شیر سے نجات

شیر جنگل کا بادشاہ ہے۔ اس کا تعلق بلی کے خاندان سے ہے ۔ یہ سب سے قد آوربلی شمار ہوتا ہے ۔بالغ نر کا وزن 190 کلو اور اس کی اوسط عمر دس سے بارہ سال ہوتی ہے۔ جب کہ مادہ قد میں چھوٹی ہوتی ہے جس کا وزن 130 کلو اور اوسط عمر عموماً پندرہ سال ہوتی ہے۔یہ اسی کلو میٹر کی سپیڈ سے بھاگ کر اپنا شکار قابو کر لیتا ہے خصوصاً آندھی اور طوفان میں یہ بھولے بھٹکے جانور آسانی سے قابو کرتا ہے۔ یہ ایک گوشت خور جانور ہے اور جنگل میں پھرتے جانور شکار کرکے ا ن کے گوشت سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے۔ شیر عام طور پر انسان کا شکار نہیں کرتا بلکہ انسان کو دیکھ کر کوشش کرتا ہے کہ وہ اس سے دور چلا جائے۔ لیکن غلطی سے یا کسی حادثے کی وجہ سے اگر کوئی انسان اس کے ہتھے چڑھ جائے تو اسے انسانی خون کی لت لگ جاتی ہے اور یہ انسانوں کا شکار بھی کرنے لگتا ہے۔انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس میں انسانوں نے تو شیر کا شکار کیا ہی ہے مگر بہت سے انسان بھی شیر کا شکار ہوئے۔شیر کی وجہ سے دنیا میں سب سے زیادہ جو ہلاکتیں ہوئیں اور جو ریکارڈ تاریخ کا حصہ ہے ۔وہ چمپاوت کی ایک شیرنی کا ہے ،جسے وہاں کے لوگ چمپاوت کی بلا کہتے تھے ، اس نے اس علاقے میں ایک عرصے تک تباہی مچائے رکھی ۔ اس کے مارے گئے لوگوں کی مستند اور سرٹیفائڈ تعداد 436 ہے۔

بھارت کے شمال مشرق میں نیپال کے ساتھ ملحق ایک صوبہ ہے اتر کھنڈھ۔ چمپا وت اس صوبے کا صدر مقام ہے۔کسی زمانے یہ علاقہ چاند حکمرانوں کی ریاست تھی۔ یہ شہر ان کی ریاست کا صدرمقام تھا۔ آج بھی یہ شہر اپنے شاندارمندروں کی وجہ سے مشہور ہے اور سیاحت کا بہترین مرکز ہے۔ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے دیوتا وشنو اس جگہ کچھوے کی صورت آئے تھے۔ چمپاوت کے جنگل میں ایک شیرنی ان شکاریوں کے ہتھے چڑھ گئی جو اس علاقے میں شوقیہ شیر کا شکار کرنے آئے تھے۔گولی لگنے سے اس کا جبڑا اور کچھ دانت ضائع ہو گئے۔لیکن وہ زندہ بچ گئی مگر اب اس کے لئے شکار قدرے مشکل تھا مگر وہ پہلے سے زیادہ خطرناک تھی۔ان مشکل حالات میں اس شیرنی نے فیصلہ کیا کہ آسان شکار کیا جائے اور وہ انسان کا شکار تھا۔ وہ عورتیں اور بچیاں جو گھر کے ایندھن کے لئے لکڑی یا اپنے جانوروں کے لئے چارے کا بندوبست کرنے جنگل میں جاتی تھیں۔اب وہ اس کا نشانہ بننے لگیں۔ نیپال میں ایک گاؤں ہے روپال(Rupal)۔ اس شیرنی کا پہلا شکار روپال کی ایک عورت تھی۔ اس کے بعد لگاتار کوئی نہ کوئی عورت یا بچی گاؤں سے غائب ہونے لگی۔روز کسی نہ کسی گاؤں کا بندہ کم ہو جانا وہاں کے لوگوں کے لئے تشویش کا باعث بنا تو اس شیرنی کو مارنے کا فیصلہ ہوا۔اسے مارنے کی کئی کوششیں کی گئیں مگر وہ بلا کی ہونہار تھی ہر دفعہ خود کو بچا جاتی تھی ۔ بعض اوقات تو یوں لگتا جیسے بہت سے شیر ایک وقت میں کئی بندوں کو مار رہے ہیں۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ وہ اکیلی شیرنی ہی یہ کام کر رہی تھی۔وہ شکار کرنے کے بعد شکار کے ساتھ گھنے جنگل میں دور دراز چلی جاتی اور گھنے جنگل میں دیہاتیوں کا جانا بہت مشکل ہوتاتھا۔

جب ہلاکتوں کی تعداد دو سو ہو گئی تو نیپال کی فوج حرکت میں آئی ۔ انہوں نے جنگل چھان مارے مگر شیرنی قابو نہ آ سکی۔شیرنی کسی عورت یا بچی کو مارے کے بعد میلوں دور جنگل میں چلی جاتی کہ پیچھا کرنے والوں کو ڈھونڈھنا اور پیچھا کرنا ممکن ہی نہ ہوتا۔کوشش کے باوجود نیپال کی فوج ناکام ہو گئی مگر ہلاکتیں اس طرح جاری رہیں۔جم کاربٹ (Jim Corbett) ایک ایسا شخص تھا جو پیشہ ور شکاری تو نہیں تھا مگر وہ جنگل، جنگل کے جانوروں اور انہیں مارنے کے فن سے پوری طرح واقف تھا۔اس کی حکومتی عہدیداروں سے اچھی دوستی تھی۔ چنانچہ اس علاقے میں تعینات ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے 1907 میں جم کاربٹ سے اس سلسلے میں مدد کی اپیل کی۔کاربٹ نے اس وقت تک کبھی بھی شیر کا شکار نہیں کیا تھا مگر وہ شیر کی نفسیات کے بارے خوب جانتا تھا۔چنانچہ شیر کو مارنے سے پہلے اس نے مطالبہ کیا کہ دوسرے تمام شکاریوں کو وہاں سے نکال لیا جائے اور دوسرے شیرنی کے متاثرہ علاقے کی حد بندی کر دی جائے۔اسے پیسے کا کوئی لالچ نہیں تھا جب کہ وہاں موجودباقی سارے شکاریوں سے حکومت نے شیر کے شکار کے عوض ایک بڑی رقم دینے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔

ایک خاص بات کہ شیرنی جو شکار بھی کرتی وہ دن کی روشنی میں کرتی کیونکہ اس وقت عورتیں اور بچیاں آسانی سے جنگل میں نظر آ جاتیں اور انہیں قابو کرکے دور جنگل میں غائب ہونا آسان ہوتا تھا۔اپنے مطالبات منوانے کے بعد کاربٹ نے شیرنی کا پیچھا شروع کیا۔ اسے اطلاع ملی کہ پالی نامی گاؤں میں اس شیرنی نے اپنا 436واں شکار ایک عورت کو ہلاک کر دیا ہے جو جنگل میں گھر کے لئے لکڑیاں کاٹ کر لے جا رہی تھی۔اتفاق سے کاربٹ کا شیرنی سے سامنا ہو گیا۔ اس نے گولی چلائی مگر نشانہ خطا گیا اور شیرنی جنگل میں غائب ہو گئی۔کاربٹ اس علاقے کے تحصیلدار اور بہت سے ہمرائیوں کے ساتھ ڈھول بجاتے، شور مچاتے ،خون کے نشان دیکھتے اس شیرنی کے ٹھکانے کی طرف چل پڑے۔ شور سن کر شیرنی اپنے ٹھکانے سے باہر نکلی اور سیدھا کاربٹ پر حملہ آور ہوئی۔ کاربٹ نے بھی فائر کیا۔ پہلا نشانہ خطا گیا۔ جب کہ دوسرا اور تیسرا شیرنی کو بہت زیادہ زخمی کر گئے۔ کاربٹ نے تحصیلدار کی گن پکڑی اور ایک اور گولی شیرنی کو داغ دی۔ شیرنی وہیں ڈھیر ہو گئی اور یوں اس علاقے کے لوگوں کو اس عفریت سے نجات مل گئی۔

سوچتا ہوں کہ جانوروں کی دنیا کے اپنے ہی اصول اور ضابطے ہوتے ہیں ۔ وہ شائستگی ، پیار، مروت اوراچھے طرز عمل کو مانتے ہی نہیں۔وہ جانور شیر ہو ، چیتا ہو، لگڑ بھگڑ ہو یا کسی اور طرح کا درندہ، اور کسی بھی شکل میں ہو، چاہے انسانی شکل میں ہی ہو، وہ جانور ہے اور اپنی فطرت کے مطابق وہ جب تک اس شیرنی کی طرح 436 کے لگ بھگ انسانی جانوں سے نہیں کھیل جاتا ۔ اس کی تسلی نہیں ہوتی۔ اسے زبردستی ختم کرناپڑتا ہے کیونکہ وہ خود تو کبھی بھی کسی دوسرے کے لئے جگہ بنانے کو تیار نہیں ہوتا۔ لیکن فطرت کے اپنے اصول ہیں۔ کوئی جبر اور ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو اسے ختم کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اسے فطرت ختم کرتی ہے۔ رب سے ہر دم بہتری کی دعا کرنی چاہیے۔وہ یقیناً بہتر کرے گا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442407 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More