کتب خانے ۔علم دوستی کے علمبردار

کتب خانہ جس کو انگریزی میں لابئریری کہا جا تا ہے لفظ لائبریری لاطینی زبان ’’لبرا ‘‘سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھال اور کتاب کے ہیں ۔ لائبریری کا لفظ پڑھنے، تحقیق کرنے یا دونوں مقاصد کیلئے باقاعدہ کسی ایک جگہ کتب و مخطوطات کو اکھٹا کرنے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ کتب خانہ کا بنیادی مقصد علم کی حفاظت اور ترسیل ہے ۔ مسلمانوں نے کتب خانوں کو ’’معلوماتی مرکز‘‘ کا نام دیا تھا۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بنی نوع انسان کے تہذیب یافتہ دور میں قدم رکھتے ہی کتب خانوں کا آغاز ہو گیا تھا ۔ انسان کا دنیا میں آنکھ کھولتے ہی لکھنے پڑھنے کی رجحان تھا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے مٹی کی تختیوں ، جانوروں کی جھلی اور لکڑی کی تختیوں کو استعمال کیا گیا بعد ازاں چین میں کاغذ کی ایجاد عمل میں آئی ۔

فن تحریر کے ساتھ ہی کتب خانوں کے قائم ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا ۔ قدیم دور کے کتب خانوں میں آشور بنی پال، کتب خانہ اسکندریہ اور کتب خانہ پرگامم قابل ذکر ہیں ۔ آشور بنی پال کے کتب خانے میں دولاکھ تیس ہزار مٹی کی تختیاں تھیں اور اس کتب خانے کو پہلا عوامی کتب خانہ بھی کہا جاتا ہے ۔ جبکہ پرگامم کا مواد پیپرس رولز اور پارجمنٹ پر مشتمل تھا اور یہ ذخیرہ دولاکھ کے لگ بھگ تھا۔ دنیا کا پہلا منظم کتب خانہ اسکندریہ تھا اور اس میں منہ مانگی قیمت پر کتب خرید کر رکھی جاتی تھیں اس میں میں رکھے گئے مواد کو مضامین کے اعتبار سے رکھا جاتا تھا ۔ اس کا قیام 323 ق۔م میں مصر میں عمل میں آیا اور اس میں ذخیرہ کتب سات لاکھ تھا۔ اس کی تعمیر و قیام میں بطیموس دوم نے اہم کردار سرانجام دیا تھا۔ پرانے وقتوں کے عظیم کتب خانوں کی دو اہم خصوصیات علم دوستی اور حکمرانوں کی ذاتی دلچسپی اور ان کی ہیت و تنظیم میں ہم آہنگی تھی۔ نجی کتب خانوں کا بانی ارسطو کو کہا جا تا ہے ۔ ارسطو نے کتب خانوں کی تنظیم و ترتیب سائنسی بنیادوں پر رکھنا شروع کی تھی۔ یونانی کتب خانوں میں ادب، تاریخ ، سائنس ، ریاضی ، فلسفہ ، مذہبیات ، سیاسیات اور اخلاقیات جیسے موضوعات پر ذخیرہ کتب زیادہ تھا۔آپ کو یہ بات جان کر شاید حیرت ہو کہ مغل بادشاہ ہمایوں وہ بادشاہ تھا جو کتب خانہ کی سیڑھیوں سے پھسلا اور بعد میں انتقال کر گیا۔

تعلیم اور کتب خانے ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں کوئی تعلیمی درسگاہ ایک منظم کتب خانے کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی ۔ تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہو سکتیں لہذا تحقیقی ضروریات کیلئے اضافی کتابوں کا ہونا ضروری ہے۔ جنہیں منظم تعلیمی کتب خانوں کی صورت میں رکھا جا سکتا ہے۔ معاشرتی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہوں۔ عوام کی علمی سطح جتنی بلند ہوگی ملک اتنی ہی ترقی کرے گا۔علم کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہمارے سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں مگر ان میں صرف نصابی تعلیم دی جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے علم کی انتہائی نہیں بلکہ لوگ یہاں سے اپنے راستے سے آگاہ ہوتے ہیں۔ عملی زندگی کے راستے پر مسلسل گامزن رہنے کا ذریعہ کتب خانے ہیں۔ ان کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ صحیح معنوں میں علم کے حصول کا ذریعہ ہیں ۔ لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو راستہ تعلیمی ادارے سے نکلتا ہے وہ کتب خانہ میں آکر ختم ہو جاتاہے ۔ کیوں کہ یہ کسی بھی شخص کی معلومات کا بہترین ذریعہ ہیں۔یہاں پر ہر قسم کا علم بغیر کسی پابندی اور رکاوٹ کے مل جاتا ہے ۔

پاکستان میں بہت سے تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جہاں لائبریری کا سرے سے وجو د ہی نہیں ہے کتب خانوں سے نوجوان نسل کی دوری کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے شاید ان کے کرتا دھرتا لائبریری کی اہمیت و قدر سے واقف نہیں ہیں اور چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں تعلیمی ادارہ قائم کر کے محض روپیہ تو کما رہے ہیں لیکن طلبہ میں علم کی جستجو اور قدر کو اجاگر نہیں کر رہے ہیں۔ اور طلبہ اپنا وقت مختلف قسم کے کھیلوں میں صرف کر دیتے ہیں اور ان کو کچھ بھی سیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ جب کہ ان کا رجحان اگر تعلیم کی طرف کر دیا جائے تو یہ ملک کی ترقی و خوشحالی میں بہتر طور سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں شرح خواندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے طلبا تعلیم کی طرف مناسب رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے کسی فنی ہنر سیکھنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں تاکہ روزگار کی فراہمی آسان ہوسکے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی دلچسپی نصابی کتب سے ہٹ کر دیگر موضوعات پر مطالعہ کرنے کی ترغیب نہیں دی جا تی ہے جس کی وجہ سے وہ حصول تعلیم کو بوجھ سمجھتے ہوئے اس سے چھٹکارہ حاصل کر لیتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ محبوبہ جب بیوی بن جائے تو بو ر کرنے لگتی ہے ‘‘۔اس طرح سے ایک دلچسپ کتاب بھی نصاب میں داخل ہو کر بوریت کا سبب بن جاتی ہے کہ اس کو بار بار پڑھنا پڑتا ہے اور اسطرح سے تخلیقی قوت کو ابھارنے کی صلاحیت کھو جاتی ہے۔ لہذا اسطرح کے اقدامات کرنے چاہیے کہ طلبا میں ذوق مطالعہ پیدا ہو جائے اور وہ مرتے دم تک کتب سے دوستی کبھی دستبردار نہ ہوں ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ"Child is the father of man"بچہ ہی مستقبل کا باپ ہے آج کے والدین کل بچے تھے اور آج کے بچے ہی کل کے اچھے اور ذمہ داری شہری ہونگے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انکی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ ان میں فروغ مطالعہ کی عادت پختہ ہوجائے تاکہ وہ تمام عمر حصول علم میں مگن رہ سکیں۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 479032 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More