قرآن کے معنی اور اس کی وجہ تسمیہ

لفظ قرآن یا تو قرء سے بنا ہے یا قرء ۃ سے یا قرن سے ( تفسیر کبیر پارہ نمبر 2)

قرء کے معنے جمع ہونے کے ہیں ، اب قرآن کو قرآن اس لئے کہتے ہیں کہ یہ بھی سارے اولین و آخرین کے علوم کا مجموعہ ہے ( تفسیر کبیر روح البیان پارہ نمبر 2)

دین ودنیا کا کوئی ایسا علم نہیں جو قرآن میں نہ ہو ، اسی لئے حق تعالٰی نے خود فرمایا کہ نزلنا علیک الکتٰب تبیاناً لکل شئی ، نیز یہ سورتوں اور آیتوں کا مجموعہ ہے نیز یہ تمام بکھروں کو جمع کرنے والا ہے ، دیکھو ہندی ، سندھی ، عربی ، عجمی لوگ ان کے لباس ، طعام ، زبان ، طریق زندگی سب الگ الگ کوئی صورت نہ تھی کہ یہ اللہ تعالٰی کے بکھرے ہوئے بندے جمع ہوتے لیکن قرآن کریم نے ان سب کو جمع کو فرمایا اور ان کا نام رکھا مسلمان ، خود فرمایا سماکم المسلمین جیسے کہ شہد مختلف باغوں کے رنگ برنگے پھولوں کا رس ہے مگر اب ان سب رسوں کے مجموعے کا نام شہد ہے ، اسی طرح مسلمان مختلف ملکوں ، مختلف زبانوں کے لوگ ہیں ، مگر اب ان کا نام ہے مسلمان ، تو گویا یہ کتاب اللہ کے بندوں کو جمع فرمانے والی ہے ، اسی طرح زندوں اور مردوں میں بظاہر کوئی علاقہ باقی نہ رہا تھا ، لیکن اس قرآن عظیم نے ان کو بھی خوب جمع فرمایا کہ مردے مسلمان زندوں سے فیض لینے لگے کہ اسی قرآں سے ان پر ایصال ثواب وغیرہ کیا جاتا ہے ، اور زندہ وفات شدہ لوگوں سے کہ وہ حضرات اسی قرآن کی برکت سے ولی ، قطب ، غوث بنے اور ان کا فیض بعد وفات جاری ہوا ان شاء اللہ ان کی بحث وایاک نستعین میں آئے گی ۔

اور اگر یہ قرء ۃ سے بنا ہے تو اس کے معنی ہیں پڑھی ہوئی چیز ۔

تو اب اس کو قرآں اس لئے کہتے ہیں کہ اور انبیائے کرام کو کتابیں یا صحیفے حق تعالٰی کی طرف سے لکھے ہوئے عطا فرمائے گئے ، لیکن قرآن کریم پڑھا ہوا اترا ، اسی طرح کہ جبریل امین حاضر ہوتے اور پڑھ کر سنا جاتے اور یقیناً پڑھا ہوا نازل ہونا لکھے ہوئے نازل ہونے سے افضل ہے ، جس کی بحث دوسری فصل میں آتی ہے ، نیز جس قدر قرآن کریم پڑھا گیا اور پڑھا جاتا ہے اس قدر کوئی دینی دنیوی کتاب دنیا میں نہ پڑھی گئی ۔

کیونکہ جو آدمی کوئی کتاب بناتا ہے ، وہ تھوڑے سے لوگوں کے پاس پہنچتی ہے اور وہ بھی ایک آدھ دفعہ پڑھتے ہیں ، اور پھر کچھ زمانہ بعد ختم ہو جاتی ہے اسی طرح پہلی آسمانی کتابیں بھی خاص خاص جماعتوں کے پاس آئیں اور کچھ دنوں رہ کر پہلے بگڑیں پھر ختم ہوگئیں جس کا ذکر تیسری فصل میں ان شاء اللہ آئے گا لیکن قرآن کریم کی شان ہے کہ سارے عالم کی طرف آیا اور ساری خدائی میں پہنچا ، سب نے پڑھا بار بار پڑھا اور دل نہ بھرا ، اکیلے پڑھا ، جماعتوں کے ساتھ پڑھا اگرکبھی تراویح کی جماعت یا شبینہ دیکھنے کا اتفاق ہو تو معلوم ہوگا کہ اس عظمت کے ساتھ کوئی کتاب پڑھی نہ گئی ، پر لطف بات یہ ہے کہ اس کو مسلمان نے بھی پڑھا اور کفار نے بھی پڑھا ۔

لطیفہ !
ایک بار رام چندر آریہ نے حضرت صدر الافاضل رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ مجھے قرآن کریم کے چودہ پارے یاد ہیں بتائیے آپ کو میرا وید کتنا یاد ہے ؟ حضرت موصوف نے فرمایا ۔

یہ تو میرے قرآن کا کمال ہے کہ دوست تو دوست دشمنوں کے سینوں میں بھی پہنچ گیا ۔ تو تیرے وید کی یہ کمزوری ہے کہ دوستوں کے دل میں بھی گھر نہ کرسکا اور بقول تمہارے دنیا میں وید کو آئے کروڑوں برس ہوچکے ، لیکن ہندوستان سے آگے نہ نکل سکا ۔ مگر قرآن کریم چند صدیوں میں تمام عالم میں پہنچ گیا ۔

اور اگر یہ قرن سے بنا ہے تو قرن کے معنی ہیں ملنا اور ساتھ رہنا ۔
اب اس کو قرآن اس لئے کہتے ہیں کہ حق اور ہدایت اس کے ساتھ ہے ۔
نیز اس کی سورتیں اور آیتیں ہر ایک بعض بعض کے ساتھ ہیں ، کوئی کسی کے مخالف نہیں ، نیز اس میں عقائد اور اعمال اور اعمال میں اخلاق ، سیاسیات ، عبادات ، معاملات تمام ایک ساتھ جمع ہیں ، نیز یہ مسلمان کے ہر وقت ساتھ رہتا ہے ، دل کے ساتھ ، خیال کے ساتھ ، ظاہری اعضاء کے ساتھ اور باطنی عضووں کے ساتھ دل میں پہنچا ، اس کو مسلمان بنایا ، ہاتھ پاؤں ناک کان وغیرہ کو حرام کاموں سے روک کر حلال میں مشغول کردیا ، غرضیکہ سر سے لے کر پاؤں تک کے ہر عضو پر اپنا رنگ جمادیا ، پھر زندگی میں ہر حالت میں ساتھ بچپن میں ساتھ جوانی میں ساتھ بڑھاپے میں ساتھ ۔ پھر ہر جگہ ساتھ رہا تخت پر ساتھ ، تختے پر ساتھ گھر میں ساتھ ، مسجد میں ساتھ ، آبادی میں ساتھ ، جنگل میں ساتھ ، سوتے میں ساتھ ، جاگتے میں ساتھ ، مصیبت میں ساتھ ، آرام میں ساتھ ، سفر میں ساتھ حضر میں ساتھ ، غرضیکہ ہر حال میں ساتھ ، پھر مرتے وقت ساتھ کہ پڑھتے اور سنتے ہوئے مرے ، قبر میں ساتھ کہ بعض صحابہ کرام کو ان کی وفات کے بعد قبر میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے سنا گیا ، اور حشر میں ساتھ کہ گنہگار کو خدا سے بخشوائے ، پل صراط پر نور بن کر مسلمان کے آگے آگے چلے اور راستہ دکھائے اور بتائے اور جب مسلمان جنت میں پہنچے گا تو فرمایا جائے گا کہ پڑھتا جا اور پڑھتا جا ۔

غرضیکہ یہ مبارک چیز کبھی بھی ساتھ نہیں چھوڑتی ، اس کا دوسرا نام فرقان بھی ہے ، یہ لفظ فرق سے بنا ہے اس کے معنی ہیں فرق کرنے والی چیز قرآن کو فرقان اس لئے کہتے ہیں حق و باطل ، جھوٹ اور سچ ، مومن اور کافر میں فرق فرمانے والا ہے ، قرآن بارش کی مثل ہے دیکھو کسان زمین کے مختلف حصوں میں مختلف بیج بو کر چھپا دیتا ہے ، کسی کو پتہ نہیں لگتا کہ کہاں کونسا بیج بویا ہوا ہے ، مگر بارش ہوتے ہی جو بیج دفن تھا ، وہاں وہی پودا نکل آتا ہے ، تو بارش زمین کے اندررونی تخم کو ظاہر کرتی ہے ، اسی طرح رب تعالٰی نے اپنےبندوں کے سینوں میں ہدایت ، گمراہی ، سعادت ، شقاوت ، کفر و ایمان کے مختلف تخم امانت رکھے ، نزول قرآن سے پہلے سب یکساں معلوم ہوتے تھے ، صدیق و ابوجہل ، فاروق وابولہب، میں فرق نظر نہیں آتا تھا ، قرآن نے نازل ہوکر کھرا اور کھوٹا علیحدہ کردیا ، صدیق کا ایمان زندیق کا کفر ظاہرفرمادیا ، لہٰذا اس کا نام فرقان ہوا ۔ یعنی ان میں فرق ظاہر فرمانے والا -
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1264642 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.