دینی کاموں پر اجرت- شریعت کیا کہتی ہے؟

ہمارے زمانے کا ایک اہم مسئلہ دینی کاموں پر اجرت کا ہے دینی کاموں سے وہ خدمات مراد ہیں جو مسلمانوں ہی سے متعلق ہیں،بحیثیت مسلمان انجام دی جاتی ہیں اور دراصل اس کے نفع و ضرر اور اس پر اجروثواب اور اس سے غفلت و بے اعتنائی پر عذاب و عقاب کا علاقہ بھی آخرت ہی سے ہے۔

اخلاص اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی قیمت وصول نہ کی جائے، اگر ان خدمات کی بھی قیمت متعین کی جانے لگے تو آخر عبادت گاہوں اور تجارت گاہوںمیں کیافرق باقی رہ جا ئے گا؟ ان ہی طاعات میں قرآن مجید اور علوم دینیہ کی تعلیم، امامت و اذان وغیرہ داخل ہے۔

لیکن اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج کے دور میں اگر آپ’’خادمین دین‘‘ پر اس تعاون کا دروازہ بند کر دیں اور گویا عملاً اس پر مجبور کر دیں کہ وہ اپنے اہل حق کی ضروریات کی تکمیل اور کسبِ معاش کے لئے طلب مال کی اس ریس میں شریک ہو جائیں جو آج ہر بڑے چھوٹے کو دیوانہ کئے ہوئے ہے تو اس سے دین کا سخت خسارہ ہوگا، علوم اسلامی کی تعلّم و تعلیم کا سلسلہ مسدود ہو کر رہ جائے گا، مساجد میں اوقاتِ نماز کی پابندی اور اہل و لائق ائمہ و مؤذنین کی فراہمی مشکل ہو کر رہ جائے گی اور اس طرح دین کے ایک تقاضہ کی تکمیل کر کے بہت سی مصلحتیں بھینٹ چڑھ جائیں گی۔

تصویر کے یہ دورُخ ہیں اور ضروری ہے کہ ان دونوں کو سامنے رکھ کرکوئی فیصلہ کیا جائے، پھر اس سلسلہ میں نصوص اور کتاب و سنت کی تصریحات بھی مختلف ہیں، بعض سے جواز معلوم ہوتا ہے اور بعض سے ناپسندیدگی کا اظہار اور اس کا نادرست ہونا، چنانچہ اسی بنائ پر امام شافعی(رح)،امام احمد(رح) کے نزدیک تعلیم قرآن پر اُجرت لی جاسکتی ہے جبکہ امام ابو حنیفہ(رح) کے یہاں کسی بھی کارطاعت پر اُجرت لینا درست نہیں ہوگا اور نہ اس قسم کا اجارہ ہی صحیح ہوگا، یعنی اگر کسی شخص نے کسی سے اجرت پر یہ معاملہ طے کیا کہ وہ ایک ماہ اس کو قرآن مجید کی تعلیم دے اور بطور اجرت پچاس روپے لے لے، اول تو یہ معاملہ ہی صحیح نہ ہوگاکہ وہ ایک ماہ کیلئے اس کے یہاںجاکراسے پڑھائے یہ ضروری نہیں،دوسر ے اگر اس نے ایک ماہ پڑھا بھی دیا تو اس کی کوئی اجرت پڑھنے والے پر واجب نہ ہوگی۔

لیکن یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ سلفِ صالحین اور امام ابو حنیفہ(رح) کے زمانے میں علمائ اور اربابِ افتائ کو اپنی ضروریات کی تکمیل اور زندگی گزارنے کے لئے بیت المال کی جانب سے وظائف،جاگیریں اور بڑی اعانتیں مقرر تھیں جس سے فراخی اور وسعت کے ساتھ ان کی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں،خلافت راشدہ کے اختتام، مملکت کی اسلامی تعلیمات سے دوری اور ہولناک نیز خداناترس بادشاہوں کے علمائ سے استغنائ کی بنائ پر یہ صورت ختم ہوگئی اور ان کے لئے بظاہر اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لئے کوئی سہارا باقی نہ رہا۔

ان حالات میں یہ بات ناگزیر ہوگئی کہ بڑی مصلحتوں کے تحفظ کے لئے دینی خدمات پر اجرت لینے کی اجازت دی جاتی،چنانچہ فقیہ ابو اللیث(رح) کا مشہور قول ہے کہ میں تین چیزوں کو ناجائز سمجھتا تھا اور اسی کا فتویٰ دیتا تھا جن میں سے ایک تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا مسئلہ بھی تھا مگر پھر تعلیم قرآن کے ضائع ہونے کے اندیشہ سے اس کی اجازت دے دی﴿رسائل ابن عابدین﴾. مگر اس وقت تک یہ اجازت صرف تعلیم قرآن کی حدتک تھی، جیسا کہ صاحب کنز جو ساتویں صدی کے ہیں اور صاحب ہدایہ جو چھٹی صدی کے ہیں کی آرائ سے معلوم ہوتا ہے، پھر مختصر وقایہ کے مصنف نے جن کی وفات ۷۴۷ھ میںہے تعلیم فقہ پر اجرت کو جائز قرار دیا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ امامت، اذان اور ہر قسم کی دینی تعلیم کے لئے اجرت لینا درست اور جائزقرار پایا۔علامہ شامی(رح) کے رسائل جو’’رسائل ابن عابدین‘‘ سے معروف ہیں اس میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے،وہ فرماتے ہیں:
ائمہ ثلاثہ ابو حنیفہ(رح)، ابویوسف(رح) و محمد(رح) کی تمام منقول روایتیں اس پر متفق ہیں کہ طاعات پر اجیررکھنا باطل ہے، لیکن ان حضرات کے بعد جو اہل تخریج و ترجیح گزرے ہیں انہوں نے تعلیم قرآن پر اجرت کے جائز ہونے کا فتویٰ ضرورۃً دے دیا اس لئے کہ پہلے معلموں کو بیت المال سے عطیات ملتے تھے جوکہ ختم ہو گئے پس اگر اجرت کے دینے اور لینے کو ناجائز کہا جائے تو قرآن کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے جس میں دین کا ضیاع ہے اس لئے کہ معلمین بھی تو کھانے کمانے کے محتاج ہیں، اصحاب تخریج و ترجیح ان حضرات کے بعد گزرے انہوں نے اذان و اقامت کے بارے میں بھی جوازاًاجرت کا فتویٰ دے دیا اس لئے کہ یہ دونوں شعائر میں سے ہیں ضرورۃً ان دونوں کے بارے میں بھی اجرت لیناجائزقراردیا.یہ ان لوگوںکے فتاویٰ ہیںجو امام ابوحنیفہ(رح)اوران کے اصحاب کے بعدگزرے ہیںاورانہوں نے اس یقین کے ساتھ دیا کہ اگر وہ حضرات بھی ان کے دور میں ہوتے تو وہ بھی یہی کہتے اور اپنے پہلے قول سے رجوع کر لیتے، تمام متون و شروح و فتاویٰ بالاتفاق اس بات کو نقل کرتے ہیںکہ مندرجہ بالاچیزوں کے علاوہ اور چیزوں پر اجرت لینا جائز نہیں اور اس کی علت، ضرورت بیان کرتے ہیں یعنی دین کے ضیاع کا خطرہ اور اس علت کی ان حضرات نے تصریح کر دی ہے۔

اس کے علاوہ تعلیم قرآن پراجرت کے جائز ہونے کی جو منصوص دلیلیں اور نظیریں ہیں وہ بھی بہت قوی ہیں اور منشائ دین سے قریب ہیں،اس کے برخلاف جو روایات تعلیم قرآن پر اجرت کے نادرست ہونے کو بتلاتی ہیں وہ عموماً مبہم ہیں اور اس مقصد میں بے غبار نہیں.ان کی تطبیق کی یہ شکل بہت بہتر ہے کہ جس سے جائز نہ ہونا معلوم ہوتا ہے.اس کو تقویٰ پر محمول کیا جائے اور یہ حکم ان علمائ کے بارے میں ہو جو اس کے ضرورت مند نہ ہوں اور اس سے مستغنی ہوں اور جہاں اجازت ہے وہ ازروئے فتویٰ ہو اور ان لوگوں کے لئے ہو جو واقعی اس کے ضرورت مند ہیں جیسا کہ بیہقی(رح) کی روایت میں ہے، جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ اجرت کی حق دار قرآن مجید ہے۔’’احق مااخذ تم علیہ اجرا کتاب اللّٰہ‘‘﴿المیزان الکبریٰ:۲،۹۰۱﴾

احناف(رح) کے یہاں ناجائز ہونے کے باوجود چونکہ ضرورۃًاس کی اجازت دی گئی ہے، اس لئے ان ہی امور میں اجرت لینی درست ہو گی جو ایک طرف تو ایسی ضرورت ہو کہ اس کو نظرانداز کر دینے سے دین کی بڑی مصلحتوں کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو، دوسری طرف وہ کام خود ایسا ہو کہ اس کے لئے مستقل وقت درکار ہو۔

تعطیلات اوررخصتوں کی تنخوا ہیں
یہاںایک مسئلہ یہ ہے کہ مدرسین اور خادمین دین کو جن کا ہفتہ میں ایک دن تعطیل کا ہوتا ہے یا سال میںبعض طویل تعطیلات دی جاتی ہیںان کی تنخوا ہیں دی جائیں گی یا نہیں؟

اس سلسلہ میں یہ اصول ذہن میں رکھنا چاہئے کہ مدرسہ کی انتظامیہ کی حیثیت عوام کی طرف سے وکیل اور نمائندہ کی ہوتی ہے اور مدرسین بالواسطہ عوام کے اجیرہوتے ہیں،اس طرح چندہ دینے والے عام لوگ مدرسین کے لئے جتنے دنوں کی رخصت باتنخواہ اور عام تعطیل کو گوارہ کریں اتنے دنوں اساتذہ کے لئے اس کا حق حاصل ہے،یہی حال بیماری کی رخصت کا بھی ہے۔

اب ظاہر ہے کہ ہر چندہ دینے والے سے اس کی تحقیق اور اس پر رائے لینا دشوار نہیں تقریباً محال ہے، ان حالات میں دراصل عرف و عادت کااعتبارہے اورعرف یہ ہے کہ مدرسہ کی بڑی تعطیلات عموماً مشہور ہیں اور باتنخواہ اتفاقی اور مرض کی وجہ سے رخصت کا ضابطہ بھی عام ہے اس کے باوجود عام مسلمان،مدرسوں کا تعاون کرتے ہیں اور اس پر اعتراض نہیں کرتے،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیںیہ رخصتیں اور تعطیلات گوارہ ہیں،لہٰذا ان کا تنخواہ لینا اور دینا جائز ہوگا۔

چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری(رح) نے’’العادۃ محکمۃ‘‘ کے اصول کے تحت اسے جائزرکھاہے اوریہی رائے علامہ شامی(رح) کی بھی ہے اور فقیہ ابو للیث(رح) کی بھی، فرماتے ہیں:
’’جہاں منگل اور جمعہ کو نیز رمضان کی اور عیدین میں تعطیل رہا کرتی ہو ان دنوں کی تنخواہ لیناحلال ہے،ایسے ہی اگر خلاف عادت کسی دن درس قلم بند کرنے کے لئے فرصت دے دی تو بھی تنخواہ لے سکتا ہے سوائے اس کے کہ وقف کرنے والا صرف ان ہی ایام کی تنخواہ دینے کی قید لگا دے جس میں درس ہواکرے.فقیہ ابو اللیث(رح) نے کہاکہ اگر استاد طلبہ سے ایسے دن کی اجرت بھی لے جس میں درس نہ ہواہوتوامید ہے کہ یہ جائزہوگا۔ ‘ ‘ ﴿ ر د ا لمحتا ر :۳،۸۳﴾
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 154113 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More