بدعت اور گناہ کبیرہ و صغیرہ

بدعت اس نئی چیز کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین میں نکلی ہو، پھر اس کی دو قسمیں ہیں، ایک بدعت ضلالت جس کو بدعت سیئہ بھی کہتے ہیں اور دوسری بدعت محمود ہ جس کو بدعت حسنہ بھی کہتے ہیں۔

بدعت سیئہ وہ نو پید بات ہے جو کتاب (قرآن) اور سنت (حدیث) اور اجماع امت کے مخالف ہو یا یوں کہنا چاہیے کہ جو نو پید بات کسی ایسی چیز کے نیچے داخل ہو جس کی برائی شروع سے ثابت ہے تو وہ بری اور بدعت سیئہ ہے اور یہ مکروہ یا حرام ہے۔

بدعت حسنہ
جو ناپید بات یا نئی چیز کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت کے مخالف نہ ہو وہ بدعت محمود یا بدعت حسنہ کہلاتی ہے یا یوں سمجھو کہ جو نئی بات کسی ایسی چیز کے نیچے داخل ہو جس کی خوبی شروع سے ثابت ہے۔ تو وہ اچھی بات اور بدعت حسنہ ہے اور بدعت مستحب بلکہ سنت د واجب تک ہوتی ہے۔

کسی نو پید بات کا بدعت سےّئہ یا حسنہ ہونا کسی زمانہ پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ کتاب و سنت اور اجماع امت کی موافقت یا مخالف پر ہے تو جس امر کی اصل ، شرع شریف سے ثابت ہو کہ کتاب و سنت اور اجماع کے مخالف نہ ہو وہ ہرگز بدعت سےئہ نہیں خواہ کسی زمانے میں ہو، خود صحابہ کرام اور تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں یہ رائج رہا ہے کہ اپنے زمانے کی بعض نوپید چیزوں کو منع کرتے اور بعض جو جائز رکھتے۔

حضرت امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تراویح کی نسبت فرماتے ہیں ’’نعمت البدعتہ ھٰذہِ‘‘ یہ اچھی بدعت ہے حالانکہ تراویح سنت موکدہ ہے سیدنا عبداللہ بن معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے کو نماز میں بسم اللہ بآواز پڑھتے سن کر فرمایا۔ ’’یا نبی محدث ایاک و الھد یث‘‘ اے میرے بیٹے ! یہ نوپید بات ہے۔ نئی باتوں سے بچ، تو معلوم ہو اکہ ان کے نزدیک بھی اپنے زمانے میں ہونے یا نہ ہونے پر مدار نہ تھا بلکہ نفس فعل کو دیکھتے اگر اس میں کوئی شرعی خرابی نہ ہوتی تو اجازت دیتے ورنہ منع فرما دیتے اور انھیں برا کہتے ۔

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک بات پیدا کرنے والے کو سنت نکالنے والا فرمایا تو قیامت تک نئی نئی باتیں پیدا کرنے کی اجازت فرمائی اور یہ کہ جو نئی بات نکالے گا۔ ثواب پائے گا اور قیامت تک جتنے اس پر عمل کریں گے سب کا ثواب اسے ملے گا، چاہے وہ عبادت ہو یا کوئی ادب کی بات یا کچھ اور ہو مگر یہ بات نہیں کہ جس زمانے کے جاہل جو بات چاہیں اپنی طرف سے نکال لیں اور وہ بدعت حسنہ ہو جائے۔ یہ گفتگو علمائے دین اور پابند شرع مسلمین کے بارے میں ہے کہ یہ جو امر ایجاد کر لیں اور اسے جائز ومستحب کہیں وہ بے شک جائز و مستحب ہے، چاہے کبھی واقع ہو تو اس نیک بات کا کرنے والا ہی سنی کہلائے گا نہ کہ بدعتی۔

خدا اور رسول کی نافرمانی یعنی احکام شریعت پر عمل نہ کرنا گناہ اور معصیت ہے۔ گناہ کرنے والا گناہگار یا عاصی کہلاتا ہے۔ گناہ آدمی کو خداسے دور کرتا اور اسے ثواب سے محروم اور عذاب کا مستحق بناتا ہے، گناہ کی دو قسمیں ہیں، صغیرہ اور کبیرہ۔

گناہ صغیرہ وہ گناہ ہے جس پر شریعت میں کوئی وعید نہیں آئی یعنی اس کی کوئی خاص سزا بیان نہیں کی گئی ہے۔ آدمی کوئی نیکی، عبادت، صدقہ ، اطاعت والدین وغیرہ کرتا ہے تو اس کی برکت سے یہ گناہ زائل ہو جاتا ہے۔ جیسے حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو بندہ وضوئے کامل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے۔ غرض یہ گناہ بلا تو بہ بھی معاف ہو جاتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس پر اصرار نہ ہو کہ گناہ صغیرہ اصرار سے گناہ کبیرہ بن جاتا ہے اور بلا تو بہ کئے اس کی معافی نہیں ہوتی۔

گناہ کبیرہ وہ گناہ ہے جس پر وعید آئی یعنی وعدہ عذاب دیا گیا۔ کبیرہ سے آدمی خالص توبہ استغفار کئے بغیر پاک نہیں ہوتا۔

کبیرہ گناہ
قرآن و حدیث میں جن کبیرہ گناہوں کا ذکر آیا ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں: ناحق خون کرنا، چوری کرنا، تیتم کا مال ناحق کھانا، ماں باپ کو ایذادینا، سود کھانا، شراب پینا،جھوٹی گواہی دینا، نماز نہ پڑھنا، روزئہ ماہ رمضان نہ رکھنا، زکوٰۃ نہ دینا، جھوٹی قسم کھانا،ناپ تول میں کمی بیشی کرنا،مسلمانوں سے ناحق لڑائی کرنا ، رشوت لینا یا دینا ،حکام کے روبر و چغلی کھانا، کسی مسلمان کی غیبت کرنا، قرآن شریف پڑھ کر بھول جانا، علمائے دین کی بے عزتی کرنا، خدا کی مغفرت سے نا امید ہونا، خدا کے عذاب سے بے خوف ہونا، فضول خرچی کرنا، کھیل تماشہ میں اپنا پیسہ اور وقت برباد کرنا، داڑھی منڈوانا، خود کشی کرنا۔

گناہ کبیرہ کا مرتکب مسلمان ہے اور جنت میں جائے گا، خواہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس کی مغفرت فر مادے یاحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے بعد اسے بخش دے یا اپنے کئے کی کچھ سزا پاکر بخشا جائے بہر حال وہ جنت میں جائے گا اور اس کے بعد کبھی جنت سے نہ نکلے گا۔

گناہ کی دو صورتیں ہیں ایک بندے کا وہ گناہ جو خالص اس کے اور اس کے پروردگار کے معاملہ میں ہو کہ کوئی فرض نماز چھوڑ دی ، کسی دن کا روزہ ترک کر دیا۔ اس قسم کے گناہوں میں اتنا ہی کافی ہے کہ آدمی سچے دل سے توبہ کرے یعنی جو کر چکا اس پر نادم ہو، بارگاہ الٰہی میں گڑ گڑا کر اس کی معافی چاہیے اور آئندہ کے لیے اس گناہ سے باز رہنے کا عزم بالجزم قطعی پختہ ارادہ کرلے، مولیٰ تعالیٰ کریم ہے چاہے تو اسے معاف کر دے اور درگزر فرمائے۔ دوسرے قسم کے وہ گناہ ہیں جو بندوں کے باہمی معاملات میں ہوں کہ آدمی کسی کے دین آبرو جان، مال ، جسم یا صرف قلب کو آزاد و تکلیف پہنچائے جیسے کسی کو گالی دی، مارا، براکہا، غیبت کی یا کسی کا مال چرایا، چھینا، لوٹا، رشوت، سود ، جوئے میں لیا۔ ایسی صورت میںجب تک بندہ معاف نہ کرے معاف نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ حقوق العباد (بندوں کے حقوق) کا ہے اور اگر چہ اللہ تعالیٰ ہمارا ہمارے جان و مال و حقوق سب کا مالک ہے جسے چاہے ہمارے حقوق چھوڑ دے مگر اس کی عدالت کا قانون یہی ہے کہ اس نے ہمارے حقوق کا اختیار ہمارے ہاتھ میںرکھا ہے۔ بغیر ہمارے بخشے معاف ہو جانے کی شکل نہ رکھی لہٰذا اس قسم کے گناہوں میں جن کا تعلق بندوں سے ہے، تو بہ مقبول ہونے کے لیے اس کا معاف کرانا ضروری ہے کہ جب تک صاحب حق معاف نہ کرے گا، معافی نہ ملے گی اور پہلی صور ت میں فرائض وواجبات کی قضا بھی لازم ہے جبکہ ان کی قضا ہو۔

توبہ کی اصل، رجوع الی اللہ ہے یعنی خدا کی فرمانبرداری و اطاعت کی طرف پلٹنا۔ اس کے تین رکن ہیں، ایک گناہ کا اعتراف ، دوسرا گناہ پر ندامت، تیسرا گناہ سے باز رہنے کا قطعی ارادہ، اور اگر گناہ قابل تلافی ہو تو اس کی تلافی بھی لازم ہے مثلاً بے نمازی کی توبہ کے لیے پچھلی نمازوں کی قضا پڑھنا بھی ضروری ہے۔ مولا تعالیٰ کریم ہے اس کے کرم کے دروازے ہر وقت بندوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں توبہ میں جس قدر ممکن ہو جلدی کرنی چاہیے۔ توبہ میں آج کل کرنا مسلمان کی شان نہیں، کیا خبر موت اسے مہلت دے یا نہ دے؟ پل کی خبر نہیں ، کل کس نے دیکھی ہے او ر بہتر ہے کہ جب اپنے لیے دعائے مغفرت یا کوئی بھی دعا کرے تو سب اہل اسلام کو اس میں شریک کر لے کہ اگر یہ خود قابل عطا نہیں تو کسی بندے کا طفیلی ہو کر مراد کو پہنچ جائے گا۔ حدیث میںآیا ہے کہ جو تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کرے نبی آدم کے جتنے بچے پیدا ہوں، سب اس کے لیے استغفار کریں، یہاں تک کہ وفات پائے۔

اور اولیاء و علماء کی مجلسوں میں دعائے مغفرت کرنا بہت بہتر ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بد بخت اور محروم نہیں رہتا۔ یونہی اولیائے کرام کے مزارات پر حاضر ہو کر یا ان کے وسیلہ سے استغفار کرنا قبولیت دعا کا باعث ہے کہ ان کے قرب وجوار پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ یہاں جو دعائیں مانگی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ روا فرماتا ہے، بالخصوص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجت برآری کا زریعہ اعلیٰ ہیں آیت کریمہ ولو انھم اذطلمو الآیتہ اس پر دلیل کافی، اللہ سبحانہ، و تعالیٰ ہر طرح معاف کر سکتا ہے۔ مگر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر جب کوئی اپنی جانوں پر ظلم کریںتیرے حضور حاضر ہوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور رسول ان کی بخشش چاہے تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں‘‘۔ اور بعد وفات قبر انور پر حاجت کے لیے جانا بھی صحابہ کرام کے عمل سے ثابت اور حکم مذکور میں داخل ہے۔

اور مقبولانِ بارگاہ کے وسیلے سے دعا بحق فلاں یا بجاہ فلاں کہہ کر مانگنا جائز بلکہ آدم علیہ السلام کی سنت ہے کہ آپ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ و مرتبت کے طفیل میں مغفرت چاہی اور حق تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرمائ
:: جملہ کتب احادیث صحاح ستہ ، افہام دین
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1279072 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.