ایک شرعی مسئلہ

دراصل شرع شریف کا ایک کلّیہ قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کو خدا اور رسول اچھا بتائیں وہ اچھی ہے اور جسے برا فرمائیں وہ بری ہے اور جس سے سکوت فرمائیں یعنی شرع سے نہ اس کی خوبی نکلی نہ برائی کہ نہ اس کی ممانعت شریعت مطہرہ سے ثابت ہے نہ شریعت نے اس کے کرنے کا حکم دیا تو وہ چیز اباحتِ اصلیہ پر رہتی ہے اور اسے مباح قرار دیا جائے گا کہ اس کے کرنے میں کوئی ثواب نہیں اور نہ کرنے پر کوئی عذاب و عتاب نہیں۔

یہ قاعدہ ہمیشہ یاد رکھنے کا ہے کہ اکثر جگہ کام آئے گا۔ آج کل مخالفین حق اور اہل سنت و جماعت سے کٹ کر نئی راہوں پر چلنے والوں مثل وہابیہ دیوبندیہ نے یہ روش اختیار کرلی ہے کہ جس چیز کو چاہا، شرک، حرام، بدعت ضلالت کہنا شروع کردیا۔ اس پر طرہ یہ کہ اہل سنت سے پوچھتے ہیں تم جو ان چیزوں کو جائز بتاتے ہو قرآن و حدیث میں کہاں جائز لکھا ہے۔ حالانکہ ان کو اپنی خوش فہمی سے اتنی خبر نہیں کہ جائز کہنے والا کسی دلیل کا محتاج نہیں۔ جو ناجائز کہے وہ قرآن و حدیث میں دکھلائے کہ ان افعال کو کہاں ناجائز لکھا ہے۔ ورنہ شریعت کسی کی زبان کا نام نہیں کہ جسے چاہے آدمی بے دلیل حرام و ناجائز و ممنوع کہہ دے۔
اور فرقہ وہابیہ کے مبلغ اور ان کے بہی خواہ جو اس قسم کے مسائل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
مَن اَحدَثَ فِی اَمرِنَا ھٰذَامَا لَیسَ مِنہَََُ فَھُوَرَّدٌ
یعنی جو شخص دین میں نئی بات پیدا کرے وہ بات مردود ہے۔

تو یہ محض بے محل اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا ایک بہانہ ہے، ورنہ ان کے بڑے بھی یہ بات خوب جانتے ہیں کہ بدعت ضلالت وہی ہے جو دین میں نئی پیدا ہو اور دنیاوی رسوم و عادات پر حکم بدعت نہیں ہوسکتا
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 9 Articles with 10755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.