ہوتا تھا۔ وہ بعض جانوروں کو اپنے بتوں کے نام سے منسوب کردیتے، ان جانوروں کا گوشت اور دودھ اپنے اوپر حرام کردیتے تھے۔ جبکہ کسی بھی چیز کی حلت یا حرمت کا حکم صادر کرنا اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے نہ کہ بندوں کا۔

حرام
حرام کے اقسام اور اس کے ارتکاب کے نقصانات

جس طرح حلال اشیاء اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہیں تو حرام اشیاء اس کے برعکس ممنوعات میں سے ہیں۔ ان کا استعمال طعام، لباس، روپیہ اور پیسہ وغیرہ کی صورت میں گناہِ کبیرہ میں سے ہے۔ جس طرح ارشاد خداوندی ہے

”و لا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل۝“ سورۃ البقرہ

ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔

اب اکل باطل دو طرح سے ہے۔ (الف) ظلم کی صورت میں، جیسے کسی کا مال غصب کرنا، امانت میں خیانت کرنا، چوری کرنا، رشوت لینا۔ (ب) دھوکہ دہی، لہوولعب، حرام تماشوں کی صورت میں، جیسے یمین باطلہ کا ذبہ کے ذریعے مال و دولت کا حصول یا لھوولعب اور جوا کی صورت میں مال و دولت کا حصول۔ حرام کے مرتکب کے فرائض و واجبات و عبادات و مجاہدات و صدقات و خیرات کے علاوہ دعا تک قبول نہیں ہوتی۔ جیسا کہ صحیح مسلم شریف میں حدیث مبارکہ وارد ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں:

الرّجل یطبل السفر اشعث اغبر بمدیدہ الی السماء یا رب یا رب و مطعمہ حرام و مشربہ حرام ملبسہ حرام و غذی بالحرام فانیٰ یستجاب لذالک (رواہ مسلم)

کوئی شخص طویل سفر کے بعد اس حالت میں اپنے ہاتھ بارگاہ خداوندی میں پھیلاتا ہے کہ اس کا جسم اور اس کا لباس غبار آلودہ ہے اور پکارتا ہے ای میرے رب میری فریاد فرما، کیسے اس کی دعا قبول ہو جبکہ اس کا کھانا، پینا اور لباس حرام میں سے ہے۔

دعا کی مقبولیت کا ذریعہ کسبِ حلال ہے

ایک حدیث مبارکہ میں کسب حلال کو دعا کی مقبولیت کا ذریعہ بتلایا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں بارگاہ رسالت مآب صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ آیت مبارکہ ”یا ایھا الناس کلوا مما فی الارض حلالا طیبا“ الآیۃ (اے انسانو! کھاؤ اس میں سے جو زمین میں ہے حلال (اور) پاکیزہ چیزیں) تلاوت کی تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم دعا فرمائیے کہ میں مستجاب الدعوات ہوجاؤں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اے سعد (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں مجھ محمد مصطفیٰ (صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی جان ہے، آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک قبولیت سے محروم رہتی ہے۔

حرام کھانے والا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اس کی کوئی عبادت مقبول نہیں۔ حرام کھانے والے کی ہر نیکی بارگاہ خداوندی میں مقبولیت سے محروم رہتی ہے۔ پس یہ قبولیت عام ہے۔ اس کی نماز، روزہ، حج، خیرات و صدقات، اور عبادات و مجاہدات مقبولیت کے درجہ تک نہیں پہنچتے۔

جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے: ایسے شخص کی اللہ تبارک و تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتا جس کے پیٹ میں حرام موجود ہو، تاوقتیکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں سچے دل سے تائب نہ ہو۔

حدیث میں ایک ایسے نمازی کا تذکرہ بھی ملتا ہے جس کو نماز سے تکان کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوتا، یعنی نماز پڑھنے کا مقصد قرب الٰہی کا حصول ہے اور وہ اس کو حاصل نہیں۔ اس کے عدم حصول کی دو وجہ ہوسکتی ہیں۔ (الف) نماز کی شرائط کو پورا نہیں کرتا یا نماز خشوع و خضوع سے ادا نہیں کرتا۔ جیسا کہ ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ بغیر توجہ الی اللہ اور خشوع و خضوع کے نماز ادا کرنے والے کے متعلق اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں کو فرماتا ہے کہ اس شخص کو دیکھو جو مجھ اللہ کو بھی دھوکہ دینا چاہتا ہے، اس کا جسم میرے سامنے ہے اور اس کا دل کہیں اور اٹکا ہوا ہے۔ (ب) چونکہ اس کا کسب، طعام، لباس حرام میں سے ہے اس لئے اس کی نماز قبولیت کے درجہ کو نہیں پہنچ پاتی۔ جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی کہ جب اس کا کھانا پینا اور لباس حرام میں سے ہے، پھر کیسے اس کی دعا کو مقبولیت کا مقام حاصل ہو۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں وارد ہے، اس کے راوی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ ”من الشتریٰ ثوبا بعشرۃ دراھم و فی ثمنہ درھم من حرام لم یقبل اللہ لہ صلوٰۃ مادام علیہ“۔ کسی نے دس درہموں کے عیوض کپڑا خریدا، ان میں فقط ایک درہم حرام کا تھا، جب تک یہ کپڑا اس کے بدن پر ہے اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نماز قبول نہیں فرماتا۔ ایک اور حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص مالِ حرام سے حج کرتا ہے کہتا ہے لبیک (اے میرے رب میں حاضر ہوں)، فرشتہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے اس کو جواب دیتا ہے تیری حاضری قبول نہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ تیرا مددگار نہیں اور تیرا حج بھی مقبول نہیں۔ (طبرانی)

حضرت یوسف بن اسباط رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب کوئی جوان عبادت کرتا ہے تو شیطان اپنے چیلوں سے کہتا ہے کہ اس کے طعام کو دیکھو وہ کہاں سے ہے، اگر حرام سے ہے تو اس کو چھوڑدو، عبادت کرتے کرتے تھک جائے گا اس کو حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا۔ یعنی اس حرام کے استعمال کی وجہ سے کوئی عبادت قبولیت کے مقام تک نہیں پہنچ سکے گی۔

ہمیں جب بھی دیر یا سویر اللہ تبارک و تعالیٰ کی یاد آتی ہے تو عبادات، نوافل، خیرات، صدقات پر پورا زور صرف کرتے ہیں، اس پر توجہ بالکل نہیں ہوتی کہ معروف ہر عمل کرنے سے پہلے منہیات سے اجتناب حاصل ہے یا نہیں، اور ہمارے سامان و اسباب سب سے بڑھ کر طعام و لباس کا حرام سے کوئی دور یا قریب کا تعلق تو نہیں۔

حضرت عبداللہ بن المبارک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اگر میں کوئی ایک مشکوک اور مشتبہ درہم واپس کردوں یہ میرے لئے زیادہ پسندیدہ ہے اس سے کہ ایک سو (100) درہم صدقہ کروں۔ اب جو لوگ دونوں ہاتھوں سے خیرات لٹاتے ہیں، اس سے انکار نہیں کہ یہ نیک عمل ہے، مگر ان لوگوں کو یہ بات سب سے پہلے سوچنی چاہیئے کہ کیا وہ مال و دولت جمع کرتے ہوئے مشتبہ دولت اور روپیوں کو اپنے حلال مال میں جمع نہ ہونے دیں۔ حضرت امام ابوحینفہ رضی اللہ عنہ نے اپنے کپڑے کی دوکان پر ایک غلام رکھا ہوا تھا۔ کپڑے کے ایک تھان میں کچھ عیب تھا، غلام کو ارشاد فرمایا جب کوئی یہ تھان خریدے تو اس کو اِس عیب سے ضرور آگاہ کرنا، مگر وہ تھان بِک گیا اور غلام وہ عیب بتانا بھول گیا۔ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ مطلوبہ شخص مل جائے تو اس کی رقم واپس کی جائے۔ جب وہ نہ ملا تو جملہ رقم اور بعض روایات کے مطابق اس دن کی جملہ آمدنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں خیرات کردی۔ ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ سنا کہ آپ کے علاقہ میں ایک بکری چوری ہوگئی ہے تو آپ نے جانور پالنے والوں سے پوچھا کہ بکری کی اوسط عمر کیا ہوتی ہے؟ بتایا گیا کہ آٹھ سال، تو آپ نے آٹھ سال تک بازار سے گوشت نہیں خریدا، مبادیٰ اُس چوری شدہ بکری کا گوشت بکنے کیلئے نہ آجائے۔ یہ ہمارے ماسلف بزرگان دین کا تقویٰ و احتیاط تھا۔ اس ضمن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ تحریر کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک غلام تھا جس کو آپ نے مکاتب بنایا تھا (معلوم ہونا چاہئے مکاتب ایسے غلام کو کہا جاتا ہے جس کے متعلق اس کا مولیٰ ایک رقم یا عیوض متعین کردے تاکہ وہ غلام متعین کردہ رقم یا عیوض دے کر اپنی جان آزاد کراسکے)۔ اس طرح وہ غلام آپ کو روزانہ اپنی مزدوری میں سے کچھ پیش کرتا رہتا تھا اور آپ روزانہ اس کے لائے ہوئے مال کے متعلق دریافت فرماتے رہتے تھے کہ تو یہ مال کہاں سے لایا۔ پھر اگر مناسب سمجھتے استعمال فرماتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ ایک دن وہ غلام کوئی کھانے کی چیز لایا، حالانکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزہ سے تھے، نسیان کی وجہ سے آپ نے ایک لقمہ لے لیا اور پوچھنا بھی بھول گئے اور بعد میں دریافت فرمایا کہ تو یہ کہاں سے لایا۔ اس نے جواب دیا میں جاہلیت کے زمانے میں بڑا جادوگر تھا، آج بھی میں یہ سب کچھ اپنے جادو کے ذریعہ کما کے لایا ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ افسوس ہو تجھ پر، تونے ہمیں ہلاک کردیا۔ پھر اپنا ہاتھ اپنے منہ میں داخل کیا اور قے کرنے لگے لیکن وہ لقمہ منہ سے باہر نہ نکلا۔ عرض کیا گیا کہ شاید پانے کے بغیر نہ نکلے، پھر پانی منگایا اور پینا شروع کردیا اور قے کرنے لگے تو جو کچھ آپ کے معدہ میں تھا وہ سب قے کی صورت میں نکل آیا۔ عرض کیا گیا اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اتنی بڑی تکلیف فقط ایک لقمہ کے لئے اٹھائی۔ آپ نے جواب دیا اگر یہ لقمہ میری جان لئے بغیر نہ نکلتا تو بھی میں اس کو نکالتا، پھر چاہے میری جان چلی جاتی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے سنا ”کل جسد نبت من سحت فالنار اونی بہ“ ہر وہ جسم جو لقمۂ حرام سے پیدا ہوا آگ اس کے لئے بہتر ہے۔ میں ڈر گیا تھا کہیں اس لقمۂ حرام سے میرے جسم میں کچھ اضافہ نہ ہوجائے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہم نو حصے حلال کے چھوڑ دیتے تھے اس خوف سے مبادا حرام میں ملوث نہ ہوجائیں۔ یہ عمل سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمال تقویٰ کا مظہر تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سوچ کا محور یہ تھا کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت ہو مخالفت نہ ہو۔ اس معاملہ میں وہ اس قدر اٹل اور مستحکم تھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کے لئے طعامِ لذیذ، لباسِ فاخرہ، جائداد و اولاد ان کے سامنے ہیچ تھا، بلکہ جان کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

جب کہ آج کے مسلمان کی سوچ یہ ہے ’چمڑی جائے دمڑی نہ جائے‘۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوچ کے سراسر خلاف آج کے کچھ مسلمان حرام کے دس کے دس حصے بلا شرکتِ غیرے حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک حصہ سے بھی دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔ ایسی سوچ کے حامل افراد کیلئے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”الدنیا جیفۃ و طالبھا کلاب“ دنیا مردار کی طرح ہے اور اس کے طالب کتوں کی طرح ہیں۔ اس حدیث میں دنیا کو مردار سے تشبیہ دینے کی ایک حکمت یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ مردار کی بدبو مردار خوروں کو دور سے اپنی طرف کشش کرتی ہے، اس طرح دنیا کی بدبو بھی بڑی دور سے آتی ہے اور بڑے زور سے آتی ہے، اس کے مکروفریب سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید محبت کی ضرورت ہے جو کہ سب جملہ غیر کی محبت پر غالب آجائے۔ دنیا کے طالبین کو کتوں سے تشبیہ دینے کی چند حکمتیں معلوم ہوتی ہیں۔

(الف) جملہ جانوروں میں شاید کتا ہی ایک ایسا جانور ہے جو مردارخوری کے دوران اپنے ہم جنس کو بھی اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتا۔ اسی طرح دنیا کی محبت کا مارا ہوا انسان بھی دوسرے کسی بھائی کو ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا دیکھ کر برداشت نہیں کرسکتا، یہ خود غرضی کی انتہا ہے۔

(ب) کتا کھانے میں اتنا حریص ہے کہ گوشت کے ساتھ ہڈیوں کو بھی ہڑپ کر جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کا طالب اپنے خزانے میں حلال کے ساتھ حرام کو بھی جمع کرتا رہتا ہے۔ ایسے افراد کے لئے حدیث شریف میں وارد ہے ”من لم یبال من این اکتسب المال لم یبال اللہ من ای باب ادخلہ النار“ جو شخص یہ فکر نہیں کرتا کہ یہ مال کہاں سے حاصل کیا (حلال جگہ سے یا حرام جگہ سے) اللہ تبارک و تعالیٰ بھی اس کا فکر نہیں کرتا کہ کس دروازے سے اسے جہنم میں داخل کیا جائے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد نبوی ہے، حدیث طویل ہونے کی وجہ سے ترجمہ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ (ترجمہ) مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، کوئی ایک آپ میں سے رسّی لے کر جبل کی طرف جائے، لکڑیاں جمع کرے، پیٹھ پر لاد کر لائے، اس سے کماکر کھائے یہ بہتر اس سے کہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے، اور یہ کہ آپ میں سے کوئی اپنے منہ میں مٹی ڈال دے یہ اس سے بہتر ہے کہ اپنے منہ میں حرام ڈالے۔ (رواہ احمد)

ہم مٹی کو ناقابل استعمال سمجھتے ہیں اور اس چیز کو اپنے منہ میں ڈالنے کو ناقابل تصور اور نقصان دہ سمجھتے ہیں جب کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل ایمان کیلئے حرام اشیاء کو اس سے بڑھ کر نقصان دہ اور زہر قاتل سمجھتے ہیں۔

حرام مال کو کسی نیک کام میں صرف کرنا اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے اجر کی امید رکھنا گناہ ہے۔ حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کا قول ہے ”من انفق الحرام فی الطائفۃ کمن طھر الثوب بالبولِ والثوب لا یطھرہ الا الماء والذنب لا یکفرہ الا الحلال“ حرام مال کو نیک کام میں صرف کرنا کپڑے کو پیشاب سے پاک کرنے کے مترادف ہے، کپڑا پانی سے ہی پاک ہوسکتا ہے، گناہوں کا کفارہ حلال ہوسکتا ہے حرام نہیں۔ جاہل لوگوں میں یہ رسم بھی عام ہے کہ بیٹیوں کو شرعی حکم کے مطابق شادی نہیں کراتے بلکہ بیٹیوں کو قیمتًا بیچتے ہیں جس طرح جانور کو بیچا جاتا ہے، یہ نہیں سوچتے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو آزاد پیدا فرمایا ہے، اس کو باندیوں کی طرح بیچنا نہایت قبیح فعل ہے اور بہت بڑا گناہ ہے اور عیوض میں لیا گیا مال حرام ہے۔ چنانچہ حدیث قدسی میں ارشاد ہے، یہ روایت بخاری شریف میں مذکور ہے

ثلاثہ انا خصمھم یوم القیامۃ و من کنت خصمہ خصمتہ رجل اعصی بی ثمَّ عذرہ ورجل باع حرًا فاکل ثمنہ و رجل استاٴجرا جیرا فاسوضیٰ منہ العمل ولم یعطم اجرنہ رواہ۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تین اشخاص ایسے ہیں جن کا روز قیامت میں دشمن ہوؤنگا اور میں ان سے اچھی طرح نمٹوں گا، ان میں ایک وہ مرد جس نے میرا نام لے کر وعدہ کیا پھر اس نے وعدہ پورا نہ کیا، دوسرا وہ شخص ہے جس نے آزاد مرد یا عورت کو بیچا اور اس کی قیمت کو کھاگیا، تیسرا وہ شخص جس نے اجرت پر مزدور لیا اس سے کام تو پورا کرایا مگر مزدوری پوری نہیں دی۔

نیچے ایسے کام بیان کئے جاتے ہیں جن کے ذریعہ کمایا گیا مال حرام کے زمرہ میں آتا ہے۔

چنگی محصول لینا، امانت میں خیانت کرنا، فریب اور دھوکہ دہی، چوری کرنا، اعمال فاسدہ کے ذریعہ مال و دولت کمانا، سود لینا، یتیم کا مال کھانا، جھوٹی شاہدی دینا، کسی سے ادھار چیز لے کر واپس نہ کرنا، رشوت لینا، ناپ تول میں کمی بیشی کرنا، کوئی چیز بیچنا مگر اس کا عیب خریدار سے چھپانا، شرط باندھ کر ہار جیت کا کھیل کھیلنا، جادوگری کرنا، نجومی ہونا، تصویر بنانا، قحبہ گیری وغیرہ۔

امور مشتبہ
جو شخص حرام اشیاء سے کلیۃً محفوظ رہنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ مشتبہ اشیاء سے بھی اپنے آپ کو بچاتا رہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں وارد ہے

عن النعمان بن بشیر قال قال النبی صلّی اللہ علیہ وسلم الحلال بین والحرام بین و بینھما امور مشتبھۃ فمن ترک ما شبہ علیہ من الاثم کان لما النبان لہ ترک و من اجترا علیٰ ما یشک فیہ من الاثم اوشک ان بواقع ماالسّبان والمعاصی حمی اللہ من برتع حول الحمٰی یوشک ان یواقعہ (رواہ البخاری)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا حلال بھی کھلا ہوا ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان کے درمیان چند امور مشتبہ ہیں، چنانچہ جس نے اس چیز کو چھوڑ دیا جس کے گناہ ہونے کا شبہ ہو تو وہ اس کو بھی چھوڑ دے گا جو صاف گناہ ہے، اور جس نے ایسے کام کرنے کی جرات کی جس کے گناہ ہونے کا شک ہو تو وہ کھلے ہوئے گناہ میں مبتلا ہوجائے گا، اور گناہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہیں ہیں، جو شخص چراگاہ کے اردگرد جانور چرائے تو قریب ہے کہ اس چراگاہ میں داخل ہوجائے۔

امور مشتبہ وہ ہیں جن کی حلت و حرمت واضح نہ ہو۔ مثال کے طور پر کوئی چیز روپیہ پیسہ، مال، مویشی، خوراک، غذا، لباس کی صورت میں ہے اور یہ معلوم نہیں یہ سب کچھ کہاں سے حاصل کیا گیا، کس طرح حاصل کیا گیا، کس نے حاصل کیا تو یہ مشتبہ ہے، اس پر نہ حلت کا نہ حرمت کا واضح حکم لگایا جاسکتا ہے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس سے بچنا چاہیئے۔

مشتبہ اشیاء کے استعمال کے اثرات بد

حضرت احمد بن حرب نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں نیشاپور کے رؤسا اور سادات حاضر ہوئے۔ اتنے میں ایک لڑکا شراب کے نشہ میں بدمست ان کے درمیان میں سے ساز بجاتا ہوا بلا خوف و خطر گذر گیا۔ حاضرین مجلس کو یہ حرکت ناگوار گذری۔ حضرت نیشاپوری نے فرمایا کہ کیا ہوا آپ کے چہرے متغیر ہوگئے۔ سب نے عرض کیا اس نوجوان کی حرکت سے صحبت کا لطف جاتا رہا۔ آپ نے فرمایا یہ نوجوان معذور ہے، تفصیل بیان فرمائی کہ ایک رات پڑوس سے کھانا آیا، ہم میاں بیوی نے کھالیا۔ اسی رات ہمبستری ہوئی، اس کھانے سے اس لڑکے کا نطفہ قرار پایا اور اس رات ایسی غفلت کی نیند طاری ہوئی کہ رات کے اوراد و وظائف بھی جاتے رہے۔ جب ہم نے پڑوسیوں سے کھانے کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ شادی والے گھر سے آیا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا صریحًا حرام نہیں تھا البتہ مشتبہ تھا، پھر بھی اس کے اثرات بد ظاہر ہوکر رہے۔ ہمارے لئے اس میں سوچنے کا مقام ہے اور جو مشتبہ چیز بلا سوچے سمجھے استعمال کی جائے بعد میں حرام صریح ثابت ہو تو اس کے نتائج کتنے بھیانک ثابت ہوسکتے ہیں۔

زیادہ کھانے کے مضر اثرات

امام شافعی رضی اللہ عنہ کا قول ہے ”من کان ھمتہ ما یدخل فی جوفہ کان قیمتہ ما یخرج منہ“ جو شخص صرف کھانے کی فکر میں رہے اور جو کچھ اس کو ملے اس کو پیٹ میں بھرلے اس کی قیمت وہی ہے جو پیٹ سے نکلی ہوئی چیز ہوا کرتی ہے۔

ایسے افراد جو بھوک سے ڈرتے ہیں اور کھانے کے معاملے میں حد سے زیادہ حریص ہوتے ہیں وہ عقل سے نہیں معدے سے سوچتے ہیں، نتیجۃً بے دریغ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تقویٰ و احتیاط کے کھاتے ہیں، نتیجہ میں امور مشتبہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حرام تک پہنچ جاتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنی خواہش پر قابو پالیتے ہیں، ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں وہ غوروفکر کے بعد کسی چیز کو استعمال کرتے ہیں اور مشتبہ سے بھی اتنی احتیاط برتتے ہیں جتنی حرام سے۔ ارشاد خداوندی ہے

ولنبلونکم بشیءٍ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات۝

ترجمہ: اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گےکچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مال و جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ یہاں اور اشیاء کے ساتھ بھوک کا تذکرہ بھی موجود ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت انسان بھوکا ہو اس وقت اللہ تعالیٰ کے زیر امتحان ہوتا ہے، اب اس کو بھوک کے دوران بے تاب ہونے کی بجائے محتاط اور ہوشیار رہنا چاہئے جس طرح ایک امیدوار طالب العلم امتحان کے دوران ہوشیار رہتا ہے۔ بھوک سے ڈرنا نہیں چاہئے بلکہ بھوک کو دیگر انعامات خداوندی کی طرح فائدہ مند اور نفع بخش سمجھنا چاہئے، چنانچہ جو لوگ بھوک سے ڈرتے ہیں وہی بے دریغ کھاتے ہیں اور جسمانی و روحانی نقصان اٹھاتے ہیں۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لطف جائع احب الی اللہ تعالیٰ من سبعین عابد عاقل۔ ”بھوکا پیٹ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ستر عاقل عابدوں سے زیادہ محبوب ہے“۔

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں متقدمین اس لئے کھاتے تھے تاکہ زندہ رہیں اور تم اس لئے جیتے ہو کہ خوب کھاؤ۔ اس سے درس ملتا ہے کہ اتنا کھانا چاہئے جس سے انسان کی زندگی سکون و آرام سے بسر ہو، اس کی صحت پر برا اثر نہ پڑے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق آسانی سے ادا کرسکے، نہ کہ اتنا کھائے کہ اپنی صحت کو تباہ کردے، عبادات سے محروم رہ جائے، اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہوجائے۔ بھوکا رہنے سے باطن آباد ہوتا ہے، سیر ہوکر کھانے سے جوف شکم کی آبادی ہے۔ سیر ہوکر کھانا اور دن رات کھانے کے فکر میں مبتلا رہنا جانوروں کا کام ہے نہ کہ انسانوں کا۔ کفار کی صفت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمائی ہے:

زرھم یاکلوا ویتمتعو ویلھم الامل فسوف یعلمون (سورۃ الحجر)

انہیں رہنے دیجئے وہ کھائیں پیئیں اور عیش کریں اور غافل رکھے انہیں جھوٹی امید، کچھ عرصہ بعد وہ (حقیقت کو خودبخود) جان لیں گے۔

ایک اور جگہ پر ارشاد خداوندی ہے ”والذین کفروا ویتمتعوا ویاکلون کما تاکل الانعام والنار مثویٰ لھم“ جوکافر دنیا سے نفع حاصل کرتے ہیں اور جانوروں کی طرح کھاتے ہیں ان کا ٹھکانہ آگ ہے۔ یہاں پر صرف دنیاوی فکر رکھنا اور کھانے پینے کی فکر کو پالنا کفار کی علامات بتائی گئی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ بدنِ انسان کو متحرک رکھنے کیلئے کھانے اور پینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لیکن اس میں حد اعتدال کو ملحوظ رکھنا ایمان کی علامات میں سے ہے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مؤمن ایک آنت میں اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ یعنی مؤمن کم اور کافر زیادہ کھاتا ہے۔ مؤمن بقدر ضرورت اور کافر بے دریغ کھاتا ہے۔ اور شاہ ولی اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کم کھانا مؤمن کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے، کھانے میں زیادہ حرص کرنا کفر کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے۔

مندرجہ بالا موضوع کی مطابقت اور تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے آئندہ شمارہ میں کھانے پینے کے اسلامی آداب تحریر کرنے کا ارادہ ہے۔ یہ لکھنا پڑھنا اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہمیں اپنی اطاعت اور اپنے حبیب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے صالح بندوں کی محبت اور صحبت عطا فرمائے آمین۔ وما توفیقی ال باللہ

مندرجہ بالا مضمون تحریر کرنے میں جن کتب سے مدد لی گئی ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ قرآن مجید کی چند تفاسیر، ۲۔ بخاری شریف، ۳۔ شمائل ترمذی، ۴۔ کتاب الکبائر، ۵۔ کشف المحجوب، ۶۔ مقامات فضلیہ، ۷۔ اسلامی آداب، وغیرہم۔
Mohammad Wajahat Tahiri
About the Author: Mohammad Wajahat Tahiri Read More Articles by Mohammad Wajahat Tahiri: 2 Articles with 4362 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.