مثبت رویہ ہر بیماری کا علاج ہے

صبح سے کان میں درد تھا مگر حکماءکہتے ہیں کہ جب تک بدن بیماری کو برداشت کرے علاج نہیں کرانا چاہیے۔ شام تک درد کی شدت کافی زیادہ ہو گئی تو سقراط کا قول یاد آیا کہ تھوڑے مرض کو حقیر نہ سمجھو کہ بظاہر معمولی نظر آنے والا مرض آگ کی چنگاری کی طرح سلگ سلگ کر شعلہ زنی کرنے لگتا ہے۔ میرے گھر کے ہر دو جانب تقریبا چار کلو میٹر پر دو بہت اچھے ہسپتال ہیں۔ رائے ونڈ روڈ پر گھر سے چار کلو میٹر پہلے ممتاز بختاور میموریل ہسپتال اورجاتی عمرہ میں گھر سے چار کلو میٹر بعد شریف میڈیکل کمپلکس۔ ان دونوں میں انتہائی ماہر طبیب ہوتے ہیں۔ مگر اب شام ہو چکی تھی اس لیے مجبوراً گھر کے گردونواح میں کسی مقامی ڈاکٹر کو تلاش کرنے نکلا۔

لاہور کے مضافات میں ایک عجیب مسئلہ ہے۔ ہر گلی ، ہر محلہ میں جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی دکانوں یا گھروں میں کلینک بنائے ایک دو ڈاکٹر ضرور نظر آتے ہیں۔ باہر بورڈ پر ڈاکٹر کے نام کے ساتھ ایم بی بی ایس سمیت بہت سی ڈگریاں بھی لکھی نظر آئیں گی۔ مگر ملاقات پر وہ ڈاکٹر صاحب شکل و صورت ، حلیے، چال ڈھال اور بول چال سے ایم بی بی اےس تو کیا، کسی صورت ایف اے یا بی اے پاس بھی نظر نہیں آتے۔ غلطی سے پوچھ لو کہ جناب یہ جو بورڈ پر درج ہیں آپ ہی ہیں تو اُن کا رویہ بدل جاتا ہے۔ روکھا سا جواب ملتا ہے کہ مجھے ہی سمجھیں۔ یہ سمجھیں کا لفظ ساری حقیقت آشکار کر دیتا ہے۔

دو دن پہلے میرے ہمسائے کا ملازم میرے پاس آیا۔ اُس کے ساتھ ایک جوان بچی تھی۔ اٹھارہ انیس سال کی ہو گی۔ تعارف کرانے لگا کہ فلاں شہر سے یہ میری بھابھی آئی ہے۔ ڈاکٹر ہے بلکہ بہترین سرجن ہے۔ پوچھا ۔ بیٹا کہاں پڑھی ہو تو شرما کر چپ رہی۔ مگر میرے ہمسائے کا ملازم بولا جناب اُس شہر کی فلاں مشہور ڈاکٹر کے پاس یہ پچپن ہی سے رہی ہے۔ اُس کے ساتھ ہر آپریشن میں شریک ۔ کبھی وہ نہ بھی ہو تو اکیلی بھی یہ کام کر لیتی ہے۔ مجبوری ہے ڈگری نہیں۔ مگر گھر پر کوئی آجائے تو یہ آپریشن کر لیتی ہے۔ سبھی اوزار رکھے ہیں۔ لوگوں کا کام سستا ہوجاتا ہے ۔ شاید مضافات کے لوگوں کے لوگوں کی یہی مجبوری ہے کہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بہت مہنگے ہیں۔ علاج کم اور کاروبار زیادہ کرتے ہیں ۔ گو بہت سے کوالیفائڈ دسپنسر بھی تجربہ کی بنیاد پر چھوٹا موٹا علاج بہت اچھی طرح کر لیتے ہیں مگر ڈاکٹر بہرحال ڈاکٹر ہی ہوتا ہے۔

1970ءمیں کالج کے زمانے میں ہمارے کالج کی ڈسپنسری میں ایک ڈسپنسر ہوا کرتے تھے جو بڑے فخر سے خود کو ڈاکٹر کہلواتے تھے کسی سٹوڈنٹ نے علاج کے لیے اُن کے پاس آنا اور غلطی سے ڈسپنسر صاحب کہہ دینا تو بس ۔۔۔۔ بیس سال ہو گئے اس کالج میںڈاکٹری کرتے۔ تم آج کے بدتمیز اور نالائق مجھے ڈاکٹر نہیں مانتے۔ صحیح دوائی دیتا ہوں اسی لیے صحت یا ب ہو جاتے ہو اور پھر بھاگے چلے آتے ہو۔ بتاﺅ میں کیسے ڈاکٹر نہیں ہوں۔۔۔ کچھ جلی کٹی سننے کے بعد اردگرد کھڑے طالب علم کہتے۔ ڈاکٹر صاحب معاف کریں۔ بچہ ہے اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ آپ بیس سال سے ڈاکٹری کر رہے ہیں۔ آئندہ آپ کو ڈاکٹر ہی کہے گا۔ بھلے آدمی تھے۔ مان بھی فوراً جایا کرتے تھے۔ آج کے ڈسپنسر تو جب تک آپ کو کلینک سے نکال باہر نہ کریں۔ نارمل نہیں ہوتے۔

طب کے طالب علموں کی خصوصیت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُس کا تعلق شریف خاندان سے ہو۔ اعضا کا باہمی تناسب رکھتا ہو۔ سمجھ اعلیٰ درجے کی ہو۔ شیریں کلام اور صحیح رائے دینے والا ہو۔ بزدل نہ ہو۔ پاک دامن ہو، ہمت والا اور دلیر ہو۔ دولت کا دوست نہ ہو۔ مریض کی تکلیف کو محسوس کرنے والا ہو۔ غصے پر قابو رکھنے والا ہو۔ بیمار کا مکمل راز دار ہو۔ صاف ستھرے کپڑے پہنتا ہو۔ بہت تیز چلنے والا نہ ہو کیونکہ یہ طیش کی علامت ہے اور نہ ہی سست خرام ہو کیونکہ یہ فتور نفس کی بیماری ہے۔ مریض کو دیکھے تو اطمینان سے اُس کا حال دریافت کرے کیونکہ علم طب میں شفا کے لیے طبیب کی طبیعت کا بڑا دخل ہے۔ طب کے طالب علم کی خصوصیات کسی اور نے نہیں بلکہ 460ق م میںپیدا ہونے والے اور دنیا کا پہلا شفاخانہ قائم کرنے والے استاد الحکما حکیم بقراط نے بتائی ہیں جو آج بھی طب کے طالب علموں کے لیے مینارہ نور ہیں۔

قدیم یونان کے لوگ اسقلی بیوس کو طب اور حکمت کا دیوتا مانتے تھے۔ اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ الہامی طبیب تھا اور اُس کے ہاتھ میں بے پناہ شفا تھی۔ وہ مریض کی شکل دیکھ کر مرض کا پتہ لگا لیتا اور علاج تجویز کر دیتا۔ ایسے لوگ جن کے جسم یا پھپھپڑوں میں پانی بھر جاتا انہیں الٹا لٹکا کر اُن کی گردن کاٹتا اور جسم میں جمع شدہ پان نکال کر گردن دوبارہ جوڑ دیتا۔ طب کا علم صدیوں تک اسقلی بیوس کے خاندان اور اس کی اولاد تک محدود رہا۔ حکیم بقراط کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا۔

بقراط سے پہلے طب کا علم اسقلی بیوس کے خاندان تک محدود تھا۔ مگربقراط نے علم طب کو خاندان تک محدود رکھنے کی بجائے عام کیا ۔ کیونکہ اُس کے خیال میں ”نیکی ہر ایک مستحق سے کرنی لازمی ہے خواہ وہ تمہارا عزیز ہو یا کوئی غیر ” وہ پہلا شخص تھا جس نے طب کے علم کو کتابی شکل دی تاکہ عام لوگ اُس سے مستفید ہوں۔ بقراط کا طب پر اسقدر احسان ہے کہ دنیا میں آج بھی دوسرا طبیب اُس کا ہم پلہ نظر نہیں آتا۔ انسانی جسم ، اُس کی ساخت ، انسانی بیماریوں اور اُن کی وجوہات آج کے جدید دور میں بھی جدید سائنس بقراط ہی کی بتائی ہوئی اساس پر تعمیر نو میں مصروف ہے۔ بقراط کا کیا ہوا کام آج بھی اس قدر مفید ہے کہ انسان حیران ہوتا ہے کہ 2500سال قبل کا انسان بھی طب کے بارے میں اس قدر جانتا تھا۔ اُس کا اُس وقت کا کیا گیا کام آج بھی طب کے میدان میں حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ بقراط کے دور میں ہندوستان میں سشرت نام کا ایک طبیب تھا جس کے بہت سے مضامین آپس میں باہمی رابطہ نہ ہونے کے باوجود بقراط کے مضامین سے بہت مماثلت رکھتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بھی طب اُس وقت انتہائی ترقی یافتہ شکل اختیار کر چکی تھی۔

موجودہ جدید علم طب نے دنیا کی تمام قوموں اور تہذیبوں کے علم طب کو اپنے میں سمو لیا ہے مگر آج بھی بہت سی مقامی آبادیاں اور گروہ اپنے پرانے طریقہ طب پر قائم ہیں اور اُن کا علاج اپنی جگہ بہت منفرد ہے۔ میں تبت کے بدھ پیروکاروں کے علم طب کے بارے میںپڑھ رہا تھا۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان کی بیماریاں اُن کے اپنے مزاج کی وجہ سے ہوتی ہیں جس کا معائنہ تین مزاجوں کے توازن کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ اور یہ تین نظام ہیں ۔ ہوا، صفرا ور بلغم۔

ہوا سے مراد جسم میں موجود ہوا ہے جو جسم کی توانائی کو اندر اور باہر لے کر جاتی ہے اور اس کا ایک پہلو نظام دوران خون اور فشار خون ہے اور اس کے علاوہ دل اور جنس سے متعلقہ بہت سی توانائیاں۔

صفرا یا آب زرد کا تعلق ہاضمہ کے مختلف پہلوﺅں جگر ، ہیمو گلوپن ، سرخ خلیات اور آنکھوں سے ہے ۔

بلغم کا تعلق جس کے نظام لعاب اور نظام زلال سے ہے یعنی نزلہ زکام اور جوڑوں کا درد وغیرہ ۔

اگر ہم ان بیماریوں پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک متوازن زندگی گزارنی چاہیے۔ خاص طو رپر جذباتی اور ذہنی سطح پر۔ کیونکہ بنیادی طو رپر تین پریشان کن جذبات یا رویے ہیں جو ان بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

پہلا رویہ آرزو یا وابستگی ہے کہ آپ کسی چیز کے شدید طلب گار ہوتے ہیں کہ مجھے ہر قیمت پر وہ چاہیے ۔ اس رویے کے نتیجے میں ہوا کی بیماریاں آتی ہیں۔ جن کی نشانی اعصابی کمزوری ہے۔ انسان افسردگی کا شکار ہوتا ہے۔ فشار خون کا شکار ہوتا ہے۔ سینے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے ۔ انتڑیوں اور پیٹ میں جلن ہوتی ہے۔

دوسرا رویہ غصہ ہے جو صفرا کے عوارض کی بنیاد ہے۔ غصہ اور چڑچڑا پن معدے کے السر پیدا کرتا ہے۔ سر درد کی شکایت ہوتی ہے جس طرح یرقان میں لوگ زرد ہوتے ہیں۔ غصے میں رنگ سرخ ہو جاتا ہے جس کا اثر انسان کے اندر وموجود رنگدار مادوں پر بھی ہوتا ہے۔ جس سے بہت سے عوارض پیدا ہوتے ہیں۔

تیسرا رویہ تنگ نظری ہے جس سے بلغم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جب ہم کچھ خیالات پر غصہ کر کے قائم ہو جاتے ہیں اور کسی دوسرے کی کوئی بات سمجھنا نہیں چاہتے تو لوگوں کے لیے ہمارا دل تنگ ہو جاتا ہے۔ دماغ تنگ ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ناک کے سوراخ بھی ہو جاتے ہیں اور ہمیں تنفس کی بیماریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ دمہ ، نمونیا اور جسم کے جوڑوں کے مرض لاحق ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ جسم بھی ذہنی بے لچگی کا انعکاس کرتا ہے۔

تبتی طریقہ علاج ایک منفرد چیز ہے۔ اس کے بارے میں کبھی پھر تفصیل سے لکھوں گا۔ آج فقط اتنا ہی کہ تبتی علاج کے مطابق بہت سی بیماریوں سے بچاﺅ کے لیے ہمیں اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانا ہو گی۔ ہمارے ذاتی رویے اگر مثبت ہوں گے تو یہ پیش رفت قومی سطح پر بھی ہو گی اور قومی سطح پر مثبت تبدیلی کی خواہاں تو ہماری پوری قوم ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442596 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More