شرک کی حقیقت

محترم بھائیوں السلام علیکم ،
میرے چند بھائیوں نے یہ اصرار کیا کہ میں شرک کے بارے میں مدلل بیان کروں تاکہ میری طرف سے پیدا ہونے والے اشکال دور ہوں سکیں اسی بنا پر میں نے شرک جس میں آج موجودہ مسلمان مبتلا ہے اس کو مدلل بیان کر رہا ہوں وتوفیقی باللہ ۔

لفظ شرک کے معنی:
شرک مجرد سے اسم مصدر ہے اور مزید فیہ سے “اشرک“ آتا ہے معنی حصہ جیسے بیع شرک من دارہ اس کے گھر کا ایک حصہ بیچ دیا گیا ۔
قرآن مجید سے تائید
ومالھم فیھا من شرک(سبا :٢٢)
اور ان دونوں (زمین اور آسمان ) کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔
موسٰی علیہ السلام نے دعا فرمائی “واشرکہ فی امری(طہ :٢٢)
اور میرے اس کام میں اس کو میرا حصہ دار بنا دے۔
جوتے کے تسمے کو شراک کہتے ہیں (لسان العرب)
معانی کے اعتبار سے شرک کا شرعی مفہوم یہ ہو گا “اللہ کی ذات صفات اور عبادت میں کسی غیر کو حصہ دار سمجھنا چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں “ مشرک وہ ہے جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کرے۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر سوره الرعد)
قرآن مجید سے شرک کا بیان:
پس جب اللہ نے ان دونوں کو ایک تندرست بچہ دیا تو اللہ نے جو انہیں دیا اس میں اللہ کا دوسروں کو شرک بنانے لگے(الاعراف: ١٩٠)
وہ اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر تمہیں روزی دی پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے پھر تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے شرکاء میں سے کوئی ہے جو ان میں سے کوئی کام کرتا ہے اس کی ذات پاک وبے عیب ہے اور ان کے شرک سے بلند وبالا ہے (الروم ٤٠)
آیات کا ما حصل:
مندرجہ بالا آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک نام ہے مخلوق پرستی کا یعنی
(!) آپ اعتقاد رکھیں کہ اللہ بھی الہ ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی الہ ہیں ۔
(٢) کسی مخلوق کو پرستش کا مستحق سمجیں اولاد دینے والا روزی دینے والا بھی اسی کو مانتے رہیں۔
(٣) کسی مخلوق کو خالق، روزی ، زندگی اور موت دینے والا سمجیں (اسی کا نام شرک فی التصرف ہے)
(٤) غیر اللہ کے بارے میں یہ تصور کریں وہ فوق الطبعی قوتوں کا مالک ومختار ہے ۔

قرآن کریم کی ان آیات پر غور کرنے سے پتا چلا کہ مشرکین اللہ کی عبادت بھی کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ مخلوق کی بھی عبادت کرتے تھے (جیسا ہم مشرکین کے عبادات کے باب میں بیان کریں گے)جیسا ابن عباس کا قول نقل کیا کہ مشرک وہی ہوتا ہے جو اللہ کے ساتھ دوسرے کی بھی عبادت کرے ۔
اب ہمارے بعض بھائی یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ہم مشرکین کی طرح غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے ہیں بلکہ ہم اللہ ہی کو خالق اور مالک مان کر اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے مگر اللہ کے وہ نیک بندے جو اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی جن کو اللہ نے اپنی عطا سے اختیار دے رکھا ہے اور وہ متصرف ہیں اور اللہ کی عطا سے لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور اس میں کوئی شرک نہیں ہے تو اس کے لیے قرآن کا مطالعہ ضروری ہے کیونکہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ مشرکین عرب بھی آج کے ہمارے ان بھائیوں کی طرح اللہ کو حقیقی خالق، مالک ،مختار، رزق دینے والا ، مشکل میں مدد کرنے والا مانتے تھے مندرجہ ذیل آیات ہمیں یہی بتاتی ہیں

(١) آپ پوچھیں کہ تمہیں آسمان اور زمین میں روزی کون پہنچاتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور کون زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور کون تمام کاموں کی تدبیر کرنے والا ہے وہ جواب میں کہیں گے اللہ (یونس:٣١)

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم: آپ پوچھیں کہ اگر تمہیں معلوم ہے تو بتاؤ کہ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے اور جو سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کی مرضی کے خلاف کسی کو پناہ نہیں دی جاسکتی ہے وہ یہی جواب دیں گے ہر چیز کا بادشاہ صرف اللہ ہے (المومنون ٨٨-٨٩)

اے نبی ان سے پوچھیں اگر تمہیں معلوم ہے تو بتاؤ کہ زمین اور اس میں رہنے والوں کا مالک کون ہے وہ یہی جواب دیں گے کہ ان کا مالک اللہ ہے آپ کہیں تو پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے آپ ان سے پوچھیں ساتوں آسمان کا رب کون ہے اور عرش عظیم کا رب کون ہے وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ آپ کہیں پھر تم ڈرتے کیوں نہیں (المومنون ٨٤-٨٧ )

پس جب وہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ ہی کو پکارتے ہیں اپنی عبادت کو اس کے لیے خالص کرکے اور جب ہم انہیں خشکی پر لے آتے ہیں تو وہ شرک کرتے ہیں (العنکبوت ٦٥)

اس کی تشریح میں روایت موجود ہے کہ “ عکرمہ جب فتح مکہ کے دن جب ان کے قتل کا حکم آگیا تھا کشتی میں سوار ہو گئے تو وہاں طوفان آگیا تو کشتی والوں نے کہا کہ خالص اللہ کو پکارو یہاں تمہارے معبود کچھ کام نہ ائیں گے تو عکرمہ نے فرمایا اللہ کی قسم اگر تو نے مجھے بچا لیا تو میں ایمان لے آوں گا (سنن نسائی کتاب التحریم الدم باب حکم المرتد رقم ٤٠٧٨)

ان آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب بھی اللہ کو مالک ومختار مشکل کشا اولاد دینے والا مانتے تھے اور ہمارا اج کا گلمہ گو مشرک مسلمان بھائی بھی یہی عقائد رکھتا ہے
اور مشرکین عرب بھی اولیاء اور بزرگوں سے دعا حاجات اور دیگر منتیں مانگتے تھے اور ان کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے اور ان کو اللہ نے اپنی عطا سے اختیارات دیے ہیں
قرآن میں موجود ہے “ وہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان وہ کہتے ہیں یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں (یونس ١٨) تو وہ اللہ کی عطا سے ان کو بھی متصرف مدد کرنے والا اولاد دینے والا مانتے تھے جبکہ ہم نے نقل کیا تھا کہ حقیقی طور پر وہ بھی اللہ ہی کو خالق مالک مختار مانتے تھے اور میرے اس موقف کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ مشرکین عرب اپنے جاہلیت کے حج کے دوران یہ تلبیہ پڑھتے تھے “ اے اللہ ہم تیری عبادت کے لئے حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں ہے سوائے اس شریک کے جو تیری مخلوق ہے اور تو اس کا بھی مالک ہے اور اس کے اختیارات بھی تیرے قبضہ میں ہیں(صحیح مسلم کتاب الحج باب التلبیہ رقم١١٨٥)
ان واضح دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ کی عطا سے مخلوق میں سے بزرگوں کو مشکل کشا حاجت روا اور اولاد دینے والا مانتے تھے حالانکہ حقیقی مالک مشکل کشا اور اولاد دینے والا اللہ ہی کو مانتے تھے مگر پھر بھی اللہ نے ان کو مشرک کہاہے اور اسی طرح وہ عبادات بھی کیا کرتے تھے مثلا نماز روزہ حج وغیرہ بھی ادا کرتے تھے درج ذیل دلائل اس کی تائید کرتے ہیں ۔
مشرکین کی عبادات:
(١) ابوذر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے تین برس قبل نماز پڑھتے تھے (صحیح مسلم کتاب الفضائل فضلیت ابو ذر رضی اللہ عنہ)
(٢) ابن اسحاق کا قول ہے بنی اسماعیل (قریش) نے ابرہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کا دین بدل کر بتوں کی پرستش شروع کر دی اور گمراہی امم سابقہ کے نقشہ قدم پر چلنے لگے اس کے باوجود ان میں عہد ابراہیم علیہ السلام کی کچھ عبادات باقی رہ گئی تھی مثلا بیت بیت اللہ کی تعظیم اور اس کا طواف حج عمرہ اور عرفہ ومزدلفہ میں قیام (سیرت ابن ہشام جلد ١ ص ٨٠) اور صحیح مسلم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ “مشرکین کو حج کرنے سے روک دیا گیا تھا(صحیح مسلم کتاب الحج باب لایحج البیت مشرک رقم ١٣٤٧) حج کرتے تھے تبھی روکا گیا تھا۔
(٣) قریش دور جاہلیت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے (صحیح بخاری کتاب الصوم رقم ١٨٩٣)
(٤) قریش نکاح بھی کرتے تھے چنانچہ امام عائشہ فرماتی ہیں کہ جاہلیت میں چار قسم کا نکاح ہوتا تھا ان میں سے ایک مسلمانوں کا سا تھا (صحیح بخاری کتاب النکاح باب لا نکاح الا بولی)
ان آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ کلم گو مشرک اور مشرکین مکہ کے عقائد اور عبادات ایک ہی تھی طریقہ کار میں فرق ہو سکتا ہے اب ہم ان کا موازنہ اپ کے سامنے پیش کرتے ہیں
(١) مشرکین عرب اللہ کو حقیقی مالک مختار ،رازق،مشکل کشا، حاجت روا اولاد دینے والا مانتے تھے۔
کلمہ گو مشرک: اللہ کو حقیقی مالک مختار،رازق، مشکل کشا، حاجت روا اور اولاد دینے والا مانتا ہے۔
(٢) مشرکین اپنے اولیاء کو اللہ کی عطا سے مشکل کشا، حاجت روا، اولاد دینے والا اور مختار مانتے تھے۔
کلمہ گو مشرک اپنے اولیاء کو اللہ کی عطا سے مشک کشا، حاجت روا، اولاد دینے وال اور مختار مانتا ہے ۔
(٣) مشرکین عرب نماز پڑھنے کے باوجود غیر اللہ سے مدد مانگتے تھے ۔
کلمہ گو مشرک بھی نماز پڑھنے کے باوجود غیر اللہ سے مدد مانگتا ہے۔
(٤) مشرکین روزے بھی رکھتے تھے ۔
کلمہ گو مشرک بھی روزے رکھتا ہے۔
(٥) مشرکین حج عمرہ کرتے تھے ۔
کلمہ گو مشرک بھی حج عمرہ کرتا ہے ۔
اس موازنہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب عقائد اور اعمال آج کے کلمہ گو مشرک سے مشابہ ہیں
چنانچہ مشرکین ان تمام عقائد و اعمال کے ساتھ اللہ کے یہاں مشرک ہے اس کی کیا وجہ ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مخلوق کو اللہ کے عطا یافتہ حاجت رو اور مشکل کشا مانتے تھے ورنہ ان کے نذدیک بھی حقیقی مشکل کشا اور حاجت روا اللہ ہی ہے ۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
اب بعض یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ وہ بت اللہ کے اذن یافتہ (یعنی نیک بزرگ یا اولیا اللہ نیں تھے بلکہ بت تھے جو مشرکین عرب نے از خود گھڑ لیے تھے تو اس غلط فہمی کا ازالہ بھی کیے دیتے ہیں سورہ نوح کی تفسیر میں امام بخاری نے ابن عباس کا قول نقل کیا ہے جس کو تمام مفسرین نے اپنی تفاسیر میں نقل کیا ہے کہ “"ابن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں " جن بتوں کی نوح علیھ السلام کی قوم عبادت کرتی تھی وہی بعد میں عرب میں پکارے جانے لگے اور یہ نوح علیھ السلام کی قوم کے نیک لوگ تھے ،(بخاری کتاب تفسیر باب تفسیر سوره نوح علیھ السلام حدیث ٤٩٢٠ )
بعض میرے بھائی اس بات کا انکار کرتے ہیں تو ان کے لئے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ خانہ کعبہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی تصاویر بھی موجود تھی اور قرآن میں موجود ہے کہ فرشتوں کی بھی عبادت کی جاتی تھی جیسا سورہ الزخرف میں موجود ہے “اور انہوں نے اللہ کے عبادت گزار فرشتوں کو عورتیں قرار دے لیا کیا ان کی پیدائش کے وقت موجود تھے ان کی یہ گواہی لکھ لی گئی ہے اور ان سے اس کی پوچھ ہو گی اور کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے انھیں اس کی کوئی خبر نہیں ہے یہ تو صرف جھوٹ باتیں کرتے ہیں تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں جن بتوں کو حاجت روای اور مشکل کشائی کے لئے پکارا گیا وہ نیک اور برگزیدہ بندے تھے چاہے انسان ہو یا فرشتے یہاں تک کہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یغوث جن کے نام کا بت بنایا گیا وہ شیث علیہ السلام کے بیٹے تھے (فتح الباری کتاب التفسیر نوح تحت رقم ٤٩٢٠) تو اب یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ مشرکین عرب نے جن کو پکارا وہ اللہ کی مخلوق میں سے اولیاء اللہ تھے ۔
یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ بعض ہمارے بھائی شدت سے یہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خوارج مشرکین کی آیات مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں۔
اور اسی سے استدلال کرتے ہوئے ہمارے بعض بھائی یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں شرک داخل نہیں ہو سکتا ہے اور جن آیات میں لوگوں کے شرک کرنے کا ذکر ہے یا انہیں شرک سے منع کیا گیا ہے وہ آیات مشرکین کے بارے میں ہیں ان سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ مسلمان فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتے ہیں جیسا بخاری کی حدیث موجود ہے “کہ مجھے تم سے شرک کا خوف نہیں ہے (بخاری)
یہ استدلال کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا نے جو فرمایا ہے وہ اس وقت جو خوارج کا عمل تھا اس کے مطابق بات بیان کی ہے اگر اس کو ابدی مان لیا جائے اور جیسا ہمارے بھائی مانتے ہیں کہ شرک کی ممانیت میں جو آیات اتری ہے وہ صرف مشرکین کے بارے میں ہیں یہ متعدد قرآنی آیات کے مخالف ہےجن میں مسلمانوں سے خطاب کر کے شرک کرنے سے منع کیا گیا ہے ذیل میں ہم وہ آیات نقل کیے دیتے ہیں
(١)اسے تو اللہ ہر گز نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ہاں شرک کے سوا گناہ جسے چاہے گا معف فرمادیات ہے اللہ کساتھ شرک کرنے والا دور کی گمراہی میں جا پڑا(سورہ النساء ١١٦)
(٢) اللہ نے انبیاء کی جماعت کا تذکرہ کر کے فرمایا “ اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو ان کے اعمال ضائع ہوجاتے (سورہ الانعام ٨٨)
(٣) اور آپ کو اور ان رسولوں کو جو آپ سے قبل گذر چکے یہ وحی کی جا چکی ہے کہ اگر آُپ نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا تو آپ کا عمل ضائع ہو جائے گا اور آپ خسارہ پانے والوں میں ہو جائیں گے ،(سورہ الزمر ٦٥)
ان آیات میں واضح موجود ہے کہ انبیاء کو مخاطب کر کے امت محمدی کو بتایا جارہا ہے کہ تم شرک نہ کرنا ورنہ اعمال حبط ہوجائیں گے اور اب جو آیت پیش کروں گا اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بتایا گیا ہے
(٤) جو لوگ ایمان لا کر اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کرتے ان کے لئے امن اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (سورہ الانعام ٨٢) جب یہ ایت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہے ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے نیک بندے(لقمان رضی اللہ عنہ) کا قول نہیں سنا کہ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم عظیم ہے(بخاری کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم رقم ٣٢، ٤٧٧٦) ان آیات اور اس کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی آیات قرآن میں بھی موجود ہیں جن سے مسلمانوں کو شرک سے روکا گیا کہ اس اندیشے سے کہ وہ شرک میں مبتلا نہ ہو جائیں اسی طرح روایات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان شرک کا ارتکاب کریں گے یہاں تک کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان جب تک شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی حدیث پیش ہے
“" قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢)
ان تمام وضاحت سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ان کے مشاہدے کے مطابق تھا اور اس سے جو استدلال کیا گیا ہے کہ مسلمان شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس کی نفی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے جو میں نے نقل کی ہے “ کہ میری امت کے چند قبیلے بتوں کی عبادت کریں گے“
اور جس حدیث سے میرے بھائی استدلال کرتے ہیں کہ وہ شرک نہیں کریں گے وہ مجموعی امت شرک نہیں کرے گی چنانچہ اس حدیث کے تحت کہ مجھے تم سے شرک کا خوف نہیں ہے“ اس کے تحت ابن حجر فرماتے ہیں “یہ مجموعی طور پر ہے ورنہ امت کے شرک میں مبتلا ہونے کے واقعات موجود ہے (فتح الباری )
اس کی مثال موجود ہے بعض لوگوں نے علی رضی الله عنہ کو معبود مان لیا تھا جن کو علی رضی الله عنہ نے جلا دیا تھا (بخاری کتاب الحدود باب مرتدین رقم ٤٧٧٢ )

ذاتی اور عطائی کی بحث:
ہمارے مسلمان بھائیوں کو ذاتی اور عطائی کے چکر میں ایسا الجھایا گیا ہے اور شرک کے کرنے والے یہ دلیل پیش کرکے عام مسلمانوں کو بیوقوف بنا کر ان سے شرک جیسے عظیم گناہ کا ارتکاب کرواتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ اللہ بالذات عالم الغیب، خالق اور رازق ہے اور انبیاء اولیاء عطائی طور پر (یعنی اللہ کی عطا)قدرت رکھتے ہیں اللہ بالذات متصرف فی الامور ہے اور اولیاء عطائی طاقت سے متصرف ہیں اسی طرح مافوق الاسباب طاقتیں اللہ تعالی کی بلاواسطہ ہیں چنانچہ ہمارے کلمہ گو مشرکین کا ماننا ہے کہ قرآن پاک میں جہاں بھی ان صفات کی نفی ہے وہاں بالذات کی نفی ہے نہ کہ عطائی اور بالواسطہ کی حالانکہ ہم اوپر دیکھ چکے کہ مشرکین عرب بھی بزرگ و اولیاء کو عطائی حاجت روا مشکل کشا اولاد دینے والا مانتے تھے چنانچہ جیسا ہم نے نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب اللہ ہی کو بالذات رازق، مشکل کشا، حاجت روا، اولاد دینے والا مانتے تھے اور ہر انسان یہ مانتا ہے کہ کسی بھی انسان میں کوئی بھی وصف یا صفت ذاتی نہیں ہوتی ہے چاہے وہ جنگل میں ہی کیوں نہ رہتا ہو وہ اپنی اس صفت اور وصف کی نسبت خالق کی طرف ہی کرتا ہے تو انسان کا کسی صفت کو ذاتی ماننا عقلا بھی محال ہے تو مشرکین عرب نے بھی اللہ کو بالذات اور بزرگ اور اولیاء کو عطائی مشکل کشا، حاجت روا، رازق، اولاد دینے والا مانتے تھے اوراس عطائی تصرف وہ مشکل کشائی کے ماننے کے سبب مشرکین عرب اللہ کے نذدیک مشرک کہلائے اور اسی شرک کی ہی نفی بھی قران میں کی گئی ہےاللہ ہم کو ہر قسم کے شرک سے بچائے آمین

دے اللہ تجھے شرک سے آشنائی
دنیا میں نہیں اس سے بڑی برائی
وما علینا الا بلاغ
 
tariq mehmood
About the Author: tariq mehmood Read More Articles by tariq mehmood: 13 Articles with 36822 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.