تخلیقِ آدم علیہ السلام

تقریر۔ پیرطریقت حضرت علامہ پیرمحمدامیرسلطان قادری چشتی سجادہ نشین دربار عالیہ چشتیہ اکبریہ اوگالی شریف خوشاب
مرسلہ علامہ محب النبی قادری اکبری کوہاٹ
نحمد ونصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد فاعوذباﷲ من الشیطن الرجیم، بسم اﷲ الرحمن الرحیم
محترم حضرات ! یہ دیار حبیب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیات طیبہ کے ساتھ زندہ جلوہ گر ہیں، مدینہ منورہ کا ایک ایک ذرّہ قابل صد احترام ہے، یہ وہ پاک مقام ہے جہاں دس سال متواتر قرآن پاک نازل ہوا اور جہاں بار بار جبریل علیہ السلام کو بارگاہ نبوت کی حاضری کا شرف حاصل رہا، عظمت ورفعت کے اس احساس کے ساتھ میں نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ چند کلمات عرض کرتا ہوں!
ارشاد ہوتا ہے کہ واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ(پارہ 1سورۃ بقرہ، آیت30) ”اور (یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا بے شک میں بنانے والا ہوں زمین میں (اپنا) نائب“۔

اے محبوب! آپ یاد فرمائیں ”اذ قال ربک“ جب آپ کے رب نے فرمایا، یاد وہ چیز دلائی جاتی ہے جو کسی کے علم سے متعلق ہو، جو چیز کسی کے علم میں ہے ہی نہیں، اسے یاد دلانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، معلوم ہوا کہ جب اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے یہ فرمایا تھاکہ میں زمین میں ایک خلیفہ بناﺅں گا تو اس وقت حضور تاجدار مدنی محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا کہ میرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ انی جاعل فی الارض خلیفہ کہ بے شک میں بنانے والا ہوں زمین میں (اپنا) نائب، تو پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام کے بنائے جانے سے پہلے موجود تھے اور یہ بات حدیث شریف میں بھی آئی ہے کہ ”کنت نبیاوآدم بین الروح والجسد“کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی تھے جب آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے، اس حدیث کو امام ترمذی نے ترمذی شریف میں حسن صحیح کے ساتھ روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقط موجود ہی نہیں تھے بلکہ اس بات کا علم بھی رکھتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے یہ فرمایا ہے، اﷲ اکبر ! یہی وجہ ہے کہ”انا اولھم خلقا واٰخر ھم بعثا“ کہ پیدا ہونے میں سب نبیوں سے پہلے ہوں اور تشریف لانے میں سب نبیوں کے بعد، حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہونے میں اگر سب نبیوںسے پہلے نہ ہوتے تو اذ قال ربک للملٰئکۃ والی بات کیسے بنتی؟ ابھی ´حضرت آدم علیہ السلام پیدا نہیں ہوئے تھے، ابھی آپ کا جسم اور آپ کی روح تخلیق کے مراحل میں تھی کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ گر تھے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فقط موجود ہی نہیں تھے بلکہ صفت علم، صفت سمع، صفت بصر اور میرے آقا تمام صفات حسنہ اور صفات محمودہ کے ساتھ موصوف تھے اور یہی وجہ ہے کہ میرے رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احمد اور محمد رکھا، میں اس وقت لفظ احمد اور محمد پر گفتگو نہیں کرسکتا....ہاں اس وقت سلسلہ کلام جو جاری ہے وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے پیدا فرمایا اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان رنگ وبو میں تشریف بعد میں لائے، گویا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اوّل بھی ہیں اور آخر بھی ہیں، خلقت کے اعتبار سے اوّل ہیں اور بعثت کے لحاظ سے آخر ہیں، بلکہ میں اصرار کروں گا کہ جو اوّل ہوتا ہے وہی آخر ہوتا ہے، بظاہر یہ بات شاید سمجھ میں نہ آتی ہو ، لیکن میں اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا چلوں کہ جو اوّل ہوتا ہے وہی آخر ہوتا ہے، دیکھئے آپ ایک کھجور کا درخت لگانا چاہتے ہیں، سب سے پہلے آپ کھجور کی گٹھلی زمین میں بوئیں گے، اس سے نہایت نرم ونازک پودا اُگے گا اور وہ آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے ایک تناور درخت بن جائے گا، اس درخت پر پھل لگے گا، یہ کھجوریں تیار ہوجائیں گی، پک جائیں گی، پھر آپ ان کھجوروں کو درخت سے توڑ لیںکے، ان کا گودا کھائیں گے اور آخر میں گٹھلی رہ جائے گی، سب سے پہلے گٹھلی جو آپ نے زمین میں بوئی تھی، یہی کھجور کی اصل ہے۔

حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم اوّل ہیں اور اوّل اس لئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصل ہیں ، اور اصل اوّل ہوتی ہے، اصل نہ ہو تو فرع کا وجود کہاں سے ہو؟ جڑ نہ ہو تو تنا، شاخیں اور پتے کہاں سے ہوں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فقط یہ نہیں کہ انبیاءکی اصل ہیں کہ تمام نبیوں سے خلقت میں پہلے اور بعثت میں بعد میں ہیں، بلکہ اٹھارہ ہزار عالم کی اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں بلکہ یوں کہئے کہ اٹھارہ ہزار عالم کا وجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دامنِ محمدیت میں اس طرح چھپا ہوا تھا جیسے گٹھلی میں پورا درخت، جو چیز اندر نہ ہو وہ باہر آہی نہیں سکتی، مَیں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کبھی کھجور کے پیڑ میں سے آپ نے سیب کا درخت پیدا ہوتا دیکھا ہے؟ دوسرے درخت سے آپ کو سیب کا درخت نہیں ملے گا، کیوں اس لئے کہ سیب کے پھل کی حقیقت اس گٹھلی میں موجود ہی نہیں ہے تو باہر کیسے آئے گی، کیا آپ کبھی آم کے پودے سے انگور کے پھل حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا آپ مرغی کے انڈے سے کبوتر کا بچہ حاصل کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ اس کی حقیقت اس کے اندر ہے ہی نہیں اور جو چیز اندر نہ ہو ، وہ باہر کیسے آئے گی؟ اس لئے میں کہتا ہوں کہ جس چیز کا وجود حقیقت محمدیت کے دامن میں نہیں تھا ، وہ قیامت تک باہر آہی نہیں سکتی، ساری کائنات کے لئے اصل الاصول حضور تاجدار مدنی محمد مصطفےٰ احمد مجتبےٰ ہیں۔

تو میں عرض کررہا تھا کہ تمام حقائق کائنات میرے آقا کے دامن میں ہیں اور جو اوّل اور آخر ہوتا ہے، سب کچھ اسی کے دامن میں ہوتا ہے، اٹھارہ ہزار عالموں کی حقیقت آپ کے دامن اقدس میں اس طرح مستور ہے جیسے کہ گٹھلی اندر کے تمام درخت مستور ہوتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اگر آپ کے ذہن میں کوئی خلش ہوتو وہ ابھی دور کرلیں ، میرے جانے کے بعد اگر آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہوئے تو میں ان کا جواب کیسے دے پاﺅں گا، اس مقام پر ایک سوال ذہن میں آسکتا ہے، اس کا جواب دیتا چلوں کہ جب اٹھارہ ہزار عالم میں سب کچھ آگیا، گویا اس میں مومن بھی آگئے اور کافر بھی، مواحد بھی آگئے اور مشرک بھی اور اس میں چرند، پرند، درند بمع سب غلاظتوں کے آگئے، نعوذ باﷲ تو کیا یہ سب چیزیں حضور کے دامنِ اقدس میں تھیں؟

اب میں اس شبہ کا ازالہ کردوں کہ جو چیز لطیف ہو اس میں نجاست یا غلاظت نہیں ہوا کرتی، اور جو لطافت کے درجہ سے گر جاتی ہے تو اس میں نجاست آجاتی ہے، مثال دیتا ہوں، آپ نے کئی مرتبہ مرغی کے انڈے کھائے ہوں گے، ہم ان انڈوں سے مرغی کے بچے حاصل کرسکتے ہیں، اب مرغی کے ان بچوں میں پر بھی ہیں اور ٹانگیں بھی، گوشت بھی ہے اور ہڈیاں بھی، چربی بھی ہے اور خون بھی، سر بھی ہے اور چونچ بھی، آنکھیں ہیں اور کان بھی، گویا یہ تمام چیزیں انڈے کے اندر موجود تھیں، اس کے باوجود ہم سالم انڈہ کھاگئے، ہمیں کوئی کراہت محسوس نہ ہوئی اور ہم نے کچھ تردد محسوس نہ کیا، بے دریغ، بے دھڑک ہم انڈہ کھا گئے، میں آپ کو یہ پہلے بتا چکا کہ جو چیز اندر نہ ہو وہ باہر نہیں آسکتی، تو پتہ چلا کہ تمام چیزیں یعنی پر، ہڈیاں، خون وغیرہ لطافت کے درجہ سے نیچے نہیں آئی تھیں، اس لئے ہم انڈے کو کھا گئے، یہ سب چیزیں پاک تھیں، کھانے کے قابل تھیں، جب یہ چیزیں لطافت کے درجے سے کثافت کے درجے میں آئیں تو ناپاک ہوگئیں، تو پتہ چلا کہ اٹھارہ ہزار عالم کی حقیقت جب دامن مصطفےٰ سے وابستہ رہی تو پاک رہی اور جب الگ ہوئی تو ناپاک ہوگئی، اب تمہاری لطیف حقیقتیں مصطفےٰ کے دامن سے نکل گئی ہیں ، تم کثافت ا ور نجاست کے ڈھیر میں چلے گئے ہو، اگر تم ان کے دامن سے لپٹے رہتے تو کوئی حقیقت تمہیں ناپاک نہیں کرسکتی تھی، تم پاک ہی رہتے، تو اب پاک اور ناپاک کا فرق یہی رہا کہ جو دامن مصطفےٰ سے لپٹا رہا تو وہ پاک رہا اور جو الگ ہوا وہ ناپاک ہوا، معلوم ہوا کہ کائنات کی ساری حقیقتیں دامن محمدیت میں موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی یہ اعتراض نہیں کرسکتا کہ یہ ناپاک چیزیں دامن محمدیت سے تعلق رکھتی ہیں، کیونکہ وہ تمام ناپاک چیزیں لطیف تھیں اور لطیف چیزیں لطافت کے مرتبہ میں ہوں تو وہ نجس نہیں ہوا کرتیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی دوبارہ پاک ہونا چاہے تو کیا ہو سکتا ہے؟ اگر ہم نجاستوں اور غلاظتوں میں لتھڑنے کے بعد پھر دامنِ مصطفےٰ سے وابستہ ہو جائیں تو کیا پھر پاک ہو سکتے ہیں؟ تو اس کے لئے میں ایک مثال دیتا ہوں کہ لوگ کھیتی باری بھی کرتے ہیں اور اپنے پودوں کو کھاد بھی ڈالتے ہیں جو کہ نجس ہوتی ہے اور پودوں کی غذا بنتی ہے، اگر پودا غلہ کا ہے تو کھاد غلہ بن جاتی ہے، اگر سبزی کا ہے تو کھاد سبزی بن جاتی ہے اور ہم سب ان چیزوں کو مزے سے کھاتے ہیں، اگر آپ سے کوئی کہہ دے کہ یہ کھانا نجس ہے کیونکہ یہ کھاد کی تاثیر سے تیار ہوا ہے تو آپ اس کو کیا جواب دیں گے؟ آپ یہی جواب دیں گے کہ جب ناپاک اور نجس چیز کسی پاک چیز میں پنہاں ہوجائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے، اسی لئے تو فرمایا کہ”فاتبعونی“ کہ میری اتباع کرو اگر پاک ہونا چاہتے ہو تو میرے دامن میں آجاﺅ، یہیں سے تمہیں پاکی ملے گی، پہلے بھی یہیں پاکی تھی اور اب آخر میں بھی یہیں پاکی ہے اور آپ ﷺ ہم بے چاروں کی ناپاکی دور کرنے کے لئے ہیں، اس لئے قرآن نے فرمایا ” یتلو علیھم اٰیتہ ویزکیھم“ جو تلاوت کرتا ہے ان پر اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے۔(پ4، سورۃ آل عمران،) اﷲ اکبر

تمہارا تزکیہ کرنا تو انہیں کا کام ہے، اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ لقد من اﷲ علی المومنین(پ4، سورۃ آل عمران، آیت۳۶۱) بے شک اﷲ نے بڑا انعام کیا مومنین پر،”علی المومنین“ میں مومنین جمع ہے، معلوم ہوا کہ ایک مومن سے لے کر قیامت تک کے مومن”المومنین“ کے اندر شامل ہوگئے، کوئی فرد باقی نہ رہا، خواہ وہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہوں، پہلے ہوں، بعد میں ہوں، ماضی میں ہوں، حال میں ہوں یا مستقبل میں ہوں، کہیں ہوں وہ سب المومنین کے عموم میں شامل ہیں، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ایمان والو میں نے تم پر بڑا احسان کیاہے، اور وہ احسان یہ ہے کہ وہ محبوب تمہیں عطا فرمایا ہے جو تم پر اﷲ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور وہ علم وحکمت تمہیں سکھاتا ہے اور وہ تمہیں پاک کرتا ہے۔

عزیزان محترم وقت نہیں ہے کہ اس آیت پر تقریر کروں ، فقط”یزکی“ پر گفتگو کرکے بات کو آگے بڑھاتا ہوں، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” یزکیھم “ یزکیھم میں جو ضمیر ہے وہ منصوب ہے اور”یزکیھم“ میں اس ضمیر منصوب کا مرجع کون ہے؟ اس کا مرجع ”المومنین“ ہیں، تو یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ”المومنین“ میں سارے مومن آگئے خواہ کسی زمانہ سے تعلق رکھتے ہوں، ابتداءسے قیامت تک سب مومن آگئے ، یعنی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا رسول سب مومنین کو پاک کرتا ہے، اب میں پوچھتا ہوں کہ رسول پاک کرنے والے ہیں اور مومن پاک ہونے والے ہیں، تو جب تک پاک کرنے والا پاک ہونے والوں سے نہ ملے تو پاک ہونے والے پاک کیسے ہوں گے؟ دیکھئے میں مثال دیتا ہوں کہ یہ میرا کپڑا ناپاک ہوگیا ہے تو کیسے پاک ہوگا؟ اور کون سی چیز پاک کرے گی اور کیسے پاک ہوگا؟ تو یہ پانی سے پاک ہوگا، اگر ناپاک کپڑا یہاں ہو اور پانی وہاں ، تو کیا ناپاک کپڑا پاک ہوگا؟ ہرگز نہیں ہوگا، کپڑا جبھی پاک ہوگا جب کپڑا پانی کے قریب ہوجائے گا اور یہ ناپاک کپڑے اور پانی کا ملاپ ہوجائے گا، جب تک یہ پانی سے نہ ملے گا پاک نہیں ہوسکتا، تو جب تک رسول اور مومن کا ملاپ نہ ہو ، مومن پاک ہو ہی نہیں سکتا، یہ میں نہیں کہتا قرآن کہتا ہے”النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم“(سورة الاحزاب، آیت۶) یہ نبی ایمان والوں کے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں، یعنی تمہاری جانیں توتم سے دور ہوسکتی ہیں مگر نبی تمہاری جانوں سے دور نہیں ہوسکتے، ”النبی اولیٰ بالمومنین“ کے معنی تین ہیں۔
(۱)۔ اولیٰ بمعنی اقرب(سب سے زیادہ قریب)
(۲)۔ اولیٰ بمعنی بالتصرف(سب سے زیادہ تصرف والا)
(۳)۔ اولیٰ بمعنی احب(سب سے زیادہ پیارا)
(۱)۔ اولیٰ کے جتنے معنی دنیا میں ہوسکتے ہیں وہ تمام معنی ان تین معنوں میں آسکتے ہیں اور ان تین معنوں کا مفہوم اس ایک لفظ اقرب میں آجاتا ہے، گویا اقرب کے اندر سب معنی آگئے۔
(۲)۔ اولیٰ بالتصرف کون ہوتا ہے؟ یعنی تصرف کا سب سے زیادہ حق دار وہی ہوتا ہے جو قرابت میں سب سے زیادہ قربت والا ہو، میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ایک نابالغ بچی ہے کہ اس کا باپ بھی زندہ ہے اور دادا بھی، ”ولی“ تو دونوں ہیں، لیکن اولیٰ بالتصرف باپ ہے نہ کہ دادا، کیونکہ دادا کا رشتہ باپ کے مقابلے میں دُور کا ہے، معلوم ہوا کہ جو اقرب ہوتا ہے وہی اولیٰ بالتصرف ہوتا ہے۔
(۳)۔ اسی طرح اولیٰ احب کے معنی میں بھی ہوتا ہے اور احب کے معنی زیادہ محبوب کے ہیں، محبت کے لئے ظاہری فاصلے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، محبوب وہی ہوتا ہے جو دل وجان سے زیادہ قریب ہو، اگر دل میں محبت نہ ہو تو زندگی ساتھ گزار دیجئے، فاصلے ختم نہیں ہوتے اور اگر محبت کا جذبہ پیدا ہوجائے تو ایک لمحہ ملاپ کا ساری زندگی پر محیط ہوجاتا ہے، محبت تو کہتے ہی قربت کو ہیں۔
دور ہوکر قریب ہوتے ہیں
فاصلے بھی عجیب ہوتے ہیں

اﷲ تعالیٰ نے فرمایاالنبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم، یہ نبی ایمان والوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں(پ۱۲، سورۃ الاحزاب، آیت۶) گویا نبی محترم ایمان والوں کے ساتھ اتنے قریب ہیں، اتنے قریب ہیں کہ ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں، میرا ایمان ہے کہ میری جان مجھ سے دور ہوسکتی ہے مگر مصطفےٰ ﷺ مجھ سے دور نہیں ہیں۔

ایک شُبہ
اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ بھائی ! وہ قریب ہیں توکہاں ہیں؟ نظر نہیں آتے، ہم ان کی بات نہیں سُن سکتے، اُن سے ہم کلام نہیں ہوسکتے۔
شُبہ کا ازالہ
اے خدا کے بندے ! مصطفےٰ ﷺ کو دیکھنے کے لئے آنکھ چاہئے ، ہر آنکھ اُن کے دیدار کی تاب کہاں رکھ سکتی ہے، اور پھر سب کو محبوب دکھائے بھی نہیں جاتے، میں کہتا ہوں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نور اﷲ ہیں، نور اﷲ ہیں، نور اﷲ ہیں اور یہ بات ذہن میں رکھئے کہ نور کو نور کے بغیر دیکھا بھی نہیں جاسکتا، دیکھو بھائی! سورج کی روشنی وہ نور ہے کہ جس آنکھ میں نور نہ ہو، وہ سورج کی روشنی کو نہیں دیکھ سکتا، اگر ایک اندھے کو پکڑ کر کہیں کہ سورج کی روشنی کو دیکھ، وہ بے چارہ کچھ نہیں دیکھ سکے گا، وہ معذور ہے، کیونکہ وہ نور اس کی آنکھ میں ہے ہی نہیں، جس کی مدد سے وہ سورج کی روشنی کو دیکھ سکے، تو پتہ چلا کہ نور کو دیکھنے کے لئے نور ہی کی ضرورت ہوتی ہے، نابینا کی آنکھ میں نور ہی نہیں ہے ، تو وہ آفتاب کی روشنی کیا دیکھ سکے گا، وہ بے چارہ محروم ہی رہے گا۔

تو اب معلوم ہوا کہ اگر تمہیں رسول اکرم ﷺ نظر نہیں آتے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ نور نہیں ہیں، بلکہ تم خود بے نور ہو، اگر نابینا کو سورج کی روشنی نظر نہ آئے ، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورج روشن نہیں ہے، بلکہ یوں کہو کہ نابینا کے اندر بینائی نہیں ہے، میرے آقا ﷺ اگر کسی کو نظر نہ آئیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ موجود نہیں ہیں یا نور نہیں ہیں، بلکہ یہ کہو کہ دیکھنے والے کو وہ نور میسّر نہیں ، جو ان کا دیدار کرسکے، کیونکہ نور کے بغیر نور کا ادراک نہیں ہوا کرتا۔

عزیزانِ محترم ! فرشتوں کے نور ہونے میں تو کسی کو اختلاف نہیں، مسلم شریف کی صحیح حدیث ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے قال قال رسول اﷲ ﷺ خلقت الملئکۃ من نور(فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے)، حالانکہ تمہارے دائیں بائیں آگے پیچھے نورانی فرشتے موجود ہیں، اگر تم ذرا سی بتی جلا دو تو پورا کمرہ روشن ہوجاتا ہے اور تم سب کچھ دیکھ لیتے ہو، مگر تمہارے ارد گرد فرشتے ہیں، تمہیں تب بھی کچھ نظر نہیں آتا، ارے اﷲ کے فرشتے تو نور ہیں مگر تمہارے اندر ان کے نور کو دیکھنے کے لئے نور نہیں ہے، میرے آقا ﷺ کے نور کا انکار کرنا دراصل حضور کے نور کا انکار کرنا نہیں بلکہ اپنی بے نوری کا اقرار ہے۔
آنکھ والا تیرے جلوے کا تماشا دیکھے
دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے

آنکھ والے نے جمال مصطفےٰ کو دیکھا، اب اگر واقعات آپ کے سامنے لاﺅں تو سنتے سنتے تھک جائیں گے، مگر میں کہتے کہتے نہیں تھکوں گا، مگر کیا کروں اتنا وقت کہاں سے لاﺅں، حدیث کے حوالہ سے مختصر سی بات آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں، ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ طوافِ کعبہ فرمارہے تھے، حضور ﷺ نے سات چکر پورے کئے، آب زم زم نوش فرمایا، پھر مقام ابراہیم پر کھڑے ہوگئے جیسے آپ کسی کا انتظار فرمارہے ہیں، صحابہ بھی طواف کعبہ کررہے ہیں، انہوں نے ایک اجنبی شخص کو دیکھا جو طواف کعبہ فرمارہا تھا، چنانچہ وہ مقام ابراہیم پر حضور ﷺ سے ملے، سلام کیا، مصافحہ کیا اور چل دئیے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون تھے؟ سرکار نے فرمایا کیا تم نے ان کو دیکھا؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں ہم نے ان کو دیکھا، سرکار نے فرمایا ! یہ عیسیٰ بن مریم مجھے سلام کرنے آئے تھے، ابن عدی نے اس حدیث کو روایت کیا اور انس بن مالک اس حدیث کے راوی ہیں، اس وقت تو یہ کتاب میرے پاس موجود نہیں ہے، لیکن تفسیر روح البیان تمہارے پاس ضرور ہوگی جو علامہ اسماعیل حقی حنفی کی تصنیف ہے، یہ حدیث تفسیر روح البیان میں بھی آئی ہے، آپ یہ جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر ہیں اور آپ آسمان سے قربِ قیامت میں اُتریں گے، یہ تمام باتیں احادیث سے ثابت ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں سے نہیں آئے تھے؟لیکن اس وقت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر موجود تھے، وہ اس لئے کہ ابھی آپ کے نزول کا وقت نہیں آیا، گویا آپ آسمان پر موجود تھے اور آسمانوں ہی سے آئے تھے، تو پتہ چلا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر بھی موجود ہیں اور زمین پر بھی موجود ہیں، تو اگر عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں اور زمین پر ایک ہی وقت میں موجود ہوسکتے ہیں، تو کیا میرے آقا مومن کے دل میں اور باہر موجود نہیں ہوسکتے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کعبہ کا بھی طواف کررہے ہیں اور پھر اسی وقت آسمانوں پر بھی جلوہ گر ہیں، اور پھر قلب مومن وہ کعبہ ہے کہ”دل بدست آور کہ حج اکبر است“ ، اس لئے میرے محبوب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ قلب مومن کے اندر جلوہ گر ہیں، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم، یہ نبی ایمان والوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں، گویا نبی محترم ایمان والوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں، ایمان والو! تمہاری جانیں تم سے دُور ہوسکتی ہیں مگر مصطفےٰ ﷺ تم سے دور نہیں ہوسکتے، دور ہونا ان کی شان ہی نہیں، اگر ہم دور ہوجائیں تو یہ ہماری بد بختی اور بد نصیبی ہے۔

ایک شُبہ
آپ دل میں سوچیں گے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم دور ہوجائیں اور حضور ﷺ ہم سے دور نہ ہوں؟

شُبہ کا ازالہ
گرمیوں کے زمانہ میں جب سورج اپنی تمازت کے ساتھ تمام چیزوں کو گرم کررہا ہوتا ہے تو اس وقت آپ نے شامیانہ لگایا اور اس کے نیچے بیٹھ گئے، تو سورج کی دھوپ جو کہ سورج کا غیر نہیں ہے، آپ پر نہیں پڑرہی ہے، کیونکہ آپ شامیانہ کا حجاب لگا کر خود سورج کی ضیا سے دور ہوگئے ہیں، گویا ہم حجاب کی وجہ سے دور ہوگئے، گناہوں کے، غفلت کے، معصیت کے اور بشریت کے تقاضوں کے حجابات ہمارے اور رسول اﷲ ﷺ کے درمیان حائل ہوگئے، حضور ﷺ ہم سے جُدا نہیں ہیں، ہم یہ حجابات ڈال کر خود حضور ﷺ سے جُدا ہوگئے ہیں۔

شُبہ
کسی صاحب نے کہا کہ نبیوں کو شہیدوں اور ولیوں کو خدا تک پہنچنے کا وسیلہ قرار کیوں دیتے ہو؟ ایسا کرنا تو گویا خدا کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کرنا ہے، یہ تو تم نے خدا کی توہین کردی، کیونکہ خدا تک پہنچنے کے لئے کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں ہے،اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے” ونحن اقرب الیہ من حبل الورید “ اور ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں، وسیلہ تو صرف اس چیز تک پہنچنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے جو دُور ہو، جیسے چھت پر پہنچنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے کہ ہم چھت سے دور ہیں اور چھت ہم سے دُور ہے، بغیر سیڑھی کے ہم چھت کے قریب نہیں جاسکتے۔

شُبہ کا ازالہ
میں نے کہا خدا کو کون دُور کہتا ہے؟ خدا تو دور نہیں ہے، لیکن ایک بات میں نے اور بھی کہہ دی کہ جو قریب ہوگا وہ قریب کی آواز سنے گا یا دور کی؟ وہ قریب ہی کی آواز سنے گا، دور کی آواز تو وہی سنتا ہے جو دور ہو ، تو پھر تمہارا کہنا کہ”دور کی آواز تو خدا ہی سنتا ہے“ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا دور ہے جو دور کی آواز سنتا ہے، تو یہاں تم ”نحن اقرب الیہ من حبل الورید“ کیوں بھول گئے؟ خدا تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے وہ تو دور ہے ہی نہیں، تو پھر تم دور کی آواز کس کو سنا رہے ہو، گویا تمہیں خدا کا قریب ہونا اس وقت یاد آتا ہے جب اﷲ کے محبوب اور مقبول بندوں کی عظمت اور ان کے وسیلہ بننے کا بیان ہوتا ہے اور جب اﷲ والوں کی سماعت کا ذکر ہوتا ہے کہ وہ دور سے بھی اپنے چاہنے والوں، ارادت مندوں کی پکار سن لیتے ہیں، تو پھر تم اﷲ کو دور لے جاتے ہو اور کہتے ہوکہ دور سے سننا یہ اﷲ کی شان ہے، پتہ چلا کہ تمہیں اﷲ کے قریب یا دور ہونے سے نہیں ، اﷲ والوں کی عظمت وشان کے انکار سے غرض ہے، تو میں نے تمہیں بتایا کہ خدا تو ہم سے دور نہیں ہے لیکن ہم خدا سے دور ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم خدا کی بارگاہ میں رسائی کے لئے وسیلہ پکڑتے ہیں، یہ میں نہیں کہتا خدا خود فرماتا ہے”یایھا الذین اٰمنوا اتقواﷲ وابتغوا الیہ الوسیلۃ“ اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور وسیلہ ڈھونڈو، اور مجھے بخاری شریف کی حدیث بھی یاد آرہی ہے کہ اے میرے صحابہ تمہیں اﷲ تعالیٰ رزق دیتا ہے، بارانِ رحمت دیتا ہے، دشمنوں پر فتح عطا فرماتا ہے، سرکار نے یہ تین باتیں فرمائیں ، فرمایا ھل تنصرون وھل ترزقون الا بضعفالکم ، کہ تم کو بارانِ رحمت اور فتح اور روزی نہیں ملتی مگر اپنے ناچار اور غریبوں کے سبب سے، انہیں کے وسیلہ سے، انہیں کے صدقہ سے رزق، بارانِ رحمت اور دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ے، اے مدینہ کے رہنے والو! اہل صفہ کو ذہن میں لاﺅجن پر منافقین آوازے کسا کرتے تھے، سرکار نے فرمایا! تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمارے لئے بارش ہوتی ہے، ہمارے لئے رزق آتا ہے، ہمارے لئے اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں آتی ہیں، نہیں نہیں بلکہ انہیں کے لئے سب کچھ آتا ہے اور انہیں کے صدقہ میں تم کو بھی مل جاتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی ہوائیں اپنے محبوبوں اور ولیوں کے لئے بھیجی ہیں اور جو ان کے قریب ہیں ان پر بھی وہی رحمت کی ہوائیں پہنچ جاتی ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کھیتی باڑی ہوتی ہے تو آپ ان پودوں کو پانی دیتے ہیں ، جو پودے آپ اُگاتے ہیں، خواہ وہ سبزیاں ہوں یا غلہ، پھل دار درخت ہوں یا غیر پھل دار مگر پانی خود رو پودوں کو بھی مل جاتا ہے، یہ حضرات اصل مقصد کائنات ہیں ، اس لئے فرمایا”بحق ھل تنصرونوھک تنصرون وھل ترحمون الا بضعفا لکم“ ارے انہیں کے صدقہ میں تمہیں سب کچھ ملتا ہے۔ وما علینا الاالبلاغ المبین
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1273884 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.