ملالہ کا ملال

ملالہ کے متعلق پچھلے چند روز سے اتنا کچھ نشر و اشاعت میں آچکا ہے کہ اس تفصیل میں جانا فضول ہے کہ وہ کون ہے اور اسے کیا ہوا ہے ؟ - بینظیر کے قتل کے واقعہ کے بعد پاکستان اور بیرونی دنیا میں اس واقع کو جو شہرت ملی ہے وہ ناقابل بیان ہے فرق یہ ہے کہ بے نظیر اپنی جان سے گزر گیئں اور تمام پاکستان کو تخت و تاراج کر دیا گیا- پاکستان ریلوے کی جو تباہی ہوئی کہ وہ سر اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہی- ملالہ کو بچانے کی پوری کوششیں جاری ہیں اور شورتمام ابالغ عامہ کی سطح پربھی مچا ہو ا ہے- ملالہ کی جان بچانے کے لئے جسقدر جانفشانی دکھا ئی گئی ہے اور تمام مقتدرہ طبقہ جس طرح سے متحد ہو گیا ہے اس سے یہ شکا ئیت کرنا بے جا ہے کہ پاکستان میں انسانی جان کی کوئی قدر نہیں ہے - وہ ملک جہاں روزانہ کتنے بے گناہ اپنے ناکردہ گناہوں کے لئے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا مجھے اس واقعہ کی جیسے اطلاع ملی میں نے فورا اسکو خراج تحسین دینے کے لئے یہ نظم لکھ ڈالی

ملالہ یوسف زئ کے نام

تو عزم و ہمت کا نشان ہے ملالہ
ان ظالموں نے تم کو نشانہ بنا ڈالا
نہیں انکی نظر میں عورت کا کوئی مقام
کہلاتے ہیں یہ خود کو داروغہ اسلام
اس دور کو تاریکی میں لے جانا چاہتے ہیں
عورت کی ہر آواز کو دبانا چاہتے ہیں
عورت کو ایک بیجان کھلونا بناناچاہتے ہیں
اسلام کی دیدی ہوئی عظمت مٹانا چاہتے ہیں

تم گل مکیئ کے نام سے جو کچھ لکھا کرتی تھی
حیرت سے بی بی سی سے ہمیشہ سنا کرتی تھی
ملالہ نہ ملال کر ہم تمہارے ساتھ ہیں
یہ ساری دعائیں یہ خواہشیں تمھارے ساتھ ہیں

لیکن ہماری توقعات کے برعکس یہ کیا پوری سرکاری مشینری اس بچی کو بچانے کے لئے متحرک ہوگئی -اس بچی میں کیا خاص بات تھی کیا وہ کسی بڑے عہدہ دار کی بیٹی تھی، کیا وہ بہت ذہین تھی اور تعلیمی میدان میں کوئی کارنامہ انجام دیا تھا؟ -اس سے پہلے پاکستان کی ایک اور ذہین و فطین بچی ارفع کریم دنیا سے رخصت ہوئی تو میڈیا میں جوش آیا تھا لیکن ارفع کا معاملہ مختلف تھا، اس ے کسی طالب نے گولی نہیں ماری تھی ملالہ نے جب گل مکئی کے نام سے بی بی سی کو اپنے ٹوٹے پھوٹے خطوط بھیجنے شروع کئے تو میں کافی دلچسپی سے سنتی تھی۔ ایک معصوم بچی خوفزدہ ہو کر اپنےاسکول کے تباہ ہونے اپنے تعلیمی نقصان کے معصوم خواہشات اور خوف کا اظہار کیا کرتی تھی- ظا ہر ہے اسکے اس جذبے کے پس پردہ کسی کا ساتھ ہوگا ورنہ عام طور سے اس طرح کی تحاریر کوڑے کے ڈھیر میں چلی جاتی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا خوف و دہشت کے مارے بھی لوگ زبانیں بند رکھتے ہیں- بعد میں معلوم ہوا کہ اسے اہنے والد کی سر پرستی حاصل تھی اور انہون نے ہی نشریاتی ادارے تک رسائی حاصل کر لی تھی اب یہ چودہ سالہ بچی جرآت و ہمت کا نشان بنگیئ ،ایک زبان ایک آواز جو طالبان کے مظالم کو اجاگر کرتی تھی- اسے اسقدر سرکاری اداروں کی سر پرستی حاصل ہے یہ تو اب معلوم ہوا لیکن اسے ایوارڈملے، نشریاتی اداروں پر آئی، انٹرویو ہوئے اور تو اور ایک مارکسی ویب سائٹ نے دعوہ کیاہے کہ وہ ایک مارکسی ہے وہ اور اسکا باپ انکا کامریڈ ہے-حیرت ہے کہ مارکسزم اب سوات میں زندہ ہو رہاہے پاکستان اور افغانستان میں کچھ بھی ہونا بعید نہیں ہے اب یہ تو پاک فوج ہی فیصلہ کرسکتی ہے کہ انکا اگلا حریف کون ہے؟ نا معلوم تاریخ پہرپلٹ جائے اور ان طالبان کو دوبارہ مجاہدین کی صورت میں ملانا پڑ جاۓ - اسوقت تو پاکستان میں یہ مقابلہ چل رہاہے کہ ملالہ کی خیرئیت کس نے پوچھی کس نے نہیں پوچھی - جس نے نہیں پوچھی اور کوئی بیان جاری نہیں کیا اس پر لعن طعن کی جارہی ہے سب اپنی دوکان چمکانے میں لگے ہوئے ہیںاپنے نمبر بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں -اور تو اور میڈونا نے اپنے جسم پر ملالہ کا نام لکھا اور اپنا گانا اسکے نام کردیا -ساتھ میں دو بچیاں اور زخمی ہیں انکے ماں باپ چینخ رہے ہیں یہ بھی پاکستانی بچیاں ہیں انکو بھی علاج چاہئے-ملالہ کے طفیل تھوڑی بہت ان کی بھی پزیرائی ہوئی اور اخبارات میں خبریں بھی ائیں - ہماری تو دعا ہے کہ ملالہ مکمل صحت یاب ہو کیا معلوم وہ کل کو ہمارے ملک اور قوم کا نام روشن کرے اور پھر اسکا تعلق ہمارے قبیلے سے بھی ہے-
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 234261 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More