دعوت نبویﷺ کا با وقار اور حُسین اسلوب

بسم اللہ الرحمن الرحمن

ترجمہ ”اپنے رب کی راہ کی طرف بلاﺅ حکمت اور اچھی نصیحت سے اور ان سے بہترین طریقے پر بحث کرو۔“

نبی اکرم ﷺ اعلان نبوت کے بعد مکہ معظمہ میں تیرہ سال دعوت اسلام میں مصروف رہے ۔اس عرصے میں تقریباً ایک سو افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ سرور کائنات ﷺ نے ان کی سیرت کی اس طرح تعمیر فرمائی کہ ان میں سے ہر فرد یگانہ روزگار بنا ۔یہ حضرات مہاجرین کے محترم لقب کے ساتھ ملقب ہوئے ۔ہجرت کے بعد حضور اکرم ﷺ سے براہ راست اکتساب فیض کرنے والے خوش قسمت حضرات صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ۔مدینہ منورہ کے خوش بخت صحابہ کرام انصار کہلاتے ہیں ۔نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں چار کارنامے نہایت نمایاں نظر آتے ہیں ۔
1۔دنیا کے سامنے دین اسلام پیش کیا ۔جو دنیا و آخرت کی کامیابیوں کی ضمانت ہے ۔
2۔نئی حکومت تشکیل دی۔
3۔عرب کے مختلف قبائل کو ایک امت اور ایک قوم بنا دیا ۔
4۔ایک ایسا قانون نافذ کیا جس کے سامنے تمام قوم نے سر تسلیم خم کیا ۔

یہ وہ کارنامے ہیں جنہیں انجام دینے کے لئے صدیوں کی ضرورت تھی ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تشریف لانے کے تین صدیوں بعد مسیحیت اس قابل ہو سکی کہ اپنا تحفظ کر سکے ۔نبی کریم ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے نئی حکومتیں قائم ہوتی رہیں ۔لیکن یہ حکومتیں ایسی قوموں میں قائم ہوتی رہیں جن میں پہلے سے بادشاہت کا نظام چلا آرہا تھا ۔لیکن ان میں نئی حکومت قائم نہ تھی ۔ان میں حکومت کے شعبے مختلف لوگوں میں بٹے ہوئے تھے ۔ایسی قوم میں مضبوط حکومت کا قائم کرنا ایسا واقعہ ہے جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔پھر عرب قوم مختلف اور متصادم قبیلوں میں بٹی ہوئی تھی ،ان قبائل کو ایک قوم کی صورت میں ڈھال دینے کے لئے طویل عرصے کی ضرورت تھی تب جا کر ان میں اجتماعیت پیدا ہو سکتی تھی ۔انہیں چند سالوں میں ایک قوم بنا دینا بھی تاریخ کا نادر واقعہ ہے ۔

پھر اس قوم میں تئیس سال کے مختصر عرصے میں ایسے قانون کا نافذ کر دینا ۔جو نہ صرف اس قوم کی ضروریات کو پورا کرتا ہو بلکہ اس کی ترقی کا بھی ضامن ہو اور پوری قوم کا بغیر کسی اختلاف کے اس قانون پر عمل پیرا ہوجانا بھی ایسا واقعہ ہے جس کی مثال پوری دنیا میں پیش نہیں کی جا سکتی ۔

یہ عظیم الشان کارنامے اس امر کی دلیل ہیں کہ ان کا انجام دینے والا اللہ تعالیٰ کا نبی اور رسول ﷺ بر حق ہے ۔ان کارناموں نے دنیا بھر کے مفکرین اور دانشوروں کو حیرت میں مبتلا کیا ہوا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایک ہستی نے مختصر ترین دور میں اتنا بڑا نقلاب کیونکر برپا کر دیا ؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید اپنے نبی اور رسول مکرم ﷺ کے شامل حال تھی اور یہ سب کچھ نبی اکرم ﷺ کی دعوت و تبلیغ کی معجزانہ تاثیر کا نتیجہ تھا ۔

یوں تو انبیاءو مرسلین جسمانی ،روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بہترین صفات کے حامل تھے ،تاہم رسول ہونے کے لئے چار اوصاف بنیادی حیثیت رکھتے ہیں :1۔ کامل و مکمل صداقت:یعنی ہر حال میں سچ کہنا ۔عہد ہو یاوعید ،خبر ہو یا کسی سوال کا جواب ،سنجیدگی سے گفتگو ہو یا مزاح سے ،اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کا ہر قول معیار صداقت پر پورا اترتا ہے اور واقع کے مطابق ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے رسول کے کسی بھی قول یا بیان میں جھوٹ کا پہلو پایا جاتا ہو تو لوگ اس پر اعتماد ہی نہیں کریں گے اور رسالت کی بنیاد ہی منہدم ہو جائے گی ۔

2۔قول فعل کی مطابقت:یعنی رسول اللہ ﷺ جو احکام بیان کرتے ہیں خود ان تمام احکام پر عمل کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت کی سب سے زیادہ معرفت رکھتے ہیں ۔لازمی بات ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کی مخالفت نہیں کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کی مخالفت خیانت ہے اور کوئی بھی خائن رسول بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔

3۔کامل اور مسلسل تبلیغ:اللہ تعالیٰ کے رسول کی شان یہ ہے کہ وہ لوگوں کی ناراضگی ،ایذاءرسانی اور مخالفت کی پروا نہیں کرتے ،اگر وہ لوگوں کے دباﺅ میں آکر احکام الہٰیہ کی تبلیغ سے کنارہ کش ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کا دعویٰ رسالت سچا نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ کے رسول کا مقام یہ ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے طالب ہوتے ہیں کسی دوسرے کی رضا یا ناراضگی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔

4۔عظیم عقل:کیونکہ لوگ آنکھیں بند کر کے اسی ہستی کی پیروی پر آمادہ ہوں گے جس کے بارے میں وہ سمجھتے ہوں کہ وہ عقل کے عظیم ترین مقام پر فائز ہے ۔ تب ہی انہیں اطمینان ہو گا کہ وہ شخصیت ہمیں غلط راستے پر نہیں لے جائے گی ۔اللہ تعالیٰ کے رسول کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ عقل مند ہو، تب ہی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہوئے پیغام اور احکام کے بارے میں اپنی قوم اور خاص طور پر دانشوروں اور پڑھے لکھے لوگوں کو مطمئن کر سکے گا اور مخالفین کے اعتراضات کے مثبت جواب دے سکے گا۔

جب کسی شخصیت میں یہ چاروں صفات پائی جائیں اور رسول ہونے کی دوسری علامات بھی پائی جائیں اور اس شخصیت کی سچائی کے قبول کرنے سے کوئی قطعی مانع بھی نہ پایا جائے تو ماننا پڑے گا کہ وہ واقعی دعویٰ رسالت میں سچا ہے ۔نبی اکرم سرور دو عالم ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنے سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ یہ چاروں اوصاف آپ کی ذات اقدس میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔

آپ کی صداقت کا اعتراف صرف اپنوں کو ہی نہیں ،بیگانوں کو بھی تھا ۔امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ ابو جہل نے نبی اکرم ﷺ کو کہا کہ ہم آپ کی تکذیب نہیں کرتے ،ہم تو اس پیغام کو جھٹلاتے ہیں جو آپ لائے ہیں ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: فانھم لا یکذبونک ولٰکن الظٰلمین بایات اللّٰہ یجحدون۔”اے حبیب ! یہ (کافر) آپ کی تکذیب نہیں کرتے ،لیکن ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔“(انعام :33)

ابو سفیان تجارت کے لئے ملک شام گئے ہوئے تھے جب رسول اللہ ﷺ کی طرف سے شاہِ روم ہر قل کو اسلام کا دعوت نامہ پہنچا ،اس نے ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں کو بلا کر چند سوالات کیے اور آخر میں ان جوابات پر تبصرہ کیا ۔ایک سوال اور اس کے جواب کا تذکرہ کرتے ہوئے شاہ روم نے کہا:” میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ دعویٰ رسالت سے پہلے آپ ان پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے ؟ آپ کا جواب نفی تھا ،مجھے اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ انسانوں کے بارے میں تو جھوٹ نہ بولیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹ بولیں ۔“

دوسری صفت قول و فعل کی مطابقت کا سب سے زیادہ شاندار مظاہرہ بھی نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ میں ملتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :بل اللہ فاعبد و کن من الشٰکرین ۔”بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور شکر ادا کرنے والوں میں سے ہو جاﺅ ۔“(الزمر 66)

امام بخاری و مسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکر م ﷺ رات کو اتنا قیام کرتے کہ آپ کے پائے مبارک میں ورم آجاتا ۔میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ! آپ اتنی دیر کھڑے ہو کر نماز کیوں پڑھتے ہیں ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے امور کی مغفرت فرمادی ہے ۔فرمایا :کیا میں شکر گزار بند نہ بنوں؟

امت کے لئے پانچ نمازیں فرض ہیں ،لیکن آپ باقاعدگی کے ساتھ تہجد بھی ادا فرماتے ۔امت پر رمضان کے روزے فرض ہیں مگر آپ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے ۔سفر و حضر میں ایام بیض (چاند کی تیرہ ،چودہ ،پندرہ تاریخوں) کے روزے رکھتے ۔شعبان کے اکثر روزے رکھتے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ :ذکر اللّٰہ علی کل احیانہ ۔”ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے ۔“

حصن حصین کا مطالعہ کیجئے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات اقدس کا ایک ایک لمحہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزرتا تھا ۔

تبلیغ اسلام کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ نے جس محنت اور تسلسل سے کام کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جس قدر تکلیفیں برداشت کیں ،دعوت و تبلیغ کی تاریخ میں اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی ۔حدیث شریف میں ہے :ما او ذی نبی مثل ما اوذیت۔”جتنی تکلیفیں ہمیں دی گئی ہیں کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔“

نبی اکرم ﷺ نے شخصی طور پر لوگوں سے رابطہ کیا ،عرب کے مختلف قبیلوں سے ملاقات کر کے اسلام کا پیغام پیش کیا ، تبلیغ دین کے لئے سفر کیا ،لوگوں کے اجتماعات میں تشریف لے گئے ،اپنے نمائندے بجھوائے ،وفود حاضر ہوتے اور مبلغ بن کر واپس ہوتے ،سلاطین اور امراءکو اسلام کی دعوت دی ، صحابہ کرام کو حکم دیا کہ دین کی تعلیم حاصل کریں اور دوسرے لوگوں کو تعلیم دیں ۔مجاہد ین کو حکم دیا کہ دعوت اسلام پیش کرنے سے پہلے جنگ نہ کریں ۔نیز تمام مسلمانوں کو تبلیغ اسلام کا حکم دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کا پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ گیا ۔

نبی اکرم ﷺ کا پیغام کیا تھا ؟ارشاد فرمایا:”اے لوگو! لا الہ الا اللہ “ کہو! کامیاب ہو جاﺅ گے ۔یعنی شرک چھوڑ دو ،اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود نہ مانو۔“

شاہِ روم نے دریافت کیا کہ وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں ؟ اس کے جواب میں ابو سفیان نے کہا کہ وہ کہتے ہیں :” اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراﺅ ۔تمہارے آباءو اجداد جو کچھ کہتے تھے اسے چھوڑ دو ،اس کے علاوہ وہ ہمیں نماز، سچائی ،پاکدامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں ۔“

یہ اعلان اہل مکہ کے لئے دھماکے سے کم نہ تھا ،ایک ایک فرد دشمن جان بن گیا ۔عقبہ بن ابی معیط نے آپ کے گلے میں چادر ڈال کر اس زور سے کھینچی کہ آپ گھٹنوں کے بل زمین پر آگئے ۔نماز پڑھتے ہوئے اونٹنی کی اوجڑی آپ کی پشت پر ڈالی گئی ،آپ کو سب و شتم کیا گیا ۔شاعر، کاہن اور جادو گر کہا گیا ،آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ،آپ کے صحابہ کرام کو اذییتیں دی گئیں ،بعض کو شہید کر دیا گیا ،تین سال تک شعب ابو طالب میں صحابہ کرام کے ساتھ محصور رہے ،اس عرصے میں مشرکین نے مکمل بائیکاٹ کیا ۔طائف والوں کو دعوت اسلام دی تو انہوں نے آپ پر پتھر برسائے یہاں تک کہ جسد اقدس لہو لہان ہو گیا ،نعلین شریفین خون مبارک سے تر ہو گئے ۔

نبی اکرم ﷺ عرب کے معزز ترین قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں ۔خود صداقت و امانت کا پیکر ہیں ،عمر شریف چالیس سال سے زیادہ ہے ،اپنی سابقہ زندگی کو بطور چیلنج پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :تمہیں میری پوری زندگی میں کوئی عیب دکھائی دیا ہے ؟ کسی کو انگشت نمائی کی جرات نہیں ہوتی ۔پھر مقصد کتنا عظیم ہے کہ اپنی قوم کو جہنم سے بچانا چاہتے ہیں ۔لیکن قوم ہے کہ پوری ڈھٹائی سے اپنے کفر پر مصر ہے ،سب و شتم کرتے ہیں ،حملے کرتے ہیں ،شہید کرنے کے منصوبے بناتے ہیں ،صحابہ کرام کو ناقابل برداشت اذیتیں دیتے ہیں ۔یہ سب کچھ برداشت کرنا اور اپنے مشن پر نہ صرف قائم رہنا ،بلکہ اسے کامیابی سے ہمکنار کرنا اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہی کا کام ہو سکتا ہے ،کوئی دوسرا شخص یہ عظیم کارنامہ انجام نہیں دے سکتا ۔

پھر اس عظیم راہنما ئی اور انتہائی قیمتی تعلیم پر کسی قسم کے معاوضے کا مطالبہ نہیں بلکہ صاف ارشاد فرمادیا جاتا ہے : لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربیٰ۔”ہم تبلیغ دین پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے ہاں ! ہماری قرابت اور رشتے داری کا پاس کرو!“

یعنی ہماری رشتے داری کا لحاظ کرتے ہوئے ہمارے قریب آﺅ حلقہ بگوش اسلام ہو جاﺅ ! یہ مطلب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ۔

نبی اکرم ﷺ کی دعوت و تعلیم کا ایک انداز یہ ہے کہ صحابہ کرام دنیا کی کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے تو آپ ان کی توجہ کا رخ کمال حکمت عملی سے اللہ تعالیٰ کی طرف پھر دیتے ۔ہو ازن کے قیدیوں میں ایک عورت بھی تھی جس کی چھاتی میں دودھ اترا ہوا تھا ۔اسے جو بھی بچہ ملتا اسے سینے سے چمٹا لیتی اور اسے دودھ پلاتی ۔نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ۔

تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ؟صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اس کے بس میں ہو تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالے گی ۔ فرمایا :یہ عورت اپنے بچے پر جس قدر مہربان ہے ۔اللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔

بعض اوقات صحابہ کرام کسی دنیاوی چیز کی طرف متوجہ ہوتے تو آپ ان کی توجہ آخرت کی طرف مبذول فرما دیتے ۔ایک دفعہ صحابہ کرام ریشمی کپڑے کو چھو کر دیکھ رہے تھے اور اس کی خوبصورتی کی تعریف کر رہے تھے ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :”جنت میں سندس کے رومال اس سے کہیں زیادہ بہتر ہیں ۔“

مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد جہاد کا حکم نازل ہوا ،یہ بھی دعوت اسلام کا ایک طریقہ تھا ،جنگ سے پہلے پیشکش کی جاتی کہ اسلام لے آﺅ ،یا ذمی بن جاﺅ ! اور اگر دونوں صورتوں میں سے کسی صورت کے لئے بھی تیار نہیں ہو تو جنگ کے لئے تیار ہو جاﺅ ! مستشرقین کا یہ کہنا کسی طرح بھی درست نہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ۔کیونکہ ذمی جب اسلامی سٹیٹ سے معاہدہ کر لیتے تھے تو انہیں اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا ۔

چوتھی صفت عقل کامل ہے ۔نبی اکرم ﷺ کی کامل ترین عقل کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے جس انقلاب کا منصوبہ پیش کیا تھا اسے آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں بر پا کر کے دکھادیا ۔آپ کی احادیث شریفہ کا مطالعہ کیجئے ! قرآن پاک کے بعد حکمت و دانش کا اتنا اہم خزانہ آپ کو کہیں نہیں ملے گا ۔اس میں شک نہیں کہ یونان میں بڑے بڑے مشہور فلا سفر پیدا ہوئے ،لیکن وہ سب گفتار کے غازی تھے ،ان میں کردار کا غازی کوئی بھی نہ تھا ،ان میں اخلاص و للہیت کے اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پائے کا ایک بھی نہ تھا ۔حق کی سختی کے ساتھ حمایت کرنے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ،سخاوت میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ،علم و حکمت اور شجاعت میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ،زہد میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ اور عبادت اور ریاضت میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا یونان والوں میں کوئی ثانی نہ تھا ۔جس محسن انسانیت کے شاگردوں کا یہ عالم ہو ،حکمت و دانش میں اس کا مد مقابل کون ہو سکتا ہے ؟

ماننا پڑے گا کہ حضور سید عالم ﷺ کا انداز تبلیغ اور اسلوب دعوت سب سے انوکھا ،سب سے نرالا اور سب سے زیادہ کامیاب تھا ۔جو ہر دور ہر زمانے اور ہر قوم و قبیلے کے لئے کامیابی و کامرانی کا سر چشمہ ہے ۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 612485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.