تربیت کی ضرورت اور اہمیت

تربیت کی ضرورت اور اہمیت پر ہم کچھ زاویوں سے روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ایک تو نئی نسل آج کے دور میں جس بحران سے گزر رہی ہے وہ۔ دوسرے انسان ہونے کے ناطے اس کی ضرورت۔ تیسرے قرآن و حدیث میں، اس موضوع پر حددرجہ تاکید بھی اس کی اہمیت میں دوچاند لگاتی ہے۔ کسی شیء کی ساخت و بافت ، اس کا ہدف خلقت اس بات کی طرف راہنمائی کرتا ہے کہ ہمیں اس شیء کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ انسان کی خلقت، فطرت، طبعیت اور اس کا مقصدِخلقت ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ تعلیم و تربیت اس کیلئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ درخت کو پھلنے پھولنے کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیم و تربیت کی ضرورت اور اہمیت کو انبیاءؑ اور آئمہؑ نے اپنے کلام اور اپنی سیرت میں اس کو آشکار کیا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

خلاصہ:
تربیت کی ضرورت اور اہمیت پر ہم کچھ زاویوں سے روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ایک تو نئی نسل آج کے دور میں جس بحران سے گزر رہی ہے وہ۔ دوسرے انسان ہونے کے ناطے اس کی ضرورت۔ تیسرے قرآن و حدیث میں، اس موضوع پر حددرجہ تاکید بھی اس کی اہمیت میں دوچاند لگاتی ہے۔ کسی شیء کی ساخت و بافت ، اس کا ہدف خلقت اس بات کی طرف راہنمائی کرتا ہے کہ ہمیں اس شیء کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ انسان کی خلقت، فطرت، طبعیت اور اس کا مقصدِخلقت ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ تعلیم و تربیت اس کیلئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ درخت کو پھلنے پھولنے کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیم و تربیت کی ضرورت اور اہمیت کو انبیاءؑ اور آئمہؑ نے اپنے کلام اور اپنی سیرت میں اس کو آشکار کیا ہے۔

مقدمہ:
اولاد کی تربیت ہماری بہت بڑی ضرورت ہے۔ ہماری اولاد آج کے زمانے میں ایک بڑے بحران سے گزر رہی ہے۔ "مسلمان ہونے کے رشتے نہ انہیں اپنے نظریہ حیات کا علم ہے۔ نہ طرزِ معاشرت کے قرآنی تصوّر سے واقف ہیں، اور نہ عملی زندگی کے دینی تقاضوں کا ادراک رکھتے ہیں! اگر ان کے پاس کچھ ہے تو وہ نئی اور پُرانی تہذیب کاایک آمیزہ، رہن سہن کے چند خاص طریقے اور بول چال کی بعض نئی ادائیں! تھوڑی سی نصابی معلومات لارڈمیکالے کی کھونچا لگی ہوئی سوچ، معاشی وسائل کی صبرآزما طلب، اس کے ساتھ ایک پریشان سا دل اور بکھرے بکھرے سے خیالات !
اُف ! "عصر نو" کے فرزند ! جنہیں ذہنی اور ثقافتی اثاثے کے طور پر یہی کچھ ملا، وہ غریب ایک دوراہے پر کھڑے، انتہائی کرب انگیز کش¬مکش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
اللہ اللہ! ایک طرف قلعی کی ہوئی مذہب نما لامذہبیت اور دوسری جانب دین سے منسوب، زنگ کھائی ہوئی، کھوکھلی باتیں۔ " نہ پائے رفتن، نہ جائے مانندن!" نہ ان میں دین کو چھوڑنے کی ہمّت ہے۔ اور نہ مذہب میں رنگی ہوئی نسلی روایات سے کوئی رغبت ہے!
یہ بے چارے کیا کریں۔ کہاں جائیں؟ اسی کھینچاتانی سے پھر وہ تہادکھانے لگتے ہیں۔ چٹختے ہیں۔ بھڑکتے ہیں اور اس کے بعد، کسی بھی مرحلے پر مغرب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی " ناراض نسل" میں جذب ہوجاتے ہیں۔
یہ دیکھ کر ماں باپ کا دل الٹنے لگتاہے، اور وہ اپنے بےقراردل کی تسکین کیلئے، ورثے میں ملے ہوئے یہ چند گھِسے پٹے جملے دہرانے لگتے ہیں۔ کیا کہیں؟ قسمت خراب ہے! زمانہ برا آگیا ہے! وغیرہ۔۔۔ حالانکہ ان میں سے ایک بات بھی درست نہیں۔ اصل میں لوگ "جو" بو کر "گیہوں" کاٹنا چاہتے ہیں! اور یہ قوانین ¬فطرت کے خلاف ہے!
اب ، جسے "جان و دل عزیز" ہو۔ اپنی اور اپنے بچّوں کی خیر درکار ہو، اسے پوری سچائی کے ساتھ ، اپنی اولاد کی پرورش و پرداخت کے سلسلے میں ماضی کے دور اور حال کے زمانے کا احتساب کرنا چاہئے۔ ذرا اپنے آپ سے پوچھ کے تو دیکھیں کیا ہم نے واقعاً تربیت کا حق ادا کیا ہے؟ یا خود ہمیں پرورش کے صحیح طریقے معلوم تھے؟ اور ظاہر ہے کہ ضمیر کا جواب نفی میں ہوگا۔ ! تو پھر شکایت کیوں؟ جو ہم نے دیا تھا؛ وہی نفع کے ساتھ ہمیں واپس مل گیا!" ۔
انسان بے پناہ استعداد اور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صلاحیتیں بہت طرح کی ہیں جیسے علمی صلاحیت، تخلیقی صلاحیت، عقلی اور فکری صلاحیت، احساسات ، مہر و محبت کی صلاحیت، ارادہ کی صلاحیت، ہنری صلاحیت، روحانی صلاحیت وغیرہ۔۔ انسان جو اتنا حیرت انگیز عجیب و غریب مخلوق ہے ؛ اس کو تعلیم و تربیت کی ذریعے سے ہی نکھارا ، سنوارا اور کمال کی معراج تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اگر اس پر توجہ نہ دی جائے تو وہ خالی زمین کی طرح سے ہے، جس کو اگر توجہ نہ دی جائے؛ باغبان اس کا خیال نہ رکھے اس پر کام نہ کرے تو وہ خالی نہیں رہتی بلکہ یا تو سیم تھور کا شکار ہوجاتی ہے یا اس کے اندر جھاڑیاں نکل آتی ہیں۔ جنگلی جانور آکر اس میں آبستے ہیں۔
حضرت علیؑ نے فرمایا:
"انما قلب الحدث كالارض الخاليه ما ألقي فيها من شيءٍ قبلته؛
بچّے اور نوجوان کا دل خالی زمین کی طرح سے ہوتا ہے؛ جو کچھ اس میں بویا جائے ، وہ اپنے اندر لے لیتے ہے اور اسے اگا دیتا ہے۔"
انسان کا حقیقی کمال، واقعی سعادت اور پائدار کامیابی اس کے اُن کاموں کی وجہ سے اُسے ملے گی؛ جو اُس نے اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ سوچ سمجھ کر انجام دیئے ہوں۔ انسان اگر چاہے شعور کے ساتھ ، سوچ سمجھ کر اپنے ارادے سے اپنے انتخاب سے کوئی فعل انجام دے ؛ اس کیلئے اس کو علم و شناخت و بصیرت چاہیے۔ سوچنے سمجھنے تفکر کی صلاحیت چاہیے۔ قوّت ِارادی چاہیے۔ فیصلہ کرنے کی صلاحیت چاہیے۔ اللہ تعالیٰ پر توکّل اور اعتماد چاہیے۔ بلند ہمّت چاہیے۔ ممکن ہے ان سب میں، کچھ کمی ہو۔ اس کمی کو ہم تعلیم و تربیت کے ذریعے سے انسان کی مدد کرکے دور کرسکتے ہیں۔ اُس کی صلاحیتوں کی نکھار سکتے ہیں۔ اسے قدرت مند بنا سکتے ہیں۔
قرآن خدا کی ہدایت کی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑی حکمت والا ہے۔ حکمت والے کا کوئی کام فائدے سے خالی نہیں ہوتا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تربیت اولاد کے سلسلے میں، انبیاءکرامؑ کی مختلف دعاوں کو متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے۔ کسی بات کی تکرار اس کی اہمیت کی نشان دہی کرتی ہے۔ تربیت کے لئے بھی دعاوں کا دہرانا اس کی اہمیت کو بتاتی ہے۔ اسی طرح سے صحیفہ سجّادیہؑ میں امام زین العابدینؑ نے اولاد کیلئے دعا مانگی ہے۔ یہ بھی تعلیم و تربیت کی اہمیت کو بتاتی ہے۔
ایک پیغمبر ؑ کا دوسرے ولی خداؑ کے پاس جانا سفر کی مشکلات جھیلنا، خدا کے حکم سے ؛ تاکہ ان سے علم و رشد سیکھ سکیں۔ یہ چیز خود ہمیں تعلیم و تربیت کی اہمیت کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ قرآن کریم تفصیل کے ساتھ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضرؑ کا واقعہ متعدد آیات میں ذکر کرتا ہے۔ جیسے؛
((قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ؛
موسیٰ نے اس سے کہا :کیا میں آپ کے پیچھے چل سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ مفید علم سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے؟))

تعریف تربیت:
" مربّی( تربیت کرنے والا) اور متربّی (جس کی تربیت کی جارہی ہو) کے درمیان ، ایک بامقصد اور دوطرفہ فعالیت (activity) کا نام تربیت ہے ؛ متربی کی مدد کیلئے ؛ تاکہ اس کی استعدادیں اور صلاحیتیں (capibilities) نشونماپائیں۔ اس کی شخصیت کی پرورش ہو مختلف زاویوں سے جیسے: فردی، معاشرتی، جسمانی، احساساتی، اخلاقی، عقلی وغیرہ۔۔۔"
والدین ، اساتذہ اور مربیّ حضرات کے لیے تربیت کے لیے اقدام کرنا بہت ضروری اور اہمیت کا حامل ہے۔ تعلیم و تربیت کی اہمیت کو ہم دنیاوی اور اخروی دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:اس کیلئے کوشش کرنے کے سب پہلے خود ان کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ جیسے عظیم مرتبے کا حصول، شکر نعمتِ اولاد، والدین کی موت کے بعد ان کے لئے نیک اولاد کاصدقہ جاریہ ہونا، خدا کے سامنے سرخرو ہونا ، آزمائش میں کامیابی، جہنّم کی آگ سے بچ جانا، وغیرہ قابل ذکر ہیں:
الف) تربیت کے دنیاوی فوائد
v عظیم مرتبے کا حصول:
قرآن مجید اولاد کو والدین کے لئے دعا گو رہنے کی ہدایت کرتا ہے ۔ ان کے لئے مغفرت طلب کرنے کو کہتا ہے ۔ ان کے ساتھ مہربان رہنے کی تاکید کرتا ہے ۔ ان کے ساتھ احسان کرنے کو کہتا ہے۔ حکم دیتا ہے۔ ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ کیونکہ ان پر تربیت اولاد کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے ۔ یہ والدین کیلئے تشویق ہے . و والدین کو بڑی عظمت عطا کی ہے۔ ان کے مقام کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیوں ان کا اتنی عزت دی ہے قران مجید میں؟ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں انبیاء ،اولیاء ، شھدا، صالحین اور صدیقین کا ذکر ہے۔ رہتی دنیا تک یہ انسانوں کیلئے ہدایت ہے۔ اس کی چند آیات کو والدین سے مخصوص کیا گیا ہے۔ کیا تمام والدین کو یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے؟ بعض والدین نے اپنی اولاد کی تربیت کیلئے انتھک محنت اور کوشش کی ہے۔ ان کے حقوق پورے پورے ادا کئے ہیں۔ یقیناً ایسے ہی والدین ہیں جو اس تعریف کے مستحق ہیں۔ آئندہ ہونے والے والدین کیلئے ، ان آیات میں خوشخبری ہے۔ وہ اپنی اولاد کے حقوق صحیح طرح سے اداکریں ۔ وہ اس دعا کے مستحق ٹھہریں گے ۔
" وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا . ؛ اور یہ تمہارے پروردگار کا فیصلہ ہے۔تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔ اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاو کرنا۔اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں؛ تو خبر دار! ان سے اُف بھی نہ کہنا! نہیں جھڑکنا بھی نہیں۔ ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو۔ ان کے لئے دعا کرو: پروردگارا! جیسے انہوں نے (جان چھڑک کر ) ہمیں بچپن میں پالا پوسا اور ہماری تربیت کی تھی؛ اس کے بدلے میں تو بھی ان دونوں کے حال پر اپنی رحمت فرما۔"
حضرت امام زین العابدینؑ والدین کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق سمجھتے ہیں۔ خدا سے ان کے اوپر رحم کرنے کی دعا کرتے ہیں:
" اللھم اشکر لھما تربیتی، و اثبھما علی تکرمتی۔ ؛
اب میرے اللہ! تو میرے والدین نے میری تربیت کی؛ تو ان کو ان کو اس کا اچھا اجر عطاکر۔ انہوں نے میرا احترام کیا؛ تو ان کو اس کا ثواب عطا کر۔"
v شکر نعمت :
انسان نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔بےشمار نعمتوں نے اس کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ پیار کرنے والی ماں، شفقت کرنے والا باپ، دوسرے رشتے ناتے، انواع و اقسام کی لطیف غذائیں۔ چاند ، سورج، آسمان، ہوا، پانی وغیرہ وغیرہ نعمتیں انگنت ہیں۔ انسان میں اپنے محسن اپنے منعم اپنے پروردگار کی جستجو ہوئی۔ کون ہے؟ کس نے ہمیں اتنی نعمتو ں سے نوازا؟ کون ہم سے اتنی محبت کرتا ہے؟ ہماری ہر طرح کی ضرورت کا خیال رکھا ہے اس نے۔ نعمت کا شکر ہر انسان کی فطرت میں ہے۔ جب ہم کسی نعمت کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کی اچھی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس سے وہ نعمت دیر پا ہو جاتی ہے۔ اس کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ اگر ہمیں کوئی تحفہ دے ہم اس کا شکریہ ادا کریں۔ اس کے احسان کا ذکر کریں۔ اس سے اس بندہ کی بھی حوصلہ افزائی ہو تی ہے۔ وہ دوبارہ بھی ہمِیں کوئی گفٹ دینے کا سوچے گا۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
"لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ ؛ اگر تم شکر کرو گے میں تمہاری نعمت میں اضافہ، بڑھوتری، تکامل اور برکت عطا کروں گا۔"
شکر نعمت کے کم از کم تین مرحلے ہیں:
۱)دل سے نعمت کی پہچان ، نعمت کا اقرار، اس کے دینے والے کی شناخت
۲)زبان سے اس کا اظہار اور نعمت دینے والے کی حمد و ثناء
۳)اس نعمت کا حق ادا کرنا، اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا
اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ کتنے ہی لوگ اس کیلئے تڑپتے ہیں۔ کوششیں کرتے ہیں۔ دعائیں کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کو بڑی منتوں اور مُرادوں کے بعد یہ نصیب ہوتی ہے۔ ہم پر اس کی قدر کرنا واجب ہے۔ اس کا شکر کرتے رہنا ضروری ہے۔ اس کا حقوق کو پہچاننا، انہیں صحیح سے ادا کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ اس سے اولاد نیک او ر صالح ہوگی۔ دنیا میں ہماری نیک نامی کا باعث بنے گی۔ آخرت میں خدا ہم سے راضی ہوگا۔
اس کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالی بڑی شان سے تعلیم و تربیت کرنے والے کا ذکر فرماتا ہے :
(لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يتْلُو عَلَيهِمْ آياتِهِ وَيزَكِّيهِمْ وَيعَلِّمُهُمُ۔۔۔) ؛
؛ ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے
کیونکہ تربیت سے ہی انسان کی فکر، اخلاق شخصیت برائیوں سے پاک ہوتی ہے اور خوبیوں و کمالات کی حامل بنتی ہے۔
v دنیا میں والدین کی نیک نامی اور سکون:
انسان کو اس کی تخلیق سے پہچانا جاتا ہے۔ ہنر مند کی قدر اس کے فن پاروں سے پتہ چلتی ہے۔ انسان اپنے کام کا گروی ہوتا ہے۔ قدرت انسان کو نادر موقع عطا کرتی ہے۔ وہ جیسا چاہے۔ اپنے جگر کے ٹکڑے کو اعلیٰ طریقے سے بنائے۔ سنوارے۔ اپنی بلند ہمت ، علم ، صبر کے جوہر دکھائے۔ والدین باغبان کی مانند ہیں۔ وہ خالی زمین میں رنگ برنگے پھول لگا سکتے ہیں۔ اسے آباد کرسکتے ہیں۔
نیک اولاد دنیا میں انسان کیلئے عزت، سربلندی اور سکون کا باعث ہوتی ہے۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
" انّ لکلِّ شجرۃ ثمرۃ، و ثمرۃ االقلبِ الولد۔ ؛
ہر درخت کا ایک پھل ہوتا ہے۔ دل کا پھل اولا د ہوتی ہے۔"
اس کے برعکس ناصالح اولاد اس کیلئے بے عزّتی، پریشانی اور افسردگی کا سبب بنتی ہے۔
حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
" ولد السوء یھدم الشرف، و یشین السّلف۔ ؛
بگڑی ہوئی ہوئی اولاد بدنامی کا باعث ہوتی ہے اور بزرگوں کو رسوائی کا سامنا کرواتی ہے۔"
اور آپؑ فرماتے ہیں:
"اشدُّ المصائب سوء الخلف۔ ؛
بُری اولاد بڑی مصبیت ہے۔"

حضرت امام زین العابدین ؑ فرماتے ہیں:
"و اما حق ولدک فان تعلم انہ منک و مضاف الیک فی عاجل الدنیا بخیرہ و شرّہ ۔۔۔۔ ؛
تمہاری اولاد کا تم پر ایک حق تو یہ ہے کہ تم اسے اپنا سمجھو۔ یہ بھی جانو کہ اس دنیا میں اس کی ہر اچھائی برائی ہر نیکی بدی کا رشتہ تم سے جڑا ہو ا ہے۔"
چنانچہ، اگر والدین اولاد کو اپنا سمجھیں۔ ان کی تربیت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں؛ تو اس سے ان کی دنیا میں نیک نامی ہوگی۔ یہ ان کا دنیا میں اچھا اجر ہے۔ اس کے علاوہ، آخرت میں بھی ان کو اس کا بھرپور اجر و ثواب ملے گا۔
v ذہنی او جسمانی صحت وسلامتی:
اولاد کے حقوق ادا کریں۔ اس سے وہ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے صحیح اور سالم ہوں گے۔ معتدل شخصیت کے حامل بنیں گے۔ معاشرے کیلئے مفید ثابت ہوں گے۔ آج ہم ان کے حقوق ادا کریں ؛ کل وہ بھی دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ دنیا میں محبت اور امن کا پیکر بنیں گے۔خوشیاں تقسیم کریں گے۔ خوشبوئیں بکھیریں گے۔ انشااللہ۔
اگر انسان اپنی اولاد کے حقوق ٹھیک طور پر ادا نہ کرے؛ اس سے ان کے بیمار، کمزور اور ناکام ہو جانے کا خدشہ ہے۔ عام طور سے انسان یہ چاہتا ہے اپنے بعد ، صحیح، سالم ، تندرست اور ہر لحاظ سے قدرت مند اور کامیاب اولاد چھوڑ کر جائے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
"وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُواْ مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُواْ عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللّهَ وَلْيَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًا ؛
اور ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے بعد ضعیف اور ناتوان اولاد چھوڑ جاتے؛ تو کس قدر پریشان ہوتے؛ لہٰذا خدا سے ڈریں اور سیدھی سیدھی گفتگو کریں۔"


عباد الرحمن کی ایک خصوصیات قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ وہ لوگ اپنے گھروالوں کی تربیت میں بہت سنجیدہ ہوتے ہیں؛ کیونکہ انسان عام طور پر ، اس چیز کے لیے دعا کرتا ہے جو بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
"وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا؛))
اور جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔"

یہاں تک تربیت کیلئے اقدام اُٹھانے والے والدین کو پہنچنے والے دنیاوی فوائد ذکر کیے گئے۔ اب تربیت کے اخروی فوائد کاذکر کیا جاتا ہے۔


ب) تربیت کے اُخروی فوائد
تربیت کیلئے اقدام اُٹھانے والے والدین کو وہ فوائد جو آخرت میں پہنچنے والے ہیں وہ بھی قابل ذکر ہیں جیسے نیک اولاد کا صدقہ جاریہ ہونا،
v صدقہ جاریہ :
انسان اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس کے اعمال کا سلسلہ رک جاتا ہے۔ تین ذریعوں سے انسان تک ثواب پہنچتا ہے :
۱: کوئی علمی کام، کتاب وغیرہ لکھ کر گیا ہو،
۲: کوئی چیز وقف وغیرہ کی ہو،
۳: نیک اور صالح اولاد
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
“ حضرت عیسیٰ ؑبن مریمBکسی قبر سے گزرے ۔ اس پر عذاب ہورہا تھا۔ اگلے سال پھر وہیں سے گذر ہوا۔ دیکھا اب عذاب نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے خدا سے عرض کیا: پرورگار، پچھلے سال میں اس قبر سے گذرا۔ اس پر عذاب ہو رہا تھا۔ اس سال اس سے گذر ا دیکھا اب عذاب نہیں ہو رہا!۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی پر وحی کی:" اے روح اللہ ! صاحب قبر کا ایک بچہ بڑا ہوگیا۔ اس نے کہیں راستہ بنایا۔ کسی یتیم کی سرپرستی کی۔ اس کے بچے نے یہ سب نیک کام کئے۔ میں نے اس کے باپ کو بخش دیا”.
v امتحان الہی میں کامیابی:
اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے والدین کے لیے ایک بڑا امتحان اور آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ اگر والدین نے اولاد کی تعلیم و تربیت کا علم حاصل کیا۔ دین میں موجود تربیت کے طریقے کو جانا۔ اس علم کے مطابق ، پورے خلوص سے اقدامات اُٹھائے تو ؛ امید ہے وہ اس آزمائش میں کامیاب اور سُرخرو ہوجائیں۔ پروردگار کی طرف سے اجرِعظیم کے مستحق ٹھہریں۔
قرآن کریم فرماتا ہے :
" وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ ۔۔۔وَأَنَّ اللّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ؛
اور جان لو کہ یہ تمہار ے اموال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں اور خدا کے پاس اجر عظیم ہے۔"
حضرت امام زین العابدین ؑ فرماتے ہیں:
" و امّا حق ولدک۔۔۔۔۔۔ فاعمل فی امره عمل من یعلم انه مثاب علی الاحسان الیه۔۔۔۔۔ ؛
اولاد کا حق : اس یقین کے ساتھ اچھی تربیت دینے میں اپنی کارکردگی دکھاو کہ عہدہ بر آ ہو گئے، حق ادا کردیا تو پروردگار کی بارگاہ سے تمہیں اس کا اجر ضرور حاصل ہوگا۔"
کیا ماں باپ بننے سے پہلے، امتحانی کمرے میں جانے سے پہلے، ہم نے اس امتحان کی تیاری کی ہے؟ اگر ہم خالص خدا کی خاطر، تربیت اولاد کا علم حاصل کرنے اس کے مطابق اپنی پوری کوشش کرتے ہیں؛ تو اللہ تعالیٰ اس کا اجر عظیم عطاکرے گا۔
v روز قیامت کا سوال:
روز قیامت والدین سے سوال جواب کیا جائے گا۔ انہیں روکا جائے گا۔ اولاد اللہ کی نعمت ہے۔ تمام نعمتوں کا حساب لیا جائے گا۔ اولاد کا بھی لیا جائے گا۔ والدین اس سلسے میں ذمہ دار ہیں۔ انہیں جواب دینا ہوگا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ؛ اس دن تم سے (شکر) نعمت کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی۔
رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
" یلزم الوالوالد من الحقوق لولدہ ما یلزم الولد من الحقوق لوالدہ۔ ؛
جس طر ح سے باپ کے بیٹے پر کچھ حقوق ہیں ؛ اسی طرح سے بیٹے کے بھی باپ پر کچھ حقوق ہیں۔"
اور حضرت علی ؑ نے فرمایا:
" کل امری مسئول عمّا ملکت یمینه و عیاله۔ ؛ ہر آدمی سے اس کے زیرکفالت افراد اور گھر والوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی۔"
حضرت امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں:
" و اما حق ولدک فان تعلم ۔۔۔۔انک مسئول عمّا ولّیته من حسن الادب ؛تمہاری اولاد کا حق۔۔۔۔ ؛یہ جان لو کہ اس کی اچھی تربیت کے سلسلے میں تم ذمہ دار اور جواب دہ ہو۔"
ایک دعا میں امام سجادؑ فرماتے ہیں:
"۔۔۔۔۔ و استعملنی بما تسئلنی غداً عنه ؛ اے خدا! اس کام میں مجھے مصروف رہنے کی توفیق عطا کر ؛ جس کے بارے میں تو روز قیامت، مجھ سے سوال کرے گا ۔"
نتیجتہً ، روز قیامت اللہ تعالی نعمتوں کا سوال کرے گا۔ ان نعمتوں میں سے ایک نعمت اولاد ہے۔ جس طرح سے والدین کے حقوق اولاد پر فرض ہیں؛ اسی طرح سے اولاد کے حقوق بھی والدین کے اوپر فرض ہیں۔ اولاد کے حقوق میں سے ایک بنیادی حق" ان کی تعلیم و تر بیت" ہے۔ اس کا سوال روز قیامت ہوگا ۔
v جہنم کی آگ سے نجات:
اولاد کی تعلیم و تربیت کرنے کی ضرورت خود والدین کیلئے اس قدر زیادہ ہے لہ یہ عمل انہیں جہنم میں جانے سے روک سکتا ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۔۔۔ ؛مومنوں! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے بچاو-جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔۔۔"
اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: "علّمواھم، و ادّبوا ھم ؛ یعنی اہل و عیال کو تعلیم دو اور ان کی تربیت کرو۔" انسان خود بھی اچھا کام کرے واجبات انجام دے حرام کاموں سے بچے اور گھروالوں کو بھی اس کی دعوت دے۔
لہذا، اگر والدین خود بھی دین پر عمل پیرا ہوں اور اپنے بیوئی بچوں کو بھی اس کی نصیحت کریں ؛ تو وہ اور ان کے گھروالے جہنم سے نجات پائیں گے۔


نتیجہ:
نتیجۃً ، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقل ، قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی معاشرے میں بہت زیادہ ضرورت اور اہمیت ہے۔ یہ ہمارا انسانی ، ایمانی اور دینی فرض ہے۔ اس پر ہمیں پوری ذمّہ داری اور سنجیدگی سے سوچنا ، اس موضوع کے دینی علماء سے مشورت لینا بہت ضروری ہے۔ پھر گھر میں اور اسکول میں اس کے مطابق ماحول فراہم کیا جائے۔ اس پر جتنی بھی سرمایہ کاری کی جائے کم۔ چاہے وہ وقت دینے کے حوالے سے ہو یا پیسہ خرچ کرنا ہو۔ اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح ہم دنیا اور آخرت میں خود بھی اللہ کے سامنے سرخرو ہوں گے۔ ہماری نئی نسل بھی سعادت مند بنے گی ۔
فہرست مصادر و مآخذ:
1- قرآن مجید
2- نهج البلاغة، ضبط نصحه و ابتكر فهارسه العلميه: الدكتور صبحي الصالح، دارلهجرة، قم ايران، تاريخ كتابة مقدمة التحقيق: 1387ق، بي‌تا.
3- ابن أبي الدنيا؛ ابوبكر عبدالله بن محمد بن عبيد القرشي (م: 281ق)، موسوعة الامام ابن أبي الدنيا، المكتبة العصريه، بيروت، لبنان، 1426ق/ 2006م، ط ـ الاولي، 8ج.
4- ابن حسن نجفی، سیّد، اُصول تربیت، ادارہ تمدّنِ اسلام، کراچی، پاکستان، 1993ء، طـ دوم۔
5- الآمدي التميمي؛ عبدالواحد (م: 510ق)، غررالحكم و دررالكلم، ترجمه و شرح فارسي بصورت موضوعي: هاشم رسولي محلاتي، دفتر نشر فرهنگ اسلامي تهران، ايران، 1380ش، طـ چهارم، 2ج.
6- بناري؛ علي همت، نگرشي بر تعامل فقه و تربيت، مركز انتشارات مؤسسه آموزشي و پژوهشي امام خمينيؒ، قم، ايران، 1383ش، ط- اول۔
7- الحراني؛ ابومحمد الحسن بن‌علي‌بن‌الحسين‌بن‌شعبة (م: 381)، تحف العقول عن آل‌الرسولؑ، تقديم و تعليق: الشيخ حسين الأعلمي، المطبعة الاسلامية، طهران، ايران، 1417ق/ 1996م، ط ـ السادسه۔
8- صحيفة كاملة سجاديهؑ، مترجمان: محسن غرويان و عبدالجواد ابراهيمي، انتشارات الهاديؑ، قم، ايران، 1381 (زمستان)، ط ـ دهم.
9- قمى مشهدى، محمد بن محمدرضا ، تفسير كنز الدقائق و بحر الغرائب‏، محقق: درگاهى، حسين‏،تعداد جلد: 14، ناشر: ايران. وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامى. سازمان چاپ و انتشارات‏، ايران- تهران‏، 1368 ه. ش، ط: 1
10- كلينى، محمد بن يعقوب، الكافي (ط - الإسلامية) - تهران، ط- چهارم، 1407 ق.
11- مصباح یزدی، محمد تقی، با همکاري گروهي از نويسندگان، فلسفۀ تعليم و تربيت اسلامي، جمهوری‌اسلامی‌ایران، تهران، انتشارات مدرسه، ط- دوم، 1391ش.
12- مغنيه، محمدجواد، التفسير المبين، 1جلد، دار الكتاب الإسلامي - ايران - قم، ط: 3، 1425 ه.ق.


 

Syed Shoaib
About the Author: Syed ShoaibCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.