خواتین کے حقوق اور ہمارا معاشرہ(۱)

کسی بھی معاشرہ کے اندر رہنے والے فرد کا کردار اس معاشرہ میں رہنے والے افراد متعیں کرتے ہیں او ر معاشرہ جو توقعات طے کر لیتا ہے ان سے ہٹ کر زندگی گزارنا نہ ہی صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ بعض حالات میں نا ممکن ہو جاتا ہے ایسے ہی ہمارے معاشرے نے جو خواتین کے کردار کا پیمانہ مقرر کر دیا ہے وہ خواہ غیر شرعی ہو یا غیر اسلامی اس کی ینیاد من گھڑت کہانیوں پر ہو یا جاہلانہ نظریات پر ہو اس سے چھٹکا رہ حاصل کرنا انتہا ئی مشکل ہے آج ہمارے معاشرے کے اندر ایسی ہی کئی جاہلانہ رسم و رواج شامل ہو چکے ہیں جنہوں نے معاشرے کے اندر نہ صرف نا ہمواری اور نا انصافی کے فروغ کا سبب ہیں بلکہ لوگوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے جیسے کہ جہیز کی لعنت اور درسری کئی ایک برائیاں اس میں کوئی شک ودشبہ والی بات نہیں کہ عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری بلکہ انہیں بے عقل اور مردوں کی جائداد سمجھا جاتا ہے اور کسی بھی معاملہ میں انکی مرضی پوچھنا قابل بے عزتی سمجھا جاتا ہے یہاں تک کہ انکی زندگی کا ساتھی چنتے ہوے بھی ان کی مرضی نہیں پوچھی جاتی ان برائیوں سے چھٹکارا صرف اور صرف تعلیم کو عام کرکے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ان بری رسموں کی ترویج میں صرف مرد ہی زمہ دار نہیں بلکہ بزات خود عورتوں کابھی بہت بڑا کردار ہے اس لیے عورتوں کو مردوں سے بھی زیادہ آگاہی کی ضرورت ہے اس مختصر گائیڈ کے اندر ہم نہ صرف ان برائیوں کی نشاندہی کریں گے بلکہ مناسب اور ممکن حل بھی دلائل کے ساتھ تزکرہ کرنے کی کوشش کریں گے اس سے پہلے کہ ہم حقوق کا باب با قاعدہ شروع کریں تھوڑا سا معاشرے کے ان پہلوؤں کو دیکھنا چاہیں گے جہاں جہاں لڑکیوں کے ساتھ نا انصافیاں ہوتی ہیں اور یہ قومی , بین الاقوامی قوانین برائے انسانی حقوق کی ہی خلاف ورزی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی سراسر منافی ہیں -

پیدائش
ہمارے معاشرے کے پدرشاہی(patriarchy) نظام نے ایسی خرابیاں پیدا کر دی ہیں اور لوگ اخلاقی طور پر اتنے گر چکے ہیں کہ لڑکیوں کے ساتھ جنس کی بنیاد پر تفریق ان کی پیدائش سے بھی پہلے شروع ہو جاتی ہے لوگ پچوں کی پیدائش پر خوشیاں مناتے ہیں مگر بچی کی پیدائش پر نالاں ہوتے ہیں یہ ایک discrimination کی واضح مثال ہے-

حصول روزگار
باقی شعبہ ہائے زندگی کی طرح خواتین کو ماسوائے چند محکموں کے ہر جگہ استحصالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے پہلے تو گھر سے ہی اجازت نہیں ملتی اور اگر موقع مل ہی جائے توجنسی تشدد جیسے غیر انسانی رویوں اور انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے-

حصول جائداد
خواتین کو ان کے جائداد میں جائز حق سے بھی مختلف حیلوں اور بہانوں سے محروم رکھا جاتا ہے اور اگر کوئی حصول کی کوشش کرے تو نہ صرف برا سمجھا جاتا ہے بلکہ قطہ تعلقی بھی کر لی جاتی ہے-

ازدواجی زندگی
عورتوں کو خانداتی معاملات میں رائے کا بہت ہی کم موقعہ ملتا ہے بلکہ گھریلو تشدد اور قدم قدم پر ہر جائز و نا جائز فیصلوں اور خواہشوں پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے-

تعلیم کا حق
ہمارے معاشرے کے اندر چونکہ مرد ہی کو خاندان کے معاملات او ر کاروبار کا سربراہ سمجھا جاتا ہے اس لیے لڑکوں کی پرورش اور تعلیم پر لڑکیوں کی نسبت زیادہ توجہ دی جاتی ہے بلکہ بعض علاقوں میں تو لڑکیوں کی تعلیم کو فضول ہی سمجھا جاتا ہے تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے ہماری آبادی کا نصف سے بھی زیادہ تناسب عورتوں کا ہے اس لیے ان کی تعلیم وتربیت کے بغیر تبدیلی لانا نا ممکن ہے کہتے ہیں کہ ایک عورت کو تعلیم دینا ایک خاندان کو سنوارنا ہے کیونکہ خاندان اور معاشرے کے اندر تبدیلی لانے میں عورت کا بڑا کردار ہے پڑھی لکھی عورت سے بہتر توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ خاندان بھر کی صحت غڈا اور تعلیم کا خیال رکھیں اور معاشرے کے میں فیصلہ سازی اور ترقی کے عمل میں شامل ہو سکیں آئین کی دفعہ ۲۵ کے تحت لڑکیوں کو بلا امتیاز تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے لیکن بہت سے علاقوں میں آج بھی لڑکیوں سے تفریق کی جاتی ہے اس کی وجوہات میں رسم و رواج, کم عمری کی شادیاں بچے کی پیدائش سکولوں کی خستہ حالی طویل فاصلے آنے جانے کی نا مناسب سہولت لڑکیوں کا غیر محفوظ ہونا سبھی شامل ہیں -

صحت کا حق
ہر عورت کا حق ہے کہ وہ صحت مند زندگی گزارے یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ صحت مند ماں ہی صحت مند بچوں کی ضامن ہے عام طور پر لڑکیوں کی صحت پر توجہ نہیں دی جاتی اس کی وجوہات میں وسائل کی کمی․ سہولیات کی کمی اور رسم و رواج شامل ہیں ان وجوہات کی بناء پر کتنی ہی عورتیں بیماری اور کمزوری کا شکار رہتی ہیں نہ ٹھیک سے کام کرنے کے قابل رہتی ہیں اور نہ اپنے گھر والوں کا خیال رکھ سکتی ہیں اس سب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ عورتیں اپنی صحت اور کھانے پینے کا حاص خیال رکھیں جب وہ بیمار ہوں تو ان کو فوری کسی قابل ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا جائے حمل کے دوران ان کے آرام اور خوراک کا خاص خیال رکھا جائے زچگی کے لیے تربیت یافتہ دائی یا ڈاکٹر کی خدمات حاصل کی جائیں-

کام کرنے کا حق
ہمارے معاشرے میں ویسے تو عورتیں بے شمار کام کرتی ہیں لیکن وہ کام زیادہ تر بلا معاوضہ ہوتا ہے کھیتوں میں جانوروں کی دیکھ بھال گھر اور بچوں کا کام کھانا پکانا کپڑے دھونا پانی لانا بیماروں اور بوڑھوں کا خیال رکھنا-

عورتیں سورج نکلنے سے پہلے اٹھتی ہیں اور رات گئے تک کام کرتی ہیں مگر جہاں ایسی نوکری کرنے کا سوال اٹھتا ہے جو معاوضے کے مساوی حقوق دینے کیلئے قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور خواتین صدر وزیراعظم یا کسی بھی عہدے کیلئے نا اہل قرار نہیں دی جا سکتی آئین کی رو سے عورت بطور پاکستانی شہری کسی بھی ملازمت کے ڈھانچے کے مطابق ملازمت کی جملہ شرائط کو پورا کرتی ہو تو اسے محض جنس کی بنیاد پر ملازمت سے محروم نہیں رکھا جا سکتا وہ اپنی مرضی سے کوئی بھی شعبہ یا کاروبار اختیار کر سکتی ہے آئین میں کام کے سلسلے میں جنسی تفریق کے خلاف تحفظ دیا گیا ہے پاکستان نے کئی ایسے بین الاقوامی معاہدوں پردستخط کیے ہیں جن کی رو سے محنت کش عورتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے عورتوں کا قومی دھارے میں شامل ہونا ضروری ہے تاکہ وہ بھی ترقی کے عمل میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں-

شادی سے وابسطہ حقوق
شادی کے وجود میں آتے ہی کئی دیگر حقوق و فرائض لاگو ہو جاتے ہیں جن میں قانون وراثت نفقہ حق مہر اولاد کی ولدیت اور ان معاملات سے منسلک دیگر قوانین کا اطلاق بھی شروع ہو جاتا ہے شادی ایک معاہدہ ہے جو ایک مرد اور عورت کے درمیان ہوتا ہے اور معاہدے کے وقت اس کی تمام شرائط اور شقوں کو بغور پڑھنا چاہیے اور اس معاہدے میں لڑکے لڑکی کی مشاورت لازمی ہونی چاہیے-

شادی کی بنیادی شرائط
۱ دونوں فریقیں عاقل اور بالغ ہوں
۲ آزاد مرضی ہو زبردستی شادی مذہبی اور قانونی طور پر غلط ہے
۳ موجودگی گواھان ۴ حق مہر کا تعین

(جاری ہے)
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114656 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More