شہر آشوب تلہ گنگ

پاکستان کی بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے بہت سے نام ایسے ہیں جنہوں نے اپنی سرکاری ذمہ داریوں کے ساتھ اردو ادب کی بہت خدمت کی ہے۔ قدرت اﷲ شہاب، پروین شاکر، مختار مسعود، ڈاکٹر آصف جاہ، مسعود مفتی، مصطفی زیدی، افراسیاب مہدی اور ان کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے کہ یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان سرکاری افسروں نے شاعری اور نثر دونوں میں باکمال کام کیا ہے اور اردو ادب کا دامن لافانی تحریروں سے بھر دیا ہے۔ ایک اور خوبصورت اضافہ خودنوشت "شہر آشوب تلہ گنگ " ہے جسے محکمہ انکم ٹیکس کے آفیسر جناب تنویر ملک نے تحریر کیا ہے۔ کہنے کو تو یہ ان کے گاؤں "ڈھوک مریاں" اور تلہ گنگ کی داستان ہے لیکن محسوس یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے ہر گاؤں اور علاقے کا تذکرہ ہے۔ تلہ گنگ ایک ایسا خوبصورت خطہ زمین ہے جس کی شہرت کئی حوالوں سے ہے۔ یہاں کے باسی بہت بہادر، جری، جفاکش اور بہت باوقار لوگ ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی سے پاک اس خوبصورت خطہ کے باسیوں کے دل بھی خوبصورت ہیں۔ اْن کے مزاج میں خوش خلقی اور محبت ہے۔ اْن کے طرز عمل اور سلوک میں انسانی اقدار کی ایک منفرد تصویر نظر آتی ہے۔ تلہ گنگ مردم خیز خطہ ہے جس میں بہت عظیم لوگ پیدا ہوئے جن میں ائیرمارشل نور خان، برصغیر کے نامور اداکار آئی ایس جوہر ( کرن جوہر کے تایا)، معروف ماہر اقبالیات پروفیسر فتح محمد ملک، سیتہ پال، کرنل محمد خان جنرل حق نواز، چئیرمین نادرا طارق ملک اور دیگر کئی شامل ہیں۔

شہر آشوب تلہ گنگ کے مصنف تنویر ملک نے بہت خوبصورتی اور عمدہ اسلوب میں اپنے خطہ کی تاریخ، ثقافت، ادب، سماجی مسائل کے ساتھ وہاں کی تعلیمی اور کھیل کی سرگرمیوں کو اس انداز سے ضبط تحریر کیا ہے کہ اگر آپ کا تعلق اس خطہ سے نہ بھی تب بھی آپ کو اس میں دلچسپی نظر آئے گی۔ قاری جب تحریر پڑھتے اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ اسے یہ اپنی سرگزشت اور ڈھوک مریاں کی جگہ اپنا گاؤں محسوس ہوتا ہے۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی وفاقی ٹیکس محتسب سیکریٹیریٹ اسلام آباد میں پروفیسر فتح محمد ملک کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والے خلدون الحق نے بہت خوبصورتی سے نظامت کے فرائض سرانجام دیئے۔ مقررین جن میں سابق مشیر وفاقی ٹیکس محتسب محمد صدیق، الماس جوندہ لیگل ایڈوائزر ایف ٹی او، خاور احمد، ڈاکٹر گل احمد اور وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ شامل تھے۔

کتاب کے مصنف نے بہت سے مقامی الفاظ اس انداز سے شامل تحریر کئے ہیں کہ وہ نامناسب نہیں لگتے بلکہ وہ مستقبل میں اردو ادب کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس حوالے سے معروف ماہر اقبالیات ، دانشور، مورخ اور محقق پروفیسر فتح محمد ملک کا کہنا تھا کہ خطہ تلہ گنگ اردو زبان کا قدیم مرکز تھا۔ عمومی طور پر ولی دکنی کو اردو کا پہلا باقاعدہ شاعر تسلیم کیا ہے اور ان کا ایک ہم عصر شاعر تلہ گنگ سے بھی تھا اور ان کا دیوان بھی شائع ہوا تھا۔ لکھنو اور دہلی والوں نے اردو میں فارسی الفاظ شامل کردیئے ہیں لیکن اصل اور حقیقی اردو وہی ہے جو ہمارے خطہ اور حیدر آباد دکن میں بولی جاتی ہے۔ تنویر ملک نے اسی اصل اردو میں بہترین اسلوب کے ساتھ ایک تاریخ رقم کی ہے۔ زبانوں کی ترقی اور ارتقا کا سفر جاری رہتا ہے اور نئے نئے الفاظ اور تراکیب شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اردو کا یہ لسانی اعجاز ہے کہ اس میں نئے الفاظ سمونے کہ بہت صلاحیت ہے۔ اس لئے تنویر ملک نے جو مقامی الفاظ اپنی تحریر میں شامل کئے ہیں وہ بہت مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ تنویر ملک نے اپنی کتاب میں تلہ گنگ کے خطہ میں تحریک پاکستان کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر فتح محمد ملک نے کہا کہ مولانا مفتی محمود نے یہاں انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت میں اور تحریک پاکستان کی مخالفت میں جلسہ کیا لیکن انہیں پذیرائی نہیں ملی۔ انہوں نے کہا اسلام کے نام پر پاکستان بنانے کی مخالفت کی گئی۔ کانگریس کے صدر مولانا آزاد اور دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی تو متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔ علامہ اقبال نے جداگانہ مسلم قومیت کا تصور دیا جسے قائداعظم نے عملی جامہ پہنایا۔ تلہ گنگ کے خطہ سے انگریزوں کی مخالفت اور پاکستان کے حق میں توانا آواز اٹھی۔

تقریب رونمائی میں سابق مشیر وفاقی ٹیکس محتسب محمد صدیق نے کتاب پر تفصیلی تبصرہ اور اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں جیتے جاگتے کردار اور دھواں ہوتی ہوئی روایات کی یہ داستان نہ صرف آپ بیتی ہے بلکہ جگ بیتی ہے۔ سچائی اور راست بازی کے ساتھ اپنی روداد لکھنا پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے کیونکہ اچھی خود نوشت محض یادداشتوں کا مجموعہ ہی نہئں ہوتی بلکہ اپنے عہد کے حالات و واقعات، افکار و تصورات اور تہذیبی و ثقافتی اقدار کی آئینہ دار ہوتی بھی ہوتی ہے۔ صاحب کتاب نے اس داستان کے کرداروں کو اس خوبصورتی سے مرتب کیا ہے کہ یہ خطہ پوٹھوہار کے ہر گاؤں اور قصبے کی کہانی لگتی ہے۔ اس کی وجہ یہ یے کہ تقسیم ہند سے قبل اس پورے خطے کے رسم و رواج اور نودوباش کے انداز ہم آہنگ تھے۔ تنویر ملک نے اپنے جذبات، احساسات اور مشاہدات کو خوبصورت الفاظ میں پروتے ہوئے دیہاتی لب و لہجے کی اسی زبان میں نقل کیا ہے جو اس علاقے میں بولی جاتی ہے۔ بیوروکریسی سے ہی تعلق رکھنے والے صاحب دیوان شاعر خاور احمد نے کتاب پر تنقیدی نگاہ ڈالی اور محاسن کے ساتھ کچھ کمی کا بھی ذکر کیا۔ وفاقی ٹیکس محتسب کے لیگل ایڈوائزر الماس جوندہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی درخشاں روایات کو فراموش کیا جارہا ہے جو ایک المیہ ہے۔ ہمیں نوجوان نسل کو اپنے بزرگوں کی تاریخ سے آگاہ کرنا چاہیے۔ تنویر ملک نے یہی کوشش اپنی کتاب میں کی ہے۔ یہ صرف تلہ گنگ یا ان کے گاؤں کی داستان نہیں بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ میرے گاؤں اور علاقے کا تذکرہ ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے صاحب کتاب کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس کام سے انہیں بھی تحریک ملی ہے کہ وہ بھی اپنے شہر کے بارے میں شہر آشوب سرگودھا کے بارے میں لکھیں۔ انہوں نے کہا تنویر ملک کی حس مزاح اور شگفتگی قابل تحسین ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ماضی کی روشن روایات کو زندہ کیا ہے۔ اس کے مطالعے سے ہمیں اپنے بچپن کا زمانہ یاد آجانا ہے جب تختیاں لکھتے تھے اور مرونڈے کھاتے تھے۔ شہر آشوب تلہ گنگ کے مصنف محمد تنویر اختر ملک نے اس قدر ستائش پر سب کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں کہا کہ میں نے ایک کوشش کی یے ور قارئین بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اس کوشش میں کس قدر انصاف کیا ہے۔
 

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 275 Articles with 234793 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More