عربی ہی ضروری کیوں؟

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے گزشتہ دنوں ہماری ایک طویل نشست ہوئی ،جہاں قرآن وحدیث اورسیرت نبوی ﷺکے متعلق عوام وخواص سب ہی میں قلت واقفیت کاشکوہ ہورہاتھا،اس حوالے سے چند معروضات پیشِ خدمت ہیں۔

بانی دارالعلوم دیوبندمولانا قاسم نانوتوی کی تاریخی شخصیت اور ان کی گراں قدر فلسفیانہ اور عالمانہ تصنیفات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مولانامملوک علی کے غیر معمولی شاگرد تھے اور ایسے میں پھر اس بات کی حیثیت ایک غلط مفروضے کی ہوگی کہ وہ ایک عام سے مولوی تھے، جنہوں نے دین کی خدمت کے لیے ایک مکتب کھولا اور بس یہی ان کا ہدف تھا۔یہ کیوں اور کیسے تسلیم کیا جائے، جبکہ مولانامملوک علی دہلی کے ایک عربی کالج کے پرنسپل رہیں اور مولانا نانوتوی ان کے ذہین و فطین شاگرد ۔
1857 کی جنگ آزادی اور اس میں مسلمانوں کی عارضی شکست ان کے سامنے تھی۔ فرنگی استعمار اور ہندو ثقافت کے یکے بعد دیگرے ہندوستان پر پنجے گاڑنے کی کوششوں سے وہ باخبر تھے اور اسلام اور مسلمانوں کی سر زمین ہند سے بیدخلی کا جو خواب دشمن دیکھ رہاتھا، وہ ان کے علم میں تھا،پھرایک طرف سید الطائفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی بھی ہند میں اسلام اور اسلامی تعلیم کی بقاءکے لیے فکر مند تھے ، اس کے نتیجے میں پھرقصبہ دیوبند میں ایک ”مدرسہ عربی“ قائم ہوتا ہے ، اس پر مفکرین ومصلحین امت سر جوڑ ے بیٹھتے ہیں اورمسلمانوں کی تقدیر بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں تو پھر ضرور یہ کوئی غیر معمولی مدرسہ تھا، وگر نہ اناریا کیکر کے درخت تلے یا کسی چبوترے کے نیچے،کسی گھر کے صحن میں،کہیں کسی ڈیوڑھی پرتواور بھی ملا محمود اور طالب علم محمود جیسے بہتیرے پڑھنے بیٹھے ہوں گے،مگر تاریخ تو ایسے کسی کردار کو نہیں جانتی اور اِدھر ان کا قصہ ہے کہ زبان زد عا م و خاص ہے۔ دین سیکھنے سکھانے کا عمل بھی اسلامیان ہند میں مکاتب،مساجد اور کم از کم گھروں میں تو رہتا ہی ہوگا، پھر دیوبند کے اس مکتب کو یہ رجوع اور قبول کیوں کر حاصل ہوا اوردیکھتے ہی دیکھتے وہ ازھر الہند کے رتبہ پر کیسے فائز ہوا۔

مطالعہ اور تجزیہ کہتا ہے کہ دیوبند کے ”مدرسہ عربی “میں دو باتیں نہایت اہم ہیں، ایک اس کا نظریاتی پس منظر اور اس کی خمیر میں شامل فکر و فلسفہ، جس کے حامل اور علمبردار ہندوستان کے اس وقت کے چوٹی کے اہل اللہ اور عبقری شخصیات تھیں اور دوم اس کا یہ سادہ ساعنوان جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ’ ’فارسی مکتب“اور” انگریزی اسکول“کی طرح ایک ”مدرسہ عربی“ ہے، بظاہرجس کا مقصد فقط ایک زبان کی بول چال یا لکھت پڑھت سکھا نا ہے، جو ایک معمول کی چیز ہے اور ادھر حقیقت یہ ہے کہ اس سادہ عنوان کی پشت پر ایک فلسفہ اور سوچا سمجھا مقصد ہے اور اس کی ذیل میں اہداف واغراض کی ایک لمبی فہرست ہے۔

دہلی کے عربی کا لج کے پرنسپل سے سبق لینے والا طالب علم بس ویسے ہی تو ”مدرسہ عربی“ کے مہتمم نہیں بنے ہوں گے، بلکہ ضرور ان کا مقصد یہ رہا ہوگاکہ ہند والوں کوعربی پرعبورحاصل ہوجائے اور پھر اس کی بنیاد پر عربی کا طالب علم عرب دنیا میں یا یہاں کسی عربی شعبے میں ملازمت تلاش کرنے کو منزل نہ بنائے، بلکہ اس کی صلاحیتیں قرآن وسنت کے سمجھنے میں صَرف ہوں اوریہاں سے کوئی بخاری، ترمذی، نسائی، مسلم، ابوداﺅ، ابن ماجہ، ماتریدی، رازی، غزالی، نسفی، عسقلانی، قسطلانی جیسے ائمہ اورموجِدین پیدا ہوں،جو بیشترغیر عربی ہیں اور ان کے علوم وخدمات کے عرب وعجم یکساں ممنونِ احسان ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پھر جب دیوبند کے اس ”مدرسہ عربی“کی غیر منقسم ہندوستان کے اطراف و اکناف میں اور بعد ازاں موجودہ پاکستان،بنگلہ دیش میںشاخیں پھیلنے لگیں، تو وہ بھی اپنے اصل سر چشمے کی پیروی میں عربی مدارس ہی کہلائی جانے لگیں۔ علامہ یوسف بنوری مرحوم نے بھی اپنے ادارے کا نام ”المدرسة العربیة“ اسی تناظر میں رکھاتھا۔وجہ وہی ہے کہ یہاں اصل تعلیم عربی کی دی جاتی تھی اوردین کاعلم اس کے ضمن میں خودہی آجاتاتھا، چناں چہ آج تک اس نصاب میں عربی ہی عربی چھائی ہوئی ہے، جس میں گرامر سے لے کر اسالیب انشاءاور ادب عالی تک سب چیزیں شامل ہیں اور درجہ تکمیل میں جاکر پھر دینیات یعنی تفسیراور تقریباًپورے ذخیرہ احادیث کا ایک دور ہ کرایا جاتاہے۔

بد قسمتی سے کچھ عرصے سے اس نصاب سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہورہے ہیں۔مقاصد ِفنون، طلبہ کیامدرسین کو بھی معلوم یا کم از کم مستحضر نہیں ہوتے اور ذی استعداد سمجھے جانے والے مدرسین کو بھی عام سی عربی تحریر وتقریر سمجھنے میں عموماً سخت دشواری اور شرمندگی کا سامنارہتا ہے، دقیق اور جدید چیزیں تو دور کی بات ہے اور اعتذار یہ ہوتاہے کہ ہم نے جدید عربی نہیں پڑھی اور کہیں یہ لطیفہ کہ عربی بطورِزبان کا علم سے کوئی تعلق نہیں ،ستم ظریفی یہ ہے کہ سالہا سال سے تفسیروحدیث پڑھانے والے، چوٹی کی عربی نثر ونظم کی کتابیں پڑھانے والے بھی عربی نہیں جانتے اور نوبت بایں جا رسید کہ اب علماءاور اہل مدارس کے سامنے بھی عربی کے فضائل واہمیت پر لمبی چوڑی تقریریں کرکے انہیں اس کا قائل کرنا پڑتا ہے اور اس طرح کی کوششوںسے پھرکہیںجاکرمدارس میں عربی شعبے قائم کرنے کے امکانات پیداہوئے ہیں۔ اس صورت حال میں کیا یہاں فقہائ،مجتہدین اور مجددین،جن کی امت کوضرورت ہے، پیداہونے کاکوئی امکان ہے؟جبکہ علومِ اسلامیہ کا اصل اوراورکلاسیکل اثاثہ عربی میں ہے؟

مقامِ اطمینان ہے کہ برقی ایجادات اور سائنسی ترقیات کی بدولت آج ایک مرتبہ پھر عربی زبان کازبردست غلغلہ ہے۔ مدارس (چندایک ہی سہی)ایک نئی کروٹ لے رہے ہیں اور عربی لینگویج سینٹر، عربی رسائل ومجلات، عالم عرب کے ساتھ رابطہ، عربی خطبات خصوصاًائمہ حرمین کی تلاوتیں اورخطبات، عربی نغمات کی دستیابی، عربی ویب سائٹس پر جانے اوران سے استفادہ کا رحجان بڑھ رہاہے اور عربی کی ترجیح رواج پارہی ہے۔ ایسے میں علماءاوراہل مدارس کو اپنی اس کھوئی ہوئی پونجی اورشناخت کو دوبارہ حاصل کرنے اور اس کی بازیابی کے لیے جدوجہد تیز کرنے اورصحیح معنوں میں قرآن وحدیث سے وابستگی کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔

علماءبلاغت کا یہ قیاس کہ پیغمبر اسلام کی نبوت اعجازِ قرآن کریم پر موقوف ہے اور اعجازِ قرآن بلاغت کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز ہونے کی وجہ سے ہے۔سو نبوت محمدیہ کا اپنے ثبوت میں بلاغت کے ساتھ چولی دامن کا تعلق ہے،یہ منطق اگر کوئی معنی رکھتی ہے تو کیاعربی زبان سے آشنائی کے بغیر اس گھاٹی سے گزرنا ممکن ہے؟ا گر نہیں تو پھر عربی سے یہ بیر اور عربوں پہ نفور کیوں؟اور عربی زبان کی اس واجبی اور سر سری سی تعلیم پر اکتفا کیوں اورکب تک؟کیا اس قیاس کاتقاضا یہ نہیں ہے کہ عربی زبان کم از کم عربی مدارس والوں کی تورگ و پے میں ہی بس جائے، ان کا اوڑھنا بچھونا اور ذوق و دلچسپی کا میدان بنے،مگر ایسا نہیں ہورہا اوروہی مساجد میں رٹے رٹائے خطبے ہیں جو عموماًخود خطیب کے پلے بھی نہیں پڑتے اور تقریر وتدریس کی سلطنت بھی مواعظ اور شروحات کی بنیاد پر قائم ہے،لب و لہجہ طرزو اسلوب،تحریر و تقریر وغیرہ پرو ہی اردو،ہندی اور فارسی کا راج ہے اور بقولِ علامہ ابنِ تیمیہ ”ان اعتیاد اللغة موثر فی العقل والخلق والدین تاثیراًبیّناً“،کہ زبانیں بہر حال اپناایک واضح اثر رکھتی ہیں، جس سے ثقافت ومعاشرت ہی نہیں ذوق وفکراوراخلاق ونظریات بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔(مزید تفصیل ہفتے کے کالم میں)
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 811903 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More