یہ ٹھگ کیا کام کر رہے ہیں؟

پرانے وقتوں میں لوگوں کو بیوقوف بنا کر مال بٹورنے کے لیے ایک گروہ ہوا کرتا تھا اس گروہ سے وابستہ لوگ ٹھگ کہلاتے تھے۔ انہی ٹھگوں کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دیہاتی بکرا خرید کر اپنے گھر جا رہا تھا کہ چار ٹھگوں نے اسے دیکھ لیا اور ٹھگنے کا پروگرام بنایا۔ چاروں ٹھگ اس کے راستے پر کچھ فاصلے سے کھڑے ہو گئے۔ وہ دیہاتی کچھ آگے بڑھا تو پہلا ٹھگ اس سے آکر ملا اور بولا ’’بھائی یہ کتا کہاں لے کر جارہے ہو؟ ‘‘دیہاتی نے اسے گھور کر دیکھا اور بولا ’’بیوقوف تجھے نظرنہیں آرہا کہ یہ بکرا ہے کتا نہیں‘‘۔ دیہاتی کچھ اورآگے بڑھا تو دوسرا ٹھگ ٹکرایا۔ اس نے کہا ’’یار یہ کتا تو بڑا شاندار ہے کتنے کاخریدا؟‘‘ دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا۔ اب دیہاتی تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا مگر آگے تیسرا ٹھگ تاک میں بیٹھا تھا جس نے پروگرام کے مطابق کہا ’’جناب یہ کتا کہاں سے لیا؟‘‘ اب دیہاتی تشویش میں مبتلا ہو گیا کہ کہیں واقعی کتا تونہیں۔ اسی شش و پنج میں مبتلا وہ باقی ماندہ راستہ کاٹنے لگا۔بالآخر چوتھے ٹھگ سے ٹکراؤ ہوگیا جس نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور بولا ’’جناب کیا اس کتے کوگھاس کھلاؤ گے؟‘‘ اب تو دیہاتی کے اوسان خطا ہو گئے اوراس کاشک یقین میں بدل گیا کہ یہ واقعی کتا ہے۔ وہ اس بکرے کوچھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا یوں ان چاروں ٹھگوں نے بکرا ٹھگ لیا۔

آج ہمارا معاشرہ بھی دوسری نوعیت کے ٹھگوں کی یلغار میں ہے۔ ان کا طریقہ واردات بڑا سادہ ہے۔ پہلے یہ مسلمہ اخلاقی اصولوں کے متعلق تشکیک(Skepticism)پیدا کرتے ہیں کہ آج کا دور سچائی کا نہیں، آج عفت و عصمت کی باتیں دقیانوسیت کی نشانی ہیں، آج کا دور ایمانداری کرنے کا نہیں وغیرہ۔ پھراس شک کو تقویت دینے کے لیے شدومد سے پروپیگینڈا کرتے ہیں۔یہاں تک کہ جنوں کا نام خرد پڑ جاتا ہے اور خرد کا نام جنوں۔

یہ ٹھگ درحقیقت مفاد پرست اور مادہ پرست لوگ ہیں یہ لوگوں کو سچائی کی راہ پر چلتے دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں یہ نیک لوگوں کو دیکھ کر چاہتے ہیں کہ یہ بھی برے بن جائیں۔ ان کامقصد مسلمہ اخلاقی اقدار کو ختم کر کے اپنی مرضی کی قدروں کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ یہ اپنے پروپیگینڈے کے ذریعے ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں یہاں تک کہ دوسرے گروہ بھی ان لوگوں میں شامل ہو کر برائی کو فروغ دینا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ ٹھگ کیا کام کر رہے ہیں؟
اس کا جواب بہت آسان ہے۔ یہ مادی آسائشوں کے حصول کو اس شدومد سے بیان کرتے ہیں کہ مقصد حیات آخرت کی بجائے دنیا رہ جاتا ہے۔ یہ ایمانداری کے خلاف اتنی دلیلیں دیتے ہیں کہ ایک ایماندار شخص مصلحت پسندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ناجائز منافع خوری کو حق ثابت کر کے دوسرے لوگوں کو بھی اس قبیح فعل پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ عبادات کو رسومات بنا کر لوگوں کو خدا سے دور کرتے ہیں۔ یہ نکاح کو زنا کے مترادف قرار دے کر خاندانی نظام کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ یہ ہوس کو محبت کا نام دے کر نوجوان نسل کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہ مذہب کو کلچر سے تعبیر دے کر لوگوں کو اس سے متنفر کرتے ہیں۔ غرض یہ ٹھگ اس جدید دنیا کے ماڈرن شیطان ہیں۔ یہ ہمارے پاس اپنی قبیح شکل میں نہیں آتے بلکہ یہ سوٹ بوٹ میں ملبوس ہو کر ہمار ے ہمدرد بن کر یہ ساری کارروائی کرتے ہیں۔

اس پوری صورتحال سے بچنے کے لیے ایک صالح مومن کو دو تدابیر اختیار کرنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ حق وباطل کے میعارات عوام الناس کی رائے سے اخذ کرنے کی بجائے وحی اور مسلمہ اخلاقی اصولوں سے اخذ کرے۔ دوسرا یہ کہ وہ ان شیطانوں کو پہچانے اور ان کی باتوں کو اہمیت نہ دے ورنہ اس کاحشر اس دیہاتی کی طرح ہوگا جو بکرے کو کتا سمجھ بیٹھا۔
Muhammad Zubair
About the Author: Muhammad Zubair Read More Articles by Muhammad Zubair: 11 Articles with 16904 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.