غریب باپ کا امیر بیٹا

اس کی پیدائش ایک ایسے گھر میں ہو ئی تھی جس میں صحیح معنوں دو وقت کی روٹی جٹانا سب سے مشکل کام تھا مگر اس کے ماں باپ نے وہ مشکل کام کر کے نہ صرف اُسے بلکہ اس جیسے تین چار بچوں کو پالا اور پڑھا لکھا کر اپنے پیروں پر کھڑاکر نے کی کوشش کی ‘پھر جو جو اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا گیا ماں باپ کے احسانوں کو بھلاکر گاؤں بلکہ وطن سے ہی باہر چلا گیا۔مگر اس وقت تک وہ جوان تھے اس لیے بیٹوں کی بے رخی اور جدائی کا غم جھیل گئے۔ اس کا نمبر آیا تو ماں باپ اسے بھی دنیا اور جینے کے سلیقے سکھانے لگے مگر اب وہ کچھ بوڑھے ہو گئے تھے اور زندگی کے صبح و شام نے ان کے مضبوط ہاتھ پیر کمزور کر دیے تھے لہٰذ انھیں اپنے نو نہال سے کچھ امید یں بھی ہو نے لگیں‘یہ بڑا ہو کر ان کا سہارا بنے گا‘ان کے بوڑھاپے کی لاٹھی بنے گا ‘ان کی سانسوں تک ان کا ساتھ نبھا ئے گا مگر ان کے سارے ارمان ‘امید یں اور خواب ادھورے ہی رہ گئے ۔ وہ بھی بڑے بھا ئیوں کی ڈگر پر چل کر ماں باپ کو زندگی کی مصیبتوں سے لڑنے کے لیے اکیلا چھوڑ گیا اور وہ ضعیفی کی اس عمر میں دل پکڑ کر رہ گئے۔

وہ شہرآگیا اور اس کی اچھی تعلیمی صلاحیتوں کے بل بوتے خوب پذیر ائی ہو ئی ‘ایک عالی شان اور ملٹی نیشنل کمپنی میں اونچی پوسٹ پر جاب لگ گئی ‘اس کے وارے نیارے ہو گئے ‘وہ رنگ برنگے ماحول اور زرق برق ہم نشینوں کی صحبت پاکر دھیرے دھیر ے ماں باپ اور اپنے عزیزوں کو بھولنے لگااور پھر پوری طرح بھول ہی گیا۔اس سے جب کو ئی پوچھتا کہ تمہارے ما ں باپ کون ہیں اور تمہار ا وطن کہاں ہے تو اسے بتانے میں شرم محسوس ہونے لگتی‘اسے لگتا کہ اپنے چھوٹے‘گمنام اور غیر ترقی یافتہ گاؤں کانام لینے سے اس کی شان پر ’حروف‘ آجائیں گے ‘اسی طرح غریب ماں باپ کانام لینے سے اس کی ریپوٹیشن خراب ہو جا ئے گی۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کا یہ گمان اورپختہ ہوتا گیا ۔

ایک دن جب وہ شہر کی مین مارکیٹ سے گذررہا تھا ‘کسی نے اسے پکار ا‘اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک نحیف و نزار سا بوڑھا آنکھوں میں شناسائی اور اپنا ئیت کی چمک لیے اسے دیکھ رہا تھا ۔

’’ہن جی کہیے!‘‘ رعونت اس کے لہجے سے جھلک رہی تھی ۔

’’بیٹا !تم جمشید ہو نا ‘میرے جمشید ‘میرے جمی!‘‘بوڑھا جذباتی ہو گیا۔

’’انکل آپ کو غلط فہمی ہو ئی ہے ‘میرا نام جمشید نہیں ہے ‘میرا نام تو ناصر شرما ہے ۔‘‘جدیدیت اس کے ایک ایک جملے سے ہویدا ہوتی تھی ۔

’’بیٹا تم جمشید ہی ہو ‘آج سے 20سال پہلے گاؤں سے آئے تھے میرے لال ماشاء اﷲ کتنے بڑے ہو گئے ہو تم ‘تمہیں کسی کی نظر نہ لگے میرے بچے۔‘‘بوڑھا اس کے ہاتھ لگا لگا کر کہہ رہا تھا مگر ’جمشید ‘یا اس کا نام کچھ بھی ہو‘اس کی حالت ایسی تھی جیسے بھرے بازار میں کسی نے کپڑے اتار لیے ہوں ‘بری طرح سٹپٹا رہا تھا ‘جس میں بناؤٹی پن صاف نظر آرہا تھا ‘مطلب وہ اپنے کسی جاننے والے سے بچنا چاہ رہا تھا اور بے تاب و بے قرار بوڑھے کو فراڈ کہہ رہا تھا ۔

’’انکل !بہت ہو گیا‘پتا نہیں آپ کون ہیں اور کس جمشید کی بات کر رہے ہیں ‘میں کسی گاؤں سے نہیں آیا ‘میں تو یہیں شہر میں پیدا ہوا ‘یہیں پلا بڑھا ہوں ‘ہو سکتا ہے آپ کا جمشید میر ا ہم شکل ہو ‘جائیے اسے کہیں اور تلاش کیجیے‘میرا راستہ چھوڑیے‘میں پہلے ہی لیٹ ہو گیا ۔‘‘وہ بوڑھے کا ہاتھ چھڑا کر جانے لگا تو بوڑھے نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا ۔

’’چل بیٹا !کہاں چلتے ہو ‘میں تمہارے ساتھ ساتھ جا ؤں گا ‘کہاں ہے تمہارا گھر ‘کون ہیں تمہارے ماں باپ‘میں انھیں دیکھنا چاہتاہوں ‘جن کا بیٹا میرے بیٹے سے بالکل شکل صورت میں ملتا جلتا اور ایک تل بھی کم نہیں ‘چل بیٹا !‘‘آس پاس بھیڑ اکٹھی ہو گئی تھی مگر بوڑھے کو اس کی کو ئی پرواہ نہیں تھی ‘وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کے مجمعے سے باہر لایا ‘ وہ بھی ’’انکل آپ پاگل ہو گئے ‘پاگل ہو گئے ‘‘کی گہار لگاتا باہر آگیا‘ بوڑھے نے اس کا ہاتھ کسی طرح نہیں چھوڑا ۔آج نہ جانے کہاں سے اس میں اتنی طاقت آگئی تھی کہ اس نے اس جیسے کڑیل نوجوان کو بے بس کر رکھا تھا ۔وہ لاچار ہو کر بوڑھے کے ساتھ چلنے لگا‘جھنجھلاہٹ نے اس کا دماغ ماؤ ف کر دیا ‘نہ جانے وہ کیوں گالی بھی تو نہیں دے رہا تھا ورنہ اتنے میں تو اس کے منہ سے بجلی کی سی رفتار سے گالیاں نکلتی تھیں۔

نوجوان اس کے ساتھ گھسٹتا ہوا مارکیٹ پارکنگ میں آیا جہاں اس کی شاندار’سفٹ‘(SWIFT)پارک تھی ‘اور اس پر بڑے بڑے حروف میں ناصر شرما لکھا تھا ۔

’’دیکھیے! میری گاڑی پر بھی میرا یہی نام ہے ‘مگر آپ ہیں کہ سمجھ ہی نہیں رہے ‘میں آپ کو کیسے سمجھا ؤں ۔‘‘وہ عاجز ہوکر بولا ۔مگر بوڑھا کسی طرح سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہا تھا ۔

’’بیٹا !ایک بات کہوں ‘میں تمہاری طرح پڑھا لکھا نہیں ہوں اور نہ ہی جدید دنیا اور مشینوں کے ہیر پھیر مجھے آتے ہیں ‘ہاں مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ میری نگاہیں بہت کم دھوکا کھاتی ہیں ‘میں اس وقت سے دنیا دیکھتا آرہا ہوں جب تم پیدا بھی نہیں ہو ئے تھے ۔میں نے تم سے پہلے اناج کھاتے سیکھا ہے ‘تم سے پہلے دنیا کے امتحان پاس کیے ہیں ‘ میرا تجربہ تم سے زیادہ ہے اس لیے میں تمہاری کو ئی بات ماننے کو تیار نہیں ہوں‘تم سو فی صد جمشید ہو ‘میرے جمشید ‘اخلاق ‘ارمان‘انصار کے بھا ئی ‘بیٹے پتا ہے تمہارے جانے کے بعد میں نے یہ دن رو رو کر کاٹے ہیں اور تمہاری ماں دروازے پر نگاہیں رکھے رکھے ہی مرگئی ‘جب اسے دفنایا گیا تب تب بھی اس کی آنکھیں کھلی ہو ئی تھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا بیٹاآئے اور وہ اسے نہ دیکھ سکے ۔‘‘ یہ کہہ کر بوڑھا بچوں کی طرح رو پڑا ‘غم کے احساس سے اس کا سینا پھٹا جارہا تھا ‘اور وہ پتھر کا بنا اس تماشے کو دیکھ رہا تھا ۔اس پر کو ئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا ۔بوڑھے نے اس کی سرد مہری دیکھ کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنے زخمو ں پر مرہم رکھتا ایک طرف چل پڑا ‘وہ اسے دور تک جاتے دیکھتا رہا ‘وہ نظروں سے اوجھل ہوا تو آس پاس کے لوگوں نے اس سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس کا مغرورانہ جواب تھا۔

’’کوئی دیوانہ تھا ‘اس کا بیٹا جانے کہاں چلا گیا‘وہ کہہ رہاتھا اس کا بیٹا میرا ہم شکل تھا ۔‘‘اور لوگ سر ہلاکر چلتے بنے ۔راستہ خالی دیکھ کر نام نہادناصر شرما اپنی’سفٹ‘(SWIFT)میں بیٹھا اور چل پڑا۔اگلے موڑ پر وہی بوڑھا اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کھانستا ہوا جاتا ملا اور وہ نخوت سے اس کی طرف دیکھ کر آگے بڑھ گیا ۔زمین و آسمان تو ایک بیٹے کی غرور اور باپ کی عاجزی پر خون کے آنسو رو پڑے ہوں گے مگر اس امیر بیٹے پر کو ئی اثر نہیں ہوا ‘اس کی گردن اسی طرح تنی رہی ۔

’’پتا نہیں ‘کہاں کہاں سے آجاتے ہیں ‘نہ انھیں بولنے کی تمیز ہوتی ہے نہ کسی اور چیز کی‘ہوں ‘مجھے اپنا بیٹا کہہ رہا تھا۔ذرا آینے میں منہ دیکھا اس نے اپنا ‘‘اس نے گر دن جھٹک کر ان خیالات سے پیچھا چھڑانا چاہا مگر اگلے ہی ثانیے اس کی آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے ‘مخالف سمت سے آتی گاڑی نے اس کی عالی شان ’سفٹ ‘ (SWIFT)کباڑا بنا کر رکھ دی ‘وہ آہ بھی نہ کر سکا ‘اس کا دھڑ باہر تھا اور پیر اندر‘سانسوں کی ڈور ی ابھی تک چل رہی تھی ‘مگر خون فوارے کی طرح بہہ رہا تھا ‘لال لال گہرا گاڑھا ۔آس پاس بھیڑ جمع ہو گئی تھی ‘کسی میں اسے ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں تھی ‘بلکہ انسانیت کی حس ختم ہو چکی تھی ‘وہ چلتے پھرتے پتھر کے انسان تھے جو کھڑے ہو کر تماشا دیکھ رہے تھے ۔

’’آہ!ہائے ہائے ہا ہ ہائے ۔‘‘اس کی چیخیں دلوں کو چیر دینے والی تھی مگر وہاں کسی کے سینے میں دل ہی نہیں تھا ‘چرِتا کیا؟ تھوڑی دیر بعد وہ بوڑھا بھی وہیں آگیا ‘اور’’ میرا جمشید‘میرا جمشید ‘‘کہتا ہوا اس سے لپٹ گیا ۔ پتھر کے انسان ان دونوں کی مدد کے بجائے چہ چہ کر کے وہاں سے چلتے بنے ‘پھر ایسا ہوا کہ ’شاہراہ ‘پر انسانوں کا سایہ بھی نظر نہیں آیا۔بوڑھے نے اپنی تمام کوششیں جمع کر کے اسے کباڑ خانے سے نکالا اور اپنے ناتواں کندھوں پر لاد کر اسے قریبی اسپتال لے گیا ‘جہاں اس کا فوری ٹریٹمنٹ ہو ا اور بوڑھے کی دعاؤں سے بہت جلدی ہوش آگیا۔

’’ایں یہ کون سی جگہ ہے‘میں کہاں ہوں ‘یہ درد کیسا ہے ‘‘وہ اور بھی کچھ سوچتا کہ درد کی ٹیسوں نے بر یک لگادیے۔

’’لیٹے رہو ‘بیٹے میرے جمشید ‘تمہیں بہت چوٹ آئی ہیں‘میرے لال تمہا را اکسیڈنٹ ہو گیا میرے پیارے۔‘‘بوڑھا انتہا ئی نرمی سے اس کا سر دبا رہا تھا اور بکھر ے بال سنوار رہا تھا۔اچانک جمشید رو پڑا۔
’’با با میں مممیں جمشید ہی ہوں ‘آپ کا جم جم جمی ‘‘

’’ہاں !ہاں !بیٹے مجھے پتا ہے ‘مگر ابھی چپ رہو ‘میرے لال تمہارے زخم کھل رہے ہیں‘بیٹے تو جن کے لیے اپنی امیرانہ شان دکھاتا رہا ہے و ہ تجھے سڑک پر پڑا دیکھ کر چلتے بنے ‘کسی میں اتنی انسانیت نہیں تھی کہ اٹھا کر اسپتال تک لے آتے ‘میرے بچے دنیا کبھی کسی کی نہیں ہو ئی ‘پھر اس کے لیے ہونا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں ہے میرے جگر کے ٹکڑے!وہ امیر ی کس کام کی جس میں انسانیت نام کو نہ ہو ۔‘‘ بوڑھا جمشید کے کانوں میں امرت رس گھول رہا تھا اور جمشید ‘اپنے اتنے وسیع القلب ‘مہربان اور شفیق باپ کو پاکر اندر ہی اندر رو رہا تھا ۔دل ہی دل میں اپنے کرتوتوں اور گناہوں سے تو بہ کر رہا تھا ۔پھر تو ایسا معجزہ ہوا کہ بوڑھے باپ اور جمشید کی دعائیں اس حیرت انگیز ی سے رنگ لائیں کہ وہ دنوں کی رفتار سے زیادہ تیزی سے صحت یاب ہونے لگا۔ایک دن جب سورج شام کی آغوش میں سماتا جارہا تھا اس کے چہرے پر پھر وہی رونق تھی اور سر پر بوڑھے باپ کا ہاتھ۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 56114 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More