یہ کس کا لہو ہےکون مرا ،اے رہبرِ ملک و قوم بتا

ملک کا شمال مشرق پھر ایک بار آتش فشاں کے دہانے پر ہے۔ میگھالیہ میں مغربی جینتیا ہلز ضلع کے مکروہ گاؤں کے اندر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ۔ اس میں چھ لوگ ہلاک ہوگئے ان میں پانچ میگھالیہ کے باشندے اورایک آسام کا فارسٹ گارڈ ہے۔ ان مہلوکین کے علاوہ دو شہری شدید زخمی ہوگئے اس ہلاکت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے تو ٹویٹ کیا،’’آسام-میگھالیہ سرحد پر فائرنگ کا واقعہ میں چھ لوگوں کی موت انتہائی افسوسناک ہے۔‘‘ مگر اس خانہ جنگی سے بے نیاز ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ پچھلے دوہفتوں سے اپنے آبائی صوبے گجرات کی انتخابی مہم میں غرق ہیں۔ ان کو اپنے منصب کی یاددہانی کراتے ہوئے کھڑگے نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ، ”بی جے پی کا این ای ڈی اے اتحاد ناکام رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید سنگین ہو جائیں مرکزی وزیر داخلہ کو دونوں ریاستوں کے درمیان سرحدی تنازعہ کو حل کر نا چاہیے‘‘ ۔یہ مطالبہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کی جانب سے آنا چاہیے تھا لیکن وہ بھی گجرات کے اندر بی جے پی کی ڈوبتی نیاّ کو پار لگانے کی سعیٔ لاحاصل میں جٹے ہوئے ہیں۔ ان کی اس لاپروائی پر دلیپ کمار کی فلم سگینا مہتو کا یہ نغمہ یاد آتا ہے۔ مجروح سلطانپوری نے لکھا تھا؎
آگ لگی ہمری جھونپڑیا میں ہم گائیں ملہار
دیکھ بھئی کتنے تماشے کی زندگانی ہمار

وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ تک ہر کسی نے اس سنگین معاملے میں کمال بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اس بابت مغربی کاربی آنگلونگ ضلع کے پولیس انسپکٹر امداد علی نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کے افسران نے ضلع کے ایکانت مکرو گاؤں سے غیر قانونی لکڑی لے جا رہے ایک ٹرک کو علی الصبح تقریباً 3 بجے روکا۔ جب فوریسٹ گارڈ غیر قانونی کھیپ کو ضبط کرنے کے لیے ٹرک کے پاس پہنچے تو انھوں نے بھاگنے کی کوشش کی۔ گارڈ نے فائرنگ کر کے گاڑی کے پہیے پنکچر کر دیئے اور ڈرائیور سمیت تین لوگوں کو پکڑ لیا گیا، لیکن دیگر لوگ موقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ محکمہ جنگلات کے افسران نے بتایا کہ روایتی اسلحہ سے لیس مقامی ہجوم نےجریکینڈنگ پولیس اسٹیشن کو گھیر کر گرفتار شدگان کی رِہائی کا مطالبہ کیا اور جب تشدد پھوٹ پڑا تو اس پر قابو پانے کے لیے پولیس ٹیم کو گولی چلانی پڑی ۔اس طرح الٹا مرنے والوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرا دیا گیا حالانکہ یہ بات کون نہیں جانتا کہ ساری اسمگلنگ محکمۂ جنگلات کے ملی بھگت سے ہوتی ہے۔

میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونارڈ سنگما نے اسمگلنگ کی کہانی کو تسلیم کرنے کے بعد یہ کہا کہ آسام پولیس نے بلا سبب گولی چلائی جسے برداشت نہیں کیا جائے گا لیکن اس سرکاری بیان کے برعکس مکروہ گاوں والوں نے ان پرتشدد جھڑپوں کے لیے اور آسام پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کے مطابق لکڑی اسمگلنگ کی کہانی سراسر جھوٹ ہے ۔ ان کے مطابق مرنے والے آسامی چوکیدار کے علاوہ باقی سارے کسان تھے ۔مقامی رکن اسمبلی نیوجورکی سنگوہ یہ فائرنگ اس طرح کے واقعات کی ایک کڑی ہے۔ مقامی کسان جب بھی کھیت سے اناج یا چارہ لے کر آتے ہیں آسامی افسران ان سے زبردستی غیر قانونی محصول وصول کرتی ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا ۔ اناج کے ساتھ کھیت سے لوٹنے والے تین کسانوں کو آسام پولیس نے گرفتار کرلیا اور ایک فرار ہوکر گاوں میں پہنچ گیا اور گاوں والوں کو اطلاع دےدی۔ وہ لوگ بے گرفتار شدگان کو چھڑانے کے لیے جمع ہوے تو پولیس نے گولی چلا کر پانچ لوگوں کو ہلاک کردیا اور تین کو اپنے ساتھ لے جاکر خوب مارا پیٹا۔ آگے چل کر احتجاج ہوا تو انہیں چھوڑ دیا گیا۔گاوں والوں کا مطالبہ ہے کہ تین آسامی افسران کی معطلی کافی نہیں ہے۔ میگھالیہ سرکار کو انہیں سزا دینی چاہیے۔ مقامی رکن اسمبلی این ڈی پی سے ہے اور حزب اقتدار میں شامل ہے۔ اس نے اسمبلی میں کئی بار غیر قانونی محصول کامسئلہ اٹھایا مگر کسی نے توجہ نہیں دی

میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ نے مکروہ گاوں کا دورہ کرنے کے بعد اپنا بیان بدل کر تشدد کی مذمت کی اور انصاف کایقین دلایا۔ اس سانحہ کے خلاف پورے میگھالیہ شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ریاست گیر احتجاج کے پیش نظر م میگھالیہ حکومت کو احتیاطی اقدام کے طور پر 7 اضلاع میں 48 گھنٹوں کے لئے انٹرنیٹ خدمات معطل کرنا پڑا۔ شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی نے سب سے پہلے تو نیلی کا فساد کروا کر کانگریس کو کمزور کیا اور آسام گن پریشد کی حمایت کی۔ اس کے ساتھ الحاق کرکے اسے نگل گئی ۔ بی جے پی جب پہلی بار اقتدار میں آئی تو آسام گن پریشد سے پارٹی میں آنے والے سربانند سونوال کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا ۔ دوسری مرتبہ انتخاب جیتنے کے بعد کانگریس سے بی جے پی میں داخل ہونے والے ہیمنتا بسوا سرما کی تاجپوشی کی گئی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شمال مشرق میں بی جے پی کی سرکار خود اپنے یا سنگھ کے بل بوتے پر نہیں بلکہ مخالف کیمپ سے لوگوں اپنے اندر داخل کرکے قائم ہوئی ہے۔ اس کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی اسی طرح پیر پسارہ گیا۔ ارونا چل پردیش میں پوری کانگریس کو خرید لیا گیا ۔ اس کے علاوہ علاقائی جماعتوں سے الحاق کرکے وہاں اپنا اثر روسوخ بڑھایا گیا لیکن اس دوران ریاستی تصادم کا سلسلہ چل پڑا۔ پچھلے سال میزورم اور اس سال میگھالیہ کے ساتھ سرحد پر پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔

21 جنوری 1972 کو آسام ری آرگنائزیشن ایکٹ 1971 کے تحت میگھالیہ کو آسام سے الگ کیا گیا۔ اس وقت میگھالیہ نے 12 مقامات پر اپنا دعویٰ پیش کیا ۔ اس سال مارچ میں آسام کے وزیر اعلی ہمنتا بسوا سرما اور میگھالیہ میں ان کے ہم منصب کونراڈ سنگما نے دونوں ریاستوں کے درمیان سرحد پر 12 میں سے چھ مقامات پر تنازعات کو ختم کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس وقت سنگما نے کہا تھا کہ سروے آف انڈیا کی طرف سے دونوں ریاستوں کی شمولیت کے ساتھ ایک سروے کیا جائے گا، اور جب یہ ہو جائے گا تو اصل حد بندی کی جائے گی۔ ستمبر کے اندر وزیر داخلہ امت شاہ، کی موجودگی میں سرحدی تنازعہ معاہدے پر دستخط ہوئے اور سرحدی تنازعات سے نمٹنے کے لیے تین تین علاقائی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ اس کام کو انجام تک پہنچانا امیت شاہ کی ذمہ داری تھی لیکن انہیں تو الیکشن سے فرصت نہیں اس لیے بات آگے نہیں بڑھی۔

وزیر داخلہ نے اسے نظم و نسق کا مسئلہ قرار دے کر سی بی آئی تفتیش کا اعلان کیا مگر یہ معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے۔ نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (نیسو) کے ایماء پر میگھالیہ کی کھاسی اسٹوڈنٹس یونین اور آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کی مکروہ گاوں میں ہونے والی گولی باری پر تریپورہ میں ایک نشست ہوئی تاکہ ہم سایہ ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کیا جائے۔ اس میں یہ بات کہی گئی کہ یہ فائرنگ کسی نسلی سبب سے نہیں بلکہ سرحدی تنازع کی وجہ سے ہوئی ہے اور دونوں ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ اسے سلجھائیں ۔ان دونوں تنظیموں نے سرکاروں پر زور دیا کہ وہ کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل مقامی لوگوں اعتماد میں لیں ۔ اس کے ساتھ دنوں حکومتوں کو سرحد پر رہنے والے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کابھی مطالبہ کیا گیا۔ سچ تو یہ ہے ہندوستان اور پاکستان کی سرحد فی الحال خاصی پر امن ہے۔ وہاں پر رہنے والے لوگ آسام و میگھالیہ یا آسام و میزورم کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے شہریوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔

کھاسی اسٹوڈنٹس یونین نے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر فائزنگ کے خلاف پورے میگھالیہ میں احتجاج کیا اور کہا کہ حکومت کے ذریعہ پانچ لاکھ روپیوں کی امداد پسماندگان کے پیاروں کو واپس نہیں لائے گی ۔ یہ سرکار کی کھلی ناکامی ہے۔میگھالیہ میں ہونے والی گولی باری کے خلاف میگھالیہ کی پانچ غیر سرکاری تنظیموں نے عدم تعاون کا اعلان کیا ۔ اس کے نتیجے میں جمعہ کے دن سرکاری دفاتر میں بہت کم تعداد میں لوگ نظر آئے۔ بیشترسرکاری محکموں پر قفل لگا رہا۔ ان تنظیموں کا الزام ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری سے نظریں چرا رہی ہے اور سی بی آئی و این ایچ آرسی تحقیق کے بہانے سے وقت گزار کر معاملہ کو سرد خانے میں ڈال رہی ہے۔ ہلاک شدگان کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کرنے والوں کے دو بنیادی مطالبات ہیں۔ پہلے تو گولی چلانے والوں کو گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے اور دوسرے مکروہ گاوں میں پولس چیک پوسٹ لگائی جائے۔ اس احتجاج کے دوران معمولی تشدد کے واقعات بھی ہوئےلیکن حالات قابو میں رہے۔

مکروہ گاوں پر آسام اور میگھالیہ کا دعویٰ ہے اس لیے دونوں وزرائے اعلیٰ اسے اپنے صوبے میں ہونے والی فائرنگ قرار دے رہے ہیں ۔ یہ اروناچل پردیش میں ہندو چین جیسا تنازع ہے جس کو دونوں ممالک اپنا حصہ بتاتے ہیں۔ اس احتجاج کا یہ اثر ہوا کہ میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونارڈ سنگما نے نیشنل ہیومن رائیٹس کمیشن سے رجوع کرکے اسے انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے دہلی میں اپنے نائب سمیت کمیشن کے صدر سے ملاقات کی اورحمایت و مناسب کارروائی کا مطالبہ کیا۔ میگھالیہ کے اندر پائی جانے والی یہ بے چینی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس پر آسام کا دعویٰ غلط ہے۔ وہاں پر گولی چلانے والے تو آسامی ہیں مگر ریاست کی عوام کو مرنے والوں پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ اس طرح کے مسائل کو وقت پر حل نہیں کیا تو عام لوگوں کے جان و مال کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اس لیے وزیر داخلہ کو انتخابی مہم میں اوٹ پٹانگ تقاریر کرنے کے بجائے اپنا فرض منصبی ادا کرنا چاہیے ورنہ ملک کے عوام انہیں قرار واقعی سبق سکھا دیں گے۔ شاہ اور بسوا کی بے حسی پر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
اے رہبرِ ملک و قوم بتا،آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا
کچھ ہم بھی سنیں ، ہم کو بھی بتا، یہ کس کا لہو ہے کون مرا

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222680 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.